ڈاکٹر قمر رئیس(دہلی)
عبدالرحیم نشترؔبلا شبہ اردو کے ان چند تخلیق کاروں میں ہیں جو بے پناہ صلاحیتوں اور منفرد تخلیقی کارناموں کے باوجود اردو شاعری کے پیش منظر میں وہ جگہ نہیں بنا سکے جو ان کا حق تھا ۔اس میں اردو کے ناقدین کی کوتاہ نظری تو ہے ہی ان کی اپنی بے نیازی اور قلندری کا بھی بڑا دخل ہے۔ روزی روٹی کی فکر اور صحافتی سرگرمیوں میں وہ اردو شعروادب کے منظر سے دور رہے۔ خودداری اور ہجرت کے احساس نے اجازت نہیں دی کہ وہ اردو کے ’’سربراہوں ‘ ‘سے دوستی کریں اور ان کو اپنے تخلیقی سرمایہ کی قدر شناسی پر مائل کریں ۔ میرا خیال ہے کہ اس میں عبدالرحیم نشترؔسے کہیں زیادہ اردو زبان کی محرومی کا المیہ چھپا ہے۔
دہلی کے زمانۂ قیام میں ۱۹۷۵ء کے آس پاس ان سے کئی بار ملنے کا شرف حاصل ہوا ۔ وہ بے حد بے باک اور حق گو انسان تھے۔ مصلحت کوشی سے دور رہ کر اپنے خیالات بڑی سچائی اور صفائی سے پیش کرتے تھے۔ تاہم ان کی گفتگو سے یہ اندازہ ضرور ہوتا تھا کہ ان کا مطالعہ وسیع ، مشاہدہ ہمہ گیر اور تخلیقی وژن گہرا تھا ۔ زندگی کے حقائق پر وہ مستقلاً سوچتے تھے ۔ انسانی درد مندی اورحقیقت پسندانہ رویے نے ان کو اپنے عہد کا جو شعور دیا تھا اس میں برہمی، بیزاری اور تلخیاں کم نہیں تھیں ۔ترقی پسند تحریک سے ان کی وابستگی نے بھی ان کے عرفانِ حیات اور تخلیقی ذہانت پر جلا کی تھی اور اس وابستگی نے انھیں اپنے بہت سے معاصرین سے زیادہ منفرد لہجہ کا شاعر بنادیا تھا ۔لیکن ترقی پسند فکر اور ادبی رجحانات کو بھی وہ اکثر اپنے شعورکی کسوٹی پر پرکھتے تھے۔ اس کاا ندازہ ان کے کئی مضامین اور ادبی تبصروں سے ہوتا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے میڈیم کے وفادار رہے ۔ وہ نظم اور غزل دونوں اصناف پر تقریباً یکساں قدرت رکھتے تھے اور دونوں اصناف میں وہ جو لکھتے تھے اس میں برہمی کی وہ گرمی محسوس ہوتی ہے جو ان کے تخلیقی اظہار کا مرکزی حوالہ بن گئی تھی ۔
عبدالرحیم نشترؔ اپنی غزل میں عصری حسیت کو جدید لب ولہجے میں پیش کرنے والے ایک نمایاں اور نمائندہ غزل گو ہیں دراصل یہ موضوع بھی تفصیلی تحلیل و تجزیہ کا تقاضہ کرتا ہے اس لئے کہ ان کے غزلیہ اشعار صرف عشق ومحبت کا سرسری اور غنائیہ اظہار نہیں ہیں ۔ ان میں ہم عصر زندگی اور اس کی تہہ وار بصیرت کی کئی سطحیں نمو پاتی نظر آتی ہیں جو اردو زبان پر غیر معمولی قدرت کی وجہ سے کئی شعری اسالیت میں اظہار پاتی ہیں ۔ آئیے ایک غزل کے اشعار پر نظر ڈالیں
کب مری آنکھوں سے یہ خوابِ گراں لے جائے گی
صبح کب آئے گی کب تاریکیاں لے جائے گی
اور کتنے دن الجھنا ہے سکوتِ بحر سے
اور کتنی دور موجِ کم رواں لے جائے گی
کب مسافت ختم ہوگی منزلِ بے سمت کی
کب ہوا آنکھوں سے یہ سارا دھواں لے جائے گی
سوکھے تنہا پیڑ کی اجڑی ہوئی تقدیر سے
چاند کیا لے جائے گا کیا کہکشاں لے جائے گی
از ز میں تا آسماں پھیلا ہوا بحرِ سکوت
کس طرف مجھ کو صدائے جسم و جاں لے جائے گی
بے گھری کا بوجھ نشترؔ اور اس کی آرزو
دور کی آواز جا نے ا ب کہا ں لے جائے گی
غزل میں ردیف اور داخلی ارتکاز نے تسلسل پیدا کرکے اسے نظم کے ہنر سے قریب کردیا ہے ۔ اشعار میں خارجی زندگی کی تلخیوں کا تاثر داخلی احساس کی شعلگی سے ہم آہنگ نظر آتا ہے ۔ پہلے مصرع میں خوابِ گراں صرف نیند کا تلازمہ نہیں ہے بلکہ انسان کی بیداری سے دوری اور تاریک رات کی خواب ناکی میں صبح کی روشنی کی طلب ہے۔دوسرے شعر میں’ سکوتِ بحر ‘ انسانی زندگی اور ذہن کے جمود یا عدم تحرک کا اشاریہ ہے ۔ جس کی وجہ سے انسان اپنی فلاح اور استحصال سے نجات کی راہ میں آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔ موجیں ہیں لیکن ان میں روانی نہیں جو حیاتِ انسانی کے قافلہ کو آگے لے جاسکتیں ۔ تیسرے شعر میں بھی شاعر اسی باطنی تجربہ کو دوسرے اسلوب میں ادا کرتا ہے اور نہایت خوبصورت امیج کے ذریعے ، چوتھے شعر میں بھی رات کا سماں ہے ۔ پہلے مصرع میں شاعر نے ’سوکھے تنہا پیڑ ‘ کینئی علامت کا سہارا لیا ہے ۔ اس کی تعبیر مفلوک الحال انسانوں سے کی جاسکتی ہے جس کے پاس افلاس اور غلامی کے علاوہ کھونے کو کچھ نہیں ۔ چاند اور کہکشاں رومانوی تمثیل ہونے کے باوصف مرفع حال اور غالب انسانوں کی علامت کہا جاسکتا ہے ۔پانچویں شعر میں شاعرپھر سکوت وجمودسے بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔ مقطع میں شاعر اپنی ذات کی طرف آتا ہے ۔ اپنی بے گھری اور محبوب سے دوری کا غم اسے کچوکے لگاتا ہے۔پوری غزل میں شاعر کی باطنی گھٹن ، کرب اور محرومی کا احساس نمایاں رہتا ہے۔
دوسری غزلوں کے اشعار میں بھی اسی کیفیت کا تسلط قائم رہتا ہے ۔ عموماً شعراء کے تخیل میں صبح کے روشن اور دلکشا مناظر کی کیفیات ترجیحی حیثیت رکھتی ہیں۔ ویسے بھی صبح روشنی ، دلکشی اور امید کی علامت ہے ۔ اس کے برعکس شام ڈوبتے دن ، اندھیرے کی آمد اور مایوسی کا اشاریہ ہوتی ہے۔ ’’شامِ گراں ‘‘ کے متعدد غزلوں میں شام کی یہی حزن آمیز کیفیت نمایاں رہتی ہے جو شاعر کے سماجی شعور اور احساسِ درد مندی کا حصہ ہے۔ یہ چند اشعار دیکھئے
پھر اٹھا چاروں طرف سیلِ گراں جانیٔ شام
جس طرف دیکھئے پھیلی ہے پریشانیٔ شام
پاؤں رکھے تو الجھتی ہے زمیں قدموں سے
توڑ کر جائیں کہاں حلقۂ ویرانیٔ شام
ہم سرِ شام بکھرتے ہیں اندھیروں کی طرح
روز اس گھر میں ہوا کرتی ہے ارزانیٔ شام
ہم دکھی دل بھی تھے ، کم مایہ بھی ، مایوس بھی تھے
کیسے ہم کو نہ بہا لیتی یہ طغیانیٔ شام
اس سمے سیر سپاٹے کو نہ جاؤ نشترؔ
دامنِ دل سے لپٹ جائے گی ویرانیٔ شام
ایک دوسری غزل کے یہ دو اشعار دیکھئے
اسے کس نے خوں رنگ ایسا کیا
بڑی موہنی تھی سلونی شام
یہ کس آسماں سے گری دل میں آج
تپاں اس طرح تو نہ رہتی تھی شام
ایک دوسری غزل میں شام کی ویرانی اور پھر پت جھڑ کی شام کی گرانی کا یہ سماں دیکھئے
یہ شام ، یہ منظر ، یہ سماں یاد رکھیں گے
ہم اپنے اجڑنے کے نشاں یاد رکھیں گے
ساون کی مہکتی ہوئی صبحوں سے نکل کر
پت جھڑ کی کوئی شامِ گراں یاد رکھیں گے
ایسانہیں ہے کہ شاعر کے کلام میں دوسرے تمثالوں کی کمی ہے یا اس کے فکر وتخیل کی جولانیاں شام کے منظر تک محدود ہیں۔ہوتا یہ ہے کہ دوسرے تمثال یا استعاروں کے ذریعہ شاعر جن قلبی اور داخلی کیفیات کی مرقع کشی کرتا ہے وہ بھی ویرانی ، اداسی اور محزونی کی اسی فضا سے بوجھل ہوتے ہیں جو شام کے منظر سے منسوب ہیں ۔بہت سے اشعار میں میر تقی میر کے حزنیہ لہجہ کا تاثر محسوس ہوتا ہے
چلتا ہے ساتھ ساتھ کوئی خوفناک شور
سہما ہوا ہوں خود سے صد اؤں کے جھنڈ میں
اندھی ہوا کچھ اور بھی سفاک ہوگئی
میں بھی نہ ٹوٹ جاؤں درختوں کے جھنڈ میں
چاروں طرف اداس سسکتی ہوئی حیات
کب تک رہے گی خاک میں رُلتی سمیٹ لو ں
نکلی ہے لے کے چاند کا کشکول ہاتھ میں
اس رات کی تمام سیاہی سمیٹ لوں
یہ سارے امیج اداس اور سسکتی ہوئی انسانی زندگی کے عرفان و احساس کا ثمرہ ہیں ۔عبدالرحیم نشترؔنے اپنا شعری مجموعہ’’شامِ گراں‘‘ سماج کے جن گروہوں یا اشخاص کے نام معنون کیا ہے وہ استحصال کرنے والے طبقوں اور پچھڑے ہوئے افلاس زدہ انسانوں کی اس شبیہ کو سامنے لاتے ہیں جو اس سماج کے بے رحم تضادات کا آئینہ ہیں ۔ نشترؔ لکھتے ہیں
’’۱۔ ان یزیدوں کے لئے جن کی منصب پرستی حقداروں کا سر اڑادیتی ہے۔
۲۔ اس شخص کے لئے جو اپنا خون پسینہ بہا کر اپنے بچے کو اعلیٰ تعلیم دلاتا ہے اور پچھڑے ہوئے طبقہ سے اوپر اٹھنے کی چاہ میں اندر ہی اندر ٹوٹتا چلا جاتاہے کہ بیٹے کیاعلیٰ ڈگریاں ’’دوغلے سماج‘‘میں کسی کام کی نہیں ․․․․․․․․․․․یہ کاغذ کے ٹکڑے اسے مایوسی ، نامرادی اور شکست آشنا کرکے دھیرے دھیرے موت سے قریب کررہے ہیں ۔ ‘‘
یہ وضاحت اس لئے کی گئی ہے کہ نشترؔ کی کم وبیش تمام شاعری میں جو المیہ ، احساس اور حزنیہ لہجہ ملتا ہے اس کی جڑیں سماجی بدعنوانیوں کے عرفان میں ہی ملتی ہیں ۔انہوں نے اپنی ذات کو گردو پیش کے ان انسانوں سے IDENTIFYکرلیا تھا جو استحصال اور ہر طرح کی محرومیوں کا شکار ہوکر ٹوٹ چکے تھے اور آج بھی ان کا احوال کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔ نشترؔ کے کلام میں شام، اس کی گرانی اور دوسرے حزنیہ تلازمات اسی گہری درد مندی کی دین ہیں ۔