جاوید حیدر جوئیہ(بورے والا)
(”قدِّ آدم “ اور ” چھوٹی دُنیا، بڑے لوگ“ کے حوالے سے)
یونگ کے نفسیاتی ماڈل میں Personaقدیم رُومیوں کے ڈراموں میںاَداکار کے پہننے کا وہ ماسک (Mask)ہوتا تھا، جسے وہ اپنے چہرے پر چڑھا لیتا، اَور یوں ناظرین و سامعین سے اپنی’ اصل ‘کو چھپاتا (اور دِکھاتا بھی)۔اس نفسیات میں پرسنیلیٹی(Personality) کا لفظ بھی Personaہی سے مشتق ہے۔اس زاویے سے دیکھیں تو ہر شخص’ شخصیت ‘کا حامل نہیں ہوتا۔ شخصیت ہونے کے لیے اُس کا ’ کردار‘ ہونااوّلین شرط ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ کردار کسی اعلیٰ سماجی حیثیت ہی کا حامِل ہو، بلکہ یہ اس تمثیل کا کوئی ’معمولی “ مگر اہم کردار بھی ہو سکتا ہے، جو اَنبوہِ آدم کے اس جمگھٹے میں نہ جانے کب سے جاری ہے، اورخبر نہیںکب تک جاری رہے گا۔ دیکھا جائے تو’شخصیت ‘بھی محض باہر کا’ چھلکا ‘ہے ۔’ مغز ‘تو اِس کے اندر چھپا ہُوا ہے ۔
یونگ کا یہ بھی کہنا تھاکہ جو لوگ شعوری طور پر بہت’ مضبوط‘ ہوتے ہیں، اصلاَ وہ لا شعوری اور وجدانی سطح پر بے حد کمزور واقع ہوتے ہیں، جبکہ اس کے بر عکس لاشعوری سطح کے مضبوط لوگ شعوری سطح پر نہایت کوتاہ طاقت ہوتے ہیں۔اس لیے’ اصل ‘کی پہچان کے لیے ضروری ہے کہ اس ’پرسَونا‘ کی نقاب کُشائی کی جائے ۔ گویا شخصی کردار میں ذات(self) کی پہچان کی جائے۔دوسرے لفظوں میں انسان کی پہچان دراصل خود شناسی (Self recognition) کا عمل ہے ،جو’ ٹھہر کر دیکھنے ‘کا متقاضی ہوتا ہے۔ جو پہچان عُجلت میں کی جاتی ہے، وہ پہچان ہوتی ہی نہیں بلکہ محض’سر سری نظر ‘ہوتی ہے____ بالکل ایک اُچٹتی سی جھلک، جسے بس ایک عارضی سی یاد داشت کا حصہ بننے کی توفیق مِلتی ہے__جیسے کوئی ٹرین کی ٹکٹ کا نمبر یاد نہیں رکھتا۔ جب کہ’ رُک کر‘ او’ر ٹھہر کر ‘کی گئی پہچان نہ صرف سچّی ،سُچّی اور متاثر کُن ہوتی ہے، بلکہ ایک طویل المدّت یاد داشت بن کر خود پہچاننے والے کی ذات کا حصہ بھی بنتی ہے،اُس کی اپنی ذات پر اِس کا براہِ راست اَثر ہوتا ہے اور یوں ’ذات ‘ (Self) ’ایک ‘ کی تنہائی سے ’ دو‘ کی یکتائی میں بدل جاتی ہے۔
زِندگی کی ہمہ ہمی، شور اور جلد بازی نے اِنسان کو تاریخی طور پر بہ تدریج اَپنی رَفتار بڑھالینے پر مجبور کیا ہے۔ رَفتار بڑھ جانے کا مطلب یہ بھی ہے کہ مہارت کی ضرورت کے ساتھ ساتھ حادثے کا اندیشہ بھی بڑھ جائے۔ ایسے میںاوّل تو کردار نظر ہی نہیں آتے، اور اگر نظر آ جائیں تو اُن کی ’اصل ‘ پہچان نہیں ہو پاتی۔صرف جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اَب’ آدمی‘ زیادہ اور شناخت کردہ شخصیتیں کم ہیںاَور جو ہیں وہ’ منظورِ نظر شخصیتیں‘ ہیں۔یہ وہ ’حادثہ ‘ہے جو بعض لکھنے والوں کی تیز رفتاری کے سبب آئے دِن کا واقعہ بن گیا ہے۔یہ حادثہ ہر حادثے کی طرح ’ مہارت‘کی کمی کے باعث پیش آتا ہے۔ اکبر حمیدی اس حادثے سے اسی لیے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ اُنھوں نے رُکنے اور ٹھہرنے کا انداز اپنایا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ سُرعت مشاہدے کی دُشمن ہے۔ تیزی خوف زدہ بھی کرتی ہے، اور خوف انسان کو قید کر دیتا ہے۔ آزادی کا پر مسرّت لمحہ صرف اُس وقت نازل ہوتا ہے، جب خوف کی جگہ محبّت لے لیتی ہے۔
محبّت اصل میں مبالغے ہی کی ایک حالت ہے ، حتیٰ کہ ایک شخصیت کی محبت” تعلّی“ بھی ہو سکتی ہے۔خاکہ لکھنے کا عمل بغیر محبت کے اَنجام نہیں پا سکتا۔ محبت کا یہ سفر خاکہ نگار کی اَپنی ذات کے zero pointسے آغاز ہوتا ہے ۔ آغاز کے بعد خاکہ نگار دھیرے دھیرے ،ایک سیّاح کی طرح ،شاہدِ ذات کے اَن دیکھے اور اَن چھوئے لمس کو پہلی بار محسوس کرنے کی مسرّتِ جا وداں سے ہم کنار ہوتا ہے۔ اس ایک ٹَچ(Touch) کی بدولت وہ شناخت کے ماورائی عمل سے گزرنے لگتے ہیں___ اور خاکہ مکمل کر لیتے ہیں۔
اَصلاََ معرفتِ ذات میںیہ عمل صوفی کا بھی ہے، لیکن صوفی کے بر عکس خاکہ نگار کی تخلیقی وابستگی اَور ’رُک کر دیکھنے ‘ کی صلاحیت کا اِنعام یہ ہے کہ وہ اپنے سفرِ محبت کی رفتار کو ضبطِ نفس کا حصہ بنا لینے اور یوں محبت کے ’جسم ‘کو لباسِ تخلیقیت پہنا نے پر قادر ہوتا ہے۔وہ جمال کا ناظرِ محض نہیں بلکہ اس کا نَو تخلیق کار بھی ہوتا ہے۔اسی لیے ایک اعلیٰ درجے کا خاکہ نگار قصیدے کی تشبیب اور سراپا نگاری سے خود کو بچا لے جاتا ہے ۔ وہ ممدوح کے بجائے محبوب کی جمالیاتی تشکیل کرتا ہے۔اگر وہ ایسا نہ کر پائے تو اس کی یہ کاوش ’منثور قصیدے‘ کے زمرے میں تو شاید آئے ، خاکہ نہیں بن پائے گی۔ زیادہ آسانی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک کامیاب خاکہ نگار دُوسرے کے نام سے خود اپنی آپ بیتی اور ذاتی سفر نامہ لکھتا ہے۔
اکبر حمیدی نے پنجاب کے گاﺅں میں اپنا بچپن،لڑکپن اَور جوانی کا بڑا حصہ گزارا ہے۔ یہاں اُن کی شخصیت نے تہ ہو کر سمٹنا اور پھر پھیلنا سیکھا ۔ اسی لیے اُن کی تحریر میں ایک تَہ دار پھیلاﺅ والا انسان ہر جگہ مِلتا ہے۔ اُنھوں نے غزَل کی شاعری سے اپنی اَدبی زندگی کا آغاز کیا، پھر نثر کی طرَف آئے۔ شاعری کی تہ داری کو نثر کے پھیلاﺅ میں انھوں نے کس طرح واسع کیا، یہ معمہ اُن کے قاری کو شاید ہمیشہ ورطۂ حیرت میں رکھے !مزید حیرت کی بات یہ ہے کہُ انھوں نے شاعری اور نثر کو ایک دوسرے کا مثنیٰ بننے سے ہمیشہ روکے رکھا ہے۔خاکوں کے علاوہ دیگر نثری اصناف کی سمت اس مضمون کا رُوئے سخن نہیں ہے، ورنہ مَیں ضرور تجویز کرتا کہ اکبر حمیدی کے خاکے اُن کی خود نوشت ” جَست بھر زندگی “ کو پڑھنے کے بعد پڑھے جائیں ،تاکہ خاکہ نگاری اور آپ بیتی میں متذکرہ بالا رشتہ ہمیں صاف نظر آئے۔
اُن کے لکھے ہوئے خاکے شگفتنِ گُل کی آپ بیتی ہیں۔ یہ قدرتی اور آرائشی پھول اُن کے اَندر چلتی رہنے والی دیہی اور شہری ہواؤں میں کھِلے ہیں، ہوائیں جو کبھی بادِ صبا تھیں تو کبھی بادِ صر صر۔لیکن حیرت ہے کہ اِن میں قنوطیت کہیں نہیں۔ کردار کی شخصیت اُن کی ذات کا other theبن کرمحفوظ رہی ہے، اور یوںترفع آشنا بھی ہوئی ہے۔ غالباَ اسی لیے اکبر حمیدی کے خاکوں کے کرداروں کی خوبیاں اور خامیاں خود اکبر حمیدی کی ذات کا عکس نظر آتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ منٹو کے ” گنجے فرشتے“ خاکہ کی ”تعریف “ ہیں، کہ خاکے میں کردار کے اوصافِ حمیدہ کے ساتھ ساتھ( اُن کے گنجے پن )کی” خامیاں“ بھی بیان ہوتی ہیں۔اکبر حمیدی کے خاکوں میں آپ کو” فرشتے ‘ نہیں دِکھائی دیں گے۔ بس خاکی انسان نظر آئیں گے ___ جن کا’ فرشتہ پن‘ اور’ گنجا پن‘ نیچرل ہو گا۔ مطلب یہ کہ وہ کردار کا مضحک نقشہ پیش نہیں کریں گے۔ وہ خامی کی خوبی اور خوبی کی کجی کا امتزاج پیدا کر کے اپنے خاکے کی بُنت کرتے دکھائی دیں گے۔ وہ جزو نہیں بتائیں گے، بلکہ انسان کو ایک گیسٹالٹ کی طرح بُنیںگے___ اُن کے خاکوں کے اِنسان اپنے حاصلِ کُل سے بڑھ کر ہوں گے۔ یہ اضافہ اُنھوں نے کردار میں اپنی طرف سے نہیں کیا ہو گا، بلکہ یہ کردار کے دوسری طرف موجود کسی چیزے دیگر پر دال ہو گا۔ و ہ ڈرامائی انداز اختیار نہیں کریں گے ،لیکن کردار کاخاموش رول آپ کو صاف دکھائی دے گا۔وہ واقعات کی Narrationسے کہانی نہیں لکھیں گے، مگر دِل چسپی اُن کے خاکوں میں قاری کو آگے بڑھتے رہنے پر اُکساتی رہے گی ۔وہ معمولی کو معمولی ہی رہنے دیں گے _
_ لیکن معمول سے ہٹ کر۔ وہ خاص کو بھی خاص ہی رکھیں گے لیکن اپنے خاص انداز میں۔ اُن کے ہاں ” جُملہ بازی “ بھی کہیں کہیں دکھائی دے گی ۔ مگر ” جملہ “ حملے کی طرح نہیں بلکہ حکمتِ عملی کی طرح استعمال کریں گے۔ آپ کو لگے گا کہ اس خاکے میں اسی ایک جملے ،(یا ایک سے زیادہ جُملوں) کی رُوح خاکے کے تنِ خاکی میں دھڑک رہی ہے___ رُوح ،جو اس کی اصل ہے لیکن درباطن ہوتے ہوئے بھی جو ظاہر کی دُنیا کو ’زندہ اور ’قائم ‘رکھے ہوئے ہے۔بعض جملے تو ایسے ہوں گے کہ آپ چاہیں گے اِنھیں بدل دیا جائے، یا اِن کی ساخت کو تبدیل کر دیا جائے ۔لیکن کوئی ایسا کر کے دیکھ لے ،یہ کوشش بالکل بے سود ہو گی۔ خاکہ” بے رُوح“ ہو جائے گا۔
اچھی نثر کی ایک خصوصیت اس میں طویل و مختصر جملوں کا امتزاج بھی ہے۔ اکبر حمیدی کے خاکوں میں یہ وصف بڑی فنّی مہارت سے کردار کی چھوٹی بڑی خصوصیات کی صورت استعمال ہوتا ہُوا آپ کو نظر آئے گا۔ چھوٹی بات کو بڑا بنا کر اور بڑی بات کو چھوٹا کرکے لکھنااُن کے مزاج اور وضعِ اُسلوب کے خلاف ہے۔ وہ اپنے کردار کو کوئی ایسی وردی نہیں پہنائیں گے جس پر اعزازاتی فیتے لگے ہوں__بلکہ وہ سرے سے وَردی پہنائیں گے ہی نہیں۔تاہم، اگرکردار کی یونیفارم اُن کے لیے اہم ہوگی بھی تو وہ اُسے جسم سے چِپکی ہُوئی نہیں، بلکہ کھونٹی سے لٹکتی ہوئی دِکھائیں گے۔ وہ انسان کی دانش پر توجّہ مرکوز کریں گے، اُس کی بہادری کے گیت گائیں گے، اُس کی اُولوالعزمی کا ذکر کریں گے، جہدِ مسلسل کی اورفتح مندی کی بات کریں گے۔ محسن کی احسان کاری کے معترف ہوں گے۔(محسن کے تو دشمنوں تک کا ذکر کرنا مناسب سمجھیں گے) خاکے کا کردار اُن سے خوش ہو نہ ہو، وہ خود ہمیشہ اس سے خوش دِکھائی دیں گے۔اُن کے خاکوں میں تو عقیدت جیسی غیر مشروط اور یک معنی شئے بھی جوش کے بجائے ہوش کے ساتھ پیش ہوئی ہے۔ وہ شہد کے چھتے کی ملکہ مکھی پر خاکہ لکھتے ہیں۔ بہ حیثیت خاکہ نگار وہ کار کے سوار نہیں۔ اس لیے اُن کا Viewتیزرفتاری اور وِنڈ سکرین سے چھَن کر جزوِ نگاہ نہیں بنتا۔ وہ توتانگے کی گاہے پچھلی گدّی پر بیٹھ کر کرداروں کا تجزیہ اور مشاہدہ کرتے ہیں، اور گاہے اگلی گدّی پر بیٹھ کر ۔اسی لیے خود اُن کے اُسلوب کی طرح اُن کے خاکوں کے کردار بھی کھلی ہوا کے باسی ہیں۔
اکبر حمیدی کے خاکوں میں بڑی وضعِ احتیاط ہے۔وہ ڈھنگ اور رنگ کو ساتھ ساتھ رَکھتے ہیں۔ رنگ کردار کا، اور ڈھنگ اُن کا اپنا ہوتا ہے۔ اسی لیے’ تصویر‘ واضح اور حسین ہوتی ہے۔ اُن کا کوئی بھی خاکہ کسی ضائع ہو جانے والی ذات پر نہیں ہے۔اِن خاکوںکے کرداروں کے کوائفِ حیات کا ریکارڈ تو شاید دیمک چاٹ جائے، لیکن اُن کی اصل زندگی اکبر حمیدی کے خاکوں میں رزقِ خاک کبھی نہیں بنے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکبرحمیدی کے تحریر شدہ خاکوں کے تازہ مجموعے ”چھوٹی دنیا بڑے لوگ“ پر نگاہ ڈالیں تو ہم بلامبالغہ اسے ایک متوازن اور پُرخلوص کوشش سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ دیہی فضا سے منسلک ایک جیسے ماحول کے پروردہ و پرداختہ لوگوں کے درمیان حدِ فاصل قائم کرنا اور ان کے شخصی اوصاف کو اس طرح اجاگر کرنا کہ ان میں سے ہر ایک شخصیت کا خاکہ نویس سے رشتہ ناطہ پوری طرح سے سامنے آجائے ایک مشکل مرحلہ تھا جسے اکبرحمیدی نے خوبصورتی سے طے کیا ہے۔ ”چھوٹی دنیا بڑے لوگ“ کے خاکوں کے مطالعے سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اکبرحمیدی انسانی نفسیات کے ایک زیرک نباض ہیں۔ ان خاکوں میں اکبرحمیدی کی اپنی ذات بھی جلوہ گر ہوئی ہے اور یوں ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ خاکوں میں پیش کردہ شخصیتوں نے اکبرحمیدی کی شخصیت کی تعمیر و تربیت میں کیا کردار ادا کیا تھا۔ ایسے لوگ جن کی زندگیاں دنیاوی آلائشوں سے غیر آلودہ ہوں ان پر قلم اٹھانا آسان نہیں ہوتا۔ مگر اکبرحمیدی نے کمال ہنرمندی سے یہ نہایت مشکل فریضہ بھی انجام دے ڈالا۔ ان کے تحریر کردہ خاکوں میں دلچسپی کا عنصر بدرجۂ اتم موجود ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اکبرحمیدی کی ذات ایک ڈوری کی طرح ان شخصیات سے بندھی ہوئی ہے۔
(اقتباس از مضمون چھوٹی دنیا بڑے لوگ تحریر کردہ ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش)