عبدالرب استاد(گلبرگہ)
علاقہ دکن کا یہ صوبہ جسے کرناٹک کہتے ہیں، شعروادب کا امین رہاہے۔ ادبی اعتبار سے اولیت کا سہرا اسی علاقے کے سر ہے۔ اس سرزمین کے شعراء وادباء نے ادب کی آبیاری میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ روشن اور منزہ ہے۔ تقریباً ہر صنف ادب پر یہاں طبع آزمائی ہوئی ہے۔ یہاں نظم نگار بھی ہیں اور غزل گو بھی، افسانہ نگار بھی ہیں اور طنز و مزاح نگار بھی، نقاد بھی رہے ہیں اور صحافی بھی، خاکہ نگار بھی ہیں اور مضمون نگار بھی۔ جہاں تک اردو غزل کی بات ہے ، تو اس میں بھی کرناٹک کے غزل گو زمانے کے ساتھ لکھ رہے ہیں۔ غزل جس نے مختلف مراحل طے کئے اور اپنے دامن کو بہت وسیع کردیا۔ جبکہ غالبؔ نے یہ کہاتھا کہ بنتی نہیں ہے بادہ وساغرکہے بغیر، یعنی انھیں حق کی گفتگو کیلئے بھی بادہ وساغر کے پیمانوں کا سہارا لینا پڑتاتھا۔ مگر آج کی غزل اپنی اسی رمزوایما، ایجازواختصار، نغمگی و شیرینی کو برقرار رکھتے ہوئے عصری حیّت، نئی معنویت، گردوپیش کے حالات وواقعات، حادثات وسانحات کو پیش کررہی ہے۔ اور وہ ثقیل الفاظ جنھیں کبھی اساتذہ سخن نے اقلیم غزل سے خارج کردیاتھا۔ اب نہ صرف ان الفاظ کو بلکہ انگریزی، سائنس اور عام بولچال کے الفاظ کو بھی استعمال کیاجارہاہے۔ کبھی اشارہ و کنایتہ تو کہیں واشگاف لہجہ میں مستعمل نظر آتے ہیں۔ اس کے باوجود نہ ہی کی شعریت مجروح ہورہی ہے اور نہ یہ کانوں پرگراں گذر رہے ہیں۔
کرناٹک کے ان غزل گوشعراء میں جہاں روایتی انداز کی غزل سے لے کر جدید لب و لہجہ کی غزل اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔ ان شعراء کے یہاں فارسی تراکیب، ہندوستانی تلمیحات، ہندی لفظیات، مقامی بولیوں کے ساتھ ساتھ نئے الفاظ، علائم اور استعاروں کا استعمال سبک روی سے ہوتانظر آرہاہے۔ اس میں نہ ہی کہیں رکاوٹ کا احساس ہورہاہے اور نہ ہی اس کا بھداپن غزل کی شیرینی کو متاثر کررہاہے۔ جیسے: سوج کی کھڑکیاں، خیالوں کے آینے، سوچ کے لمحے،رخش خیال، وادٔی بدن، شریانوں کا سناٹا،صندل کا بن، نیند کی گولی، رام کا بن باس، یوون کا معیار،سرل، جگت موہنی، کرشن کا ماکھن، دھام، گگن،بھسماسر، بدن کابولنا، راڈار، عذاب کہکشاں،سسکتے خواب، دورکاخنجر، دولت بیدار وغیرہ۔۔
اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کو آزادیٔ خیال اور آزادٔی راے کا پورا حق حاصل ہے۔ وہ کسی نظریہ کا پابند نہیں۔ قطع نظر اس کے، ایک اچھے اور سچے فنکار کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے عہد کے بدلتے ہوئے اقدار و رجحانات سے باخبر ہو تو ایک بیدار مغز فنکار کہلاسکتاہے۔ کرناٹک کے شعراء (غزل گو) ان تمام چیزوں سے مملو نظر آتے ہیں۔
اس صوبہ سے تعلق رکھنے والے غزل گو شعراء کے رنگ بھی مختلف ہیں۔ان میں روایتی انداز و اسلوب کے حامل بھی ہیں ا ور ترقی پسندی کے چاہنے والے بھی، رومانوی انداز کی غزل لکھنے والے بھی ہیں اور نئے رنگ کی غزل بھی۔ غرض کے ہر گل را رنگ، دیگر بوے است۔ جن میں عبدالقادر ادیب، مدنامنظر، آزاد ساحری، نفیس بنگلوری، اسدؔ اعجاز، انیس ابراہیم، اعظم اثر، سردارایاغ، الف احمد برق، سلیم ہاشمی، اقبال فریدی، رزاق افسر، داؤدمحسن، اعجازتماپوری، فاطمہ ٹمکوری، سرورمرزائی، عبدالرحیم آرزو، خمار قریشی، خورشید وحید، وحیدمراد، محسن کمال، رشید بیدری، مظہر مبارک، ظہیربایار، چنداحسینی اکبروغیرہ، یہ وہ شعراء ہیں جن میں زیادہ تر اساتذہ کا رنگ غالب ہے۔ بحروں اور اوزان کا خاصہ اہتمام ان کے یہاں ملتا ہے، نغمگی، شگفتگی، اور ایک سلیقگی ان کے کلام سے عیاں ہے۔ جن میں حالات و واقعات کی رویداد کے ساتھ ساتھ عصری حیثیت بھی نمایاں ہے۔
یہ بھی خیال یار کا اعجاز ہے نفیسؔ
ایک ایک شعرنور کے سانچے میں ڈھل گیا
نفیسؔ بنگلوری
ملتے ہی نظر ان سے محسوس ہوا مجھ کو
آنکھوں میں ہے پوشیدہ اک حسرت گویائی
عبدالقادر ادیب
جفائے یار کا انمول پیار لایا ہوں
دل ایک دے کہ مصیبت ہزار لایا ہوں
مدنامنظر
بتوں کی جلوہ آرائی ہمارے دم سے ہے ، ورنہ
پری خانے ،صنم خانے، خدا جانے کہاں جاتے
آزاد ساحری
جب کہ ہر فرد بشر کرنے لگے حکمت کی بات
اس میں کوئی شک نہیں اہل نظر خطرے میں ہے
اسدؔاعجاز
کون ہوں کیا ہوں مری زیست کا مقصد کیا ہے
کیسے حل ہوں یہ سوالات خدا خیر کرے
انیس ابراھیم
پن گھٹ کوبھول بیٹھیں کسانوں کی بیٹیاں
جب سے زمیندار کا بیٹا جواں ہوا
سردار ایاغؔ
موت کیاہے گم شدہ منزل کا نام
زیست اس کو ڈھونڈ نے کا اہتمام
الف احمد برق
ہے تذکرے میں تیرے ہمارا ہی ذکر خیر
رکھتے ہیں کچھ علاقہ تری داستاں سے ہم
سلیم ہاشمی
دل کی بستی کے اجڑ نے میں نہیں دیر کوئی
صرف ظاہریہ، یہاں لوگ مرے جاتے ہیں
رزاق افسرؔ
دوستی پر یقین لامحدود
ہوچکااب وہ سلسلہ محدود
اقبال فرید
کیابتاتے ہیں اشارات تمھیں کیا معلوم
کتنے مشکوک ہیں حالات تمہیں کیا معلوم
داؤدمحسن
ان سے بچھڑے تو ہوئے غم کا نوالہ ہم بھی
خانہ دل ہی بنا دشت و بیاباں اپنا
خمار قریشی
ان کے ساتھ ہی کچھ ایسے بھی غزل گو ملیں گے جنہوں ن ے روایتی انداز کو بڑی خوش اسلوبی سے نبھاتے ہوئے جدید فکری عناصر کو پیش کیا اور نئی لفظیات، رموزوعلائم کو اپنے انداز میں برتا، وہ نام یہ ہیں:۔ راہی قریشی، محب کوثر، مسعود سراج، صغریٰ عالم، نعمت انورؔ، شیدارومانی، وقار ریاض، وحیدانجم وغیرہ۔
بڑی بے کیف گذری زندگانی
کسی سے کچھ گلہ ، شکوہ نہیں
برا کیا ہے صدف کی آبرو بن جائیں وہ قطرے
جنھیں دریا کسی قیمت پہ ضم ہونے نہیں دیتا
راھی قریشی
سود و زیاں کی زدپہ ہے اس دور کی غزل
بازار فن سے کیا سبھی اہل ہنر گئے
جب بھی شعور و فکر کا سورج ہوا طلوع
کچھ لوگ اپنے جہل کے سایوں سے ڈرگئے
محب کوثر
جن کو معلوم نہیں آج بھی کلیوں کا حجاب
ہاتھ میں نظمِ گلستاں ہے خدا خیر کرے
بہک گیا تھا وہ اس بار چھ دسمبر کو
نشہ تو آج بھی اترا نہیں کہاں جائیں
صغریٰ عالم
ہر ایک منزل مقصود کا تمنائی
مگر اٹھاتا نہیں زحمت سفرکوئی
سبھی کے درد جدا ہیں سبھی کے غم تنہا
کوئی شریک سفر اہل کا رواں میں نہیں
مسعود سراج
شکوہ گردش دوراں کی ہمیں خوبھی نہیں
اپنی حالت پہ بہالینے کو آنسو بھی نہیں
کتنی مشکل سے اجالوں کی نظر پائی ہے
رات کا زہر پیا ہے تو سحر پائی ہے
شیدارومانی
بقول شخصے : ’’ شاعربہ حیثیت ایک فرد معاشرہ حقیقتوں سے متصادم اور متاثر رہاتاہے، پھر وہ دل کی جذباتی دنیا کی خلوتوں میں چلا جاتاہے۔ روحانی کرب و اضطراب کی بھٹی میں تپتا ہے، شعرکی تخلیق کرتا ہے اور داخلی عالم سے نکل کر عالم خارج میں واپس آتاہے تاکہ نوع انسانی سے قریب تر ہوکر ہمکلام ہو‘‘۔
غزل نے اپنی ظاہری ہیئت تو نہیں بدلی، مگر اس کے موضوعات بدلتے گئے۔ انقلاب زمانہ اور گلوبلائزیشن کے باوصف غزل کی لفظیات بدلنے لگے، نئے استعارے اور نئی علامتیں بننے لگیں، اور اظہار کا انداز بھی بدلتاگیا کہ اب غزل بجائے لحن کے، تحت میں پڑھی جانے لگی۔ ۶۰ء کے بعد کرناٹک میں جدید غزل گو شعراء کا ایک سلسلہ ہے۔ جو معاشرہ کی حقیقتوں سے متصادم اور متاثر نظر آتاہے،یہ شعراء اپنے اشعارکو روحانی کرب و اضطراب کی بھٹی میں تپاکر نوع انسانی سے قریب ہوکر ہمکلام نظر آتے ہیں۔
جدیدیت کے میرکارواں شمس الرحمٰن فاروقی نے توکرناٹک کے باوقار شاعر حمیدؔالماس کے متعلق یہ کہاتھاکہ ’’حمیدالماس نے توجدیدیت کو ایک وقار بخشاہے‘‘ ان کے ساتھ ہی ایک اور شخصیت جن کو جدیدیت کے علمبرداروں میں سے کہا جاتاہے وہ ہیں محمود ایاز، یہ دوبڑی قدآور شخصیتیں اس صوبہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جن میں ایک نظم گو، غزل گو اور مترجم ہے تو دوسری شخصیت نقاد، صحافی اور شاعرہے۔
خوب تر کی جستجو قائم رہے گی ذہن میں
فکروفن میں سوچ کے پیکر بدلتے جائیں گے
غریب فکرہوں اور کوئے ارتعاش میں ہوں
چھپاہوا میں کہیں صوت دلخراش میں ہوں
حمید الماس
نشاط لمحہ کی وہ قیمتیں چکائی ہیں
کہ اب ذراسی مسرت پہ دل لرزتاہے
خیال یار بجزتیرے کس سے بات کریں
نگاہ یار! کوئی داد غم گساری دے
محمود ایاز
ان دونوں شعراء یعنی حمید الماس اور محمود ایاز نے غزل سے کہیں زیادہ نظموں کو وسیلۂ اظہار بنایا ہے۔ اور ان کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے شعراء کے نام ملیں گے جنہوں نے اس رجحان یارویہ کو تقویت دی اور جدیدیت کے تحت اپنے خیالات کو کہیں نظم کے پیرائے میں تو کہیں غزل کے سانچے میں پیش کیا۔ ان میں خلیل مامون، تنہاؔ تماپوری، مظہر محی الدین، بدرمہدی، سلیمان خمار، شکیل مظہری، وغیرہ ہیں۔ جنہوں نے نئی لفظیات، نئے مفاہیم، نئے علائم سے حالات حاضرہ کی عکاسی کی ہے۔
اس کھنڈر پر اک نئی بستی بسائی جائے گی
دیکھ مت آثار کا منظر ، پس آثار دیکھ
رام سا بن باس کچھ مشکل نہیں
صرف اک مشکل ہے سیتا کون ہے
تنہاؔ تماپوری
ایک سورج سے جھلس جاتے ہیں انسان
کتنے سورج میرے اندر بولتے ہیں
مظہر محی الدین
کس سلیقے سے ترے غم کو بتائے خوشبو
سوچتے لمحوں کی آواز بھی لب بستہ تھی
شکیل مظہری
اس کی باتیں افسانوں سی لگتی ہیں
اس کا لہجہ چھاگل جیسا لگتاہے
کیا کوئی توقیر کرتا جبہ و دستار کی
وہ جومنبرپر کھڑا اتھانور کا پتلا نہ تھا
بدرمہدی
ان کے بعد جو شعراء ملتے ہیں ان میں ایک قسم کی تازگی، جوش، ولولہ ملتاہے، الفاظ کو برتنے کا سلیقہ بھی انوکھا ہے، ہندی الفاظ اور فارسی تراکیب کا استعمال، مختصر بحروں میں وسیع مضامین ومفاہیم جو کبھی میرؔ کا تو کبھی ناصر کاظمی کا خاصہ رہا ہے۔ ان کے کلدم سے عیاں ہوتا ہے۔ حالات حاضرہ پر چوٹ، کبھی رمزوایما سے تو کبھی واضح طورپر جن میں کہیں بیتے لمحوں کو قید کیا گیا تو کہیں مستقبل کی نوید سنائی دے گی۔ جن میں خالدؔ سعید، ساجد حمید، اکرم نقاش، حامد اکمل، حشمت فاتحہ خوانہ، وغیرہ کے نام آتے ہیں۔
ان کے کلام سے یہ مترشح ہوتاہے کہ انھوں نے زندگی کو نہ صرف قریب سے دیکھا ہے بلکہ اس کو چھوا اور محسوس کیا ہے، آج ہمارے معاشرے میں کیا ہورہاہے؟ رشتے ٹوٹ چکے ہیں، دوستیاں بے کار ہوگئیں ہیں۔ خلعت نصیب مکر نے حق کو بے لباس کردیا ہے، جھوٹ دنداناتاپھررہاہے اور سچ سہماسہما سا ہے۔
بتاضبط کا امتحاں اور کب تک
میں کوئی پیمبر ، نہ کوئی فرشتہ
ٹوٹ چکے ہیں آوازوں کے سب رشتے
اک سناٹا شریانوں میں بہتا ہے
ساجدؔ حمید
بات بنتی ہی نہیں گرمئی زرسے پہلے
کام اپنا تو نکلتا تھا ہنر سے پہلے
ویسے بھی اب دلوں میں تعلق نہیں رہا
کیوں درمیاں اٹھاتے ہو دیوار بے سبب
خالد سعیدؔ
جھلستاہے شہر شررباریوں ہی
برسنے کو بادل تو ہر بار برسے
مری بصارت گماں کی زد میں میرے تخیل میں بے یقینی
تجھے کبھی میں کتاب دیکھوں، تجھے کبھی میں سراب دیکھوں
اکرم نقاش
کل تک جو آندھیوں ہی کے زد میں تھی چاندنی
لپٹی ہوئی ہے رات کے سینے سے بے لباس
بے کراں رات کے سینے میں اترنے کیلئے
اپنے احساس کی بنیاد گراتے کیوں ہو
حشمت فاتحہ خوانی
ان کے علاوہ بھی غزل گو شعراء کی ایک فہرست ہے۔ جن میں صبیح حیدر، سعیدعارف، عبدالستار خاطر، ملہار قیصر، جوہر تماپوری، فضل افضل، صابر فخرالدین، جنکی غزلیں کبھی دلوں کو مسحور کرتی یہں تو کہیں زیست کو کشمکش سے دوچار نظر آتی ہیں۔
مجموعی طورپر کرناٹک میں غزل کا کارواں پوری آب و تاب سے جاری و ساری ہے۔ ہاں کمی ہے تو اس نقاد کی جو ان کی شعری کاوشوں کو منواسکے، انشاء اللہ آئندہ وہ بھی ہو، اور پھر کرناٹک کے اس شعری اور نثری کارواں کے ذریعہ اردو ادب کو ایک نئی سمت وجہت عطا ہو اور یہ اولیت کے سہرے کو برقرار رکھے۔