ڈاکٹر حامد اشرف(اود گیر،انڈیا)
’’نظارہ درمیاں ہے‘‘ فکری و فنی تناظر میں
قرۃالعین حیدر بیسویں صدی کی ایک ایسی افسانہ نگار ہیںٗ جو دنیائے اردو کے تمام افسانہ نگاروں سے مختلف ہیں ۔ان کے ہاں زباں و بیاںٗ تصّورو تخیل اور اسلوب با لکل نیا اور انوکھا ہے۔ان کے افسانوں کی تہیں بڑی پیچ دار ہوتی ہیںٗ جہاں قاری کی تنقیدی بصیرت ہی رسائی حاصل کرتی ہے۔اگر قاری میں یہ وصف نہ ہو تو وہ ان کے افسانوں کی معنویت نہیں سمجھ سکتا۔وہ ایک منفرد افسانہ نگار کے طور پر اپنی انمٹ اور سدا بہار شناخت قائم کر چکی ہیں۔ قرۃ العین حیدر کی افسانوی خدمات گذشتہ نصف صدی پر محیط ہیں۔انہوں نے ترقی پسندی کا عروج و زوال بھی دیکھااورجدیدیت کا آغاز و ارتقاء بھیٗ قدیم افسانہ نگاروں کی مثالیت پسندی بھی ملاحظہ کی اور روایت سے بغاوت کا رجحان بھی۔مولانا حالیؔ نذیراحمد اور اسماعیل میرٹھی کی اصلاح پسندی بھی دیکھی اور اپنے والد سجا د حیدر اور والدہ نذر سجاد حیدر کے علاوہ حجاب اسماعیلٗ مہدی افادیٗ میر ناصر دہلویٗ نیاز فتح پوری اور مجنوں گورکھپوری کی رومانیت کا گہرا مطالعہ کر کے ان کا اثر قبول کیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے بھی رومانی رنگ میں ڈوبے دکھائی دیتے ہیںٗ لیکن یہ رومانیت ان کے پیش رو افسانہ نگاروں سے مختلف ہے۔
قرۃالعین حیدر نے جس زمانے میں افسانہ نگاری کی ابتدا کیٗ اس وقت پہلی عالمی جنگ رونما ہو چکی تھی اور دوسری عالمی جنگ کے خدشات سر ابھار رہے تھے۔ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی۔ہر ہندوستانی خوف و ہراسٗ بے چینیٗ مایوسی اور الجھنوں کا شکار تھا۔بہار اور بنگال میں ہوئے قحط نے ہزاروں انسانوں کو زندگی سے محروم کر دیا تھا۔ادباء و شعراء اور ناقدینِ ادب “ادب برائے ادب “کے بجائے”ادب برائے زندگی”کی دہائی دے رہے تھے۔فرائیڈ کا نظریہ “تحلیلِ نفسی” زور پکڑ چکا تھا۔
قرۃ العین حیدر نے اپنا پہلا افسانہ “یہ باتیں “پانچ صفحات پر تحریر کیاٗ جبکہ ان کے پہلے افسانوی مجموعے “ستاروں سے آگے” (۱۹۴۶ء) میں ایک افسانہ “مونا لیزا” (۵۳) صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔انہوں نے “روشنی کی رفتار” کے زیرِ عنوان چوتھا افسانوی مجموعہ تخلیق کیاٗ تو ان کے افسانوں میں وہی قوّت و حرکت جو روشنی میں ہوتی ہےٗ ان کا وصف بن گئی۔”وقت”ان کے ہاں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔وہ زمان و مکاں کو وقت کے تقاضوں او ر رفتارکے پیشِ نظر افسانوں میں پیش کرتی ہیں ٗیہی وجہ ہے کہ ان کا افسانہ اپنی رفتار خود ہی متعین کرتا ہے
“روشنی کی رفتار” میں ایک افسانہ”نظارہ درمیاں ہے”بھی ملتا ہےٗ جو اردو افسانوں میں اپنی مقبولیت اور پہچان رکھتا ہے۔دراصل اس افسانے کے ذریعے مصنّفہ نے دولت مند طبقے کی مکّا ریٗ خود غرضی اور موقع پرستی کو پیش کیا ہے افسانہ اپنے اندر بیانیہ تاثرلیے ہوئے ہے۔فلیش بیک یا شعور کی رو کا استعمال نہیں ہوا ہے۔افسانہ “تارا بائی” کی آنکھوں سے شروع ہوتا ہےٗ جو بہت خوبصورت اور روشن ہیں ۔ان آنکھوں میں عجیب سی کشش ہے۔وہ آنکھیں افسانے کے ہیروسے وابستہ ہرشے کو گھورتی رہتی ہیں اور انہی آنکھوں کی بدولت تارا بائی کا پورا جسم آنکھوں بھرا نظر آتا ہے۔افسانے کی بنیاد بھی یہی آنکھیں ہیں اور آغاز و اختتام بھی!
تارا بائیٗ خورشید عالم اور الماس بیگم (میاں بیوی) کے ہاں ملازمہ ہےٗ جس کی گفتگو فلیٹ کے مستری سے ہوتی ہے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ خورشید عالم نے فرانس میں سات سال تعلیم حاصل کی ہے۔اسی دوران انہیں پیرس میں ایک ہندوستانی پارسی لڑکی “مس پیروجادستور” سے محبت ہو گئی اور اس کے ساتھ ان کی منگنی بھی ہوئی اور ڈیڑھ سال سے وہ اسی پارسی دوشیزہ مس پیروجا کا انتظار کر رہے تھےٗ جو حکومتِ ہند سے ملے وظیفے پر پیرس سے تعلیم پوری کر کے ہندوستان آنیوالی تھی کہ ان کی بے روز گاری اور والد کی بیماریٗ دور کرنے کا الماس بیگم بہانہ بن گئیں ۔
الماس بیگمٗ ضدٗ خود غرضیٗ اور مکّا ری کی مثال ہیں ۔وہ پہلے اپنی خالہ کے ساتھ مل کر خورشید عالم کو پانے کے لیے سازش رچاتی ہیں۔بعد ازآں پیرس سے واپس آئی ہوئی پیروجا دستور سے ملاقات ہونے پر یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ خورشید عالم کی منگیتر ہیوہ خورشید عالم کو اپنا منگیتر بتاتی ہیں۔پیروجاٗ الماس بیگم کی positionاور دولت و حشمت دیکھ کر راستے سے ہٹ جاتی ہےٗ بلکہ ہٹا دی جاتی ہے اوراس طرح الماس بیگم کی سازش کامیاب ہو جاتی ہے۔لیکن یہ کامیابی ایک ایسی لڑکی کی محبت کی خیرات ثابت ہوتی ہے جوپانے سے زیادہ کھونے کی قائل ہے جویہ اچھّی طرح جانتی ہے کہ جسے چاہتوں کی حدوں تک چاہا جائے اور جس کی چاہت پانے کے بعدکسی اور کو چاہنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی اگر اس سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جائیں تو محبت امر ہو جاتی ہے۔
الماس بیگم کی بے حس مگر شاطر ذہنیت کا ثبوت اس وقت ملتا ہے جب خورشید عالم والد کی بیماری کی خبرپاکرگاؤں گیاہواہے۔ جہاں اسے الماس بیگم کا خط ملتا ہے کہ”پیرس سے آئی ہوئی پیروجا دستور سے ملاقات ہوئی ۔وہ کسی امریکی آدمی سے منسوب ہو گئی ہے اور اس کے ساتھ ہوٹل سینڈ اینڈمیں ٹہری ہوئی ہے” ۔خورشید عالم شہر آنے کے بعد حقیقت جاننے کے لیے پیروجا دستور کے مکان جاتا ہے۔جہاں اس کی ملاقات اس کی بوڑھی اور بہری چچی سے ہوتی ہے جو کوئی بات نہ ٹھیک سن سکتی ہے اور نہ سمجھ سکتی ہے لیکن وہ یہ جانتی ہے کہ پیروجا دستور کو اسی شخص کا انتظار ہے۔وہ اسی امریکن آدمی کا کارڈ خورشید عالم کو دیتی ہے کہ پیروجا وہیں ملے گی۔یہاں صرف قاری واقف ہے کہ غریب پیروجا دستور امریکن آدمی کی بیٹی کوٹیوشن پڑ ھانے کی خاطر ہوٹل جاتی ہے۔لیکن خورشید عالم غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے اور ٹھیک اسی طرح جس طرح پیروجا دستور اپنی اورالماس بیگم کی حیثیت اور رتبے کا خیال کر کے خورشید عالم کے راستے سے ہٹ گئی تھی وہ بھی اپنی حالت کا موازنہ مالدار امریکن سے کرتا ہے اور پیروجا کی محبت کا خیال دل سے نکال کرالماس بیگم سے منگنی کر لیتاہے۔
الماس بیگم کی خود غرضی کا تیسرا موڑ اس وقت سامنے آتا ہے جب منگنی کی رات مقامی ہسپتال سے خورشید عالم کے لیے فون آتا ہے کہ پیروجا سخت بیمار ہے اور حالت بہت نازک ہے۔فون الماس بیگم ریسیو کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ خورشید عالم یہاں نہیں ہیں۔منگنی کی پارٹی میں ا لماس بیگم کے فیملی ڈاکٹر صدیقی بھی ہیں جو مقامی ہسپتال سے دو گھنٹے بعد دوبارہ فون آنے پراپنے فرض کی ادائیگی کی خاطرہسپتال چلے جاتے ہیں۔پھر ایک دن جب وہ تار ا بائی کو خورشید عالم اور الماس کے گھر میں دیکھتے ہیں تو یہ راز بیان کرتے ہیں کہ ان دونوں کی منگنی کی رات محبت کی ماری پیروجا دستور نامی پارسی لڑکی نہایت کسمپرسی کی حالت میں مر گئی اور اس کی وصیت کے مطابق ایک اندھی لڑکی کو اس کی آنکھیں گرافٹ کی گئیں اور تارا بائی ہی وہ لڑکی ہے۔الماس بیگم کا چہرہ فق ہو جاتا ہے۔خورشید عالم لڑکھڑاتے ہوئے اندھوں کی طرح کچھ ٹٹولتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔تارا بائی کے پیچھے آنے پر وہ اسے باؤ لوں کی طرح تکنے لگتے ہیں کہ یہ اسی پیروجا کی آنکھیں ہیں جو ان کے عشق میں گھل گھل کے مر گئی اور انہیں پتہ بھی نہ چلا۔
افسانے کا اختتام میرا بائی کے ایک شعر پر ہوتا ہےٗ جس کا پس منظر یہ ہے کہ موت کے تصوّر سے سہم جانے والی لڑکی ایثار اور قربانی کی مورت پارسی پیروجا کی لاش کو برجِ خموشاں میں موت کی رسم کے مطابق کنویں کے طاق میں بٹھا دیا گیا ہے۔وہ عشق میں ناکام ہو کر اپنے محبوب سے ملنے اور اسے دیکھنے کی آس دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو گئی۔اس کی آنکھین تارا بائی کو گرافٹ کر دی گئی ہیں۔ پیروجا کی لاش کوّے اور گدھ کی غذا بنتی جا رہی ہے۔افسانے کا اختتامی شعر قرۃ العین حیدر کی نگاہِ انتخاب سے افسانے کی تفسیر بن گیا ہے
کاگا سب تن کھائیوٗچن چن کھائیو ماس
دوئی نیناں مت کھائیوٗپیا ملن کی آس
اس طرح یہ افسانہ حالات کے بہاؤ میں بہتے ہوئے خورشید عالم کی بے بسی اور محبت میں ملی ہوئی دائمی کسک اور تڑ پ کا مظہرہے اور الماس بیگم پر یہ بات صادق آتی ہے کہ “محبت اور جنگ میں سب جائز ہے”جبکہ افسانے کا تیسرا اور اہم کردار مس پیروجا دستوراس با ت کی غمّازی کرتا ہے کہ ذہن کی ہزاروں آنکھیں ہیں دل کی آنکھ صرف ایک۔لیکن جب محبت ختم ہو جائے تو زندگی ختم ہو جاتی ہے۔