ستیہ پال آنند
رسیدن ہائے منقار ہمابراستخوان غالبؔ
پس از عمرے بیادم دادِرسم و راہ پیکاں را*
آدمی شاید کبھی ہو گا،مگر اب
ایک دھڑ تھا،ایک سر تھا
بانس کی ٹانگوں پہ سرکنڈے بندھے تھے
ڈھیلے ڈھالے
دھڑ تھا پھر بھی،سر تھا پھر بھی؍ آدمی کا!
الٹی ہانڈی بانس کی گردن پہ لٹکائی گئی تھی
زندہ ڈھانچہ،اک بجوکا
جو پرندوں کو ڈرانے کے لئے گاڑا گیا تھا
ہڈیاں تو تو ہڈیاں تھیں،چرچراتی تھیں،مگر۔۔۔۔
پھر بھی شکستہ جسم کے اعضا کو جیسے
باندھ کر رکھے ہوئے تھیں
یہ تمسخر خوب تھا۔۔۔سارے پرندے
اس سے ڈرنے کے بجائے
پاس آکر اپنی منقاروں سے اس کو چھیدتے تھے
اشک افشاں،خس بدنداں،چیختا رہتا تھا،لیکن
کون سنتا؟
ڈھیٹ تھے سارے پرندے
اڑتے اڑتے پاس آکر
اپنی منقاروں سے اس پر وار کرکے لوٹ جاتے
جیسے کوئی معرکہ سر کر لیا ہو
زندہ ڈھانچہ،اک بجوکا؍آبدیدہ اپنے سر کو دھنتا رہتا!
اور پھر اک دن کسی طائر کی بھاری ٹھونگ سے وہ
الٹی ہانڈی کا سا چہرہ گر گیا،نیچے زمیں پر
اور بجوکا ظاہراَ تو مر گیا۔۔۔
لیکن نہیں! وہ دھڑ سبھی اعضا کو اپنے
باندھ کر رکھے ہوئے ہے ؍اور ویسے ہی کھڑا ہے
ہاں مگر سارے پرندے
اک غلط انداز سے ترچھی نظر سے
دیکھ کر،تیزی سے اپنا رُخ بدل کر
دور اُڑ جاتے ہیں اس سے؍سوچتا ہوں،میں یہیں ہوں
میں وہی ہوں؍طائروں کو کیا ہوا ہے؟
کیا مجھے اب یکہ و تنہا،اکیلا
کنج تنہائی میں اپنے آپ ہی رہنا پڑے گا؟
یاد کرتا ہے ،سنہرے دن پرندوں سے بقائے باہمی کے
ہائے کیا لذّت تھی،کیسی چاشنی تھی
بے کلی میں بھی خوشی،آسودگی تھی!
اب وہ’’ رسم و راہِ پیکاں‘‘کیا ہوئی ہے؟
کاش وہ دن لوٹ آئیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*غالبؔ کی نیک روح سے معذرت کے ساتھ۔شعر کا آزاد ترجمہ کچھ یوں ہے’’غالب کے اسخوان پر ہما نے کچھ اس طرح چونچ سے ٹھونگیں لگائی ہیں کہ ایک عمر گزرنے کے بعد بھی مجھے نیزوں کی پیکان سے زخمی ہونے کی رسم و راہ یاد ہے۔‘‘