اشرف قریشی (نیویارک)
حسن عباس رضاؔ ، ایک طویل موضوع ہے ، جس پر مختصر لکھنا بے حد مشکل ہے ، حسنؔ ، سراپا شعر ہے ، نثر میں اس کا احاطہ کرنا اس سے زیادہ مشکل ہے۔فی الوقت میں حسن رضا اور اس کی شاعری کے صرف چند اور چیدہ چیدہ پہلوؤں پر لکھوں گا ، تفصیل سے لکھنے کا قرض کبھی ادا ہوگیا تو اسے اپنی خوش بختی سمجھوں گا ۔
محبت ایک ترشا ہوا ہیرا ہے ، جس کے ہر پہلو Facetسے نکلنے والی رنگا رنگ شعاعیں کائناتِ کبیر کی تخلیق کرتی ہیں ، اس ہیرے کو خون جگر دے کر دل بنانا جگر کاوی اور شاعر کا فن ہے ۔ ’’ دل‘‘ جس پر کائناتِ صغیر کی حیات کا دار ومدار ہے ۔ حسن عباس رضاؔ ، اس ہیرے کو دل بنانے کا علم ( سائنس) بہت اچھی طرح جانتا ہے۔
اُٹھے ہیں اب کے وہ بھونچال دل میں
کہ دیوارِ بدن بھی ڈھا گئے ہیں
مری محرومیوں کا گوشوارہ کون دیکھے
کسی کو کیا ، مجھے کتنا خسارہ ہو چکا ہے
ایک دو اشعار ، نمونہ از خروارے ہیں ، وگرنہ یہ سائنسی کیفیت حسن رضا کی ساری شاعری میں جاری و ساری ہے۔
کہنا آسان ہے ، کرنا مشکل
عشق میں جاں سے گزرنا مشکل
اب کریں ترکِ تعلق کیسے
جو کہا ، اُس سے مُکرنا مشکل
جیسا کہ حرفِ ابتدا میں عرض کر چکا ہوں کہ کائنات کی ابتدا محبت ہے ، محبت کی ایک ارفع شکل عشق ہے ۔ کائنات کا اَور چھور معلوم نہیں ، عشق کی وسعتیں بھی حد و حساب سے باہر ہیں ۔ تھوڑی سی محبت ، تھوڑے سے عشق پر قناعت ، تنک ظرفی اور تنگ دامانی تو ہو سکتی ہے ، شاعری نہیں ہو سکتی ۔ حسن رضا شاعر ہے ؛
ہم عشق بدوش ایک محبت نہیں کرتے
ملتا ہے جو پیار ، اُس پہ قناعت نہیں کرتے
حسن عباس رضا ؔ ، واقعات Events کو وارداتِ محبت اور وارداتِ محبت کو وارداتِ قلب بنا دینے میں بڑی فنکاری دکھاتا ہے
ہوائی مستقر تک تھا کوئی سایہ فگن ہم پر
کسی نے بعد ازاں ، سر پر نہ دستِ مہرباں رکھّا
تُونے پوچھا تو تھا حال میرا ، مگر ، چشم نم تھی مری ، کچھ نہیں کہہ سکا
دیکھتی ہی رہی تُو مجھے غور سے ، سوچتی ہی رہی ، میں کہاں آ گیا؟
شہرِ جاں میں کبھی ایک گھر تھا جہاں ، بام و در سے کوئی جھانکتا تھا مجھی
سوچتا ہوں کہاں رہ گیا ہے وہ گھر ، کیا ہوئی وہ گلی ، میں کہاں آ گیا؟
واردات ہائے قلب کی یہ کیفیت شاعر کو فریبِ آگہی سے نکال کر ، عذابِ آگہی کی دنیا میں لے آتی ہے ، جہاں وارداتِ قلب ، آگہی کا دکھ ، انسانی نارسائی کا کرب مل جل کرشعر کو حُسن ، خیال کو وسعت اور تاثر کو قبائے صد رنگ پہنا کر وسعتِ کائنات میں بکھیر دیتی ہے ۔ حسن رضاؔ کی یہ پوری غزل اس کیفیت میں گندھی ہوئی ہے ؛
غم ایک ر ات کا مہمان تھوڑی ہوتا ہے
کہ اس کے جانے کا امکان تھوڑی ہوتا ہے
یہ دکھ تو چپکے سے آ بیٹھتے ہیں سینوں میں
کہ ان کے آنے کا اعلان تھوڑی ہوتا ہے
عذاب ہوتا ہے اُن کے لیے ، جو سوچتے ہیں
بُتانِ سنگ کو سرطان تھوڑی ہوتا ہے
کمال یہ ہے کہ میں نے بُھلا دیا اُس کو
وگرنہ کام یہ آسان تھوڑی ہوتا ہی
حسن رضاؔ کی شاعری میں ہجرت کے دکھ بھی بہت نمایاں ہیں ۔ امریکہ کی ہجرت نہ تو اونچے آدرشوں کی تکمیل کرتی ہے ، نہ ہر ایک کو آسودگی سے ہم کنار کرتی ہے ۔ عیش کوشی کے رسیا اگر حقائق سے نظریں چراتے رہیں تو شاید لذت کوشی کے مزے لے سکتے ہیں ، لیکن ایسے عیش کوش شاعر نہیں ہو سکتے ۔ آسودگی سے گذر بسر یہاں ایک خواب ہے اور یہی امریکن ڈریم ہے ۔ حسن عباس رضاؔ جیسے لوگ امریکہ ۔۔۔ خواہشات کے حمامِ باد گرد کے اسیر ہیں ، اور حسن رضاؔ کی شاعری میں جا بجا یہ کرب جھلکتا ہے ؛
دیارِ غیر میں ایسی بھی رات اُتری ، کہ میں نے
بدن مٹی کو سونپا ، اور سر پتھر پہ ر کھا
مشقت کے بغیر اجرت ملا کرتی تھی ہم کو
سو ، اب کے ہم بغیر اجرت مشقت کر رہے ہیں
دیس میں اپنی جاں اور مٹی تلک چھوڑ آیا ہے جو
جانے انصار کو اور کیا چاھیے ، اس پنہ گیر سے
غرض ایسا ایک آدھ شعر حسن رضا کی ہر غزل میں آپ کو مل جا ئے گا۔
تری سمجھ میں بھی آ جائے ہجر کا موسم
ترے بھی نام کے آخر اگر رضاؔ لگ جائے
جذبوں کی بے ساختگی نے حسن رضا کے لیے لفظوں کی تنگ دامانی کی صورت کبھی اختیار نہیں کی ، زبان کو خوبصور ت انداز میں برتنے کا سبھاؤ اُس کی شاعری میں نمایا ں ہے،
آنکھوں سے خواب ، دل سے تمنا تمام شد
تم کیا گئے ، کہ شوقِ نظارا تمام شد
میں تار تار تو کردوں حسنؔ زمانے کو
مگر یہ میرا گریبان تھوڑی ہوتا ہے
کہیں پر مہلتِ یک خواب کو ترسی ہیں آنکھیں
کہیں بے صرفہ نقدِ شب لٹائی جا رہی ہے
اہلِ زبان کو شاید حسن عباس رضاؔ کی شاعری میں ’’ زبان کے شعر‘‘ ڈھونڈنے میں مشکل پیش آئے ، لیکن حسن رضاؔ کی معاملہ بندی ، اچھوتے قافیے ، اور ردیف ، الفاظ کا در و بست ، ان کی مشق سخن کی پختگی اور زبان پر عبور کی تاباں دلیل ہے ۔ ان کی تمثیلی غزل ( مکالماتی غزل) اس کی بے حد خوبصور ت مثال ہے
میں نے کہا ، مجھے تیری یادیں عزیز تھیں
ان کے سوا کبھی ، کہیں الجھے نہیں رہے
کیا یہ بہت نہیں کہ تری یاد کے چراغ
اتنے جلے ، کہ مجھ میں اندھیرے نہیں رہے
کہنے لگی ، تسلیاں کیوں دے رہے ہو تم
کیا اب تمہاری جیب میں وعدے نہیں رہے
پوچھا تمہیں کبھی نہیں آیا مرا خیال؟
کیا تم کو یاد یار پرانے نہیں رہے؟
کہنے لگی ، میں ڈھونڈتی تیر ا پتہ ، مگر
جن پر نشاں لگے تھے ، وہ نقشے نہیں رہے
حسن عباس رضاؔ کے بے شمار اشعار خوبصورت سہل ممتنع ہیں ، اس کے ہاں قوافی کی تکرار نہیں ملتی ، اکیس اشعار کی غزل میں مجال کیا کہ کوئی قافیہ دوسری بار ، بار پا لے۔
حسن عباس رضاؔ ، کی ندرتِ فکر اور جودتِ طبع اسے روایت سے منفرد اور ممیّز رکھتی ہے ، شاید اسی باعث وہ بھونڈے انداز میں روایت شکنی پر تُلا ہوا کہیں دکھائی نہیں دیتا ، شاعری بذات خود ایک روایت ہے ، اور اس روایت میں ندرت کاری ، فن کاری اور فن کی معراج ہے ۔
حسن رضاؔ روایت کو پامال کر کے جدت طرازی کا قائل نہیں ہے ، تاہم میں یہاں جناب احمد ندیم قاسمی سے بصد احترام اختلاف کرنے کی جرات کروں گا کہ ’’ وہ اردو ادب کے ان جدید غزل کے شعراء کی صف میں شمولیت کی طرف بڑھ رہا ہے جن میں فراق اور فراز ، ناصر اور اطہر نفیس ، احمد مشتاق اور شکیب جلالی شامل ہیں ۔‘‘ جناب احمد ندیم قاسمی نے ایک تو اس فہرست میں کسی خاتون(شاعرہ) کا نام شامل نہیں کیا ۔ دوسرے مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ حسن عباس رضا بھیڑ بھاڑ میں گھسنا پسند نہیں کرتا ، یہ الگ بات ہے کہ وہ جہاں جائے ، وہیں بھیڑ لگ جائے ۔
ہمارے بعض شعراء نے بے حد محنت کر کے اس بات کو اپنے عمل سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اچھا شاعر ، اچھا انسان ہو ہی نہیں سکتا ، میں اس مفروضے کا کسی حد تک قائل ہو چلا تھا کہ حسن عباس رضا سے ملاقات ہو گئی ، اور اب میری نظر میں یہ مفروضہ یا مقولہ پوری طرح مشکوک ہو چکا ہے ،
اچھا انسان ، اچھا شاعر ہو سکتا ہے ، اس پہ شاہد حسن عباس رضاؔ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ حسن عباس رضاؔ ، ایک کہنہ مشق شاعر ہیں ، ان کی نظمیں ہوں یا غزلیں ، ان کا باوقار فکری اظہار ، سخن کی ہر ہیئت میں اپنا رنگ جماتا ، اور جادو جگاتا ہے ۔ حسن رضا ایک باخبر قلمکار اور کمٹمنٹ کے شاعر ہیں ، ان کی شاعری روایت سے استفادہ کرتے ہوئے نئے زاویوں سے اپنے عہد پر ایک بھرپور تبصرہ کرتی ہے۔ امریکہ میں حسن رضاؔ کی آمد سے بلاشبہ اسلام آباد کو نقصان تو بہت ہوا ، مگر اس نقل مکانی سے نیویارک بہت فائدے میں رہا ۔‘‘
ڈاکٹر صبیحہ صباؔ’’ تاوان ‘‘ کے فلیپ سے اقتباس