(Last Updated On: )
فیصل عظیم
اسے معلوم ہے سب کچھٗ وہی ہے رازداں اپنا
مگر مجھ سے ہی سننا چاہتا ہے وہ بیاں اپنا
یہاں پر شان جاتی ہےٗ وہاں پر جان جاتی ہے
زمیں چھوٹی تو لگتا ہے کہ چھوٹا آسماں اپنا
جو گزرا ہے سو گزرا ہےٗ جو آئے گا سو آئے گا
جو اَب ہے وہ بھلا کب ہےٗ کوئی لمحہ کہاں اپنا
میں جسکے دل میں رہتا ہوںٗ میں جسکی دھن میں رقصاں ہوں
وہ اپنی دھن پہ گاتا ہے تو ہوتا ہے گماں اپنا
وہاں خاموش بیٹھے تھے یہاں تو بات کرتے ہیں !
وہاں کیوں تھا زیاں اپنا یہاں کیوں ہو زیاں اپنا !
یہ صدیاں بیت جاتی ہیں مگر لمحے نہیں کٹتے
جو گھٹتا ہے تو بڑھ جاتا ہے کچھ بارِ گراں اپنا