(Last Updated On: )
یعقوب تصور
فہم و ذکا کا آج رویہ کچھ اور ہے
پڑھتے تو ہیں کچھ اور پہ لکھا کچھ اور ہے
صحرا میں تشنگی کا سہارا لیے ہوئے
پھیلا ہوا سراب میں دریا کچھ اور ہے
وہ حسن پر تپاک کہ ہے محو انتظار
حدِ نظر کچھ اور ہے موقع کچھ اور ہے
موجِ ہوائے شوخ دوپٹہ سی لے اُڑی
بادِ صبا نے رنگ دکھایا کچھ اور ہے
ہر سو تعیشات کے ساماں سجے ہوئے
لیکن نظامِ زیست میں جینا کچھ اور ہے
طالب کی بارگاہ میں مرضی نہیں ہے کچھ
مدّ دعا کچھ اور ہے،دیتا کچھ اور ہے
دنیا ہے اک عذاب تصورؔ مگر عجیب
خواہش یہی ہر ایک کی رہنا کچھ اور ہے