اکبرؔحمیدی ( اسلام آباد)
محبت کے زمانے آگئے ہیں
عنایت کے زمانے آگئے ہیں
چلو اب جیت جانے دیں اسی کو
شرافت کے زمانے آگئے ہیں
گھنے جنگل تھے طاقت کے زمانے
سیاست کے زمانے آگئے ہیں
بہر سُو چہچہے ہیں گل رُخوں کے
قیامت کے زمانے آگئے ہیں
ہوئے تہہ دار نظروں کے اشارے
علامت کے زمانے آگئے ہیں
رقابت کے زمانے ہو چکے سب
رفاقت کے زمانے آگئے ہیں
بہت ہے جنبشِ ابرو بھی ہم کو
بلاغت کے زمانے آگئے ہیں
وہ زلفیں کھول کر آئے ہیں اکبرؔ
کہ راحت کے زمانے آگئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے تُوہی نہیں سارا زمانہ چاہیے ہے
کہ اِک گوہر تو کیا پورا خزانہ چاہیے ہے
گذشتہ عمر تو اِس خبط میں ہم نے گنوائی
محبت کے لیے اچھا گھرانا چاہیے ہے
غزا لوں کے شکاری تجھ کو یہ بھی سوچنا تھا
شکاری کو بہت کچھ دام و دانہ چاہیے ہے
جہاں شاہ وگدا‘ اپنے پرائے ایک سے ہوں
حقیقت میں ہمیں اِک بادہ خانہ چاہیے ہے
بغیر اس کے نہیں آئے گا اس میں لطف کوئی
حقیقت کو بھی کچھ رنگِ فسانہ چاہیے ہے
یہ دنیا تم کو حسن وعشق کی مورت لگے گی
پر اندازِ نظر بھی عاشقانہ چاہیے ہے
جسے سنتے ہوئے خود کو فقط انسان سمجھیں
ہمیں اکبرؔوہ انسانی ترانہ چاہیے ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب اب چبھنے لگے آنکھوں میں
وہ بھی دن تھے کہ سجے آنکھوں میں
میں نے دیکھا اُسے سب زاویوں سے
اُس کے سب رنگ پڑے آنکھوں میں
تن بدن اُس کے بھی کلیاں چٹکیں
میرے بھی پھول کھلے آنکھوں میں
وہ مناظر تھے حواس اُڑنے لگے
پھر مرے بارہ بجے آنکھوں میں
دل کے آنگن میں نہ کھل پائے تھے جو
سب کے سب کھلنے لگے آنکھوں میں
وہ الاؤ جو کبھی ذہن میں تھے
اُس کو دیکھا تو جلے آنکھوں میں
جو نہ اکبرؔ کبھی لکھ پایا اُسے
سب خطوط ایسے لکھے آنکھوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گئی گذری کہانی لگ رہی ہے
مجھے ہر شے پُرانی لگ رہی ہے
وہ کہتا ہے کہ فانی ہے یہ دنیا
مجھے تو جاودانی لگ رہی ہے
یہ ذکرِآسماں کیسا کہ مجھ کو
زمیں بھی آسمانی لگ رہی ہے
ہر اک نوخیز کی مغروریوں میں
تری کافر جوانی لگ رہی ہے
بہت خوش معنی سی تحریر ہے وہ
کسی کی خوش بیانی لگ رہی ہے
وہ اِس حُسنِ توجہ سے ملے ہیں
یہ دنیا پُر معانی لگ رہی ہے
غزل دنیا میں رہتا ہوں میں اکبرؔ
یہ میری راجدھانی لگ رہی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کی گرہیں کہاں وہ کھولتا ہے
چاہتوں میں بھی جھوٹ بولتا ہے
سنگ ریزوں کو اپنے ہاتھوں سے
موتیوں کی طرح وہ رولتا ہے
جھوٹ ہی بولتا ہے وہ لیکن
لہجے میں اولیا کے بولتا ہے
کیسا میزان عدل ہے اس کا
پھول کانٹوں کے ساتھ تولتا ہے
ایسا وہ ڈپلومیٹ ہے اکبرؔ
زہر اَمرت کے ساتھ گھولتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کو نظر میں بھر رکھا ہے
آدھا کام تو کر رکھا ہے
اس نے کہا تھا مت گھبرانا
ہر دیوار میں در رکھا ہے
کچھ تو اس کے معنی ہوں گے
ہر شانے پر سر رکھا ہے
سب جھلکے پر نظر نہ آئے
ایسا پردہ کر رکھا ہے
میری خاک کے اندر اکبرؔ
لطفِ خیر شر رکھا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنے برسوں سے مرے مہمان ہو
اے غمِ دنیا بس اب دفعان ہو
ختم ہو جائیں گی ساری دقتیں
عید آتی ہے اگر رمضان ہو
کِس طرح مایوس ہو کر لوٹ جاؤں
سامنے جو عالمِ امکان ہو
دیکھتا ہوں تم کو تو ایسا لگے
تازہ پھولوں سے بھرا گلدان ہو
تم سے ہیں اس آئینے کی رونقیں
تم ہی تو اس آئینے کی جان ہو
تنگ رستوں سے سڑاند آنے لگے
دوستو مت اس قدر گنجان ہو
کٹ تو جائے گا سفر اکبرؔ مگر
ہمسفر اچھا ہو تو آسان ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توقعات زیادہ نہیں رکھا کرتے
دکھوں کے واسطے رستا نہیں رکھا کرتے
خود اپنے ذہن میں سب رونقیں لگا رکھیں
کہ اپنے آپ کو تنہا نہیں رکھا کرتے
سوائے اس کے کوئی دوسرا نہیں ہے یہاں
کبھی گماں بھی کسی کا نہیں رکھا کرتے
جو تم پہ بند ہوں دروازے بادہ خانے کے
خیالِ ساغر و مینا نہیں رکھا کرتے
پڑے جو رَن کسی بُزدل کو ساتھ مت لینا
کہ راہِ سیل میں تنکا نہیں رکھا کرتے
جو زندگی کا تقدس بحال رکھنا ہو
تو سب کے سامنے دکھڑا نہیں رکھا کرتے
چھپائے رکھا ہے اکبرؔ نے اس کے ہجر کا دکھ
کچھ اس طرح سے کہ گویا نہیں رکھا کرتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی وہم و گماں میں مت رہنا
بے مکاں کے مکاں میں مت رہنا
دیکھنا اوروں میں اتر کر بھی
اپنے ہی جسم و جاں میں مت رہنا
بھیڑ میں رہ کے کچلا جائے گا
دیکھ یوں درمیاں میں مت رہنا
وہی اچھے ہیں جو زمیں پر ہیں
تم کسی آسماں میں مت رہنا
اب یہ سکّہ نہیں ہے چلنے کا
نسبتِ این و آں میں مت رہنا
بات کر اس کے پیکر گُل کی
اپنے رنگ بیاں میں مت رہنا
نئی دنیا بلاتی ہے اکبرؔ
گئے گزرے جہاں میں مت رہنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فضا میں اس کی خوشبو بھی ہے شامل
کہ جنگل میں وہ آہو بھی ہے شامل
جو شامیں سُرمئی ہونے لگی ہیں
تری آنکھوں کا جادو بھی ہے شامل
زمانہ اچھا اب لگتا ہے مجھ کو
زمانے میں کہیں تو بھی ہے شامل
سنورتے رہتے ہیں دنیا کے تیور
کہ دنیا میں وہ خوش خو بھی ہے شامل
میں خود کو جھانکتا ہوں خود میں، شاید
کہیں وہ آئینہ رُو بھی ہے شامل
رویے بائیں بازو کے ہیں سارے
مگر کچھ دایاں بازو بھی ہے شامل
نظر آتا ہے دنیا دار اکبرؔ
پر اس میں ایک سادھو بھی ہے شامل