شبانہ یوسف(انگلینڈ)
ہمارے ارد گردپھیلی وسیع کائنات کے بارے میں تجسس کا جذبہ ہر انسان میں پایا جاتا ہے۔ انسان اس بے حد و بے انتہا دنیا کی پہیلیاں جاننا چاہتا ہے، چاہے وہ بطور خاص سیاسی و سماجی ،سائنسی و تیکنیکی، فکری و نظری سرگرمیوں سے وابستہ ہو یا عمومی سطح پر، اپنی زندگی اور مستقبل میں دلچسپی ضرور رکھتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ مختلف طبع کے افراد کی توجہ کا مرکز بھی مختلف موضوعاتِ زندگی ہوتے ہیں۔ فطرت کے عناصر، اشیاء، کائنات اور انسان کے باہمی تعلق کو سمجھنے کے لئے علم درکار ہوتا ہے اور ان سے متعلق اُٹھنے والے سوالات کے حل کے لئے فلسفے کو سمجھنا ضروری ہے ۔فلسفہ یونانی لفظ ہے جس کا معنی دا نش سے محبت ہے اورعلم سے محبت کا یہ سفر بطورِ خاص قدیم یونان کے خوبصورت شہر ایتھنز سے شروع ہوتا ہے۔ فلسفہ ایسا علم ہے جس کے بارے میں مختلف مکتبہءِ فکر کے خیالات متضاد رہے ہیں لیکن بنیادی طور پر سب زندگی کی معنویت کی آگہی چاہتے ہیں اس لئے زندگی اور کائنات کی تفہیم کے لئے فلسفے کے علم کے استعمال پر اصرار کرتے ہیں اور کچھ مذہبی اعتقادکی بناء پر یہ خیال کرتے ہیں کہ فلسفے کی جڑیں تشکیک میں پیوست ہیں اس لئے مذہب کے لئے سودمند نہیں ہوسکتا کہ مذہب کے دامن میں تو عقیدوں کے پھول کھلتے ہیں سو عقیدے اور دلیل کا سمجھوتہ ممکن نہیں۔ ان تمام اختلافات کے باوجود فلسفہ کچھ معاشروں میں تیزی سے پھیلا پھولااور کچھ میں سرے سے ہی فلسفیانہ فکر کا فقدان رہا۔یہ زندگی، کائنات،اشیاء اور انسان کے تعلق کو واضح کرسکا یا نہیں اس بات سے قطعءِ نظر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جن اقوام کاطرزِ فکر سائنسی و فلسفیانہ رہا اُنھوں نے دوسری اقوام کی نسبت زیادہ تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں،کیونکہ وہ اپنے مسائل سے آگاہ رہے ہیں ۔کسی بھی نظام کی تبدیلی میں اپنے سماجی و سیاسی اور معاشی و تعلیمی مسائل سے آگاہی ہی کار فرما ہوتی ہے جو لوگوں کو شعور عطا کرتی ہے اور شعور ہی عمل کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔بالکل اس طرح جس طرح ایک ڈاکٹر کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ پہلے کسی بھی مرض کی تشخیص کرے پھر وہ شناخت ہی مریض کا علاج ممکن بناتی ہے۔اسی طرح ترقی کی راہ میں حائل سماجی مسائل کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے لئے اُن کی پہچان ہونا بہت ضروری ہے کہ تعمیری سرگری باشعور لوگوں کا خاصہ ہوتی ہے۔علم ہی وہ اوزار ہے جو ہمیں نہ صرف حوصلوں سے لیس کرتا ہے، بلکہ کامیابی سے بھی ہمکنار کرتا ہے۔
علم کی وادی تک رسائی جستجو کی گزرگاہوں سے ہوتی ہے جن میں بھٹک جانے کا امکان دور از قیاس نہیں مگر یہ جستجو اور سچائی کی تلاش ہی در حقیقیت تلاشِ ذات و کائنات ہے۔ بظاہر زندگی میں سب سے اہم بات یہی لگتی ہے کہ انسان کی افزائش کے لئے اس کی بنیادی ضرورتیں یکساں طور پراحسن طریقے سے پوری ہوں۔جب یہ بنیادی ضرورتیں بھی پوری ہوجائیں تو پھر بھی فلسفیوں کے مطابق ایسا کچھ باقی رہتا ہے جس کی ضرورت ہر باشعور انسان محسوس کرتا ہے اور وہ تلاشِ ذات و کائنات ہے کہ ہم کون ہیں دنیا میں کیوں ہے یہ دنیا کیسے وجود میں آئی اور کیا موت کے بعد زندگی ہوگی؟ان سوالات کا یہ قافلہ صدیوں سے انسانی ذہن میں محوِسفر ہے۔ آج کوئی بھی سماج اور معاشرہ ایسا نہیں جو اس بات سے تعلق نہ رکھتا ہو اور کسی حد تک زندگی کی معنویت دریافت نہ کر چکا ہو( زندگی کی معنویت سے میری مراد یہاں زندگی کا ’مقصد‘ یا ’جوہر‘ ہے)۔ ہر انسان کے درِ خیال پر اک لمحہ ایسا ضرور دستک دیتا ہے جب وہ اپنی ذات کے بارے میں سوچتا ہے اپنے وجود کی حقیقت جاننے کے لئے بے قرار ہوتا ہے یہ بے قراری راہروءِ حیات کے عام مسافر کے ہاں لمحاتی سطح پر اپنی جھلک دکھاتی ہے اور معدوم ہو جاتی ہے لیکن کچھ خاص لوگوں میں تجسس کا ایسا شعلہ بھڑکا جاتی ہے کہ اُن کی پوری زندگی اس لمحے کی زد میں آجاتی ہے اور وہ اپنی بے قراری کا قرار ڈھونڈنے کے لئے نکل پڑتے ہیں ۔ یہیں سے ان پر حیرتوں کے در وا ہونے لگتے ہیں ۔یونانی فلسفیوں کا خیال ہے کہ فلسفہ انسان کے حیرت بھرے احساسات سے جنم لیتا ہے اور حیرتوں کے یہ موسم اہلِ یونان پر اور جرمنی و فرانس پر یکِ بعدیگرے بہت مہربان رہے ہیں ۔ انھی رتوں میں نئی نئی سماجی و سیاسی ، ادبی و تنقیدی تھیوریاں اور فلسفیانہ تحریکیں پنپتی رہتی ہیں۔اسی طرح کی ایک تحریک وجودیت (Existentialism)کے نام سے بیسویں صدی میں مغربی یورپ میں مستحکم ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ امریکہ کی ریاستوں تک پھیل گئی۔اس کو فلسفیوں کی ایک جماعت نے استحکام بخشا۔یہ خصوصی طور پر فرانسیسی فلسفی و ادیب ژاں پال سارتر سے منسوب ہوئی۔
وجودیت ایسی تحریک ہے جسے سمجھنا اس لئے بھی مبہم ہے کہ اس سے تین قسم کے اعتقادات و افکار کے حامل فلسفی وابستہ تھے ایک وہ جن کاتعلق مذہب(Theistic)سے تھا دوسرے جو لا ادّری(Atheistic)تھے اور تیسرے (Agnostic)جو اپنے پسند کیے ہوئے عمل کو ہی سب سے بڑی سچائی تسلیم کرتے تھے۔ان سب کو جوچیز’ وجودی فلسفی ‘بناتی ہے وہ ان کی بنیادی فکرہے جس پر سب کا یقین پختہ ہے کہ ہر قسم کے علم کا مآخذ ’وجود‘ (Being)ہے جو اپنی زندگی کو معنویت خود اپنے عمل سے عطا کرتا ہے اور اپنے ’وجود ‘ سے ہر قسم کے ’معنی ‘ کا شعور حاصل کرتا ہے۔سارتر کے مطابق وجودیت کا پہلا اصول ہے کہ:
Man is nothing else but that which he makes of himself.
(Existentialism is a Humanism,1946)
اور اسی کو ’موضوعیت‘ پسندی کا نام دیا گیا۔سارتر کے مطابق آدمی تمام ’موجودات‘ سے پہلے ہے اور دنیا میں موجزن ہے اس کا پہلے سے کوئی ’مقصد‘ متعین نہیں ۔اس لئے وہ اپنی تعریف خود اپنے عمل سے کرتا ہے کیونکہ وہ ’نیستی ‘(Nothingness)سے آغاز کرتا ہے اور وہ وہی کچھ ہوگا جو وہ خود کو بنائے گا۔وہ انسانی فطرت اور خدا کے وجود سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سماج میں ایمانداری،انصاف ،سچائی اوراخلاق جیسی اقدار خدا سے منسوب کی جاتی ہیں اگر خدا موجود نہ ہوتوکیا انسانی زندگی میں ان کے ہر قسم کے جواز کو بھول کرتمام برائیوں کی اجازت ہوگی؟ اسکی وجودیت کا یہی نقطہءِ آغاز ہے جسے وہ سوالیہ انداز سے اُٹھاتا ہے۔ وجودیت کی جڑیں اُنیسویں صدی میں کیرک گارڈ اور نٹشے کے ان افکار میں ملتی ہیں کہ’’انسانی فطرت اور انسانی شناخت اس بات پر منحصر ہے کہ ان کے عقائد و اقدارکیاہیں؟‘‘کے کے گارڈ پہلا فلسفی تھا جس نے ہیگل کے فلسفیانہ نظام پر تجریدی اور غیر عقلی تنقید کی۔ اس کے نزدیک فرد(عورت یا مرد) کو اختیار ہے کہ وہ بغیر کسی سائنسی و فلسفیانہ علم کی بنیادوں کے جو چاہے بن جائے۔ سب سے پہلے کے کے گارڈ نے ہی Existenceکا لفظ استعمال کیا جو ’موجودگی‘ کے معنی میں تھا بعد میں اسے ’وجودیت ‘ کے طور پر مستحکم کیا گیا ۔ کیرک گارڈ کے علاوہ ’وجودیت‘ کے ارتقاء میں جرمن عینیت پرست فلسفی ایڈمنڈ ہسرل کا اثربہت گہرا ہے۔ ہسرل کے مطابق کسی بھی علم کی جستجو کا مرکز شعور ہے اس کا خیال ہے کہ کسی شئے کا شعور بھی درحقیقت شعور کے مرہونِ منت ہے وہ مظاہر فطرت پر یقین رکھتا تھا اس نے انفرادی موضوعیشعور پر کانٹ ہی کی طرح یقین کرتے ہوئے کہا کہ ایک مظہریت پسند اس بات میں دلچسپی رکھتا ہے کہ اشیاء شعور میں خود کو کس طرح ظاہر کرتی ہیں بہ نسبت اس بات کے کہ وہ حقیقت میں کیسی ہیں،مگر کانٹ شعوری سطح پر ظاہر ہونے والی اشیاء کی تصدیق معروض میں ضروری سمجھتا ہے، اس کے مطابق حقیقی اشیاء یا شئے بالذات کا علم ممکن ہی نہیں،جبکہ ہسرل باقاعدہ اصرار کرتا ہے کہ ’شئے‘ انسانی شعور سے باہر موجود ہی نہیں۔ اس کے نزدیک انسانی زندگی اور خارجی اشیاء کی حقیقت وہیں تک ہے جہاں تک وہ خود کو شعور میں ظاہر کرتی ہیں اس کے نزدیک اس طرح حاصل ہونے والاکسی شئے کاشعور علمِ محض نہیں، بلکہ یہ ایک عمل کا نتیجہ ہونے کی وجہ سے موضوع اور معروض کے باہمی اتصال پر مبنی تجربہ ہے جس سے انسانی شعورگزرتا ہے۔ فلسفہء مظہریت میں یہی خیال کارفرما ہے کہ انسانی ذہن ہی ہر قسم کے معنی کا مآخذ ہے انفرادی اور موضوعی شعور پر بڑھتا ہوا اصرا ربلآ خر بیسویں صدی میں ’وجودیت‘ کا روپ دھار گیا۔جسے مارٹن ہیڈیگر نے مزید مضبوط کیا۔
اگرچہ مارٹن ہیڈیگر زبان میں تاریخ کے تصور میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا مگر ہسرل کے زیرِ اثر ہونے کی وجہ سے وہ ’وجود‘ کے سوال کو نظر انداز نہ کرسکا۔ ہیڈیگر ہسرل ہی کے زیرِ اثر سمجھتا ہے کہ انسانی وجود کی حقیقت ’دیا ہوا ہونا‘(DADEIN)ہے جس میں اس کا کسی بھی طرح کا کوئی اختیار نہیں سوائے اس کے کہ جس حد تک شعور وجود کی حالت کو سمجھ سکتا ہے اسی حد تک ہماری دنیا ہے جس میں ہم باہم متشکل ہوتے ہیں ۔ہماری’ حالت‘ بدیہی ہوتی ہے اور یہی بدیہیت ہماری سوچ اور زندگی کا تعین کرتی ہے۔اسی لئے وہ سوال کرتا ہے کہ
Why should there be being at all when there could be nothingاس کا خیال ہے انسان اپنے عارضی وقت اور محدود دنیا میں اپنا معنی خود تعمیر کرے ۔ہیڈیگر انسانی وجودکو سمجھنے کے لئے ڈلتھے کی Studies of Manسے متاثر ہوکر تفہیمیت کو علم کے حصول کے لئے بہترین طریقہ کار سمجھتا ہے جو اس کے لئے سائنس سے بڑھ کر کارگر ہے اس لئے اس نے تفہیمیت ّ(Hermeneutic)، جس کی بنیاد جرمن اسکالر فریڈرک سچلر ماشرے نے اعلی اور کلاسیکی متون کو سمجھنے کے لئے رکھی تھی ، کو ’وجود سے متعلق سوالات کی تفہیم کے لئے استعمال کیاہے اس کے نزدیک تفہیمیت ایسا فلسفہ ہے جو ہر قسم کے علم کو سمجھنے کے لئے کلید کی حیثیت رکھتا ہے خاص طور پر انسانی وجود کے ارتقاء میں ہیڈیگر سب سے بڑی رکاوٹ سائنس کو سمجھتا ہے اس کا خیال ہے کہ انسانی حیات کا مقصد سائنس اور سماجی عمل سے نہیں سمجھا جاسکتا،بلکہ by an inward-turning orientation one,s self, وجودیت کی تحریک پر ہیڈیگر کے ان خیالات کا اثر ناقابلِ انکار ہے گو کہ بعد ازاں وہ اپنا دامن وجودیت سے چھرانے کی بہت کوشش کرتا رہا مگر وجودی فلسفی کی مہر اس پر اس لئے بھی چسپاں رہی کہ وجودیت نے اس کے انھی خیالات پر مضبوطی پکڑی اور یہی خیالات مابعد جدید فکر میں بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ،وجودیت میں پائی جانے والی مایوسی نے مابعد جدیدت کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔ بظاہر جدیدت وجودیت سے انحراف معلوم ہوتی ہے مگر کئی پہلوؤں سے اسی کے قریب ہے ۔
جس فلسفی کا نام اور کام ’وجودیت کے حوالے سے سب سے زیادہ موضوعِ بحث بنا رہا وہ ژاں پال سارتر ہے۔ان مباحث کی وجہ Being And Nothingnessسے زیادہ اس کی دوسری کتابCritique of Dialecticalہے جو اس نے اپنی پہلی کتاب کی خامیاں دور کرنے اور وجودیت کومارکسزم کے ساتھ ملانے کے لئے تحریر کی۔ وہ ایسا ڈرامہ و ناول نگار تھا جن کو لکھنے کا فن بطورِ خاص ودیعت کیا گیا مگر بحیثیت فلسفی وہ زیادہ مقبول ہوا۔ وہ وجودیت کے اُن فلسفیوں میں سے ہے جو خدا پر یقین نہیں رکھتے ۔ سیاسی سطح پر وہ خود کو کمیونسٹ کہتا ہے اور مارکسی فلسفی ہربرٹ مارکوزے کے مطابق’’ اس کا تھوڑی دیر کے لئے سیاسی ریڈیکل ہونا ہی اس کی تھوڑی بہت کامیابی کی وجہ ہے۔‘‘ یہ سارتر کی شہرت کا اثر تھا کہ عمومی سطح پر لوگوں نے اس کی فلسفیانہ فکر کو سمجھے بغیر ہی خود کو فیشن کے طور پر’وجودی ‘کہنا شروع کر دیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فلسفیانہ تحریکیں اورنظریات سیاسی و ثقافتی سرگرمیوں میں مختلف نوع کے افراد کے لیے تنقید و تشریح کا وسیلہ بن جاتے ہیں اور یہی وجوہات غیر سنجیدہ فلسفیانہ مباحث اور تنقیدی رویوں کو جنم دیتی ہیں۔ہمارے ہاں یہ رویے نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
سارتر اپنے مضمون Existentialism is a Humanismمیں لوگوں کے رویوں پر افسوس کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو وجودیت کی اصطلاح کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں مگر جب ان سے اس کی تعریف پوچھ لی جائے تو وہ کنفیوزہو جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ وہ لوگ اپنی اس حالت میں بھی وجودیت میں دی گئی ’انتخاب ‘ کی آزادی کا استعمال کرتے ہوئے وجودیت کی روح کا اطلاق اُسی پر کررہے ہو تے ہیں۔ جیسا کہ سارتر کہتا ہے ہر کسی کو اختیار ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ’انتخاب‘ کرے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنے کس عمل کے ذریعے ’معنی‘ پیدا کرتا ہے۔ وہ اس آزادی پر اس لئے اصرار کرتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ کوئی معمولی کاریگر بھی جب کوئی چیز بناتا ہے تو اس کے ذہن میں اس چیز کا ’جو ہر‘Essence) ) پہلے موجود ہو تا ہے،جبکہ اس کے مطابق خدا کی عدم موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ:
Forman, existence precedes essence,(Existentialism is a Humanism, 1946) وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ شعوری نظام شفاف اور مضبوط اصولوں کی پیروی کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ تمام جھوٹ معروض کے پیدا کردہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان اپنے منتخب رستے پر چلتا ہے تو اس کے اندر ایک ’بے چینی‘ پیدا ہوتی ہے اور’ بے یقینی‘ کو جنم دیتی ہے ، جو سارتر کے نزدیک فیصلے کی ذمہ داری کی وجہ سے ہے اور جو لوگ اس سے فرار ڈھونڈنے کے لئے سماج کی مروجہ اقدار اور رسم و رواج کے مطابق زندگی گزار دیتے ہیں ان کے ’اعتقادبُرے‘ ہیں’برے عقیدوں ‘کی وضاحت وہ اپنی کتاب میں اس طرح کرتا ہے کہ’ جو لوگ سچائی کو جانتے ہوئے بھی اخلاقیات و معاشرتی اقدار کو نبھانے کی خاطرجھوٹ پر عمل کرتے ہیں اس کے مطابق وہ اپنے شعور میں سچائی کو پوشیدہ رکھتے ہیں کیونکہ
A man does not lie about what he is ignorant of.(Being & Nothingness, 48)
سارتر انسانی فطرت کے فلسفے سے متعلق اُن حقیقتوں کو بیان کرتا ہے جو دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ سمجھتا ہے کہ
Being-for-themselvesاپنا تعلق دوسری اشیاء سے اور اُن کا ایک دوسرے سے تعلق Being-for-itselfکے ذریعے سمجھ سکتا ہے۔ کانٹ کی ’شئے بالذات‘ہی کی طرح اس کا خیال ہے کہ Being-in-themselvesجو آزادانہ طور پر دنیاکی تمام اشیاء میں موجود ہے ہم اس ’شئے ‘ کا شعور نہیں کرسکتے,مگر کانٹ کے برعکس سارتر جب اس ’شئے‘ کا شعور حاصل نہیں کرسکتا تو مایوسی کا شکار ہوکر اس کی موجودگی ہی سے انکار کردیتا ہے۔اس دنیا میں کسی بھی قسم کا علم جو ’وجود سے متعلق نہیں وجودیت کے مطابق ’نیستی‘ ہے اور یہ ’امکان‘ کی جگہ مایوسی کے روپ میں ظاہر ہوتی ہے۔
سارتر بحث کرتا ہے کہ کسی بھی چیز کی ’شناخت‘ ہم وجودی انفرادی شعور میں کر سکتے ہیں۔اس لئے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے ہونے کاجواز خود پیدا کرے ۔اس کے مطابق اپنے اختیار کو استعمال کرنا ہی انسان کی ’تعریف‘ ہے وہ سماج کی کسی بھی ’لازمیت ‘کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے سوائے ’وجود‘ کی لازمیت کے ۔یہاں سماجی ’ لازمیت‘سے اس کی مراد سماجی اقدار رسم و رواج اور اخلاقیات سے ہے۔وہ کہتا ہے کہ ’ ’ہم اپنے ’ وجود ‘ کی تخلیق اور دنیا کے ساتھ اس کے تعلق کی وضاحت کے لیے آزاد ہیں ۔‘‘ وہ انفرادی’ فعالیت‘ کو اس لیے اہم گردانتا ہے کہ اُسے انفرادی ’شعور‘ نے اہم جانا ہے۔وہ اقدار کے کسی بھی معروضی پیمانے کو قبول نہیں کرتا۔مگر معاشرے کو سمجھنے کے لئے انفرادی شعور سے باہر اپنے سماج کی مادی حالت کو سمجھنا ضروری ہیجس سے در حقیقت انفرادی شعور کے ساتھ ساتھ مجموعی شعور کا ارتقاء ممکن ہے حقیقی آزادی تو اسی بات میں پنہاں ہے کہ انسان شعور پر غالب رہے بقول کارل مارکس:
It is not conciousness that determines being, but social being that determines conciousness.
عملی مادی سرگرمی ہی تمام علوم کے در وا کرسکتی ہے جب انسان خود کو سماج میں مادی دنیا کے ایک جزو کے طور پر دیکھنا شروع کردے تو انفرادی فعالیت کی بجائے مجموعی عملی سرگرمی کو ترجیح دینے لگتا ہے۔اس عمل سے ہی انفرادی شعور میں پنہاں اسرار کی جگہ سائنس لے لیتی ہے۔فرد بحیثیت سماجی اکائی کے اہم ضرور ہے مگر اس کی شناخت کا حقیقی مسئلہ تو سماج کے ساتھ مربوط ہونے اور فردیت سے باہر جنم لیتا ہے۔ اسی طرح سارتر کی ’وجودیت ‘ جو سماجی و تاریخی پابندی سے آزادی چاہتی ہے اس پر راجر گیراڈی اپنے ایک مضمون ’’راہروءِ گم گشتہ: ژاں پال سارتر‘‘ میں تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ’’ ہم ننگ دھڑنگ وحشی نہیں جن کا کوئی ماضی نہیں اور جو ایک ایسے جنگل میں آن پہنچے ہیں جہاں پہلے کوئی انسان نہیں آیا تا کہ ’انتخاب‘ کر سکیں‘‘۔
در اصل سارتر کی وجودیت میں خدا کی موجودگی سے انکار اور ’وجود‘ کی بے جواز تخلیق نے مایوسی کو جنم دیا۔ ہر انسان اندرونی طور پر دو حصوں میں منقسم ہوتا ہے ایک ذاتی وجود’ چھوٹامَیں‘ جسے سارترکا Being-for-themselves کہہ سکتے ہیں اور دوسرا’ بڑا مَیں‘جسے Being-in-themselvesکہا جاسکتا ہے اور یہ ’بڑا میں‘ انسانیت سے جڑا ہوا ہے۔ عمومی طور پر مفکرین اور فلسفیوں نے بڑے میں یعنی انسانیت کے مسائل پر توجہ دی ہے،مگر سارتر پر الزام ہے کہ اس نے بڑے’ میں ‘ کو نظر انداز کرتے ہوئے چھوٹے’ میں ‘ کو اہمیت دی،اور زیادہ تر لو گ چھوٹے ’مَیں‘ کے مسائل میں ہی اُلجھے رہتے ہیں جو بڑے ’ میں ‘کے لئے زیادہ مسائل پیدا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔اپنے مسائل کو حل ضرور کرنا چاہیے مگر یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ انفرادی مسائل کے حل ہونے سے کبھی بھی مجموعی سماجی نظاموں میں تبدیلی نہیں آسکتی ۔کسی بھی نظام میں بڑی اور بنیادی تبدیلی کے لئے پرانے نظام کی شکست و ریخت اورمجموعی سوچ اور عمل میں تبدیلی لانا ضروری ہوتا ہے انفرادی اچھائی کی ندیا تو مجموعی بُرائی کے سمندر میں ڈوب جایا کرتی ہے۔
ہر انسان دو سطحوں پر زندگی گزارتا ہے ایک ذاتی دوسری سماجی۔ سارتر اپنے فلسفے میں موضوعی زندگی کو اہمیت دیتے ہوئے سماجی ضابطہء حیات کو کسی خاطر میں لانے کو تیار نہیں اس کے نزدیک یہ’ آزادی ‘کے تصور کے منافی ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ ہم اپنے عمل میں آزاد ہیں کہ ’انتخاب ‘ کر سکیں یہ نظریہ کہنے کی حد تک تو پر کشش دکھائی دیتا ہے کہ اس کے آنچل میں گمراہ کن ’آزادی‘کے نام کا تارالگا ہوتا ہے مگر عملاَ ایسا ’انتخاب‘ سماجی و تاریخی اور انسان کے معاشی حالات کی ’لازمیت ‘کے بغیر(جو سارتر کی خواہش کے برعکس اثر انداز ہوتے ہیں) کسی بھی سطح پر ممکن نہیں۔ مثلاَ ایک دولت مند شخص کسی مہنگی اور نئے ماڈل کی کار کا انتخاب کرتا ہے تو سارتر کی وجودیت کے مطابق جیسا کہ وہ
اپنے مضمون Existentialism is a Humanismمیں دعویٰ کرتا ہے کہ ’ہم اپنے لئے برا ’انتخاب ‘ نہیں کرسکتے اس لئے ہم انسانیت کے لئے بھی برا ’انتخاب‘ نہیں کریں گے، ایک غریب شخص کو بھی اسی ماڈل کی نہ سہی مگر مہنگی کار کا ’انتخاب ‘ تو ضرور کرنا چاہیے جس کی وہ یقیناَ خواہش بھی رکھتا ہو گا ،مگر وہ اس کا ’انتخاب‘ نہیں کرے گا، کیونکہ اس کے حالات اس سے اس کی خواہش کے بر عکس اس کی معاشی و سماجی ’لازمیت ‘کے تحت ’انتخاب‘ کروائیں گئے ۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے اچھا انتخاب کرنا نہیں جانتا،بلکہ اس کی متفرق سماجی حیثیت اس متضاد ’انتخاب‘ کا تقاضا کرتی ہے۔اسی طرح سارتر کی یہ بات بھی بظاہر بہت خوبصورت معلوم ہوتی ہے کہ انسان جو کچھ اپنے لئے پسند کرتا ہے وہ اس وقت تک بہتر نہیں ہے جب تک کہ وہ انسانیت کے لئے بہتر نہ ہو ۔مگر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ سارتر اپنی انفرادی سوچ کے ذریعے اجتماعی نفسیات کی تشریح کن بنیادوں پر کرتا ہے ،جبکہ جاگیر داری سے سرمایہ داری تک خود غرضی کی نفسیات ہی اجتماعی سطح پر حاوی رہی ہے۔ سارتر اپنے مضمون Existentialism is a Humanismمیں کہتاہے کہ اگر میں شادی کرتا ہوں اور بچے پیدا کرتا ہوں تو اس میں بھی نسلِ انسانی کے بڑھانے کا جذبہ کارفرما ہو گا۔ یہاں وہ اس بات کی کوئی دلیل فراہم نہیں کرتا کہ باقی لوگ بھی اسی قسم کے جذبات رکھتے ہونگے اوراگر وہ ایسا سمجھتا ہے تو پھر وہ اپنی ہی بات کی نفی اور ’انسانی فطرت‘کی موجودگی کا اقرار کرتا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ انسان اپنے اپنے عمل سے اپنی زندگی کو مقصد عطا کر سکتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے نزدیک کو ئی ایک آفاقی اصول نہیں ہے جس کے تحت انسانی حیات کے مقصد کو متعین کیا جاسکے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان اپنے اپنے سماجی پیداواری رشتوں میں جکڑے ہوئے ہیں جن کے تحت اُن کی زندگی کے فیصلے ہوتے ہیں اصل مسئلہ تو ان جبری استحصالی رشتوں سے عملی سرگرمی کے ذریعے نجات کا ہے ،جن کو سارتر کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں۔رہی سارترکے نسلِ انسانی کی بقاء کے جذبے کی تسکین کے لئے،شادی کرکے بچے پیداکرنے کی مثال تو ایک فلسفی کا زیادہ حقیقت پسندانہ اور فلسفیانہ قدم یہ ہونا چاہیے کہ وہ دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں بھوک اور افلاس سے مرتے ہوئے بچوں کو بچانے کی کوشش کرے تو یہ قدم انسانی فلاح و بقاء کے زمرے میں زیادہ قابلِ تحسین ہوتا۔ اپنے بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت تو ہر انسان کا خواب ہوتا ہے جس کو تعبیر دینے کی ہر کوئی بھر پور کوشش بھی کرتاہے اس جذبے کے لئے یقیناَ کسی فلسفے کی ضرورت نہیں پڑتی، لیکن انسانیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کوئی قدم اُٹھانے کے لئے یا سماج میں تبدیلی کے لئے ایسی ’خیالیات‘ کی ضرورت ہوتی ہے جو مادی طور پر سرگرمِ عمل ہوسکے۔ لوگ اُنہی لوگ کے خیالات کو اپناتے ہیں جو اُن کے زمینی حقائق کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں ۔اس لئے انسانیت کی فلاح کے لئے انسانی سماج کے اخلاقی اور پیداواری تقاضوں اور حقائق کو سمجھنا ہوگا ، جو عمومی فلاح کو کسی حد تک ممکن بناتے ہیں،سماجی لازمیت کو قبول کرنا ہوگا جو تہذب کے نام پر تمیز پیدا کرتی ہے اور بہتر زندگی کے حصول کے لئے جدوجہد پر آمادہ کرتی ہے۔
اگر ہر انسان ’انتخاب ‘ کرتے وقت انسانیت کی بھلائی مدِ نظر رکھتا ہے تو سارتر کے عہد میں برپا ہونے والی عالمی جنگ جس میں اس نے خود بھی عملاَ شرکت کی، کس کا ’انتخاب‘ تھی اور اس میں کونسی انسانیت کی فلاح مقصود تھی۔ حتیٰ کے آج ہمارے اپنے عہد میں بھی صورتحال ایسی ہے کہ انسان زندگی کی معنویت کی تلاش میں سرگرداں ہونے کی بجائے زندگی کو بچانے کے لئے زیادہ فکرمند ہیں ۔آج جارج بش عراق اور افغانستان کے لئے تو جنگ کا ’انتخاب ‘ کرتا ہے مگر امریکہ کے لئے ایسا ’انتخاب یقیناَ نہیں چاہے گا۔انسان اچھائی اور برائی دونوں کا مجموعہ ہوتا ہے جیسے ہی ان دونوں میں سے کسی ایک کے حق میں حالات ہوتے ہیں تو وہ دوسری پر غلبہ پا لیتی ہے اور موخر الذکر جلد غالب آتی ہے ایسے میں وجودیت میں ’انتخاب‘ کی آزادی اس چنگاری کو ہوا دینے کے مترادف تھی ۔انسانی زندگی میں معنویت پیدا کرنے کے لئے ’وجود‘ کا خود غرضی سے رہا ہونا اور اپنے سماجی فرائض کا پہچاننا ضروری ہے۔ فرائض کی عدم موجودگی تو بذاتِ خود آزادی کی ضد ہے۔ یہ تو ایثار و قربانی اور جدوجہدکی کٹھن راہیں ہوتیں ہیں جن پر چلنے کے بعد کہیں انسانیت اور کائنات کی معنویت جیسی حسیں صورت دکھائی دیتی ہے۔ سارتر جس ’انتخاب‘ اور’ آزادی‘ کے ذریعے اخلاقیات اور سماج کی اخلاقی ’لازمیت ‘سے چھٹکارا چاہتا تھااس کے نتیجے میں تو مہذب معاشرہ جنگل میں تبدیل ہو کے رہ جائے کہ جنگلی مخلوق ’انتخاب‘ کی آزادی میں سرِ فہرست ہے کیونکہ اُن کے ارتقائی سفر میں اخلاق و تہذیب جیسے سنگِ میل آئے ہی نہیں۔ یہ ہماری اخلاقی اقدار اور تہذیبی و تمدنی وراثت ہی ہے جو ہمیں جانوروں سے ممتا ز کرتی ہے اور یہ ورثہ عقل کی دین ہے جس کے ردِ عمل میں وجودیت کو پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی ۔وجودیت کا مسئلہ یہ ہے کہ’اصل‘ منزل (عقل) کو چھوڑ کر یہ ابہام سے پُر د اخلیت کی راہوں پر چل نکلی جس کی مسافت صرف رائگانی سے روشناس کراتی ہے اور زندگی میں مقصدیت و معنویت کی بجائے بے معنویت اور گمراہی پیدا کرتی ہے۔ اگرچہ بعد ازاں سارتر کوانسانیت کی اہمیت کا احساس ہوگیا تھا کہ زندگی کے پنپنے اور اس کے ’جوہر‘تک رسائی پانے کے لئے تاریخی و سماجی اور معاشی’ لازمیت ‘سے انکار نہیں کیا جاسکتا جو نسلِ انسانی کی بقاء کے لئے آزادی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کا اس نے اعتراف بھی کیااور وہ ’لازمیت ‘اور’جبر‘جو کبھی اس کو وجود کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ لگا کرتے تھے اس کو اس نے بورژوازی کی لازمیت اور جبر قرار دے دیااور اس کی اس کوشش نے ہمارے ’دانشوروں‘ کے یوں دل جیتے کہ وہ وجودیت کی روح کو سمجھے بغیر ہی اس کے گن گانے لگے۔ یہ جانے بن کہ مختلف سماجوں کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں اور انسانی فطرت کو بھی ہر سماج اپنی اندرونی معاشی وطبقاتی لازمیت کے تحت متعین کرتا ہے۔شخصی آزادی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں مگر ہر مثبت عملِ آزادی پر بھی سماج کو منتشر ہونے سے بچانے کے لئے حدود مقرر ہوتی ہیں ۔ سارتر آزادی کے تصور کو جس انداز میں پیش کرتا ہے اس کے نتیجے میں تو انسان کاسماج کے دھارے سے ہر بندھن ٹوٹ جاتا ہے اور ایسا آزاد شخص اور
بھی تنہا ہو جاتا ہے۔یہ آزادی تو خود غرضوں کی مفاد پرستانہ سوچ کو اور زیادہ تقویت عطا کرتی ہے۔ عمومی فلاح کو نظر
انداز کرکے انفرادی مفاد پرستی کے لئے راہ ہموار کرتی ہے۔در حقیقت سارتر نے اپنے فلسفے میں زندگی سے متعلق جو سوالات اُٹھا ئے ہیں وہ کسی حد تک درست تو ہیں مثلاَ وہ سمجھتا ہے کہ انسان بے مقصدیت اور بیگانگی میں مبتلا ہے اور یہی وجہ معاشرے میں برائیوں کا سبب بن جاتی ہے ۔ وہ وجودیت کے ذریعے انسان کو اس کی حقیقی شناخت تک رسائی حاصل کرنے کا پیغام دیتا ہے تا کہ وہ کسی مقصد کے تحت اپنی زندگی گزارے، مگر وہ اس مقصد کو متعین کرنے اور اس کے فلسفیانہ حل میں اس لئے خاطر خواہ کامیاب نہیں ہو سکا،کیونکہ وہ ’بے مقصدیت اور ’بیگانگی‘ کی اصل وجہ دریافت نہ کرسکا ۔اس طرح سے اس کے فردیت پسندی پر مبنی خیالات نے ناپختہ سوچ کے حامل افراد کو ان کی منفی سرگرمیوں اور شرپسندیوں کے لئے فلسفیانہ جواز مہیا کر دیا۔سارتر نے انسانی زندگی میں ’معنی‘ پیدا کرنے کے لئے جن تجاویز کو پیش کیا اُن کو مدلل طریقے سے پیش کرنے میں اس وقت تک ناکام رہاجب تک کہ اس نے اس حقیقت کو سمجھ نہیں لیا کہ مجموعی مادی سرگرمی ہی در حقیقت بامقصد زندگی کو جنم دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یارب!لامکاں تیرا ہے یا میرا
علامہ اقبال