(Last Updated On: )
احمد صغیر صدیقی
آباد تھوڑی دیر کسی یاد میں رہے
سرگشتۂ زماں و مکاں بعد میں رہے
اس واسطے کبھی کبھی اُڑتے رہے اُدھر
ترغیبِ صید کاریٔ صیاد میں رہے
کچھ عمر صرف کی کہ رہے کچھ نہ اپنے پاس
تا عمر پھر خود اپنی ہی امداد میں رہے
تھے ہم وہ خوش خیال کہ خیمے میں بیٹھ کر
تہران میں رہے ،کبھی بغداد میں رہے
دونوں کا لطف ایک تھا،ہوتے رہے نہال
یوں داد میں رہے،یونہی بیداد میں رہے
غائب ہوئے کبھی نہ نمایاں ہوئے کہیں
کہنے کو ہم بھی عالمِ ایجاد میں رہے