سب جدا جدا بچھونوں پر سوتے اور شب خوابی کا لباس کُرتا اور کسا ہوا گھٹنّا تھا۔ خواب گاہ میں جس کی حیثیت خانقاہ کی سی ہوتی ایک چراغ رات بھر روشن رہتا۔ بچھانے کے لیے عموماً چٹائیاں مروج تھیں۔ اگر کسی کے پاس چٹائی نہ ہو تو اُسے ایک دری کے بچھانے کی اجازت مل جاتی۔ لیکن اس بات کا لحاظ کر کے کہ اس میں راحت طلبی اور عیش پسندی کو ذرا بھی دخل نہ ہو۔
وقتاً فوقتاً جو مہتم بالشان معاملات پیش آتے اُن کے تصفیے کے لیے کمیٹیاں ہوتیں۔ کمیٹیاں دو قسم کی تھیں۔ ایک تو معمولی کمیٹیاں جو خفیف باتوں کے طے کرنے کے لیے جمع ہوتیں۔ اُن میں صرف سوسائٹی کے چند ہوشیار رُکن بُلا لیے جاتے۔ مگر بڑی کمیٹیاں جو اہم امور کے تصفیے کے لیے طلب کی جاتیں اُن کی شرکت کے لیے گرینڈ ماسٹر کُل ارکان کو طلب کرتا۔ کسی نئے رکن کو شریک جماعت کرنا یا کسی اراضی اور علاقے کو کسی کے حوالے کرنا اُن بڑی کمیٹیوں کا کام تھا۔
ہر ممبر کو داخلے سے پیشتر چند روز آزمائش میں رہنا پڑتا۔ نابالغ لڑکے جو ہتھیار اُٹھانے کے قابل نہ ہوں، نہ لیے جاتے۔ اور آخر آخر شاید ارکان کی بے اعتدالیاں دیکھ کے یہ قاعدہ بھی سختی سے جاری ہو گیا تھا کہ کوئی رکن کسی عورت کا بوسہ نہ لے سکے، عام اس سے کہ وہ شوہر والی ہو یا بیوہ یا اُس کی کوئی عزیز قریب ماں خالہ پھوپھی چچی یا بہن ہو۔ جو قواعد اول میں طے ہوئے تھے آخر تک انہیں پر عمل درآمد رہا۔ مگر جب کمیٹی کے قبضے میں بہت سی دولت جمع ہو گئی اور دنیا کے مختلف ملکوں میں اُس کی مملکتیں اور جائدادیں پیدا ہو گئیں تو حسب ضرورت نئے قوانین منظور ہوئے۔
اب انتظام کی یہ صورت تھی کہ سب کا حاکم اعلیٰ گرینڈ ماسٹر ہوتا۔ اُس کے احکام واجب التعمیل تھے اور قانون میں بھی رد و بدل کا اُسے حق حاصل تھا۔ لیکن باوجود اس کے وہ اس کا مجاز نہ تھا کہ اشتہار جنگ دے دے یا سوسائٹی کے کسی علاقے کو کسی کے حوالے کر دے یا کسی نئے ممبر کو شریک جماعت کرے۔ اِن اُمور کے لیے وہ اربابِ حَلّ و عقد کی رضا مندی حاصل کرنے پر مجبور تھا۔ خود اُس کا انتخاب تیرہ رکنوں کی منظوری سے ہوتا۔ مگر انتخاب کی کمیٹی میں جہاں تک بنتا، مختلف قوموں اور ملکوں کے ارکان رکھے جاتے۔
اس کے بعد ایک دوسرے عہدہ دار کا درجہ تھا جو ’’سنشل‘‘ کہلاتا۔ یہ وائس پریسیڈنٹ تھا اور گرینڈ ماسٹر کے عدم موجودگی میں اُس کا نائب اور قائم مقام تسلیم کیا جاتا۔ اُس کے علاوہ ایک عہدہ دار مارشل ہوتا۔ فوجی ساز و سامان اصطبل اور گھوڑوں کا ساز ویراق اسی کے اہتمام میں رہتا اور نائٹ ہونے کے تمام امیدوار یعنی اسلحہ بردار براہ راست اُس کے مطیع فرمان ہوتے۔ مگر لڑائی کے وقت سپہ سالار کے ماتحت ہو جاتا۔
ان عہدہ داروں کے علاوہ سوسائٹی کے ضلعدار تھے۔ مگر چونکہ بڑے بڑے ملک اور وسیع ریاستیں ان لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی تھیں۔ اس لیے ان کی حیثیت گورنروں بلکہ اُس عہد کے بادشاہوں کی سی ہوتی۔ سوسائٹی کی قلمرو چونکہ ایشیا اور یورپ کے ملکوں اور دور دراز مقامات میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس لیے ان گورنروں کی تعداد بارہ کے قریب رہتی اور کبھی اس سے زیادہ ہو جاتی۔ مگر ان لوگوں کے لیے بغیر گرینڈ ماسٹر کی منظوری حاصل کیے سمندر کا سفر اختیار کرنا اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانا ممنوع تھا۔ یہاں تک کہ یورپ کا کوئی اعلیٰ حاکم بھی بے اجازت ایسی جرأت نہ کر سکتا۔ ان گورنروں کے انتخاب کے وقت جملہ ارکان کی شرکت ضروری تھی۔ انہیں گورنروں کے زیر اختیار اُن کا خزانہ بھی رہتا جس کی کنجی خود گرینڈ ماسٹر کو بھی نہ مل سکتی۔ سوسائٹی کی طرف سے جو گورنر ارض مقدس کے اضلاع کا منتظم و نگراں تھا وہی اصلی صلیب کا محافظ و حکمراں بھی رہتا، جس کی نسبت ساری مسیحی دنیا کا اعتقاد تھا کہ یہ خاص وہی صلیب ہے جس پر حضرت مسیح کا جسد انور لٹکایا گیا تھا۔
ٹمپلروں کی سوسائٹی کے قبضے میں جہازوں کا بیڑہ بھی تھا جس کا غالب حصہ اُن کے والی و حاکم کے زیر فرمان رہتا۔ غرض ٹمپلروں نے اپنے کارناموں سے ساری مسیحی دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا اور چند ہی روز کے اندر اُن کے ہاتھ میں اتنی بڑی قلمرو آ گئی اور اُن کے خزانے میں اتنی دولت جمع ہو گئی کہ اُن دنوں نہ اُن سے زیادہ زبردست کوئی سلطنت تھی اور نہ اُن سے زیادہ کوئی بادشاہ دولتمند تھا۔ ساری عیسائی دنیا میں اُن کا سکہ بیٹھا ہوا تھا۔ سلاطین و امرا اُن سے ڈرتے اور کانپتے تھے اور عوام الناس اُن کے معتقد اور اُن پر جانیں نثار کرنے کو تیار تھے۔ اور اُن کے سب سے بڑے مرکز دو تھے۔ مشرق میں شہر عکّہ جس ساحلی شہر میں بیت المقدس سے نکالے جانے کے بعد عیسائیوں نے پناہ لی تھی اور بڑی مضبوطی سے زمین پکڑ رکھی تھی۔ اور مغرب یعنی یورپ میں پیرس، جہاں تاجداروں اور فرماں رواؤں کو اُن سے دبنا اور اُن کے آگے سر جھکانا پڑتا اور صاحبانِ تاج و دہیم اور مقتدایانِ ملک و ملت دونوں کے مقابل میں اُن کا اثر غالب تھا۔
اب اس زمانے میں اُن کا قانون یہ تھا کہ جو شخص شریک جماعت ہونا چاہتا مذکورہ بالا شرائط کے علاوہ اس بات کی حلف اُٹھاتا کہ
’’مجھ پر کسی کا قرض نہیں ہے اور دَین سے بالکل سبک دوش ہوں اور اس وقت کسی اور جماعت یا گروہ میں نہیں شریک ہوں۔ اپنے بالا دست سرداروں کی بے عذر اطاعت و فرمانبرداری کروں گا۔ ہمیشہ عفت پاکدامنی کی زندگی بسر کروں گا اور اپنی باقی ماندہ زندگی ارض مقدس کی خدمت و حمایت کی نذر کروں گا۔‘‘
اپنے ان فرائض اور حمایتِ دین و کلیسا کی اس خدمت پر ان لوگوں کو بڑا فخر و ناز تھا اور مسیحی دنیا کا اُن کی جماعت کی طرف اس قدر رُحجان تھا کہ وہ مصرع ’’ہر کہ خدمت کردا و مخدوم شد‘‘ کا اعلیٰ ترین نمونہ بن گئے تھے اور اُن کے بھائیوں اور سوسائٹی کے رکن بانکوں کی تعداد پندرہ ہزار تک پہونچ گئی تھی۔ الحاد و بے دینی یا مسلمانوں کے مقابل بھاگ کھڑے ہونے کے الزاموں پر وہ سوسائٹی سے نکال دیے جاتے اور بعض چھوٹے چھوٹے قصوروں مثلاً لڑائی میں اپنے جھنڈے کو سرنگوں کر دینے اور اسی قسم کی چند اور خفیف باتوں پر وہ چند روز کے لیے اپنے درجے اور مرتبے سے گرا دیے جاتے۔
روم کے پاپاؤں کی ابتداءً یہ کوشش رہی کہ اس طاقت کو جو اُن کی منظوری سے اُس جماعت کے لیے قائم ہو گئی تھی حتی الامکان قوت پہونچائیں اور روز بروز بڑھاتے رہیں تاکہ بیت المقدس کے مسلمانوں سے چھیننے کی کوشش اسی طرح برابر جاری رہے اور کامیاب ہو۔ چنانچہ گریگوری عاشر، لوئی تاسع، نکولس رابع اور بنی فیس ثامن (پوپوں) نے فتوے دیے کہ ٹیوٹن نائٹ اور سینٹ جان کے بانکے بھی ٹمپلروں کے گروہ میں شامل ہو جائیں۔ باہمی محبت و اتحاد کو ترقی دے کر اپنی قوت بڑھائیں اور یہ تینوں طرح کے بانکے مل کے ایک گروہ بن جائیں۔ پوپ بنی فیس ثامن کو مرتے دم تک اسی بات کی دھُن رہی کہ بیت المقدس پر عیسائیوں کا قبضہ ہو اور ٹمپلروں کے بڑھانے اور ان کی تقویت میں اُس نے کوئی دقیقہ نہیں اُٹھا رکھا۔
مگر بجائے اس کے کہ اُس کی یہ تمنا بر آئے، اس کے ہاتھ سے پاپائی کی وقعت بھی چھن گئی۔ اس وقت تک پاپاؤں کا ایسا زور رہا تھا کہ اصلی قوت انہیں کے قبضۂ قدرت میں تھی اور مسیحی دنیا کے وہ بادشاہ گر تھے۔ جسے چاہتے بادشاہ بنا دیتے اور جسے چاہتے تاج و تخت سے محروم کر دیتے۔ مگر بنی فیس کے زمانے میں فرانس کے بادشاہ فلپ رابع نے اپنے تدبُر سے ایسا زور پکڑ لیا تھا کہ دربارِ پاپائی کا سارا زور ٹوٹ گیا اور بنی فیس بجائے مسجود قوم ہونے کے فلپ کے ہاتھ میں گرفتار ہو کے اُسی کی قید میں مرا۔ اور اس کے بعد جب نئے پوپ کے منتخب ہونے کا وقت آیا تو فلپ نے رشوتیں دے دے کے اور ڈرا دھمکا کے کارڈنلوں (یعنی پوپ کی محترم مجلس کے ممبروں) کو اپنا ایسا غلام بنا لیا کہ سوا اُس شخص کے جسے وہ پیش کرے اور کسی کو وہ لوگ پوپ منتخب کرنے کی جرأت ہی نہ کر سکتے تھے۔ یہ انتظام کر کے اُس نے ۷۳۴ محمدی (۱۳۰۵ء) میں کلیمنٹ خامس کو منتخب کرایا اور انتخاب سے پہلے ہی اُس سے چھ شرطیں اپنی مرضی کے موافق منوا کے اُن پر حلف اُٹھوا لی۔ اُن چھ شرطوں میں سے ایک آخر تک راز میں رہی اور کسی کو نہ معلوم ہو سکا کہ کیا تھی مگر واقعات اور پوپ کلیمنٹ کے طرز عمل سے لوگوں نے پتہ لگایا کہ وہ شرط ٹمپلروں یعنی اُن مذہبی بانکوں کی پامالی تھی۔
تقریباً نصف صدی پیشتر سے عوام میں ان بانکوں کی نسبت طرح طرح کی افواہیں اُڑنا شروع ہو گئی تھیں۔ ان کی راز داری اور مخفی کار روائیوں نے لوگوں میں بدگمانیاں پیدا کیں اور وہی لوگ جو ملک و ملت کے سب سے بڑے محسن تھے مورد سِہامِ ملامت بننے لگے۔ کہا جاتا کہ اپنی آدھی رات کی کمیٹیوں میں وہ لوگ شرمناک اور ناپاک ترین جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اُس وقت وہ لوگ خدا اور مسیح سے بد عقیدگی پر قسمیں کھاتے ہیں۔ صلیب پر حقارت سے تھوکتے ہیں۔ فحش اور مجرمانہ افعال کے مرتکب ہوتے ہیں اور باہم عہد کرتے ہیں کہ اپنی ان مخفی سیہ کاریوں کو کبھی کسی پر نہ کھلنے دیں گے اور اپنے گرینڈ ماسٹر کے سوا کسی کا کہنا نہ مانیں گے۔
مشہور تھا کہ عبادت کی دعاؤں میں بھی اُنہوں نے تصرف کر کے قطع و بُرید کر دی ہے۔ ’’گُڈ فرائیڈے‘‘ (یعنی جس جمعے کو حضرت مسیح کا مصلوب ہونا مانا جاتا) کے دن مقدس صلیب پاؤں کے نیچے روندی جاتی اور خیرات کا مروّجہ مسیحی طریقہ ترک کر دیا گیا تھا۔ عہد اولین میں ان لوگوں کی نسبت شہرت تھی کہ عورتوں سے نہایت ہی پاکبازی کے اور شریفانہ تعلقات رکھتے ہیں اور کبھی اُن کی نیت بُری نہیں ہوتی۔ مگر اب یہ اعتبار اُٹھ گیا تھا اور سمجھا جاتا کہ وہ نہایت ہی فحش بدکاریوں اور ناپاک ترین شہوت رانیوں میں مبتلا ہیں اور اپنے آدھی رات کے جلسوں میں وہ عورتوں کو فریب دے کے لے جاتے ہیں اور کمال بے رحمی سے ذلیل و بے آبرو کرتے ہیں۔ اسی قدر نہیں، اُن پر اغلام کے الزام بھی عائد کیے جاتے۔ بعض باپوں نے اپنے نو عمر بیٹوں کو صرف اس وہم پر مار ڈالا کہ رات کو وہ ٹمپلروں کی صحبت میں چلے گئے تھے۔ کیونکہ انہیں یقین تھا کہ وہاں جانے کے معنی یہی ہیں کہ اُن کی شہوت پرستیوں کے شکار ہوئے ہوں۔ یہ بدگمانی اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ انگلستان تک میں لڑکے ایک دوسرے کو متنبہ کرتے کہ خبردار کسی ٹمپلر کو اپنا مُنہ نہ چومنے دینا۔ مختلف حاکموں اور اُسقفوں کے سامنے اس قسم کے واقعات پیش ہوئے کہ باپوں نے اپنے کم عمر لڑکوں کو اس ندامت میں مار ڈالا کہ وہ کبھی ٹمپلروں کی صحبت شب میں شریک ہو گئے تھے۔
اسی قدر نہیں، اب اُن پر طرح طرح کے مذہبی الزام بھی عائد کیے جاتے تھے۔ یقین کر لیا گیا تھا کہ جو شخص ٹمپلروں میں شریک ہو جاتا ہے اُس کا اعتقاد نہ خدا پر رہتا ہے نہ مسیح پر۔ صلیب کو وہ بُرا سمجھتا اور اُسے حقیر جان کے اُس پر تھوکتا ہے۔ رات کو جلسوں میں وہ ایک بت کو پوجتے ہیں جس کی شکل بلی یا بچھڑے یا کسی اور چوپائے کی سی ہے۔ اُن کا گرینڈ ماسٹر اپنی راز کی محفلوں میں اُن کے سامنے یہ عقیدہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمانوں کی داڑھی کا ایک بال مسیحی کے سارے جسم سے زیادہ واجب التعظیم ہے۔ فرانس میں مشہور تھا کہ ٹمپلر اپنے حرامی بچوں کو بھون ڈالتے ہیں اور اُن کی جلتی ہوئی چربی اپنے دیوتاؤں کی مورت میں چپڑتے ہیں۔
ان سب باتوں کی اصلیت یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایک طرف ٹمپلروں کی وقعت و سطوت اور دولت و حکومت کو روز بروز بڑھتے دیکھ کے تمام مسیحی فرماں رواؤں اور خود روم کے پاپاؤں کو اُن پر حسد معلوم ہوا۔ جس طرح شاہانِ فرنگ اپنے تخت و تاج کے لیے اُن سے خائف تھے ویسے ہی مقتدائے ملت پوپ ڈرتا تھا کہ ایسا نہ ہو میرا تہرا تاج مقتدائی میرے ہاتھ سے چھن جائے اور دوسری طرف خود ٹمپلروں کو مدتوں بلکہ صدیوں تک مسلمانوں کے قریب رہنے اور اُن کے حالات سے روز بروز زیادہ آشنا ہوتے جانے کے باعث اسلام سے ایک قسم کا اُنس ہو گیا تھا۔ پادریوں نے مسلمانوں کی نسبت جو غلط اور بے بنیاد افواہیں مسیحی دنیا میں اُڑا رکھی تھیں اُن سے وہ واقف ہو گئے تھے اور دین محمدی کی خالص و بے غش توحید اُن پر آشکارا ہو گئی تھی۔ اُن کے دلوں میں دین اسلام کی طرف ایک میلان و رحجان پیدا ہو گیا تھا۔ جسے دیکھ کے مسیحیوں نے اُن کی نسبت ویسی ہی بے بنیاد افواہیں اُڑانا شروع کر دیں جیسی کہ خود مسلمانوں کی نسبت اُنہوں نے مشہور کر رکھی تھیں کہ اپنی مسجدوں میں بت پرستی کرتے، محمد (صلعم) کو خدا مانتے اور اُن کی ایک فیل نشین مورت کو اپنے معبدوں میں رکھ کے پوجا کرتے ہیں۔ اور مسلمانوں کی نسبت ان دنوں یورپ میں پیشوایانِ ملت نے ایسا تعصب پھیلا رکھا تھا کہ کسی کو اُن سے ذرا بھی لگاؤ ثابت ہوتا تو وہ مغرب کی ساری دنیا میں واجب القتل تھا۔ اسی چیز نے غریب ٹمپلروں کے تمام سابقہ حقوق اور اُن کی ساری خوبیوں کو خاک میں ملا کے انہیں تباہ کرایا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...