مرتب: محمد زبیر ٹیپو
۱۔اصلی نام محمد اکبر
۲۔والد صاحب کا نام چوہدری منظور احمد
۳۔آبائی مقام معہ سالِ پیدائش فیروزوالہ ضلع گوجرانوالہ ۔اپریل 1936ء
۴۔قبیلہ جٹ زمینداار
۵۔تعلیم ایم اے اردو‘ ایم اے پنجابی‘فاضل اردو
۶۔شعبہ درس و تدریس‘ریٹائر صدر شعبہ اردو1996ء
۷۔قیامات 1979ءتک گوجرانوالہ میں‘1980ءسے اسلام آباد
۸۔ایوارڈز بیسٹ ٹیچر‘آؤٹ سٹینڈنگ ٹیچر
۹۔الف ) ادبی ایوارڈ پرائیڈ آف پرفارمنس کی دو مرتبہ پیش کش ہوئی مگر دونو ں مرتبہ
ایک خاص حیثیت میں ڈال کر پیش کش ہوئی اس لیے دونوں مرتبہ پیش کش کو مسترد کردیا۔
ب) بھارت سے ڈاکٹر کیول دھیر نے ساحر ایوارڈ کی پیش کش کی ۔آپ موسم گرما کی شدت کے باعث نہ جا سکے‘معذرت کر لی۔
ج) نارووال کی ایک تنظیم نے ان کی پنجابی کتاب ”بّکی غزل پنجاب“پر ایوارڈ کی پیش کش کی مگر موسم بہت گرم تھا‘معذرت کرلی۔
۱۰۔ادبی کام شاعری ۔انشائیہ ۔خاکہ۔خودنوشت اور بچوں کے لیے کہانیاں لکھیںسب کتابو ں کی تعداد 25ہے۔
۱۱۔ دو کتابیں ”سنگت“اور ”جدید اردو انشائیہ“مرتب کیں۔پہلی گوجرانوالہ سے شائع ہوئی دوسری اکادمی ادبیات پاکستان نے 1991ءمیں شائع کی۔
۱۲۔رفیق سندیلوی نے ”اکبر حمیدی کا فن“کتاب مرتب کی جس میں مشاہیر کے ان کے لیے لکھے ہوئے تقریبًا 40مضامین ہیں۔لکھنے والوں میں ڈاکٹر وزیرآغا‘سیّد ضمیر جعفری‘جوگندرپال‘پروفیسر نظیر صدیقی‘ڈاکٹر سیّد عبداللہ‘ شہزاد احمد ،منشایاد‘ڈاکٹر رشید امجد‘ڈاکٹر نوازش علی‘ڈاکٹر رؤف امیر‘اسلم سراج الدین‘محمود احمد قاضی‘حیدرقریشی‘ ڈاکٹر توصیف تبسم اور بہت سے شامل ہیں۔
اکبر حمیدی کی کتب
شاعری ۱۔لہو کی آگ 1970ء ۲۔آشوبِ صدا 1977ء
۳۔تلوار اُس کے ہاتھ 1986 ۴۔شہربدر 1991ء
۵۔دشتِ بام و در 1996ئ ۶۔ہر اِک طرف سے 2001ئ
۷۔بّکی غزل پنجاب 1997ء ۸۔شورِبادباں 2007ء
انشائیے
۹۔جزیرے کا سفر 1985ء ۱۰۔تتلی کے تعاقب میں 1990ء
۱۱۔جھاڑیا ں اور جگنو 1998ء ۱۲۔پہاڑمجھے بلاتا ہے 2003ء
۱۳۔اشتہاروں بھری دیواریں2007ء
خاکے
۱۴۔قدِآدم 1993ء ۱۵۔چھوٹی دنیا بڑے لوگ 1999ء
تنقید
۱۶۔مضامین غیب 1993ء ۱۷۔اس کتاب میں 1995ء
خودنوشت
۱۸۔جست بھر زندگی 1999ء
کالم
۱۹۔ریڈیو کالم 1987ء
بچوں کا ادب
۲۰۔عقلمند بچوں کی کہانیاں 1999ء(ایوارڈیافتہNBF)
۲۱۔عمل سے زندگی بنتی ہے 2002ء
۲۲۔بہت شور سنتے تھے 2002ء (مطبوعہ یونیسکو)
۲۳۔ارسطو اور نوجوان سکندرِاعظم 2003ء ۲۴۔وطن دوستوں کی کہانیاں 2003ء
۲۵۔نئے خیالوں کی نئی کہانیاں 2003ء (ایوارڈیافتہNBF)
متعلقات: اکبر حمیدی کا فن
مرتب: رفیق سندیلوی
اکبر حمیدی کی کتب پر مشاہیر کے چالیس مضامین کا مجموعہ۔
٭٭٭٭
اکبر حمیدیصاحب اُن ادبأ میں شامل ہیںجو اپنی زندگی تخلیق کاری کے لیے وقف کردیتے ہیں۔تخلیق کاری کا یہ وظیفہ شہرت یا دولت کے حصول کے لیے نہیںہوتا‘اپنی ذات کے اظہار کے لیے ہوتا ہے۔اظہار کے ہزار پیرائے ہیںمگر ادب کے حوالے سے اظہار ایک مشکل کارکردگی کا اعلامیہ ہے۔اکبر حمیدی نے اس معاملے میں جس ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی اہمیت کا احساس اُن کے بیشتر معاصرین کو ہے۔مثلًا انشائیہ نگاری کے میدان میں انہوں نے ایک منجھے ہوئے کھلاڑی کی طرح خود کو اپنی منزل پر مرتکز کیے رکھا ہے اور سچ تویہ ہے کہ وہ ایک اچھی اننگز کھیلنے میں کامیاب ہوئے ہیںانہوں نے سو سے زیادہ انشائیے تخلیق کرنے میں کامیا بی حاصل کی ہے۔گویا انہوں نے انشائیوں کی سینچری بنانے کا اعزاز حاصل کیا ہے جو معمولی بات نہیں ہے ۔اُن کے متعدد انشائیے ایسے ہیں جو اردو انشائیہ کے کڑے سے کڑے انتخاب میں یقینی طور پر شامل ہوں گے۔۔۔۔شاعری میں بھی اُن کی لگن قابلِ تعریف ہے ۔انہوں نے غزل میں سہل ممتنع کا انداز اختیا ر کرکے نہ صرف سادہ زبان کی بے پناہ قوت کا احساس دلایا ہے بلکہ سامنے کے معاملات اور سانحات کو اپنے لہو میں شامل کرکے درد مندی کی ایک رو کو بھی جنم دیا ہے جو قارئین نے بہت پسند کی ہے۔اُن کی نظر عصر کی جملہ کروٹوں پر محیط ہے اور وہ ایک ایسے وژن کی نمود کے لیے سرگرم نظر آتے ہیں جو اعلیٰ شاعری کا امتیازی نشان ہے۔اکبر حمیدی نے ایک دلچسپ سوانح عمری بھی لکھی ہے جو اُن کے تخلیقی عمل کے محرکات کو نظروں کے سامنے لانے میں کامیاب ہے۔اس خودنوشت سوانح عمری کے مطالعہ سے غالب تاثر یہ مرتب ہوتا ہے کہ اکبر حمیدی ایک محبت کرنے والے انسان ہیں۔میری دعا ہے کہ وہ اپنے ادبی مشن کوآخری دم تک جاری رکھنے میں کامیاب ہوں۔
(ڈاکٹروزیر آغا کے تاثرات)