(Last Updated On: )
اکرم باجوہ ( بوریوالا)
تم تک ابھی ہجرت کے وسیلے نہیں آئے
کیا خانہ بدوشوں کے قبیلے نہیں آئے
میں ڈوبتی آنکھوں سے کھڑا دیکھ رہا ہوں
جلتے ہوئے جنگل سے پردے نہیں آئے
جس روز سے صحرا کو دیا جاں کا اثاثہ
اس روز سے بستی میں بگولے نہیں آئے
کس شخص کے بیباک تسلط میں ہوا ہے
جگمگ ہیں دئیے بام پہ جھونکے نہیں آئے
بیٹھا ہوں بڑی دیر سے بے صوت گلی میں
مجھ تک تری خوشبو کے حوالے نہیں آئے
سایہ کسی آسیب کا گلشن پہ ہے شاید
پیڑوں کے تلے دھوپ میں سائے نہیں آئے
ہر شخص مرے دور کا مصلوب ہے اکرمؔ
لگتا ہے ہدایت کو صحیفے نہیں آئے