(Last Updated On: )
جمیل الرحمن
امید عقدہ کشائی میں ہاتھ ملتے رہے
سوال ٹال چکے تھے جواب ٹلتے رہے
یہ کیسی گونج کی دہشت نے سب کیا برہم
مکاں لرزتے رہے اور مکیں بدلتے رہے
تپش تھی اتنی ہوائے شباب میں کہ بدن
محبتوں کی خنک چھاؤں میں بھی جلتے رہے
کہیں تو ہیں مہ و خورشید کے خزانے میں
گرفت خواب سے جوروز و شب پھسلتے رہے
جمیل دل میں الاؤ جہاں ہوئے روشن
بنا کے دائرے وحشی وہاں اُچھلتے رہے