عمران شاہد بھنڈر(برمنگھم)
محترم حیدر قریشی صاحب!
’جدید ادب‘ کے حوالے سے آپ کی محنت نے مثبت رجحانات کو متشکل کرنا شروع کردیا ہے۔ لگتا ہے کہ ادب کی بستیوں میں اب صرف سنجیدہ قاری ہی بدلتی صورتحال کا ساتھ دے سکیں گے۔ ہونا بھی اسی طرح چاہیے، ادب ایک سنجیدہ سرگرمی ہے، اس کے ساتھ اس کی خدمت کے نام پر تمسخر آخر کب تک؟
جدید ادب کے چند شمارے نظر سے گزرچکے ہیں،جن کو بنظرِ غور دیکھ چکا ہوں۔معیار کو آپ ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ ’گفتگو‘ میں بعض اس قسم کے نکات اٹھائے گئے ہیں ،جن پر میں اپنی رائے کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔آپ نے گزشتہ چند شماروں میں کئی اہم مسائل پر’گفتگو‘ کی ہے۔ آپ کی زیادہ تر ’گفتگو‘ اپنے عہد کے سماجی و ادبی تقاضوں کے مطابق ہے،بے شک اس ’گفتگو‘ میں ڈیکنسٹرکشن کو موضوع بنایا گیا ہو، ’نئی بستیوں‘ کے حوالے سے اہم نکات کی جانب توجہ دلائی گئی ہو، یا پھر ڈاک خرچ کا مسئلہ’گفتگو‘ کا موضوع ہو۔آپ نے شمارہ جولائی تا دسمبر۲۰۰۳میں مغربی تھیوریوں کے عمل میں اظہار کی جانب توجہ مبذول کرائی تھی۔ اس جانب کسی نے متوجہ ہونے کی کوشش کی یا نہیں، بہرحال آپ نے درست طور پر لکھا کہ ’’اس ڈسپلن کے عملی پہلوؤں کو زیرِ بحث لاکر زیادہ بہتر گفتگو ہوسکے گی۔‘‘مغرب میں تھیوری کو قطعاََ تجریدی انداز میں نہیں دیکھا جاتا اور نہ ہی ادبی نظریے کو ادب تک محدود رکھا جاتا ہے، وجہ یہ کہ ادب ایک سماجی عمل ہے، بے شک کوئی ادب پارہ سماج کی کسی جہت کو نہ بھی بیان کرئے، اس کے باوجود ادب پارہ سماجی تشکیل ہوتا ہے۔ آپ ساختیات کے حوالے سے دیکھیں کہ کس طرح یہ لسانی بنیادوں پر ظاہر ہوئی، مگر اس کے ساتھ ہی علم البشریات، سیاست، ثقافت اور علمیات میں اس کے مباحث کا آغاز ہوگیا۔ژاک دریدا جو ڈیکنسٹرکشن کے حوالے سے جانا جاتا ہے، اس پر یہ اعتراض ہوا کہ ڈیکنسٹرکشن سماج کو کافی حد تک حذف کردیتی ہے۔ دریدا جواب میں کہنے لگا کہ اس کی تھیوری ’بنیاد پرستی کی حد تک سیاسی‘ ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ مابعد جدیدیت کا ظہور فاشسٹ آئیڈیالوجی سے ہوا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ نٹشے کی غیر عقلیت پسندی کو مابعد جدید مفکروں نے گلے لگایا۔ ہائیڈیگر، جو دریدا کا فکری استاد ہے، بنیادی طور پر نازیوں کا حامی رہا ہے۔پال دی مان اور مورس بلانکوٹ کے فاشزم سے کون واقف نہیں ہے۔
اسی طرح مغربی نقاد اس حقیقت سے پوری طرح آشنا ہیں کہ فن کی تخلیق کسی بھی احساس کے تحت کی جائے اس کا ثقافت کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ مابعد جدیدیت کے علم بردار زبان کو ثقافتی تشکیل قرار دیتے ہیں۔ژاک دریدا ’شعوری فلسفے‘ پر تنقید کرتا ہے تو اس کا اہم نکتہ یہی ہوتا ہے کہ کانٹین مفہوم میں ترکیبی وحدت کو تسلیم کرنے سے مسائل ابھرتے ہیں، کیونکہ اس کا خیال ہے کہ ’فوق تجربی سبجیکٹ‘ ثقافتی تشکیل نہیں ہے، بلکہ اس کی حیثیت بدیہی ہے۔اس لئے وہ زبان کو بنیاد بناتا ہے، کیونکہ اس کے نزدیک زبان ثقافتی تشکیل ہے۔اگر بدیہی ترکیبی وحدت کو تسلیم کرلیا جائے تو ’سبجیکٹ‘ کو کیسے ختم کیا جائے؟یا پھر ’سبجیکٹ‘ کو زبان میں کیسے قائم کیا جائے؟ یہ سوالات اہمیت اختیار کرجاتے ہیں، اس لئے دریدا ثقافت کو اہمیت دیتا ہے، کیونکہ اس کی بدیہی حیثیت دریدا کے نزدیک قائم کرنی مشکل ہے۔ژاک دریدا کا مسئلہ ایک طرح کی ’ناقابلِ تخفیف ، جو خارجی نہ ہو، متنوع عوامل کی جانب توجہ مبذول کرانا ہے، جو سوچ کا امکان تو پیدا کرتے ہیں مگر ’شعور‘ کی گرفت سے باہر رہتے ہیں۔اس حوالے سے دریدا کا تضاد یہ ہے کہ وہ مارکسی مفکر والٹر بینجمن کے اس خیال سے نجات نہیں پاسکا ،جس کے مطابق ’قانونیت‘Legality) )کو ناقابل تخفیف’تحفہ سمجھنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس سے سماجی سطح پر کئی تضادات ابھرتے ہیں۔ آپ کا یہ نکتہ کہ تھیوری کو عمل میں یا سماج سے منقطع کر کے دیکھنا صحیح نہیں ہے، اسے مابعد جدید علمیات کی بحث میں ثابت کیا جاسکتا ہے۔ مابعد جدیدیت کی روشنی میں اپنے دلائل کو آگے بڑھائیں تو یہ سامنے آتا ہے، کہ مغربی سماج میں اس وقت ’شعور‘ کے خلاف آواز اٹھی،جب ’شعور‘ کی اہمیت اتنی زیادہ نہیں رہی۔ معاشی خوشحالی، شراب خانوں کا کلچر، قحبہ خانے چرچ میں ہم جنس پادریوں کی تعیناتی، جیسے عوامل سامنے آئے۔ یہ محسوس کیا جانے لگا کہ داخلی حوالوں سے معاشی مناقشات ختم ہوگئے ہیں، طبقات کا خاتمہ ہوگیا ہے، ثقافتی پیداوار میں اضافہ ہوچکا ہے، اس لئے ابلاغ کی اہمیت پر زور دیا جانے لگا۔( واضح رہے کہ مابعد جدید علمیات (فلسفہ) ہو یا اس کا ثقافتی رجحان(ادب وفن) مرکزی حیثیت زبان کی ہے، یا یوں کہیں کہ ابلاغ کی ہے، تمام مابعد جدید مفکر زبان کو بنیاد بناتے ہیں، ژاک دریدا کا Differanceبھی گرافک سے ظہور کرتا ہے، اس کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ یہ ’شعور‘ کی گرفت سے باہر رہتا ہے،ویسے کیا ہم ’شعور‘ سے دست بردار ہونے کے متحمل ہوسکتے ہیں)۔ دست بردار ہونا تو بعد کا سوال ہے، ہمارے لئے اہم سوال یہ ہے کہ ہماری زندگیوں میں اقدار کی قبولیت و استرداد، علمی و ثقافتی عوامل کے انتخاب کے بارے میں ’تعقل‘ کی اہمیت ہی کتنی ہے؟ کیا ان کا فیصلہ ’تعقل‘ کے تحت ہوتا رہا ہے۔ کیا ہمارے ہاں بھی یہی صورتحال ہے جو مغرب میں ہے؟ بیشتر مغربی نقاد اس امر پر متفق ہیں کہ مغرب میں مابعد جدیدیت کی سب سے واضح مثال ہالی ووڈ میں بننے والی وہ فلمیں ہیں، جن میں انسانوں کی بجائے دوسرے سیاروں کی مخلوق کو عجیب حرکتیں کرتے دکھایا جاتا ہے، ان کا مختلف کلچر ہے، ان کی اقدار الگ ہیں، ان کے موضوعات الگ ہیں، ان فلموں میں جو تکنیک استعمال کی جاتی ہے، ان کا جدید فلموں سے خاص تعلق نہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان فلموں میں جن پہلوؤں کو نمایاں کیا جاتا ہے، ان کا انسانی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مابعد جدیدیت سے تھوڑی بہت شناسائی رکھنے والا بھی جانتا ہوگا کہ مابعد جدیدیت معروضی سچائی کا انکار کرتی ہے، غیر مخلوق پر بننے والی فلمیں اس اعتبار سے مابعدجدید ہیں کہ ان میں ہماری زمین سے متعلقہ معروضیت کا کوئی پہلو دکھائی نہیں دیتا۔ کانٹ کے مفہوم میں اس کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ یہ فلم ’شے بالذات‘ ہے،جو اپنے کسی کردار کی خبر نہیں دیتی یا یوں کہیں کہ ہماری دنیا اس فلم کے کرداروں کے لئے شے ’بالذات‘ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جان پائیں گے۔ فلم ایک ایسا شعبہ ہے جسے کسی حد تک مابعد جدید کی اصطلاح سے’نوازا‘ جاسکتا ہے۔ مابعد جدیدعلمیات (فلسفہ) ثقافت( ادب و فن) کا اصل نکتہ یہ ہے کہ اس عہد میں ان تمام تکنیکوں، اصولوں، قواعد و ضوابط سے انحراف کیا جانے لگا ہے،جن کا بھر پور استعمال جدیدیت میں ہوتا رہا ہے۔مغرب کے حوالے سے اس کے بارے میں بحث کی جارہی ہے۔ثقافتی پس منظر میں تنقید کے نئے زاویے سامنے آرہے ہیں، جو زیادہ تر تجزیاتی فلسفے سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان یا ہندوستان میں بھی فلموں کی تکنیکیں، ان کی کہانی کی نوعیت، شعری اصول و قواعد، کہانی کے موضوعات اور اسلوب وغیرہ میں کوئی ایسا انقلاب برپا ہوچکا ہے، جس سے یہ واضح ہوسکے کہ ان ممالک میں مابعد جدیدیت کے بنیادی رجحانات ظہور پذیر ہونے لگے ہیں ،اگر کوئی رجحان ہے تو کیا اس کی نوعیت بھی مغربی رجحان کے کلی طور پر مماثل ہے، یا پھر چند ایک متوازی خطوط کھینچے جاسکتے ہیں( سارق کے طور پر نہیں، اپنے پس منظر کے حوالے سے)۔ اگر ہے بھی تو مابعد جدیدیت ہی کیوں، کوئی اور نام کیوں نہیں دیا جاسکتا؟وہ نام تو اس صورت میں دیا جاسکتا ہے، جب مذکورہ بالا عوامل میں اسی طرح کی تبدیلیاں رونما ہوں، جو جدیدیت یا ترقی پسند ادب کے دائرے میں نہ آتی ہوں ۔جہاں تک ہندوستان میں بننے والی فلموں کا تعلق ہے، تو گزشتہ ساٹھ برس سے ان کے موضوعات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ پاکستان کے بارے میں بننے والی فلموں میں، ساٹھ برس پرانی نفرت میں مزید اضافہ ہوچکا ہے۔کیا یہ مابعد جدیدیت ہے؟
مابعد جدید یت میں اس نکتے سے تو بیشتر لوگ آگاہ ہونگے کہ اس میں ماضی کے کسی بھی پہلو کو ’نوسٹیلجیا‘ کے حوالے سے دیکھنا درست نہیں ہے۔ اگر اسلوبیات میں کسی بڑے فنکار کی نقالی یا اس کے اسلوب کا سرقہ ، سرقے کے احساس کے بغیر کیا گیا ہے تو اسے بھی Giuliania Brunoجیسے نقاد مابعد جدیدتسلیم کرتے ہیں۔ اس سرقے یا نقالی میں نمائندگی کے پہلو سے انحراف کس طرح کیا جائے؟ کیونکہ مابعد جدیدیت میں نمائندگی کے خیال کا مطلب حقیقت نگاری ہے، مابعد جدیدیت تو Self referential ہے جس میں کوئی بھی خارجی حوالہ موجود نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ حوالہ جاتی نکتے(Signified) کو تسلیم ہی نہیں کرتی ، اس کے برعکس یہ سگنیفائر کے’ آزاد کھیل‘ پر یقین رکھتی ہے۔جب کسی ادبی متن یا فلمی متن میں مختلف اسالیب کی آمیزش ہوجاتی ہے، اور آمیزش کرنے والے کو اس کا احساس تک نہیں رہتا، تاریخی ماخذات کا احساس تک ختم ہوجاتا ہے تو وہ متن مابعد جدید متن بن جاتا ہے۔ مغربی مابعد جدیدیت کے حامی یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس متن میں کوئی ’میٹا ٹیکسٹ ‘ نہیں ہے، جس کی بنا پر اس کی تشریح کی جاسکے ، نہ ہی اس متن کے خالق کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اگر خالق کی طرف اشارہ کیا جائے، تو وہ ’میٹا متن‘ کے زمرے میں آجاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی حوالہ بن گیا ہے ، جب کہ یہ لوگ اس میں’ تنوع‘ دیکھتے ہیں۔ بہرحال ان کے پاس ابھی تک اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ مابعد جدید بحث میں جرمن فاشسٹ فلسفی نٹشے کا حوالہ بطورِ پیش رو(میٹا متن) کیوں استعمال کیا جاتا ہے۔ مابعد جدیدیت میں گہرائی کا خاتمہ، نقالی بغیر احساس کے، سگنیفائر کا عدم تسلسل‘، حدود کا منہدم ہونا (صرف خیالات میں یا خواب میں) وغیرہ جیسے عوامل کو مابعد جدیدیت کا اثر سمجھا جاتا ہے۔مشہور فلم Blade Runnerکے بارے میں نظر آتاہے کہ اس میں کوئی خارجی حوالہ نہیں ہے، اس میں تکنیک کا استعمال خارجیت سے منقطع ہے۔اعلی اور ادنی میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ پاکستان میں بننے والی حالیہ فلم ’خدا کیلئے‘ قطعاَ خارجی حوالوں سے منقطع نہیں ہے، نہ ہی اس میں تاریخ خود کو فراموش کررہی ہے، فلم کا ہر پہلو مخصوص احساس کے ساتھ ’بڑے بیانیے‘ کے گرد گردش کرتا ہے۔ ’بڑا بیانیہ‘ ہمعصر دنیا میں اپنی افادیت اور متعلقہ ہونے کے لئے دلائل تراشتا ہے۔’بیگانگی‘ کا احساس سماجی حرکتی اصولوں سے متصادم ہے ، کیونکہ دبتا ہے، اس لئے سبجیکٹ کی نفسیات میں اظہار پاتا ہے، یہ اظہار شناخت کا احساس لئے ہوئے ہے۔’بڑے بیانیے‘کو اگر خطرہ درپیش ہے، تو احساساتی ڈھانچے یا جذبات کے تاریخی ارتقاء کے ذریعے نہیں بلکہ دوسرے ’بڑے بیانیے‘ (مسیحیت )سے ہے۔ ’بڑے بیانیے‘ کی دفاعی پوزیشن مغربی مسیحی دہشت گردی کی پروپیگنڈا مشین کی اختراع کردہ ہے، جس کا خارجی حوالہ بربریت کی عکاسی کرتا ہے، لیکن قصوروار دوسرے کو ٹھہراتا ہے۔ہر حوالہ مسیحیت (بڑا بیانیہ )کا احساسِ برتری لئے ہوئے ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں بننے والی ان فلموں کا ذکر اگر نہ بھی کریں جن میں پنڈت ازم کاتاریخی تعصب سرگرم عمل ہوتا ہے، تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ’ کبھی الوداع نہ کہنا‘ میں کہانی کے اعتبار سے نیا پن ضرور ہے، جس میں خارج سے انقطاع کا کوئی پہلو نہیں ہے،بلکہ ’نمائندگی‘ کلی طور پر موجود ہے۔نئے پن کی خواہش اگر روایت سے نجات کے’ احساس‘ کے تحت کی جائے، تو پھر بھی اسے مابعد جدیدیت کے احاطے میں نہیں رکھا جاسکتا، کیونکہ مابعد جدیدیت میں آزادانہ کھیل کو جاری رکھنا ہے، جس کا تقاضا ہے کہ ’نوسٹیلجیا‘ سے خود کو محفوظ رکھا جائے۔’نوسٹیلجیا‘ کا مطلب بیگانگی کا احساس ہے، جو سماج کے پیداواری عمل میں پنہاں ہے، لیکن تخیل میں پناہ تلاش کرتا ہے۔’کبھی الوداع نہ کہنا‘ فلم میں ہیروئن کا سسر مغربی ثقافتی اثر کے تحت ’ایڈوانسڈ ‘انسان دکھایاگیا ہے،ایسا نظر آتا ہے کہ اس کی روایتی شناخت خطرے میں پڑ گئی ہے۔تاہم فلم کے دوسرے حصے میں سسر کی موت روایتی اخلاقیات کے اثر کے طور جذبہ شناخت کے تحت کچھ اس طرح دکھائی گئی ہے کہ موت کا ہونا کڑے طریقے سے ہندوستانی ’شناخت‘ کو نہ صرف قائم رکھتا ہے بلکہ موت کی وجہ شناخت کے احساس سے جنم لے کر شناخت کو مستحکم کرتی ہے، یعنی شناخت کے کھونے کے احساس، جس کی جڑیں ہندوستانی سماجی و مذہبی روایت کا خاصہ ہیں،کا انجام زندگی کے خاتمے پر ہوتا ہے۔ زندگی کا خاتمہ خطرے میں پڑی شناخت کو قائم رکھنے کی کوشش ہے۔ یقیناَ یہ شناختوں کا بحران نہیں بلکہ ’نوسٹیلجیا‘ کے احساس کا استحکام ہے۔مجموعی طور پر کہانی ایک خارجی حوالہ ہے (Self-referentialنہیں ہے)۔ لڑکی کے سابقہ شوہر کا اپنی سابقہ بیوی سے متعلق رویے کو انسانیت اور روایتی عظمت کے احساس کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔مختصر یہ کہ تاریخ اور روایت شدت سے اپنا احساس دلاتی ہیں، جبکہ اقدار کے حوالے سے کردار نگاری ہندوستانی ذہن کی عکاسی کرتی ہیں، عملی زندگی میں اس’مہانتا‘ کی متضاد صورتیں بھی ابھرتی ہیں، جن کا انجام قتل و غارت سے کم نہیں، یہاں معنی کا تعلق تو افتراق کے ساتھ ہے، مگر معنی کی نوعیت مخصوص ہے، یہ تخصیص شناخت ہے، جس کے خاتمے کا دعوی بے بنیاد ہے۔ کرداروں میں ’ مہانتا‘ کو تلاش کرنے کے پہلو کا مطلب ہی یہ ہے کہ مہانتا کا احساس کہیں نہ کہیں ضرور ہے،’مہانتا‘ کا احساس ایک تاریخی تشکیل ہے، احساس کا نہ مٹنا ہی مابعد جدیت کو شک کی نظر سے دیکھنے کے لئے کافی ہے۔ژاک دریدا کہتا ہے کہ Differanceکو کلی طور پر اس انداز میں ماورائی نہ سمجھا جائے کہ اس میں ’نوسٹیلجیا‘ کا احساس پیدا ہونے لگے( دریدا Quasi Transcendental کی اصطلاح استعمال کرتا ہے)، دریدا کو ادراک تھا کہ اگر اس نے ’نوسٹیلجیا‘ کا نام لیا، تو وہ بآسانی مارکسزم کی جھولی میں جاگرے گا۔ اس سے بچنے کے لئے دریدا صرف تلقین کرتا ہے، تلقین کے عمل کا اظہار بھی اگر کسی تڑپ کے تحت ہو، تو کیا اس وضاحت کے مطابق وہ ’نوسٹیلجیا‘نہیں ہے؟اسی طرح ہندوستانی فلم ’کرش‘ میں مغرب کی نقالی کے دوران جدید تکنیک کا استعمال ہوا ہے، جب کہ ہیرو کی شناخت اس کے باپ کے حوالے سے بدستور قائم ہے۔تکنیک پیداوارکے اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ فلم مختلف ہے، مگر فلم کے آخر میں ہیرو کے باپ کے حوالے سے تمام تر احساسات ایک مخصوص پس منظر رکھتے ہیں۔
مغرب میں ہم دیکھتے ہیں کہ احب حسن ادبی مابعد جدیدیت کا دعوی کرتا ہے تو وہ ادب میں سے مثالیں بھی پیش کرتا ہے، جن پر بحث کی گنجائش موجود ہے۔ اردو کا نقاد اردو والوں سے مابعد جدیدیت کا تذکرہ کرتا ہے، مگر مضحکہ خیز انداز میں مثال شاید Ready to catch him should he fall کی دے رہا ہو۔جہاں تک مغربی ادب و فن کے بارے میں اس کی رائے کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں کئی گنا زیادہ صائب آراء مغربی مفکر و دانشور خود رکھتے ہیں۔ وہ بالکل نہیں جاننا چاہتے کہ اردو والے ایلیٹ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ان کو اس بات میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ اردو میں مابعد جدیدیت موجود بھی ہے کہ نہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ’برٹش اکیڈمی آف فلاسفی ‘ کے اہم رکن اور عہد حاضر کے نامور فلسفی ڈاکٹر مارک ایڈیس کی راقم کے ساتھ مابعد جدیدیت پر ایک طویل گفتگو میں مارک ایڈیس یہ جان کر حیران رہ گئے کہ اردو میں مابعد جدیدیت پر بحث ہونے لگی ہے۔ مارک ایڈیس کہتے ہیں کہ’’ مابعد جدید علمیات ہو یا ثقافتی صورتحال، یہ ہر حال میں بحران ہے، اور تیسری دنیا کے ممالک اس سطح پر بحران کی بات کیسے کرسکتے ہیں؟‘‘ان کو کیا معلوم کہ اردو نقادوں کو بحران سے کچھ لینا دینا نہیں ہے بلکہ مغربی بحران بھی اگر کسی تھیوری کی شکل میں سامنے آجائے، تو اسے’ تنوع‘ اور ’تکثیریت‘ کے نام پر قبول کرلیا جاتا ہے، بے شک یہ ’تنوع‘ اور’تکثیریت‘ امریکی سماج میں برپا کیوں نہ ہوئی ہو۔آج بھی بے شمار لوگ ایسے ہیں جو مابعد جدیدیت کی علمیاتی یا ثقافتی صورتحال کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ان کے لئے یہ حیرانی کی بات ہوگی کہ مابعد جدیدیت کو بحران کیسے کہا جاتا ہے؟ اگر یہ جدیدیت کے بعد کی صورتحال ہے تو بحران کیسے ہوگئی۔ اگر یہ جدیدیت کے اندر ہی اپنے تفاعل کو ابھارتی ہے تو پھر بھی یہ بحران کیسے ہوگئی؟مختصراَ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگ برطانیہ میں مقیم ہیں اور انھیں کسی حد تک مابعد جدیدیت کی ثقافتی صورتحال سے دلچسپی ہے تو ان کے لئے یہ جاننا مشکل نہیں ہے کہ یہاں پر ثقافتی حوالوں سے ہر قسم کا عمل جائز قرار دیا جاتا ہے( بشرطیکہ قانون اس کی اجازت دیتا ہو، یہ بھی ایک تضاد ہے جو مابعد جدید علمیات میں موجود ہے کہ چند اصولوں پر موافقت کس لئے؟جبکہ مابعد جدید علمیات افتراق کی حتمیت کو تسلیم کرتی ہے)۔ آپ کسی کو صحیح یا غلط نہیں کہہ سکتے،کیونکہ مابعد جدیدعلمیات صرف ’افتراق‘ پر یقین رکھتی ہے، معنی کے ہونے یا نہ ہونے یا معنی کی نوعیت جاننے سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے (معنی ’سبجیکٹ‘ کے اختیار میں ہی نہیں ہے)جسے ایک شخص برائی سمجھ رہا ہے وہ دوسرے کے لئے اچھائی ہوسکتی ہے۔
کوئی بھی نظریہ یا عقیدہ ،قطع نظر اس امر کے کہ وہ حق پر قائم ہے یا باطل کی نمائندگی کرتا ہے ،جب عوام کے قلب و ذہن پر نقش ہو جائے تو اس کا صدیوں تک زندہ و برقرار رہنا بھی یقینی ہو جاتا ہے ۔ باطل بھی ہماری جڑوں میں اتنی ہی گہرائی میں سرایت کر جاتا ہے جتنا کہ سچ، ان سے وابستہ تقدس و احترام باطل نظریات کو بھی دوام بخشتا ہے و جہ یہ ہے کہ ان کی سچائی جانچنے کے لئے غیر جانبدارانہ تنقید کا احساس کبھی ہمارے باطن میں جنم نہیں لیتا ۔علمی و ادبی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں جب ذاتی خواہشات سے جنم لینے والے باطل نظریات کو حق سمجھنے والوں نے مکتبہءِ فکر کا درجہ عطا کرنا چاہا ۔مخالفین نے ان کو نظر انداز کرنے کی بجائے ان پر انتہائی شدت اور لگن سے مباحث جاری رکھے حتٰی کہ وہ باطل نظریات مکتبہءِ فکر کی حیثیت اختیار کر گئے ،وہ آج بھی یونیورسٹیوں میں کیے جانے والے مباحث کا موضوع ہوتے ہیں ۔ان باطل نظریات و عقائد کو مستقل بنیادوں پر متشکل کرنے والوں میں اہم کردار حکمران طبقے کے اس گروہ کا ہوتا ہے جن کے چندے سے یونیورسٹیوں کا وجود قائم ہے اور ان زر خرید دانشوروں کو روزگار میسر آیا ہے ۔ان پروفیسروں کی بڑی تعداد ضمیر فروش ہوتی ہے ۔عہد حاضر میں نظر و عمل کے فرق کو توسیع دینے میں ان پروفیسروں کا اہم کردار ہے۔آپ نے بھی اس امر کا اظہار کیا ہے، جس سے مجھے اتفاق ہے، کہ نظریات حکمران طبقے کے اہداف کا محرک ہوتے ہیں اور خود ان کے اہداف اور ان کی کاروائیوں سے متشکل ہوتے ہیں۔ انسان کا اس کے سماج اور ماحول سے بر سرِ پیکار رہنے کا عمل صدیوں سے جاری ہے۔ اس دوران انسانی فکرو سماج سے انگنت جہات تشکیل پا کر علوم کی جامع شاخوں کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں ۔ادب و فن بھی علوم کی ایک ایسی ہی پیچیدہ جہت ہے جس کے باطن میں باطل رجحانات کے ساتھ ساتھ سماج میں حقیقی اور مثبت کردار ادا کرنے والے نظریات بھی ملتے ہیں۔ فن کی انسانی ثقافت و سماج میں عملی حیثیت کو تسلیم کر لینے کے بعد قدامت پسند اس کے ذریعے عوام کے قلب و ذہن کو کنٹرول کرنے کے لئے فن کو نظریات و اشاعت کا وسیلہ قرار دیتے ہیں، اس عمل میں ان کو خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے ۔قریشی صاحب! میں اس اہم نکتے پر آپ سے ذرا مفصل اور تاریخی تناظر میں مخاطب ہونا چاہتا ہوں۔
میرا یہ کہنا ہے کہ سماج میں جنم لینے والا ہر رجحان سماجی تشکیل ہوتا ہے، بے شک اس کی نوعیت ماورائی ہی کیوں نہ ہو۔فن کے حوالے ہی سے دیکھیں کہ مغرب میں اٹھارویں صدی میں جنم لینے والی فن برائے فن کی تحریک بھی سماجی عمل کا ردِ عمل تھی ،جو بہرحال کامیابی سے ہمکنار ہوئی، مگر ’دانشوروں‘ کی کاوشوں سے خانقاہ کی طرح سماج سے باہر بسیرا کر لیا ۔ زندگی کے تلخ حقائق سے چشم پوشی ، بیگانگی اور لاشعوری طور پر باطل کی خدمت اس نظریے کے نمایاں اوصاف بن گئے ۔مغرب میں فن برائے فن کی تحریک آزادی کی خاطر کی جانے والی جدوجہد ہی کی لڑی ہے۔ آزادی کے شرارے تو برونو کے جسم کی خاک سے اسی دن ہی پھوٹ پڑے، جب اس کوبے رحم مسیحیوں نے اس کی سائنسی سوچ کی وجہ سے زندہ جلا دیا۔اس کی راکھ سے کچھ ایسے شعلے اٹھے کہ جن سے فکر کی ایسی آگ روشن ہوئی، جس نے ظالم کلیساء کی پہنائی ہوئی ذہنی غلامی کی زنجیروں کو پگھلا دیا ۔ پندرھویں صدی میں ڈیکارٹ نے تشکیک پسندی کی بنیاد رکھ دی جو ڈیوڈ ہیوم میں پورے عروج پر نظر آئی۔ڈیکارٹ نے علمیات کے میدان میں اس وقت انقلاب بر پا کیا،جب اس نے عقلیت کو علوم کے مآخذ کے طور پر انتہائی احترام سے سرفراز کیا، سولہویں صدی میں آئزک نیو ٹن کے سائنسی نظریات نے حقیقی عوامی انقلاب کی بنیاد رکھ دی ۔صنعتی انقلاب کے بعد یہ سلسلہ پھر کبھی نہیں رکا ۔کلیساء کی وحشت ناک ذہنیت جس کا اظہار نہ صرف فلسفے ،سائنس اور آرٹ میں ہوتا تھا وہ دم تورتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ سترھویں اور اٹھارویں صدی بے چینی و اضطرابی پیدا کر دینے والی تحریکوں کے حوالے سے انتہائی اہم ثابت ہوئیں ۔برطانیہ کے عوام نے بادشاہ کا سر کاٹ کر جمہوریت کی بنیاد رکھ دی ۔میری وولن کرافٹ نےWoman A Vindication of the Rights ofلکھکر عورتوں میں ان کے حقوق کے بارے میں شعور بیدار کیا۔مختصر یہ کہ زندگی کے ہر شعبے میں آزادی کو مقدس تصور کرنے والے انقلابی پیدا ہوگئے ۔جبریت و غلامی کا وہ دور جس میں زندگی و علوم کے کسی بھی شعبے میں آزادی کی خواہش رکھنا اور خود کا اظہار کرنا گناہِ کبیرہ سے کم نہیں تھا ،بسترِ مرگ پر آخری سانس لیتا ہوا نظر آیا ۔یہ اس عہد سے نجات کا دور تھا جس میں فن کارکی ذمہ داری یہ قرار پائی کہ وہ چرچ سے لے کر مسیحیت کی’’ اخلاقی ،روحانی اورپاک رویے‘ ‘کو پروان چڑھانے والی اقدار کو فروغ دینے کیلئے اپنے فن کو مختص کر دے ۔’پاک رویہ‘ کیا تھا، اس کی وضاحت صرف پادری کرسکتے تھے۔ ان پادریوں کومقصود، محض اپنی حاکمیت و تسلط برقرار رکھنے کی خاطر، عوام کے ذہنوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھنا تھا ۔مائیکل اینجلو نے آزری تخیل کے تحت فطری انسان کے عکاس شاہکار چرچ کی دیواروں پر تخلیق کیے تو اس کوذلت کا نشان بنایا گیا، تاہم جبر کا یہ سلسلہ اپنے خاتمے کا منتظر تھا ۔آرٹ کی جدید مغربی تحریک میں فن برائے فن کا نعرہ پہلی بار بنجمن کانسٹنٹ (Benjamin Constant) نے ۱۸۰۴میں بلند کیا۔کانسٹنٹ اور وائلڈ نے اس نئے تصور کو نظریاتی اساس فراہم کرنے کیلئے عمانویل کانٹ کے فلسفہ جمالیات کو پیش کیا ۔ کانٹ کی کتاب ’تصدیق جمالیات محض‘(The Critique of Pure Judgement)ایک خاص حد تک اٹھارویں صدی کے جمالیاتی نظریات کو متشکل کرتی ہے۔ کانٹ کے نظریہء جمال کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ جمالیات کو منطقیانہ انداز میں، بحیثیت ایک نظام کے پیش کرتا ہے ۔کانٹ سے پہلے کے فلسفی مثلاَ ہیوم وغیرہ جمالیات کے بارے میں لکھتے رہے مگر ان کے فلسفہء جمال میں اتنی وسعت، اور منطقیانہ بصیرت نہ تھی کہ وہ کانٹ پر سبقت حاصل کرلیتے۔ویسے بھی کانٹ کا فلسفہ، زمان و مکان کی بدیہیت کو تسلیم کرتا ہے، اس لئے مسیحی اخلاق پرست اسے بآسانی قبول کرلیتے ہیں۔ کانٹ کا جمالیات محض کا انتہائی پیچیدہ نظریہ علم اور اخلاق کے درمیان ایک کڑی کی حیثیت رکھتا ہے۔کانٹ کے فلسفہ جمال کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ جمالیاتی پرکھ محض ادراک، فہم،تعقل یا مشاہدے کی خصوصیات پر منحصر نہیں ہونی چاہیے ، اس کا انحصار’ذکاوت‘ کی پرکھ کرنے والے امتیازی اوصاف پر ہونا چاہیے۔ کانٹ کے مطابق’ لذت‘ حسن کو پرکھنے کا ایک وصف ہے اگرچہ اس کا تعلق حس کے ساتھ ہے، تاہم اس میں حس کا روایتی تحدیدی تصور شامل نہیں ہے۔ اس کی حقیقی پرکھ اس وقت ہو سکتی ہے جب حس، وجدان اور عقل میں مکمل ہم آہنگی پیدا ہوجائے، تاکہ اس سے تخیل کا ’آزادانہ کھیل‘ ممکن ہوسکے۔ کانٹ کو’جمالیات محض کے لیے’ بین موضوعی آفاقیت ‘درکار ہے ،اس کے لیے کانٹ معروض سے متعلقہ ہر خواہش، دلچسپی، جذبہ ، تصور وغیرہ کو مکمل طور پر خارج کردیتا ہے، کیونکہ ان عوامل کی بناء پر ’آفاقی جمالیات محض ‘کا حصول ممکن نہیں ہے۔ان عوامل کے اخراج سے معروض غیر اہم ہوگیا اور اس کا عکس جو عقل و تخیل کی ہم آہنگی کا باعث بنا، اہم قرار پایا۔ہر طرح کے رجحانی پہلو کے خاتمے کے بعد معروض کانٹ کے حقیقی، بے غرض اور مسرت آفریں معیار پر پورا اُترا۔ اب کانٹ اس معروض سے حقیقی حسن کو حاصل کر سکتا ہے۔کانٹ اپنی کتاب کے سیکشن سولہ میں جس جمالیات محض کا ذکر کرتا ہے،وہ ہر طرح کے رحجان سے بالا ’ہئیتِ محض ‘ہے۔’جمالیات محض کے نظریہ میں جہاں اندرونی تضادات پائے جاتے ہیں تو وہاں تاریخی اور سماجی سطح پر عملی رحجانات سے متصادم ہیں۔حسن میں مسرت کو حاصل کرنے کے لیے معروض کے وجود سے قطعءِ تعلق کر لینا ممکن نہیں ہے،وہ معروض جو مسرت بھی فراہم کر رہا ہے۔کانٹ کے نظریہء جمالیات نے مغربی جمالیات کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس کے فلسفہء جمال سے بے شمار رجحانات منظرِ عام پر آئے،کئی تحریکوں نے جنم لیا۔کانٹ کے فلسفہ ءِ جمالیات سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ آرٹ کا تعلق چونکہ جمالیاتی حس کے ساتھ ہے ۔لہذا یہ ہر طرح کی مقصدیت سے عاری ہے ۔اسی مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے چار مختلف بنیادوں پر آرٹ کی تخلیق کا انکار کردیا گیا یعنی روایتی اخلاقیات جو کہ بنیادی طور پر منافقت پر قائم ہوتی تھی ،معاشرتی افادیت کے تصور سے انکار ،ناصحانہ طرزِ عمل سے نجات اور عوامی استحصال و نا انصافیوں سے مکمل چشم پوشی۔فرانس میں اس تحریک کے نمائندگان میں سے Baudilaireاور Malarmeجبکہ برطانیہ میں وسلر اور آسکروائلڈ کے نام زیادہ اہم ہیں ،آسکروائلڈ نے ۱۸۹۱میں اپنے ایک مضمون The Soul Of Man Under Socialismمیں مصنف کے بارے میں لکھتا ہے کہ ’’ اس کو اس امر سے کوئی لینا دینا نہیں کہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔۔۔جس مرحلے ایک فنکار اس امرکوذہن میں رکھنا شروع کردیتا ہے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں اور لوگوں کے مطالبے کی تکمیل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کی فنکارانہ حیثیت ختم ہو جاتی ہے‘‘ (آسکروائلڈ کا مکمل کام،ص ۱۱۸۴)۔وائلڈ فنکار و ادیب کو ادب و فن کا اکلوتا تخلیق کندہ قرار دیتاہے، جسے سماج میں رہنے والے لوگوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہونی ہے، ان لوگوں سے ،جن کو فنکار و ادیب اپنی تخلیقات پیش کرتاہے،جن سے اپنی تصنیفات کے خریدار بننے کی امید رکھتاہے، مگر خریدنے والے سے اس کی ترجیح یا اجتماعی رجحان کے بارے میں نہیں جانناچاہتا۔وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اس کا اپنا رد عمل بھی سماجی تشکیل ہے، گو کہ وہ مسیحی اخلاقیات کے خلاف ہے۔ وائلڈ کا رویہ بلا شبہ ناصحانہ اور مسیحی انتہا پسندانہ ذہنیت کے خلاف شدید ردِ عمل کو ظاہر کرتا ہے۔آسکر وائلڈ کا یہ اقتباس اس آزادی کی تبلیغ کرتا ہو انظر آتا ہے جسے شلر فن کی ماں قرار دیتا ہے۔راقم کو بھی اس پہلو سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ آزادی سے اس کی کیا مراد ہے؟کیا وہ سماجی موضوعات سے آزادی حاصل کرنا چاہتا ہے یا پھر وہ لکھنے کی آزادی کا متقاضی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آسکروائلڈ کی نفسیات ان معاشرتی پابندیوں سے نجات چاہتی ہے جنھوں نے اسے متشکل کیا ہے۔اس کی تحریروں میں آزادی ءِ فن واظہار کا شدید جذبہ پایا جاتا ہے،جو محض آرٹ پر خارجی پابندیوں کاردِ عمل نہیں ہے، اس کی ہم جنس پرست شخصیت کا بھی ردِ عمل ہے، جس کو وہ اس عہد میں آزادی کی اس جنگ میں بنیاد نہیں بنا سکتا ، وہ گھٹن و محرومی بھی سماجی جبریت کے خلاف اپنا اظہار فن کی آزادی کے طور پر ہی کرتی ہے ۔آسکر وائلڈ کی تحریروں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ فن پر مسلط کی گئی پابندیوں کے ساتھ ساتھ سماجی موضوعات سے ہی آزادی چاہتا ہے،اُن موضوعات سے جن کی تبلیغ کو فنکاروں پر فرض قرار دے دیا جاتا ہے۔ سماجی موضوعات کے حوالے سے عدم دلچسپی کا مطلب ہے کہ فنکار کسی ایسی جہت کو عیاں کرے، جس کا سماج سے کوئی تعلق ہی نہ ہو،محض یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ فن کا سماج کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، اس کو مدلل پیرائے میں لانا ضروری ہے۔ کہنے سے کوئی معنی عیاں نہیں ہوتا ، طرزِ ہائے بیان منطقیانہ ہونا چاہیے، جس میں انسان سے وابستہ حسی، ادراکی، فہمی اور وجدانی و عقلی پہلوؤں کی حدود کی نشاندہی ہونی چاہیے ، فتویٰ جاری کرنا تو ملاّ کا کام ہے۔نکتہ یہ ہے کہ اٹھارویں صدی میں فنکار و ادیب تخلیق کے لیے موضوعات کے انتخاب کے حوالے سے آزادی چاہتے تھے،جس کو انھوں نے بھر پورجدوجہد کے بعد حاصل کیا ۔ راقم کا اصرار ہے کہ فن برائے فن کے حامیوں نے سماج میں رہتے ہوئے سماجی عناصر کے خلاف جدو جہد کی ہے، اس جدوجہد کی جھلک ان کے فن پاروں میں نظر آتی ہے۔یہ کہنا کہ اس کے بعد تخلیق کیا جانے والا فن و ادب ہر طرح کے رجحان سے مبرا تھا محض مغربی فنی و ادبی تاریخ سے نابلد ہونے کا نتیجہ ہے۔آسکروائلڈ اپنی باطنی فنکارانہ احتیاج کی اہمیت واضح کرنے کے لیے فلسفیانہ دلائل استعمال کرتا ہے، جو اس کی غیر فلسفیانہ تربیت کی وجہ سے دلائل کے برعکس محض خواہش کا ظہار ہیں۔انتہا پسند پادریوں کے پاس مسیحیت سے جنم لیتا ہوا جبری اخلاقی جواز موجود تھا۔ آسکروائلڈ کے پاس جبّلی احساسِ حریت ، جسے آج کے مغرب میں شاید توّہمانہ اخلاقیات کے برعکس انسانی اخلاقیات کے حصول کا مطالبہ سمجھا جاسکتا ہے۔سماج میں ہونے والی جدوجہد میں فن با لآخر ایک علیحدہ ادارے کی شکل اختیار کر گیا۔ فنکاروں نے خود کو اپنی ہی دنیا میں آزاد رہنے کی خاطر فنکارانہ اصول وضوابط وضع کر لیے۔ غلامی سے آزادی تک کی اس جست میں ہوتا یہ ہے کہ اکثر غلامی کو بدی تصور کرتے ہوئے اس سے نجات کی خوشی میں آزادی کے مضمرات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ آزادی اگر حقیقی اصولوں کے تابع نہ رہے تو اس کے نتائج غلامی سے بد تر ثابت ہوسکتے ہیں بالکل ایسا ہی تضاد، فن برائے فن کے فلسفہ میں اس وقت پیدا ہوا جب فنکاروں نے خود کو سماج سے جدا رکھنے کی خواہش کے تحت اپنی اس جدوجہد پر پانی پھیر دیا ، جو اُنھوں نے قدامت پسندوں کے استحصال و ناانصافی سے نجات پانے کی خاطر کی۔فنکاروں کے نزدیک فن کی آزادی کا مقصد یہ قرار پایا کہ وہ معنی و مقصدیت سے بھی فن کو آزاد تصورکرئے ۔یعنی انسان کے باطن میں ہی ایسی دنیا، جس کا اس کے ارد گرد کی دنیا سے کوئی تعلق ہی نہ ہو ،مطلب یہ کہ وہ محض خواب کا عکس پیش کرئے نا کہ حقیقی دنیا کا ۔ سماج سے باہر رہنے کا تصور سننے میں تو اچھا ہے ،لیکن حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ایک صوفی اگر اپنی خانقاہ سماج سے دور تعمیر کر بھی لے توسماج میں لوگوں کا موضوع ضرور بنتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنی زندگی و بقا کے لیے سماج کے تخلیق کردہ عوامل کا ہی محتاج رہتا ہے ۔
قریشی صاحب! آپ کا نکتہ اہم ہے ،میں بھی اس امر کا اظہار کررہا ہوں کہ اردو میں مغربی تھیوریوں کو ان کے تناظر سے محروم کرکے پیش کیا گیا ہے،اس سے فن و ادب کے بارے رویوں میں انگنت تضادات نظر آتے ہیں۔کیا کوئی دعوی کرسکتاہے کہ آزادی کی تحریکیں برپا کرنے کی سوچ معاشرے کے باہر سے ٹپکتی ہے؟یہ تو فنی و ادبی یا سماجی سطح پر اس وقت ابھرتی ہے جب اس کو ابھارنے والے تضادات جنم لیتے ہیں ۔اسی طرح جمالیاتی تقاضے بھی سماجی ارتقاء ہی کی پیدا وار ہے ۔ ہر عہد کے فن و ادب کو کسی دوسرے عہد کے فن و ادب سے ممتاز کیا جاسکتا ہے، بلکہ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے رجحانات کو بھی بآسانی ممیز کیا جاسکتا ہے۔قرون وسطی کے گرجے ،بادشاہوں کے تاج و تخت اور آزاد مصوروں کے شاہکار بھی اسی عہد کی یاد دلاتے ہیں جس عہد میں ان کی تخلیق ہوئی ۔ انتہائی عمیق فکر یا شدید جمالیاتی خواہش کے تحت تخلیق ،جو بظاہر تو اپنے عہد سے آگے نظر آتی ہے، حقیقت میں تجزیاتی ذہن ،فنکار اور اسکے شاہکار کے درمیان ربط تخلیق کرنے والے عوامل دریافت کر تے رہے ہیں ۔فن برائے فن کے علم برداروں کے لیے حقیقی مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب وہ آرٹ تخلیق کرنے کے لیے اپنی جمالیاتی حس یا فکر کو تحریک دیتے ہیں جو سماج سے بالا نہیں ، کسی نہ کسی صورتحال کا نتیجہ ہوتی ہے ،مگر آزادی کا اندھا جذبہ سماجی ذمہ داری کے احساس کو بھسم کر ڈالتا ہے ،سماج سے تعلق ہونے کے باوجود اس کا مسلسل انکار کیا جاتا ہے۔ اس طرح ذمہ داری کے بغیر آزادی جلد فنا کر ڈالتی ہے ۔ہمارا کہنا یہ ہے کہ ادب و فن کو زندگی کو ترقی دینے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ، اس کے لئے موضوعات کا انتخاب سوچ سمجھ کر ان کی تفہیم کے بعد کیا جانا چاہیے، موضوعات کی متعلقہ یا غیر متعلقہ ہونا ثقافتی عروج و زوال سے منسلک عوامل سے وابستہ ہوتا ہے۔ اگر ادیب یا فنکار اس سوچ یا احساس کو ادب و فن کے خود مختارانہ حیثیت پر کاری ضرب خیال کرتا ہے تو اسے اس مواد کی جانب کھل کر اظہار کرنا چاہیے، جس سے وہ اپنی فکر کو مہمیز عطا کرنے کا دعوی کرتا ہے۔ اگر وہ مواد اسی کائنات میں تشکیل پارہا ہے تو یقیناَ وہ کسی نہ کسی سماجی ،سیاسی ، اخلاقی، مذہبی ،روایتی یا معاشی صورتحال کے نتیجے میں وجود میں آنا چاہیے۔کوئی بھی صورتحال ایسی نہیں جو کسی عمل یا ردِعمل کا نتیجہ نہ ہو ،نہ ہی کوئی نتیجہ ایسا ہے جس کاتعلق کسی نہ کسی صورتحال سے نہ ہو ۔محض چند ایک فقرے کسی معنی کو عیاں نہیں کرتے۔ مباحث کی نوعیت قطعی طور پر مدلل اور وسیع علم کی عکاسی کرتی معلوم ہو۔
انسان مختلف صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں، اسی وجہ سے وہ کسی بھی صورتحال یا سانحے کے تدارک کے حوالے سے ذرائع کے استعمال پر اختلاف کا اظہار کرتا ہے ۔ وہ تدارک کرنا چاہتے ہیں،مگر ان کے اندر حال کے بطن اور مستقبل کے اندر جھانکنے والی قوت و صلاحیت مختلف ہوسکتی ہے، جس کی ایک اہم وجہ ان کا طبقاتی پس منظر ہوسکتا ہے۔ خیال پرستی کی جانب رویہ بھی اس طرح کی صورت حال میں ظاہر ہوسکتا ہے،اگرچہ خیال پرست بھی دنیا کا بھلا چاہتے ہیں، مگر ان کا طریقہء کار خیالات کی حد تک محدود رہتا ہے۔ممکن ہے وہ بھی فاشزم کو ناپسند کریں، مگر ان کی پسند و ناپسند جدوجہد کی سطح تک نہیں اترتی۔ ظلم و جبر کی بھٹی میں پگھلتی ہوئی انسانیت بھی خیال پرستوں کے فنا شدہ جذبہ ءِ احتجاج کو زندگی عطا کرنے سے محروم ہے۔
بورژوازی ہمیشہ اپنی پروپیگنڈا پالیسیوں کو جاری رکھتی ہے۔برطانیہ کے ہاؤس آف کا منز میں ونسٹن چرچل کا ایک بہت بڑا اور انتہائی بارعب مجسمہ نصب کیا گیا ہے ۔وہاں کی یہ روایت ہے کہ ہر گزرنے والے شخص کو چرچل کے مجسمے کے بوٹوں پر کپڑا مار کر اس کی عظمت کو تسلیم کر کے اس سے ’آشیر باد‘ حاصل کرنا پڑتا ہے ۔ برطانوی بورژوازی نے اس مجسمے کو اس لیے نصب کررکھا ہے کہ وہاں پر آنے والے لوگ اس کے بوٹ پر کپڑا مار کر اس کی عظمت کو تسلیم کریں۔ بوٹ چمکانے کی توّہم پرستانہ روایت کے محرکات یہ ہیں کہ لوگوں کو یہ یقین دلا دیا جائے کہ یہ لوگ عام لوگوں سے افضل ہوتے ہیں ان کی عوام کی زندگی ان کی غیر معمولی بصیرت کی عطا ہے۔وہ لوگوں کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ چرچل عظیم فاتح ہے،اگر وہ نہ ہوتا تو برطانیہ کا نجانے کیا حال ہوتا۔اس حقیقت سے قطعاََ چشم پوشی کی جاتی ہے کہ سماج میں رہنے والوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات چرچل جیسوں کے مفادات سے جنم لیتے ہیں۔فن کی یہ ایسی جہت ہے جسے بورژوازی، ریاست کے حوالے سے عوام کے اذہان میں ایک عجیب قسم کا تقدس راسخ کرتی ہے ،اس سے ایک تو ان کا وجود بھی فطری دکھائی دینے لگتا ہے، دوسرے عوام میں قوم پرستی کے جذبات کو تحریک ملتی ہے ۔ مسیحی بربریت کا یہ پہلو عہد حاضر میں دیکھا جاسکتا ہے ۔
حاکموں کی ہر عہد میں فن کو کنٹرول کرنے کی کوششوں سے اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ آرٹ معاشرتی زندگی میں کتنا اہم کردار ادا کرسکتا ہے ۔ آج کے دور میں بھی مغربی آرٹسٹوں کی بنائی ہوئی فلمیں ،ڈرامے ،سٹیج شوز مشرقی ممالک کے خلاف منفی پروپگینڈہ کر رہے ہیں۔ فن کی آزادی کا نعرہ بلند کرنے والے ان منفی مہمات میں شد و مد سے اپنے استحصالی نظریات کا ابلاغ کر رہے ہیں ۔بیشتر آرٹ انہی حیوانوں کے چندوں سے تخلیق ہو رہا ہے ۔سچے آرٹسٹ کے لیے اپنی جمالیاتی حس اور فکری پرواز کو بچانا روز بروز ناممکن ہوتا جا رہا ہے ۔سچ آج بھی اپنے اظہار کے لیے بے حس ظالموں کے دروازوں پر رینگتا دکھائی دیتا ہے ۔ سیاہ فام افریقی آرٹسٹ Qusmame Sembere جون۲۰۰۵میں اپنی فلم Moolaadeکی پروموشن کے لیے برطانیہ آیا ۔اس دوران اس نے ایک بین القوامی جریدے کو انٹر ویو دیتے ہوئے افریقہ میں فن کی اہمیت کو واضح کیا ۔ Sembere کا کہنا ہے کہ ’’ وہ آرٹ کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے جس میں افریقی عوام کی خستہ حالت اور حاکموں کی بے حسی کی تصویر کشی کی جاتی ہے، خوف کے مارے ہوئے افریقی حاکم و سیاسی رہنما افریقہ میں سینما کو ترقّی دینے سے اجتناب کرتے ہیں، اس کے بر عکس ،باڈی بلڈنگ کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے، ذہنی نشو نما سے ہٹ کر محض جسم کی نمائش۔ اس کا خیال ہے کہ معاشرتی مسائل سے چشم پوشی کرنے والا آرٹسٹ کبھی ایک اعلٰی پائے کا آرٹسٹ نہیں بن سکتا۔ Sembere جو کچھ بھی کہتا ہے، اس سے بھرپور ختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن اختلاف کرنے کے لئے ہمیں اس کے تناظر میں پہنچنا چاہیے، یہ ممکن نہیں ہے کہ فرانس کے پسِ منظر میں افریقہ میں تھیوریوں کو متشکل کیا جائے۔
بیگانگی کا احساس اس وقت جنم لیتا ہے جب انسان خود کو کسی سماجی عمل میں شریک نہیں کر پاتا۔ جمالیاتی شاہکاروں میں عدم دلچسپی کی وجہ طبقاتی تضادات ہیں ، کیونکہ جو کچھ فن کے نام سے’ تخلیق‘ کیا جارہا ہے،اس میں احساسات اور ترجیحات کا تضاد ہے۔ جس طبقے کی حقیقی زندگی جلوہ گر نہیں ہوتی ، اس کے لئے وہ غیر دلچسپ چیز ہے۔ طبقاتی امتیازات کی خلیج کو وہ شاہکار مزید وسعت عطا کرتا ہے ان کے اندر احساسِ محرومی پھر پروان چڑھتا ہے جس سے ان کی انا کو شدید ٹھیس پہنچتی ہے ۔وہ فن جس کی حقیقی روح اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس عدم مساوات کو کم کرنے کے رجحانات کی تشکیل کی جائے وہ اپنی حقیقی روح سے بر سرِپیکار ہوکر متضاد رویہ اختیار کر لیتی ہے ۔بورژوا دانشور یہ دلیل دے سکتا ہے کہ فن بھی ارتقائی سفر طے کر کے چونکہ آگے بڑھ چکا ہے اس لیے وہ عوام کے سطحی خیالات کی عکاسی نہیں کرسکتا ۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ عوام کے ان ’سطحی خیالات‘ کا حقیقی خالق وہ خود ہے اور یہی انکے فن کی سب سے بڑی خامی ہے کہ وہ عوام کو ساتھ لے کر نہیں چلتا ،جس سے طبقاتی امتیازات کی جڑیں مزید گہری ہوتی چلی جاتی ہیں ۔
اٹھارویں صدی میں فن کو آزادی دلا کر اسے فن کے قواعد و ضوابط کے تابع کرنا اس وقت کا اہم معاشرتی مسئلہ تھا ، اس لئے مسیحیت سے نجات ضروری سمجھی گئی، جس میں فن برائے فن کے حامیوں کی جدو جہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی ۔بیسویں صدی میں فاشزم کو ترقی ملی تو ٹی ایس ایلیٹ وغیرہ سامنے آئے۔پاؤنڈ اور ایلیٹ جیسے فنکار، فن برائے فن کی جدو جہد کو معاشرتی تناظر میں دیکھنے سے احتراز کرنے لگے، کیونکہ وہ فاشزم سے منسلک تھے۔ایلیٹ میں مسیحی تعصب شدت اختیار کرگیا۔مغربی بورژوازی نے اسے نوبل انعام سے نوازا، کیونکہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں لاتعلقی کا واویلا کرنا فاشزم کی حمایت کے مترادف تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ فن بقا و ارتقا کی اس کشمکش میں فتح پا کر سماج سے منقطع ہو گیا ہے؟مغرب میں آج بھی فن سماجی عمل میں شریک ہے، لیکن سرمایہ داروں کے مقاصدکی تکمیل پر کمر بستہ ہے ۔’بچاؤ‘ کی تحریک دراصل فاشزم سے ہم آہنگ ہوتی ہے، کیونکہ ’بچاؤ‘ کا درس فاشسٹ آئیڈیالوجی کی دین ہے۔فنکاروں کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جس کی فکر جمالیاتی حس سے تشکیل پا کر عالمی جبر و بے حسی کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتی ہے ۔آج بھی غربت مٹاوء تحریک میں شریک فنکار خود کو اس قحط زدہ انسانیت کا اٹوٹ انگ تصور کرتے ہوئے ا پنے فن کو مقصدیت عطا کر کے اسے حقیقی عظمت عطا کرتا ہے ۔ آج بھی بانسری کے سُر میں معصوم و مظلوم بچوں کی چیخ و پکار کو مقید کرنے والے موجود ہیں، جو انسانی روح کو انسان پرور جذبات سے معطر رکھتے ہیں۔ جب تخیل پر انسانی مقصدکی بجائے ’لونگ‘ او ر ’پارول‘ جیسے عوامل قابض ہوجائیں تو یہ یقیناَ جمالیاتی حس کی برتری نہیں، انسانی فکر کے انحطاط کا آغاز ہے۔
قریشی صاحب! اس نکتے کے علاوہ آپ نے شمارہ ۹میں ’نئی بستیوں‘ کا ذکر کیا تھا، جس پس منظر میں آپ نے اپنا موقف پیش کیا ، میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔مغرب میں اگر اردو کے فروغ کی کوئی صورت نظر آتی ہے تو میں اس کا سب سے زیادہ کریڈٹ ایشیائی ٹی وی چینلوں یا انڈین فلموں کو دیتا ہوں، یہاں کی نئی نسل اردو شاعروں سے کچھ نہیں سیکھ رہی، میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ یہاں کے شعراء کی اکثریت کو اپنے ذہنی معیار کو بلند کرنے کے لئے مغرب کے باشندوں سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔زبان کے حوالے سے میرا خیال ہے کہ اس میں ٹی وی چینلوں کے علاوہ سب سے اہم کردار انڈین فلموں کا ہے۔ برطانیہ کے پیدائشی بچوں کی ایک بڑی تعداد سینما گھروں میں فلمیں دیکھنے جاتی ہے، آپ جانتے ہوں گے کہ انڈین فلمیں یورپ اور برطانیہ میں بہت زیادہ بزنس کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے پیدائشی ان فلموں کو دیکھتے ہیں۔ ان فلموں کے ڈائیلاگ بولتے ہیں، راقم نے گزشتہ دس برس سے یہاں کے کسی پیدائشی سے کوئی شعر نہیں سنا، مطلب یہ نہیں کہ وہ خود شاعر ہے یا نہیں، بلکہ وہ نئی یا پرانی بستیوں کے کسی ’عظیم‘شاعر کا شعر تک نہیں جانتا۔’نئی بستیوں‘ کے افسانوں اور شاعری کا بڑا حصہ جنس کے گرد گردش کرتا ہے، اس مفہوم میں بھی جنس افسانہ نگاروں اور شاعروں کے لئے وہی معنی رکھتی ہے جو اٹھارویں صدی کے محروم شعراء کے تخیل میں جگہ پاتی ہے۔یہاں کی نئی نسل کو اس امر سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے کہ کوئی شعر باز اپنی محرومیوں کی نکاسی اٹھارویں صدی میں کی گئی شاعری کے موضوعات میں کرتاہے۔دیکھنے میں آیا ہے کہ مشاعرہ گاہ میں یا تو شاعر موجود ہوتے ہیں یا چند دوسرے لوگ، جو مقامی زبان پر قدرت نہیں رکھتے، اور نہ ہی ان کی کوئی اور تفریح ہے، عدم آگاہی کا عنصر دونوں میں مشترک ہے،یہی مشترکہ عنصر ان کو جوڑے رکھتا ہے۔ اس طریقے سے مشاعرہ گاہ میں روایت پنپتی رہتی ہے۔ جہل، روایت کی پاسداری کے نام پر ارتقائی منازل طے کرتا جارہا ہے۔پرانی بستیوں والے یہ سمجھنا شروع کردیتے ہیں کہ مغرب میں اپنی ثقافت پروان چڑھ رہی ہے۔وہ قطعاََ نہیں جانتے کہ ان شعراء کے پاس دوسرا کوئی زاویہ ہی نہیں ہے۔مابعد جدیدیت پر پرانی بستیوں میں مباحث ہوئے ہیں، ان کی نوعیت کیسی ہے، یہ الگ سوال ہے، تاہم پرانی بستی والوں کو عالمی صورتحال کا کسی حد تک ادراک ہے۔ جن ممالک میں یہ تحریکیں برپا ہوئیں، ان میں مقیم نئی بستیوں والے ان اصطلاحات سے کلی طور پر نا بلد ہیں۔
قریشی صاحب! ان اہم نکات کے علاوہ شمارہ دس میں شہزاد احمد کا خطبہء صدارت دلچسپ ہے، اس اعتبار سے نہیں کہ اس میں اہم نکات پر مدلل گفتگو کی گئی ہے، بلکہ اس حوالے سے کہ اس میں فن و سائنس کو جوڑنے کے لئے پیش کی گئیں وضاحتیں ، قطعی ناکافی ہیں۔جڑت کا عمل کسی شکل میں واضح نہیں ہوا۔راقم کے لئے باعثِ حیرت ہے کہ برطانیہ میں فنِ شاعری کے موضوع پر سینکڑوں ادبی سیمینارز میں شرکت کرنے کے باوجود کسی بھی سیمینار میں شاعری کے متعلق ہونے والی گفتگو میں سائنس پر لیکچر نہیں سنا، اور نہ ہی سائنس پر کوئی ایسا لیکچر سنا جس میں شاعری کا ذکر تک کیا گیا ہو۔شاید یہی وجہ ہے کہ شہزاد احمد کے خیالات میں ربط نظر نہیں آتا،سائنس اور شاعری کو بہنیں سمجھا گیا ہے، مگر دلائل کے برعکس باتوں سے اس کی وضاحت کی کوشش کی گئی ہے۔ شاعر کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ خلاء کے مسائل میں خود کو مشغول کرلے،ایسا لگتا ہے کہ زمین کے مسائل حل ہوگئے ہیں، اس لئے اب خلا کا رخ اختیار کرلینا چاہیے ۔تاریخ میں بہرحال ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے، جس میں یہ اہم واقع پیش آیا ہو کہ مادیت کے انگنت مخفی امکانات کی حدیں آشکار ہوگئی ہوں، اور اب زمان کے برعکس صرف مکاں کا سوال اہم رہ گیا ہو۔تاریخ میں بہرحال آئن سٹائن کا نظریہ اضافت، اور کوانٹم میکانیات موجود ہے، نیوٹن کی بند کائنات کا خیال بھی موجود ہے، جس کی حقیقت یقیناَ لامتناہیت کے تصور سے کھلتی ہے، جو سائنسدانوں کے کارنامے کی بدولت ہے، سوال یہ ہے کہ اگر مغربی سائنس دانوں کے کارنامے موجود ہیں، تو پھر سائنسی اعتبار سے مغربی شعراء کے کارنامے بھی موجود ہونے چاہیں، مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔مغرب میں ’متخیلہ‘شاعری کی اہم مثال مغربی رومانویت میں ملتی ہے،جس سے ’لاشعور‘ کا تصور ضرور ابھرا، جسے بعد ازاں سماجی تشکیل قرار دیا گیا،مگر شعراء کاسمولوجی کے حوالے سے کوئی اہم پیش رفت کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ خلائی شعراء جب خلائی مقصد کے اعتبار سے تخیل کا ذکر کرتے ہیں تو یہ واضح رہنا چاہیے کہ اس میں معروض کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔معروض کے نہ ہونے کا مطلب ہے، ہیئتِ محض۔کوئی شاعر یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ مریخ میں کسی معروض کا علم رکھتا ہے،اگر معروض کا علم نہیں رکھتا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ معروض کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جس خلا کا درس دیا جارہا ہے، اس میں صرف ہیئت شامل ہے۔جب ہم معروض کو’ متخیلہ‘ سے حذف کردیتے ہیں، تو صرف ہیئت رہ جاتی ہے، اب شہزاد صاحب یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ انھوں نے خلا میں کسی بستی کو دیکھا ہے اور اس بستی میں فلاں فلاں اشیاء موجود تھیں۔وہ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ امکان ہے کہ کوئی بستی قائم ہوجائے (امکان کے اظہارکے لئے شاعر ہونا ضروری نہیں، کوئی بھی شخص خواب دیکھ سکتا ہے، نہ ہی متخیلہ صرف شاعروں کے پاس ہوتی ہے، )، مگر ایسا وہ صرف سائنسی کرشمات کی بنا پر کہہ سکتے ہیں نہ کہ شاعری پر کی گئی وضاحت میں۔
ہمارا سوال پھر بھی ادھر ہی رہتا ہے کہ اس بستی میں معروض کا کوئی بھی تصور موجود نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی تصور موجود ہوگا تو اس کی تشکیل زمان کے اعتبار سے سماجی ہوگی، فرض کریں کسی نے یہ کہا کہ آئندہ دوبرس میں انسان مریخ میں زندگی گزارے گا،لیکن مریخ کی زندگی کس طرح کی ہوگی، اس کا اس وقت تک کوئی تصور قائم نہیں کیا جاسکتا، جب تک وہاں زندگی سے متعلقہ معاملات کا تجزیہ نہیں کرلیا جاتا۔اس سے قبل اس کے بارے میں قائم کیا گیا ہر تصور زمینی ہوگا۔ زمین پر سائنسی کارنامے سرانجام دیے گئے تو مریخ کا تصور ابھرا۔ ہم نے مریخ کا جو بھی تصور قائم کر رکھا ہے، وہ سائنسدانوں کا پیش کردہ ہے، نہ کہ شاعروں کا۔ اس طرح کائنات کے دیگر پہلوؤں پر تمام تصورات سائنسدانوں کے پیش کردہ ہیں، نہ کہ شعراء کے، بے شک وہ ثابت ہوئے ہیں یا ابھی ان کا ثابت ہونا باقی ہے۔ شہزاد صاحب خود بھی اپنے خطبے میں سائنسدانوں کے حوالے ہی دے رہے ہیں، جبکہ خطبے کا موضوع شاعری معلوم ہوتا ہے۔ اس نکتے پر مزید غور کرتے ہیں۔ راقم کا کہنا ہے کہ اگر خلاء کو بھی موضوع بنایا جائے تو خلاء کا ہر تصور اورفن کار کی قوتِ’ متخیلہ‘، مشاہدے کے اعتبار سے ،زمان و مکاں کی حدود کے پابند رہتے ہیں۔ ژاک دریدا کا دیگر فلسفیوں کی طرح یہ کہنا درست ہے کہ ثقافتی عمل زمان و مکان کی حد میں واقع ہوتا ہے، اس سے اس عمل کی تفہیم ہوسکتی ہے۔سائنسدان پہلے کمال بصیرت کا مظاہرہ کرکے ایک دوربین بناتا ہے، دوربین کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد ماورائی عمل نہیں ہوتا، بلکہ ایک سماجی تشکیل ہے،جس کا ایک مخصوص ہدف ہوتا ہے۔ دوربین سائنسدان کی قوتِ متخیلہ کو حد عطا کرتی ہے،اس کی حسیات کے تفاعل کو اجاگر کرتی ہے۔حد سے یہاں مراد ہے جاننا، حد پر ایک اور امکان ضرور ہوتا ہے، جو حد سے پرے ہے، مگر جاننے کا عمل حد متعین کئے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ جاننے کے وقت وہ لامحدود (Infinity)نہیں رہتا، کیونکہ لامحدود کی ہر صورت ’محدود‘ میں ہی جانی جاسکتی ہے۔
مغربی فلسفیوں نے سائنس کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ڈیکارٹ، لیبنیز، کانٹ، وغیرہ وغیرہ فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ ماہرِ فلکیات بھی تھے ۔ ان کا فلسفہ و فکر سائنسدانوں کو رہنمائی مہیا کرتا رہا۔ انھوں نے سائنسدانوں کو تجربات اور زمان و مکاں میں مختلف طریقوں سے جھانکنے کے لئے مواد فراہم کیا۔مثلاََ کانٹ ’تنقید عقل محض‘ کے پہلے باب میں زمان و مکاں جیسے مشکل سبجیکٹ کے بارے میں لکھتا ہے کہ آج اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ کل مکاں کا ڈھانچہ تبدیل ہوجائے، تو ہمارے تجربے کی نوعیت یکسر بدل جائے گی، وہ اصول جن کی بنا پر مکاں اور اس میں موجود معروض کا جو علم ہم رکھتے ہیں زمان میں اپنی نوعیت کو تبدیل کرسکتے ہیں۔کانٹ کا خیال ہے کہ اس صورت میں مکاں کے حوالے سے موضوعی ترکیبی وحدت جو اصولوں کی تبدیلی سے قبل موجود ہوتی ہے، مکاں کی ترکیب کا مواد بدلنے سے تبدیل ہوجاتی ہے۔ مکاں کی مختلف نوعیت پہلے والے سبجیکٹ کی پہنچ سے باہر رہتی ہے ۔ کانٹ کا یہ تجزیہ ہم آج بیشتر لوگوں سے سنتے ہیں۔
میں سائنسی قضایا کی بجائے اپنی توجہ شاعری پر مرکوز رکھنا چاہتا ہوں، کیونکہ میرا خیال ہے کہ مغرب میں اگر شاعروں نے فلسفیانہ شاعری کی ہے تو کسی نہ کسی فلسفی سے متاثر ہوکر ہی ایسا کیا ہے۔جیسا کہ ایلیٹ پر برگساں کے تصور زمان کی گہری چھاپ ہے۔ کولرج ، کانٹ اور شیلنگ کا شدت سے قائل تھا (ویسے کیا اردو میں بھی فلسفیانہ شاعری ہوئی ہے؟ شاید اقبال نے کی ہے)۔
شہزاد احمد نے جو کچھ کہا ہے ،اس میں صرف ہیئتِ محض کو مدنظر رکھا ہے۔فلسفیانہ نقطہء نظر سے عمانوئیل کانٹ اس حقیقت کو واضح کرچکا ہے کہ تفکر کا معروض جب خود تفکر ہو، تو اس کی نوعیت معنی کے اعتبار سے منفی ہوتی ہے۔ راقم کو ’لاشے‘ کے عدم ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے ، مگر ’لاشے‘ ہمیشہ کسی ٹھوس شکل میں معنی پاتی ہے۔ ژاک دریدا کو ہی دیکھیں اس کا معنی افتراق کی حتمیت اور تضاد سے عاری ہونے کی وجہ سے التوا میں رہتا ہے۔ اس طرح ’تجریدی اظہاریت‘ کی انگنت مثالیں مابعد جدیدیت میں موجود ہیں، جن کا کوئی تصور قائم نہیں کیا جاتا ،کیونکہ یہ تصور کے خلاف ہے(تصور سے یہاں مراد سگنیفائڈہے، کانٹ یا ہیگل کے مفہوم میں اس کو ’تصور‘ کہتے ہیں)۔ بعض مفکر یہ کہہ سکتے ہیں کہ فنکار کی ذات کی گہرائی کے امکان کو واضح کرنا اس کی وجہ ہوسکتی ہے، مگر وہاں بھی فطرت کے خارجی(عین ممکن ہے داخلی) اور زمان و مکاں کی حیثیت کو وضع کئے بغیر معقول جواب نہیں دیا جاسکتا۔ راقم کو کانٹ سے اتفاق ہے کہ معروض سے عاری تجرید’ منفی‘ ہوتی ہے،جب تجرید کا تذکرہ ہو تو یہ ذہن میں رہنا چاہیے، کہ اس میں فہم، ادراک، اور تعقل کا تفاعل غیر اہم ہوجاتا ہے۔محض تخیل ہے، جس میں خیال خود اپنے گرد گردش کرتا ہے۔وہ اس وقت مفہوم حاصل کرتا ہے جب مشاہداتی نکتے پراپنے کردار کو دیگر قوتوں کے ساتھ آشکار کرئے۔(ہو سکتا ہے کہ ژاک دریدا اس نکتے کا انکار کردے، مگر اس کے باوجود مشاہدے کے اعتبار سے مکاں کا انکار نہیں کیا جاسکتا، مشاہدہ یا ادراک کہیں نہ کہیں سے ضرور ہوتا ہے،)کانٹ’تنقید عقل محض‘ Critique of Pure Reason کے سیکشن’تحلیل ْقضایا‘ کے تیسرے باب میں وضاحت سے بیان کرتا ہے کہ بغیر تصور معروض کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ وہ خالی ہے، اس کے جوڑ کا کوئی مشاہدہ نہیں ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس میں تناقض بھی نہیں ہے، اس لئے کوئی معروض جو بے تصور ہو، وہ ہوتا تو بغیر معروض کے تصور کی ضد ہے مگر وہ اپنے تصور کو بھی جان نہیں پاتا کیونکہ اس میں جاننے کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔ خالی کا مطلب یہ کہ وہ ’خیال محض‘ ہے،جس کا موضوع خود خیال ہے،’بعُد‘ کا تصور ہی ’مکاں‘ کے تصور کو کوئی معنی دیتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ ’بعُد ‘رکھنے والے کسی تصور کو احاطہء ادراک میں لایا جائے۔
شہزاد احمد کی وضاحت کے بعد اردو شاعری کے حوالے سے کئی اہم سوال ذہن میں ابھرتے ہیں کہ جس ’متخیلہ‘ کو اردو کا شاعر استعمال کرنا چاہتا ہے، اسے کس ہیئت کے تحت لانا چاہتا ہے، ’متخیلہ‘ ایک انتہائی طاقتور چیز ہے، چلیں اسے درست تسلیم کرلیا۔اب سوال یہ ہے کہ اردو شاعری ایک طویل عرصہ سے جس ہیئت میں لکھی جارہی ہے، یہ کیسے ممکن ہوگیا ہے کہ’ متخیلہ‘ خود کو اس سے باہر نہیں نکال رہی؟ کانٹ سیکشن ۴۹میں وضاحت کرتا ہے کہ ’متخیلہ‘ کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب ایک ہی ہیئت میں کئے گئے تجربات گھس پٹ جاتے ہیں، اس وقت ایک نئی ہیئت کی ضرورت ہوتی ہے، پرانی ہیئت کو رٹا لگانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ نئی ہیئت کے لئے (متخیلہ کی تبلیغ تو کی جارہی ہے) ’متخیلہ‘ سے کوئی تخیلی کام نہیں لیا جارہا۔تضاد تو ہیئت اور مواد کے تعلق کے حوالے سے ابھرتا ہے۔ اگر خیالات میں فطرت کے برعکس ایک نئی فطرت کو تخلیق کرنا ہے، تو اس کے لئے گھسی پٹی ہیئت کو کیسے بروئے کار لایا جاسکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی معنوں میں’ متخیلہ‘ کو’ متخیلہ‘ سمجھا ہی نہیں جا رہا۔ کانٹ سائنس اور شاعری کو اکتسابی عمل کی بنیاد پر ممیز کرتا ہے۔اکتساب کا عمل بذات خود ایک طرح کا سماجی عمل اور سماجی تشکیل ہے۔ ’تنقید جمالیات محض کے سیکشن ۴۷میں لکھتا ہے کہ ’’نیوٹن نے جو کچھ لافانی کام کیا ہے، ہم اسے فطری سائنسوں کے اصولوں کی بنیاد پر سیکھ سکتے ہیں، اس کے لئے جتنی ذہنی مشق کیوں نہ کرنی پڑے، لیکن روحانی شاعری کوسیکھا نہیں جاسکتا، چاہے فنی اصول اور نمونے کتنے ہی شاندار کیوں نہ ہوں‘‘ (ص، ۱۹۰)
(میں روحانی شاعری پر اپنے خیالات کا اظہار یہاں پر نہیں کررہا، کیونکہ اس سے موضوع کو ایک نئی جہت میں زیرِ بحث لانا ہوگا)۔یہ تو متخیلہ کی قوت کو واضح کرنے کے لئے ہے، جس میں تقلید کا کوئی بھی پہلو نہیں ہوتا، نہ ہی ہیئت کے اعتبار سے اور نہ ہی مواد کے حوالے سے۔ جو ہیئت ایک قدیم عرصے سے’ متخیلہ‘ کو حصار میں لئے ہوئے ہو، اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں فطرت سے ایک الگ فطرت تخلیق ہورہی ہے۔یہ خود کو تسلی دینے کے لئے تو کافی ہے، مگر فلسفیانہ قضایا میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔کانٹ کا کمال یہ ہے کہ وہ تخیل کی حدود کو وضع کرتا ہے، گو کہ کانٹ میں نئی فطرت کی تخلیق کے حوالے سے چند منطقی خرابیاں ہیں، لیکن یہ اس کے موضوعی خیال پرست فلسفے کا تقاضا ہے۔ میں خط کے اختتام سے پہلے ’متخیلہ‘کی مزید وضاحت کرنا چاہتا ہوں، جس سے یہ عیاں ہوسکے کہ ’متخیلہ‘ کی حدود کیا ہیں، یہ کن عوامل پر گرفت کرسکتی ہے اور کونسے عوامل اس کی گرفت سے باہر رہتے ہیں؟ ابھی میں نے کانٹ کے فلسفے میں’ متخیلہ‘کے تفاعل کو عیاں کیا ہے، کانٹ کے مطابق اس میں سے تضاد کا خاتمہ ہوجاتا ہے، اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا اس میں تناقض موجود ہی نہیں ہے یا پھر ’متخیلہ‘ اس پر گرفت ہی نہیں کرسکتی۔ہیگل کا خیال ہے کہ’ مواد کے اعتبار سے تخیل میں ہر طرف تضادات موجود ہیں،لیکن یہ کبھی ان کو جان ہی نہیں پاتی، اس لئے وہ خارجی عکس ہی رہتے ہیں، جو موافقت سے عدم موافقت اور منفی تعلق سے intro-reflectednessجیسی اصطلاحوں سے گزرتی ہے‘‘ (بحوالہ، لینن کی فلسفیانہ نوٹ بک، ص، ۱۴۲)۔ اس نقطہء نظر کے مطابق ’متخیلہ‘ کی حدود کو نہ جاننے کی وجہ ہی سے توہم کے لئے راستہ کھلتا ہے۔( ممکن ہے واہمے کو صحیح سمجھنے والے متخیلہ کی حدود کا تعین کرنے سے قاصر ہوں)۔ہیگل بڑی باریکی سے تعقل، استدلال، اور ذہانت جیسے عوامل کی وضاحت پیش کرتے ہیں۔ تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ اس موضوع کو صریح انداز میں لینن اپنی فلسفیانہ نوٹ بک میں واضح کرتے ہیں۔ لینن انتہائی باکمال طریقے سے ’عام تخیل‘، ذہانت اور فہم جیسی اصطلاحات کی حدود کی نشاندہی کرتے ہیں۔ لینن کہتے ہیں کہ ’’عام تخیل، افتراق اور تضاد کو گرفت میں لے سکتا ہے، لیکن ایک سے دوسرے میں عبوری لمحے کو گرفت میں نہیں لے سکتا، یہ نکتہ انتہائی اہم ہے۔۔۔ذہانت تضادات پر گرفت کرسکتی ہے، اسے بیان کرسکتی ہے ، اسے دوسری اشیاء سے تعلق میں لاسکتی ہے، تصور کو اجازت دیتی ہے کہ وہ خود کو تضادات میں دکھائے، لیکن اشیاء کے تصور(Concepts) اور اس کے باہمی تعلقات کا اظہار نہیں کرسکتی ، فہم افتراقات کو مزید تیز کرسکتی ہے تخیل کے مختلف حصوں کو لازمی افتراقات اور تخالف میں تبدیل کرسکتی ہے،ایسا اس وقت ہوتا ہے، جب تضادات شدت اختیار کرجاتے ہیں، اسی وقت متعدد عوامل ایک دوسرے سے تعلق کے حوالے سے متحرک ہوجاتے ہیں ‘‘ فلسفیانہ نوٹ بک، ص، ۱۴۳)۔یہاں پر یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ لینن نے فہم، تخیل، اور ذہانت کے کردار کو منطقی طریقے سے واضح کیا ہے۔ جب ذہن میں کوئی بھی تصور واضح نہ ہو تو اس وقت ’متخیلہ‘ کا سہارا لے لیا جاتا ہے، یہ سمجھ کر کہ اب کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہی، خدا کے نام پر کسی قوت کا ذکر کیا اور پھر اس لفظ کو دلیل سمجھ لیا جاتا ہے، جس سے سارے مسائل بھی ’متخیلہ‘ میں ہی حل کرلئے جاتے ہیں۔جب بھی انسان میں پوشیدہ قوتوں کا ذکر کیا جائے تو ان کی حدود کی نشاندہی کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ تب ہی کسی بات کو معقول طریقے سے پیش کیا جاسکتا ہے۔شہزاد صاحب نے یہ کہا ہے کہ شاعری فلسفے سے دور ہوئی ہے لیکن سائنس کے قریب ہوگئی ہے، ’متخیلہ‘ کا ذکر کر کے یہ شعر پیش کرتے ہیں: یہ توہّم کا کارخانہ ہے یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
ان کا خیال ہے کہ یہ سائنسی شعر ہے، ان کی نظر میں یہ سائنسی ہو سکتا ہے، لیکن یہ شعر کم از کم قدیم فلسفے سے دور نہیں ہے۔ چوبیس سو برس پہلے یونان میں پیدا ہونے والے فلسفی انیکساغورس کا تمام فلسفہ اس ایک خیال کے گرد گردش کرتا ہے۔جدید دور میں جرمن فلسفی نٹشے کی فاشسٹ آئیڈیالوجی اور بیسویں صدی کی مابعد جدیدعلمیات اسی فاشزم کا اظہار ہے، کہنا یہ ہے کہ اس شعر کے خالق کی نظر کسی فلسفی کے خیالات پر ضرور ٹکی ہوگی۔ اگر یہ ’متخیلہ‘ شاعری ہے، جو فلسفے سے دور ہوگئی ہے تو اس پر صرف افسوس کا ظہار کیا جاسکتا ہے۔
یہ خوش آئند خبر ہے کہ مغرب کی درسگاہوں سے مابعد جدیدیت کے مباحث خارج کئے جارہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لایعنی مباحث کا دور جس کا تعلق طبقاتی تضادات کے باوجود مغربی میعارِ زندگی سے تھا، اس میں دبے ہوئے تضادات انسانوں کے خون میں اپنی تحلیل کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔مابعدجدید مفکر خود محسوس کرنے لگے ہیں کہ نہ ہی ادبی متن میں اور نہ ہی خارجی متن ( دنیا) میں ’ میٹا متن‘ کا حوالہ ختم ہوا ہے۔اخلاقیات، اقدار، شناخت، مذہب جیسی اصطلاحات کا کردار اہم ہوتا جارہا ہے۔اب سنجیدہ مباحث کے لئے راستہ ہموار ہورہا ہے۔
قریشی صاحب! خط کی طوالت کا مجھے احساس ہے، چونکہ آپ نے اہم نکات پر ’گفتگو‘ کی ہے، اس لئے ان پر آپکو اپنی رائے سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔ آخر میں صرف یہی کہ ادارہ ’جدید ادب‘ کی کاوشوں سے نئے ادبی رجحانات کی مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق میں آگاہی کا سلسلہ شروع ہوگیاہے۔ اس پر ادارہ ’جدید ادب‘ کی کاوشیں لائقِ تحسین ہیں ۔آپ کا مخلص عمران شاہد بھنڈر(برطانیہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کی نئی بستیاں؟
’’ یہ وہ لوگ ہیں جو بیس تیس سال پہلے روزی روٹی کے چکر میں باہر گئے تھے۔کچھ عرصہ تو انہوں نے خوب دل لگا کر ڈالر اکٹھے کیے،جب جیبیں بھر گئیں تو جڑوں کی تلاش کا مسئلہ ستانے لگا۔چنانچہ بیرون ملک منعقد ہونے والے اردو زبان کے مشاعروں اور کانفرنسوں میں آنا جانا شروع کر دیا۔بعد ازاں اپنی کمیونٹی میں نمایاں ہونے کا شوق اُنہیں ادب کی طرف لے آیا۔لیکن بے ہنر ہونے کے باعث انہیں پاک و ہند کے ادبی منشیوں کی خدمات حاصل کرنا پڑیں۔آجکل پاک و ہند کے ضمیر فروش شاعرڈالروں کے عوض ان جعلی شاعروں کے لیے دھڑا دھڑ شعری مجموعے تخلیق کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔جہاں تک میرا تعلق ہے میں توہمیشہ ہی سے ادب میں جعل سازی کے خلاف آواز اُٹھاتا چلا آرہا ہوں۔ اور اپنے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے میں بھی اس ظلم کے خلاف مزاحمت کی ہے،مگر ہمارا عمومی رویہ یہی ہے کہ جب یہ جعلی اہلِ قلم ہمارے ہاں آتے ہیں تو ہم ان کے اعزاز میں ہونیوالی تقریبات کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے ان میں جانے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔‘‘
(اقتباس از انٹرویو ڈاکٹرجواز جعفری ’’ اردو زبان کا بیرون ملک کوئی مستقبل نہیں‘‘انٹرویور: کاظم رضا
مطبوعہ روزنامہ نوائے وقت، لاہور،ادبی صفحہ انٹرنیٹ ایڈیشن۔۴اپریل ۲۰۰۸ء)