(Last Updated On: )
احمد صغیر صدیقی(کراچی)
کٹی جو شب تو سنہری طرف بھی جائیں گے
ستارہ کار سحر کی طرف بھی جائیں گے
دیارِ درد سری کا قیام عارضی ہے
کہ شہرِ خوش خبری کی طرف بھی جائیں گے
ابھی تو یوں ہے کہ ہم جا رہے ہیں اپنی طرف
ملا جو وقت تو اُس کی طرف بھی جائیں گے
ذرا گزر تو لیں ہم پہلی دوسری سے تو پھر
ضرور تیسری چوتھی طرف بھی جائیں گے
یہ شاہراہ کٹے تو، دماغ کہیے جسے
دوانے دل کی گلی کی طرف بھی جائیں گے