سلطان جمیل نسیم (کینیڈا)
ہم سب خوف کے غبار میں لپٹے ہوئے تھے ۔بچوں کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں اور تیز ہوا کا ہر جھونکابیوی کا رنگ اُڑا کے لے جاتا تھا۔میں بظاہر زیادہ فکرمند نظر نہ آنے کی کو شش کرتا لیکن مجھے خبر تھی کہ اپنے ہی گھر میں قید ہو جانے کے احساس نے میرے اعصاب کو بھی شل کر کے رکھ دیا ہے اور مجھے بھی گھر کے بند دروازوں پر خوف کی دستک سنائی دے رہی ہے۔
آخر ایک رات ریڈیو اور ٹی وی نے یہ خوشخبری سنائی کہ شہر کی رونق اور ہمہ ہمی کو نگل جانے والے عفریت پر قابو پالیا گیا ہے․․ہم نے اطمینان کا سانس لیا․․․․میں نے کئی دن کے بعد کمرے کی کھڑکی کھول کے باہر جھانکا․․․․صحن میں تھکے ہوئے چاند کی روشنی دھول کی طرح اُڑتی پھر رہی تھی۔
’’سب ٹھیک ہے نا․․․․‘‘بیوی نے ڈرتے ڈرتے پوچھا
’’ہاں ابھی تو سب کچھ ٹھیک ہی دکھائی دے رہا ہے۔سویرا ہونے پر ہی صحیح اندازہ ہو گا․․․․‘‘میں نے کھڑکی کے پٹ بند کرتے ہوئے کہا۔
صبح جب ہم اُٹھے تو چہروں کی ایسی حالت تھی جو طویل سفر طے کرتے ہوئے کہیں ٹھہر کرسستانے سے ہوتی ہے۔جب ہم ناشتہ کرنے بیٹھے تو بیوی نے اُن تمام چیزوں کی ایک پرچی بنا کے دیدی جو ختم ہو چکی تھیں۔
میری سب سے چھوٹی بیٹی نے پوچھا،’’آج ہم اسکول جائیں؟‘‘
میں نے شفقت سے اُس کے سر پہ ہاتھ پھیرا، پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
’’راستے تو کھل گئے ہیں۔اسکول بند ہونے کی خبر بھی اخبار میں نہیں آئی ہے لیکن میرا خیال ہے بیٹے آج کے دن اپنے بستے اور کتابیں ٹھیک کرلو․․․․کل سے جانا․․‘‘
عام طور سے اسکول نہ جانے کی خوش خبری بچوں کے چہروں پر گلال سا بکھیر دیتی ہے، مجھے اِس مسرت کا عکس اپنے بچوں کے چہروں پر نظر نہ آیا البتہ گھر میں بند رہنے کی دہشت ختم سی ہو گئی تھی۔میں نے ضروری چیزوں کی فہرست لی اور بازار کے لئے گھر سے نکلا․․․․کمرے سے نکل کر صحن میں پہنچتے ہی ایک عجیب سے احساس نے گھیر لیا کہ آج کا دن اُن دنوں سے مختلف ہے جن سے ہفتہ بھر پہلے سامنا ہوتا رہا تھا․․․․صحن میں سوکھے پتوں کے ساتھ دھوپ کی کرچیاں بھی پھیلی ہوئی ہیں ․․․․پیڑپودوں کا رنگ بھی وہی ہے ․․․․گھر کے در و دیوار بھی پہلے جیسے ہیں․․․․گلی میں لوگوں کی آمد و رفت بھی حسب سابق ہے ۔ پھر دن میں کمی کا احساس کیوں ہوا․․․․؟اِس احساس کو میں نے یہ کہہ کر تھپکا کہ ہفتہ بھر گھر کی چار دیواری میں بند رہا ہوں․․یہی ہفتہ بھر کی اجنبیت میرے اور دن کے درمیان حائل ہے․․․․گھر سے چند قدم آگے نکلنے کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا۔
بازار میں معمول کی چہل پہل تھی ۔تمام دکانوں پر خریداروں کا ہجوم تھا۔ سڑک پر ٹریفک کی رفتار بھی پہلے ہی جیسی ہو گئی تھی اور تمام لوگوں کے چہرے اُن تاثرات سے بھرے تھے جو سویرے آئینہ دیکھتے ہوئے مجھے اپنے چہرے پہ دکھائی دئیے تھے۔جب میں سودا سلف لے کے پہنچا تو اتنی دیر میں گھر کی صفائی ستھرائی ہو چکی تھی۔ صحن میں بکھرے ہوئے سوکھے پتے اور ہوا کے ساتھ اُڑ کے آجانے والا کوڑا کرکٹ صاف کیا جا چکا تھا اور درخت کی شاخوں سے چھن چھن کر آنے والی دھوپ کے دھبوں نے فرش پر روشنی کے پھول سے بکھیر رکھے تھے۔
میرے ہاتھ سے سودے کی ٹوکری لیتے ہوئے بیوی نے غور سے میری طرف دیکھا ۔میں سمجھا کہ چیزوں کی فہرست بنواتے وقت شاید کوئی چیز رہ گئی ہے اور اُس کا ذکر کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کی جارہی ہے۔ میں نے پوچھا:
’’کیوں ․․․․کیا بات ہے۔‘‘
’’نہیں کچھ نہیں․․․․‘‘
میں نے ہنس کر کہا۔’’بتاؤ بھئی․․․․کوئی چیز رہ گئی ہے تو ابھی لائے دیتا ہوں۔․․‘‘
اُس نے میری بات کا جواب نہیں دیااور ٹوکری میں سے ایک ایک چیز نکال کر اپنے سامنے رکھتی رہی۔ پھر خالی ٹوکری ایک طرف رکھتے ہوئے پوچھا۔’’باہر سب ٹھیک ہے نا۔۔؟‘‘
’’ہاں آں․․․․بالکل․․․․‘‘وہ پھر خاموش ہو گئی․․․․میں نے بچوں کی طرف دیکھا وہ اپنے کھیل میں مگن تھے․․․․میں نے کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں کندھے اُچکائے اور اخبار پڑھنے لگا․․․․اخبار کو دیکھتے ہوئے مجھے پھر اچانک خیال کہ آج کا دن باقی دنوں سے کچھ الگ تھلگ ہے۔ حالانکہ اخبار کی خبریں وہی ہیں جو ٹی وی اور ریڈیو نے سنائی ہیں ۔ بس اخبار کی زبان،مصلحتیں اور ریپورٹنگ ذرا مختلف ہے۔
لیکن یہ اخبار تو میں برسوں سے پڑھ رہا ہوں۔ اخبار کے انداز میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔پھر کیا وجہ ہے کہ میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ آج کا دن باقی دنوں سے کہیں مختلف ہے․․․․کچھ ہونا چاہئے تھاجونہیں ہے․․․․․میرے اِس احساس کا تعلق اخبار سے نہیں ہو سکتاکیونکہ اخبار پڑھنے سے پہلے․․․․کمرے سے باہر نکلتے وقت بھی مجھے یہی خیال گزرا تھا․․․․میں نے اخبار ایک طرف رکھا اور دیوار میں لگے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکے اپنے چہرے کو غور سے دیکھا․․․․کوئی خاص بات نہیں تھی․․․․آج شیو نہیں کیا تھا ۔چہرے پہ کوئی زخم کا نشان تھانہ کوئی اضافہ نہ کمی․․․صرف دکھ اور تشویش کے آثار۔فکرمندی کی کیفیت جو کئی دن سے طاری تھی بس اُس کا ہلکا ساشائبہ موجود تھاپھر کیا ماجرا ہے ۔جو آج کا دن مجھے سب گزرے دنوں سے مختلف معلوم ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے آج جو کچھ ہے وہ مکمل نہیں ہے۔کہیں کچھ نہ کچھ رہ گیا ہے مگر کیا․․․․․؟یہی تو سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔
’’کیا سوچ رہے ہیں۔․؟‘‘بیوی نے سوال کیا
میں اُسے کیا بتاتا․․․․کیسے کہتا کہ ایک عجیب حماقت آمیز سی بات ذہن میں آرہی ہے۔میں نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن خاموشی بے کلی کا جواب نہیں ہوتی․․․․میں دن بھر گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں الجھا رہا․․․․اس دوران پیٹ بھر کے تازہ کھانا بھی کھایا گھنٹہ سوا گھنٹہ سویا بھی ۔ذرا دیر ریڈیو بھی سنا․․․․ٹی وی بھی دیکھا۔اپنے ایک دوست کو شہر کے حالات تفصیلاََ اور تجزیاتی طور پر لکھے بھی․․․․بچوں کو ہوم ورک کرنے میں مدد بھی دی․․․․بیوی سے مختلف موضوعات پر باتیں بھی ہوئیں لیکن میرے اندر ہلکے ہلکے اضطراب کی لہریں بھی اُٹھتی رہیں۔
شام کی چائے پیتے وقت بیوی نے کہا۔’’آپ نے کچھ محسوس کیا۔؟‘‘
اِس سوال پر میں چونک پڑا ۔حیرت سے اُس کی طرف دیکھا۔وہ بھی میری طرح کچھ بے چین سی نظر آرہی تھی۔ میں سویرے سے جس خلجان میں مبتلا تھا، جو نامعلوم سی کمی محسوس کر رہا تھا، اُ س کا کیا اظہار کرتا۔ اِس لئے میں نے اُسی سے سوال کیا۔
’’کس بارے میں پوچھ رہی ہو۔؟‘‘
اُس نے چائے کی پیالی میز پر رکھی اور آہستہ سے کہا۔’’آج کا دن․․کچھ عجیب سا نہیں لگ رہا ہے۔۔؟مجھے تو بار بار یہ محسوس ہو تا ہے جیسے ابھی کوئی کام کرنا باقی رہ گیا ہے۔‘‘
اُس کی بات سن کر میں نے سوچا کہ اب اپنی کیفیت چھپانا مناسب نہیں ہوگا․․․․ہم دونوں کی سوچ ایک ہی نقطے کے اطراف گھوم رہی ہے اس لئے کھل کر باتیں کر لینی چاہئیں یوں ممکن ہے ہم کسی نتیجے پر پہنچ سکیں․․․شاید اُس کمی کی نشاندہی ہو سکے۔
’’ہاں․․․․سویرے آنکھ کھلنے سے لے کر اب تک یہ احساس تو ہو رہا ہے جیسے ہمارے صبح و شام میں کوئی اور بھی شریک ہوتاتھا ‘اب نہیں ہے․․․․لیکن سمجھ میں نہیں آرہا ہے وہ کون تھا․․کیا چیز تھی۔۔‘‘
’’کہیں ہم اُن لوگوں کے بارے میں تو نہیں سوچ رہے ہیں جو کل تک ہمارے شہرمیں تھے۔فضا میں جن کی سانسیں گھلی ملی تھیں۔۔؟‘‘
’’نہیں۔ وہ دکھ تو دل کے اندربیٹھا ہے۔اسے پہچاننا مشکل نہیں ہے۔یہ کیفیت تو بالکل ہی علاحدہ ہے۔‘‘
’’آپ باہر گئے تھے․․․․وہاں کچھ لوگ ملے ہونگے۔ اُن میں سے کسی نے اس قسم کی بات کی․․․؟‘‘
’’نہیں ۔کسی سے کوئی بات نہیں ہوئی․․․․‘‘
پھر ہم دونوں نے کوئی بات نہیں کی ․․․․وہ گھر کے کاموں میں الجھ گئی اور میں اپنے خیالوں میں۔ میری سوچ کی لہریں کئی سمتوں میں پھیلتی اور سمٹتی رہیں۔․․․․یہ خیال بھی آیا کہ بھول جانا انسانی فطرت کی ایک خوبی بھی ہے لیکن اگر حد سے بڑھ جائے تو ایک بیماری بھی ہے۔ ہر لمحہء موجود کی کوکھ سے تاریخ کے صفحات لئے واقعات جنم لیتے رہتے ہیں۔ اور تاریخ یاد رکھنے کی چیز ہوتی ہے۔ آج کو بھلا دینے والے گزرے ہوئے کل کی جانب دیکھتے ہیں اور نہ آنے والے کل پر اُن کی نظر ہوتی ہے۔ یہ بیماری کی نشانی ہے۔ بے حسی کی دلیل․․․․لیکن وہ نظریں جو آج کا پردہ اُٹھا کے ماضی و مستقبل کے ورق پڑھتی ہیں۔ آج اور کل کے فرق کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں شاید وہی ہر عہد کا حاصل ہوتی ہیں۔مگر کہاں ہیں وہ نظریں․․․․خود کو صاحبِ بصیرت سمجھنے والے تو عیب جوئی میں ․․․․کاسہ لیسی میں․․․․بھیک کا کشکول تھامے اقتدارِ زر کے لئے قطار میں کھڑے ہیں․․․․زہر ٹپکانے والے والے ہاتھ تو بہت ہیں اور اُن سے سبھی واقف بھی ہیں سوال یہ ہے کہ تریاق دینے والے ہاتھ کہاں ہیں․․․․؟زخم تو لگتا ہی ہے ․․․․ٹیس تو اُٹھتی ہی ہے معالج ماہر ہو تو زخم جلدی بھر جاتا ہے۔ مگر ہم تو عطائیوں کے کے ہاتھ میں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔قصور ہمارا بھی ہے․․․․مگر ہم کیا کر سکتے ہیں۔؟ہم نے تو ایک بیماری کے کئی نام رکھ چھوڑے ہیں․․․․کیا کوئی ایسا نہیں ہے جو ہمارے زخموں کو ایک بار چھیل کر سارا مواد نکال دے اور پھر مرہم رکھے۔ورنہ یہ قطرہ قطرہ ٹپکنے والا زہر تو زخموں کو نا سور بنا دے گا․․․․․ناتجربہ کار عطائی سارا الزام مرض اور مریض پر ڈال کے بری الذمہ ہو جائیں گے کہ ایسا ہو بھی چکا ہے․․․․․․․جانوروں کاریوڑ بھی جب ہرا ہرا چارہ دیکھتا ہے تو منہ مارنے کیلئے لپکتا ہے مگر اِس ریوڑ میں سے کوئی ایک اپنا نوالہ چھوڑ کے گردن اُٹھا کے چاروں طرف دیکھتا ہے کہ کہیں کوئی خطرہ․․․․سب کے لئے کوئی تاک میں تو نہیں ہے․․․․ہے کوئی ہم میں ایسا جو،ا پنا نوالہ چھوڑنے کی قربانی دینے کو تیار ہو۔․․․․؟ آج میں جو کچھ سوچ رہا ہوں ممکن ہے کل نہ سوچوں․․․․اُڑتے ہوئے لمحے جذباتی کیفیت کو بھی لے اُڑ تے ہیں․․․․انسان کو صبر آہی جاتا ہے ․․․․غموں پر․․․․دکھوں پر وقت کی راکھ جمتی چلی جاتی ہے․․․․آج ایک انجانے اضطراب کا جال میرے اطراف پھیلا ہوا ہے۔کل تک اِس جال کے حلقے ڈھیلے پڑ جائیں گے۔ خدا کرے، کل پھر کوئی اِس پھندے کے خانوں کو کس نہ دے۔رات گئے تک میں رہ رہ کر ایسے ہی الجھا ووں میں مبتلا رہا۔
دوسرے دن بچوں کو اسکول تک چھوڑ نے کے لئے جب گھر سے نکلا تو پھر کل والے احساس نے چٹکی سی لی․․․․میں نے مڑ کے اپنے گھر پہ ایک نظر ڈالی ۔صحن میں کھڑا ہوا اُونچا درخت اپنی گھنی شاخوں پر سورج کی ہلکی ہلکی کرنوں کو جھولا جھلا رہا تھا۔سارا منظر دیکھا بھالا تھا۔ کس چیز کی کمی ہے۔؟اسی بات پر غور کرتا ہوا میں آگے بڑھ گیا بچوں کو اسکول پہنچا کے اپنے کام پر چلا گیا۔ وہاں دفتری ساتھی اپنے اپنے اندازمیں حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کرتے رہے ۔میں اُن کی باتوں میں شریک رہا اور بھول گیا کہ کل سے آج تک کیسے کیسے خیالوں میں بھٹکا رہا تھا۔
جب گھر پہنچا تو سورج اپنی دن بھر کی کمائی سمیٹ رہا تھا ۔ دروازے پر دستک دیتے ہی یہ احساس پھر میرے اندر پھیلنے لگا کہ شہر پہ ٹوٹنے والے ظلم کے علاوہ بھی کچھ اور ہواہے اور جو کچھ اُس ظلم کے علاوہ ہوا ہے ․․․․کیا اُس کا تعلق میری ذات سے ہے۔؟نہیں․․․․میرے گھر سے ہے۔؟ یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا․․․․لیکن کچھ ایسا ضرور ہے جو میرے ساتھ ساتھ میری بیوی کو بھی میرا شریکِ احساس بنا گیا ہے․․․․اِس خیال نے مجھے کل سے زیادہ بے چینی میں مبتلا کردیا․․․․پھر مجھے بے کلی سی کیوں ہے۔․․․․یہ نامعلوم سا کرب ․․․․درد کی ایک بے وزن لہر ․․․․گھر کے دروازے پر پہنچتے ہی ایک بوجھ کا احساس․․․․بیوی نے دروازہ کھولاتو اُس کے چہرے پر بھی کل جیسی الجھن کے آثار دکھائی دئیے․․․․گھر میں قدم رکھتے ہی اُس نے پوچھا۔’’شہر کی حالت کیا ہے۔‘‘
جواب دینے سے پہلے میں صحن میں پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا اور مٹی میں بچوں کو کھیلتے دیکھ کر کہا۔
’’شہر․․․گھائل شیر کی طرح اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔‘‘
میرے جواب سے اُس کی تشفی ہوئی یا نہیں۔ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اُس نے پوچھا۔
’’چائے یہیں پیئں گے یا اندر۔۔۔‘‘
’’یہیں لے آؤ۔۔‘‘
چائے کی پیالی دیتے ہوئے اُس نے دھیمے لہجے میں کہا۔’’مجھے تو آج بھی سارا دن ایسا محسوس ہوتا رہا جیسے میرے بدن میں کہیں درد ہے ․․․․کہاں ہے․․․․کتنا ہے․․․یہی پتا نہیں چل رہا․․․․بچوں کو لینے اسکول بھی گئی تھی۔ وہاں بھی سب ٹھیک ہی تھا۔۔‘‘میں جانتا تھا وہ بھی اِس بے نام کیفیت کو پہچاننے کی کوشش کر رہی ہے جس کو میں کل سے کوئی نام دینے کی فکر میں ہوں۔ ہم دونوں آمنے سامنے بیٹھے چائے کے گرم گرم گھونٹ بھرتے رہے۔ پھر اُس نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے پلٹ کر بچوں کو مخاطب کیا۔
’’چلو بھئی اٹھو․․․․بہت کھیل ہو چکا․․․․دونوں وقت مل رہے ہیں․․․․آ جاؤ شاباش․․․‘‘اچانک وہ اس طرح خاموش ہو گئی جیسے بجتا ہوا ریڈیو بجلی چلے جانے سے ایک دم بند ہو جاتا ہے۔میں نے اُس کی طرف دیکھا۔ اُس کا چہرہ اتر گیا تھا اور وہ دہشت بھری نگاہیں اٹھا کے درخت کو تک رہی تھی۔ غیر ارادی طور پر میں نے بھی درخت کی طرف دیکھا․․․․ہوا میں جھولتی شاخیں جیسے بڑھتے اندھیرے کا ہاتھ جھٹک رہی تھیں۔
’’دیکھا آپ نے۔۔۔؟‘‘ اُس نے سحر زدہ لہجے میں کہا
’’کیا․․․․؟‘‘ میں نے پھر نظریں اُٹھائیں۔ جب مجھے کچھ دکھائی نہیں دیا تو میں نے اُس کی طرف دیکھا․․․․اُ س کے سُتے ہوئے چہرے پر خزاں دیدہ پتّے کی زردی کھنڈی ہوئی تھی۔وہ بڑے نڈھال لہجہ میں بولی۔
’’ آج ․․․․آج پیڑ پہ چڑیاں نہیں ہیں․․․․‘‘
یہ سن کر میں چونک اٹھا․․․․․یہی کمی تو کل سے محسوس ہورہی تھی۔