حمیرہ رحمن ( نیویارک)
امریکہ میں رہنے والوں کی زندگی بھی عجیب ہے ، ہر شخص وقت کے بہاؤ میں تیزی سے بہتا چلا جا رہا ہے۔ سوموار سے اتوار تک ایک عجیب بے کیف اور سمجھ میں نہ آنے والی مصروفیت گھیرے رکھتی ہے اور پھر ہفتہ مہینوں میں ، مہینے سال میں تبدیل ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ کوئی پوچھے کہ کس چیز نے اتنا مصروف رکھا ہے ، تو تفصیل اتنی حماقت آمیزہے کہ ندامت ہونے لگتی ہے ۔
ایسی ہی ایک ندامت مجھے حسن عباس رضاؔ سے بھی ہے ۔ انہیں میں نے اب تک دو شعری نشستوں میں سنا ہے ، اور ان کی کتاب ــ’’ تاوان‘‘ (جو مجھے حال ہی میں موصول ہوئی تھی) کو کئی بار پڑھا ہے ۔ یہ بات میں انتہائی خلوصِ دل سے کہہ رہی ہوں کہ ان کے کلام میں جو بے ساختہ پن ہے ، وہ بہت کم شاعروں کا نصیب ہوتا ہے ۔ میں ان کی شاعری کے بارے میں تاثر دینا چاہتی تھی ، مگر اس کی تاثیر سے نکل نہیں پا رہی تھی ۔ میں نے ان کے باقی شعری مجموعے ابھی نہیں دیکھے ہیں ، لیکن جتنا کلام اب تک مجھے مل سکا ہے ، اس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا ہے۔
ہجرت کے موضوع پر جس انداز سے انہوں نے لکھا ہے ، وہ ایک ہجرت زدہ شخص کا ایسا تجربہ ہے ، جس کے ساتھ اس کا براہ راست تعلق ہے،
زمیں چھوڑی تو اس نے بھی نہ سر پر آسماں رکھا
وہیں کے ہوگئے ، پھر وقت نے جیسے ، جہاں رکھا
تلاشِ رزق میں نکلے ، تو آنکھیں رہ گئیں گھر میں!
نہیں معلوم پھر اُلٹا قدم ، کب ، اور کہاں رکھا
ہوائی مستقر تک تھا کوئی سایہ فگن ہم پر
کسی نے بعد ازاں سر پر ،نہ دستِ مہرباں رکھا
اُن کے یہاں رومان تو ہے ، مگر اس میں سطحیت نہیں ، ان کے اشعار میں غنائیت تو ہے ، مگر بے معنی نہیں ؛
اتنا تمہیں دیکھیں ، کہ تمہارے خدّ و خال
چشمِ طلب کو یاد زبانی ہو جائیں
مجھے مُجھ سے ملانے کے لیے میرے تعاقب میں
جہاں جاتا ہوں ، وہ آئینہ خانے ڈھونڈ لیتا ہے
مرے کاسے میں شاید اک دلاسے کی جگہ ہے
سو ، اُس کو آخری وعدے سے بھرنا چاہتا ہوں
ایک بامعنی اور کیفیت سے بھرپور شعر کہنے میں بعض اوقات شاعر کی پوری عمر خرچ ہو جاتی ہے ، لیکن حسن رضاؔ وہ خوش نصیب ہیں ، جن کے حصے میں بے شمار ایسے شعر آئے ہیں۔ ان کی بعض غزلیں تو ایسی رواں دواں ہیں کہ ان میں ایک بھی کمزور شعر نہیں ۔ ان کی ایک نظم ’’ ایشائی پرندوں کا گیت‘‘ نے خاص طور پر مجھے بہت متاثر کیا ہے ، یہ امریکہ میں رہنے والے ہر شخص کا المیہ ہے ۔ اور اسے انہوں نے بڑی تاثیر کے ساتھ لکھا ہے ۔
مجموعی طور پر حسن عباس رضا کی شاعری میں پختگی ، کیفیت اور بے ساختگی تینوں ایک ساتھ دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ حیرت انگیز تکون ان کی شاعری کو ہمارے ادب میں نظر انداز نہیں ہونے دے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ ہمارے عہد پر جو رعشہء سخن طاری ہے ، اس میں لکنت لکنت ہوتی شاعری میں حسن عباس رضاؔ کا لہجہ دھوپ کی طرح چمک دار ، اور دریاؤں کی طرح تند و تیز ہے ، اور اس کا بہاؤ ایک وسیع تر سمندر کی طرف ہے ۔ حسن عباس رضاؔ کی شاعری ہماری نئی نسل کی سرگزشت ہے ۔‘‘
سرمد صہبائی’ ’خواب عذاب ہوئے‘‘ کے فلیپ سے اقتباس
’’ حسن رضاؔ ، تم جانتے ہوکہ نہ تو میں شاعر ہوں ، اور نہ کبھی شعر کہنے کی کوشش کی ہے ، لیکن یقین جانو ، تمہارے منفرد ، البیلے اور خوبصورت شعر پڑھ کر اور سُن کر بہت دل چاہتا ہے کہ کاش میں بھی ایسے شعر لکھتا، جیتے رہو ‘‘ سُریندر پرکاش ۔ بمبئی ایک خط سے اقتباس ۔ ۱۹۹۷