حمید سہروردی (گلبرگہ)
اطراف و اکناف کے ہنگاموں سے بے خبر ،سمندر کی لہریں ساحلوں سے ٹکرارہی ہیں اور میدان میں خود رو پودے لہک لہک کر ایک دوسرے سے سرگوشی کے انداز میں کچھ کہہ رہے ہیں ۔آسمان میں بے رنگ شکلوں میں ایک دھندلی سی شبیہ نظر آرہی ہے ۔سمندر تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہا ہے ۔پتہ نہیں بھنور سے اٹھنے والی لہریں کس دشا میں بہنا چاہتی ہیں ،ایک دوسرے میں مدغم ہورہی ہیں ۔بیکراں اور وسیع سمندر کے اندر آبی جانور بے چین اور بے سکون ،شانتی کے متلاشی نظر آرہے ہیں ۔آبی جانور اور پرندے سمندر کی پیٹھ پر بیٹھے خوشی اور مسّر ت کے گیت گاتے نظر آرہے ہیں ۔ان میں جب حرکت ہوتی ہے تب سمندر کی لہریں بپھر بپھر کر ان پر سوار ہونا چاہتی ہیں لیکن آبی جانور اور پرندے تیز تیز ،پرسکون جگہ پر کھڑے استہزااور طنزیہ نظروں سے میٹھی میٹھی مسکراہٹوں کے ساتھ دیکھتے ہیں ۔سمندر مغموم اور نروس ہوکر ان کی اور جھپٹنے کی سعی کرتا ہے لیکن بے سو د ۔۔۔۔خود رو پودوں کو زہریلے کیڑے کاٹ کھانے لگتے ہیں ۔خود رو پودوں میں حرکت ہوتی ہے ۔بادصباکے جھونکوں سے زہریلے کیڑے لڑکھڑاجاتے ہیں ۔جھنجھلاہٹ میں زمین کے شگافوں میں گھس پڑتے ہیں ۔آسمان سے بے رنگ شکلوں میں سے نظر آنے والی شبیہ غائب ہوجاتی ہے ۔
سمندر کی آنکھیں ہنوز بپھری ہوئی ہیں۔اور خود رو پودے لہلہانے لگے ہیں ۔یوں لگتا ہے کہ شبیہ ساتویں آسمانوں سے کسمسا کسمسا کر آخری آسمان سے بھی رشتہ منقطع کیے ،دھرتی کے جسم پر یا سمندر کی پیٹھ پر سوار ہونا چاہتی ہے ۔خود رو پودے ٹھنڈی ہواؤں سے بے قابو ہورہے ہیں اور زور زور سے گارہے ہیں ۔اب سمندر کی آنکھوں میں روشنی نظر آرہی ہے البتہ شبیہ کسی چیز کی یاد آسمان سے دور لے جاچکی ہے ۔
سمندر اپنی پوری تمکنت اور وقار سے ،دور جہاں ندی ،تالاب اور دلدل ہے ،وہاں دیکھ رہا ہے ۔تالاب میں پانی ٹھہر ا ہوا ہے اور دلدل میں کسی قدر ہلچل ہورہی ہے ۔ندی میں موجِ طرب وقفے وقفے سے اٹکھیلیاں لیتی ہوئی معدوم ہوچکی ہے ۔سمندر انھیں اپنی طرف متوجہ نہ پاکر آتش ناک ہواٹھتا ہے ۔اس کی موجوں میں تلاطم پیدا ہوچکا ہے ۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد موجوں کے مارے مارے پھرنے سے پانی سے غڑپ غڑپ کی آوازیں آرہی ہیں ۔لیکن بادصبا خراماں خراماں دریا کے جسم نازنین کو چھوکر دور دور چلی جارہی ہے۔تالاب جوں کاتوں خاموش ہے ۔دلدل میں پھیلی ہوئی بیلوں اور درختوں میں باد صبا کے گزرنے سے حرکت پید اہوچکی ہے ۔
سمندر سے پیدا ہونے والی غڑپ غڑپ کی آوازیں غائب ہوجاتی ہیں اور پھر سمندر دُور دُور سے نظر آنے والے تالا ب ،دلدل اور ندی کو دیکھتا ہے اور جی ہی جی میں کُڑھتا ہے ۔وہ اس وقت حیرت کے گرداب میں غوطہ لگانے لگتا ہے ۔جب وہ دلدل میں صبح کی تر و تازگی اور شادابی کو دیکھ لیتا ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دلدل میں بسنے والی کیچڑ اور پانی میں پروان چڑھ کر جینے والی بیلیں اور درخت مجبور محض،اس کی طرف رحم طلب نظروں سے دیکھتے رہتے ،برخلاف اس کے کہ وہ ہر چیز میں بے فکری اور بے اعتنائی کا نظارہ کرتا ہے ۔جب وہ چیں بہ جبیں ہوکر تالاب کی طرف نظریں دوڑاتا ہے تو وہاں بھی اس کی آشائیں ،نراشا ،کا ہی پیراہن اوڑھے ،سر جھکائے ،تھکے تھکے قدموں سے بیکراں وسعتوں میں پھیلے ہوئے آکاش کی طرف چلی جاتی ہیں اور کہیں اپنی پناہ گاہ ڈھونڈلیتی ہیں۔ سمندر بے چین و بے قرار ،اپنے آپ میں جھنجھلاہٹ محسوس کرتا ہے اور کف دست ملتا رہ جاتا ہے ۔تالاب کے چہرے پر بجائے افسردگی اور اکتا ہٹ کے تمتما ہٹ اور دبدبہ دیکھ لیتا ہے ۔جیسے دن کی تمام توانائی اور ررعنائی بے ڈر ،تالاب پر چلی آئی ہے ۔پھر وہ کنکھیوں سے ندی کی طرف دیکھتا ہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ ندی چاندنی میں نکھری نکھری ،دُھلی دُھلی ،صاف و شفاف ،دودھ دودھ نظر آرہی ہے ۔
سب سے پہلے دلد ل میں پھنسی ہوئی بیلوں اور درختوں نے تالاب کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔تالاب نے بخوشی دوستی کا ہاتھ ،اپنی کم سنی میں ہی دلد ل کی طرف بڑھایا تھا۔وہ ہر وقت دلدل کی پیٹھ پر بڑی محبت اور لگاؤکے ساتھ ہاتھ پھیرتاتھا۔دلدل تالاب کے اس فعل سے ،اس کے لمس سے اپنے اندر گرمی اور حدّت محسوس کرتا تھا۔ایسا لگتا تھا کہ دلدل کی بیلوں اور درختوں کو نسیمِ بہار چھورہی ہے اور دلدل کے چہرے پر صبح کی تازگی اور شگفتگی پھیل رہی ہے ۔کتنی ہی بار ایسا ہوا کہ جب بھی تالا ب دلدل کے پاس رہتا تھا ،ندی شرماشرماکر ،لجا لجا کر اس کے پاس سے گزرتی تھی ۔تالاب ندی سے بے پروا رہتا تھا۔وہ تو بس دلد ل کے سنگ خوش و خرّم ایّا م بسر کیے جارہاتھا۔
ایک دن دلدل کی بیلیں تالاب کو اپنی طرف کھینچ رہی تھیں ۔پتہ نہیں کیوں اس دن وہ اداس اداس چہرہ لیے آسمان میں نظر آنے والی دھندلی صورت غائب ہوئی تھی ۔معاَایک روح افزاہوا کا جھونکا تالاب کے جسم کو چھو گیا ۔تالاب کِھل اٹھا ۔بیلوں اور درختوں کے پتّے بھی باغ باغ ہواُٹھے ۔تالاب جوشِ مسرت سے دلد ل کے درختوں اور بیلوں کو سہلاتے ہوئے دلدل سے گتھم گتھاہوا۔
درختوں اور بیلوں کو سہلانے سے لے گتھم گتھا ہونے کا سفر ،طویل وقت کو اپنے اندر اُتارچکا تھا۔تالاب نے اچانک ندی کی طرف دیکھا۔ندی اس کے اطراف اپنی تمام بہار کے ساتھ گیت گاتی ،بے سمت راہوں پر گامزن تھی ۔تالاب کو اس کی بے اعتنائی میں گھمنڈ دکھائی دیا ۔لیکن اس پر اس چھپ کا اثر یہ ہوا کہ وہ ندی کو روزانہ دیکھنے کے لیے بے قرار ہوتا ۔اور آہستہ آہستہ اس کی طرف مائل بہ کرم ہوئے جارہا تھا ۔لیکن ندی تالاب سے بے خبر اپنی ترنگ اور اپنی امنگ میں مترنم آوازوں سمیت سبک و رواں تھی ۔
ندی پر چاندنی پھیلی ہوئی تھی ۔تارے جگمگارہے تھے ۔ندی چاروں طرف ٹھنڈ ی ٹھنڈی چاندنی کا دل لبھانے والا منظر تالاب کی آنکھوں میں چھوڑے جارہی تھی اور بل کھاتی ،لچکتی ،تھرکتی پون کو اپنے میں جذب کیے غرور و تمکنت کے ساتھ بڑے بڑے پہاڑوں اور تڑے مڑے راستوں کو پاٹ کر ،لامحدود ہوتی جارہی تھی لیکن اس نے ترچھی نظر سے بھی تالاب کی طرف نہیں دیکھا۔
اچانک ایک دن بادو باراں کے جھکّڑوں مین تالاب میلا میلا اور گدلا گدلا ہوگیااور اس کی آنکھوں میں ریت بس گئی ۔جسم کے تمام اعضا مضمحل مضمحل ،تھکے تھکے دکھائی دینے لگے ۔تالاب جو سمندروں کو دن کا احساس دلاتا تھا ۔اب وہ یوں محسوس کررہا تھا کہ اس کا پورا جسم ڈھیلا ڈھیلا ہوگیا ہے اور خورشید روشن سے جلد ہی چھٹکار احاصل کرنا چاہتا ہے ۔پرگردوں کی گردش کی ڈور ڈھیلی نہیں پڑ رہی تھی ،چلچلاتی دھوپ جسم کیایک ایک مسام میں گھس رہی تھی ۔وحشت اور دہشت کی کرنیں اپنا جوبن اٹھائے ،تالاب پر مسلط ہورہی تھیں ۔کون جانے ،آنے والے لمحوں کی پشت پر شام کے ساتھ ساتھ شب کی تاریکی سوار ہے یا چاندنی کی بارش استمالیت زدہ آنکھیں ریت سے بھری ہوئی تھیں ۔تالاب اپنے آپ سے سوال کرتا ہے ،وہ کون سے لمحے تھے ۔
وہ کو ن سے ۔۔۔۔۔؟
دلدل اور ندی کا رشتہ صدیوں پرانا تھا۔گوکہ دلدل نے تالاب کو آس دلائی تھی ۔وہ اس پرسے ہی ہو کر ندی تک رسائی حاصل کرسکتا ہے ۔جب جب بھی تالاب نے دلدل کو وعدہ وفا کرنے کے لیے کہا،دلدل ہنس ہنس کر ٹال مٹول کردیا کرتا ۔دلدل کے اس رویے سے عاجز آکر تالا ب نے خود ہی ہمت کر ڈالی اور ندی کی طرف نادیدہ نظروں سے دیکھنے لگا ۔دھیرے دھیرے تالاب اور دلدل کے درمیان دوری کی ریکھائیں پھیلتی چلی گئیں۔ایک لمبے وقفے تک تالاب نے چُپ کا برت رکھ لیا ۔موسم برسات کی ایک سہانی شام تالاب ،ندی کے فراق میں دلدل کے قریب سے گزررہا تھا کہ دلدل سے مڈبھیڑ ہوئی ۔دلدل نے پوچھا :’’تم اب چودھویں کا چاند ہوگئے ہو؟‘‘
تالاب نے بے رُخی سے کام لیا اور ایک لفظ بھی اس کی طرف نہیں اُچھالا۔
دلدل نے پھر پوچھا :’’وہ گھوڑا کہاں ہے جو شام سویر ے تمھارے پاس پانی پینے آتا تھا؟‘‘
تالاب نے کہا:’’وہ بکری کہاں گئی جو ہمیشہ تمھاری پیٹھ پر سوار رہتی تھی ۔اب تمھارے پاس سے بیلیں اور درخت اکھاڑلیے گئے ہیں ۔تاہم میں صرف ایک بار انھیں آنکھ بھر کر دیکھنا چاہتا ہوں ۔صرف ایک بار ۔۔۔ایک سرد آہ بھری ،پچھلی ملاقاتوں ،باتوں اور گھاتوں کا ذکر ہی کیا ۔۔۔!‘‘اتنا کہہ کر تالاب خاموش ہوگیا۔
دلدل کا چہرہ سرخ ہوا اور آنکھیں نکال کر تالاب کو دیکھنے لگا اور اپنی طرف آنے کا اشارہ کرنے لگا۔لیکن تالاب نے تہیہ کرلیا کہ وہ اب ہرگز دلدل کی چکنی چپڑی باتوں میں نہیں آئے گا۔تالاب کی غیر متوقع حالت دیکھ کر دلدل میں کھد بد ہونے لگی ۔اس کی شعلہ بار آنکھیں تالاب کو اپنی طرف ملتفت کرنے کی کوشش کرنے لگیں ،لیکن تالاب دلدل سے بے پروا آگے بڑھا اور ندی کو نادیدہ نظروں سے دیکھنے لگا ۔ندی اپنی ترنگ اور امنگ میں آگے ہی آگے بڑھنے لگی ۔ندی کے تبسم کو دیکھ کر تالاب تلملایا ۔ بہتی ہوئی ندی سے تالاب نے بڑی لجاجت سے کہا:
’’میں کسی صحراکی اڑتی ہوئی ریت کا ایک سراب ہوں ۔تم اپنے لب کھولو اور میرے قریب آجاؤ۔۔۔یہ نظارہ دید کب تک ۔۔۔۔میں تمھاری بڑی بڑی اور پھیلی ہوں آنکھوں میں جامِ جمشید دیکھ لوں ۔تمھارے نرم نرم اور گداز گداز سینے پر سر رکھ کر محسوس کرلوں کہ جہان رنگ و بو میں تیری ذات کے سوااور کچھ بھی نہیں ۔۔۔آجاؤ۔۔۔یاتم مجھ میں سماجاؤ۔۔میں تمھاری پھیلی ہوئی وادیِ حسن میں خودکو پہچان لینا چاہتا ہوں اور تمھاری زلف میں زنجیر گیتی کو بھی دیکھ لینا چاہتا ہوں ،تمھاری شائستہ ہتھیلی پر مہر محبت ثبت کرنا چاہتا ہوں ۔میرے قریب آجاؤ۔۔۔۔سچ مانو کہ میں زماں و مکاں کے قیود سے ماسوا ،تمھیں جان لینا چاہتا ہوں ۔مین نے ایک ایک پل تیر ے فراق میں گزارا ہے ۔مجھے مزید انتظار کے کرب سے بچاؤ۔‘‘
ندی نے کہا:’’تم صرف میرے حسن کی وادی میں اپنے آپ کو پہچان لینا چاہتے ہو۔جو اپنی پہچان اپنی ذات سے نہیں کراسکتا ،بھلا وہ دوسری شئے میں خود کو کیسے پہچان لے گا۔تم کس ہوش میں ہو۔جاؤدلدل میں ہی پھنسے رہو۔‘‘
دلدل تالاب کے لیے گِڑگِڑاتا رہا۔لیکن اب تالاب کے اس حال پرندی نے ذرہ
برابر بھی افسوس نہیں کیا۔وہ تیز بہتی رہی ۔اور اس کی موسیقی میں اورشدت پیدا ہوگئی ۔
میں ہوں آپ اپنی پہچان
کہاں تو اور کہاں میں
کون آرہا ہے آہستہ آہستہ
میری طرف
کسی سے میری الجھن ہرگز نہیں
میں تنہا رہی ہوں
تنہارہوں گی
میں تو خود ہوں
ایک محشر خیال
کدھر ہے
نسیم سحر ،کہاں کھوگئی
اس بھیانک طلسمات میں
کون آنے لگا ہے :آہستہ آہستہ
کسی سے نہیں ہے ۔اُلجھن میری
میں اکیلی اکیلی چلی جاؤں گی
تم تالاب ہو
تالاب کی حقیقت ہے کیا
گدلاگدلا ہے ،پانی تیرا
تو ریت کا ایک ذرہ ہے
اور
میں صاف و شفاف پانی سے نتھری ہوئی
کون ہوتم
حقیقت ہے کیا
تالاب نے کہا:
’’مجھ سے خطا یہی ہوئی کہ غفلت سے نیند کاایک جھونکا لے لیا اور سارے نفس کے پردوں میں گھس پڑا دلدل کا مہیب سایہ ۔۔۔۔۔اور پھر سبھی کچھ تماشہ ہوا میرے شریر کی لرزش بے معنی دلدل کی نذر ہوگئی ۔اور سبھی کچھ بے وجہ اور بیکار ہوگیا۔میں نے تجھے بے انتہا چاہا تھا (اور ہوں )مگر دلدل میں پھنس کر سبھی کچھ کھودیا۔اب میرے شریر میں کچھ باقی نہیں رہا ۔بیہودہ تھا،وہ وقت بے شرم عادتیں تھیں ۔عمر کے بہترین لمحوں میں رونے لگا ہوں ۔ اور وہ آکاش کی طرف دیکھنے لگا ۔خوامخواہ میں دلدل میں کود پڑا معمولی سی خواہش کے لیے اور پہاڑوں میں خو دکو محسوس کرنے لگا تھا۔۔۔۔میں ۔۔۔۔میں تم سے اس وقت جب تم میرے قریب سے گزرتی تھیں ،انجان رہا ۔یعنی بے مروتی دیدوں کی عادت بن گئی تھی اور میں اب اپنے سائے سے بھی جڑا ہوا نہیں ہوں۔ایسا لگتا ہے کہ میرا سایہ بھی روٹھ کر دور چلاگیا ہے ۔ویران موسم کی آمد سے پہلے ۔میں نے سرسبز اور شاداب زمینوں کو بنجر تصور کرلیا۔میں نہیں جانتا تھا۔۔۔۔‘‘تالا ب زاروقطار رونے لگا۔
سمند ر کی تہہ میں ہلچل ہوئی ۔سمندر چنگھاڑ تا ہوا اپنے ساحلوں کو توڑ کر دلدل ،ندی اور تالاب کی طرف بڑھنے لگا۔ایک چٹیلا میدان راستے میں ملا۔اور اس نے حیرت سے پوچھا:’’تم ادھر ۔۔۔۔؟‘‘سمندر بس اپنی ہی رو میں بہا تھا۔راہ میں آنے والے تمام میدان ،نالے ،گدلے پانی کے گڑھے ،اس کے غضب و عتاب کے شکار ہوگئے ۔سمندر آگے کی طرف بڑھ رہاتھا۔۔۔اور آگے چٹان نے بھی حیرت و تعجب سے پوچھا:
’’تم کدھر جارہے ہو؟‘‘
سمندر نے آگے بڑھتے ہوئے کہا:’’تم میرے رستے میں رکاوٹ نہ بنو۔مجھے پربت کے دامن میں بہنے دو ۔مجھے ادھر ،اس طرف ،جہاں ندی ،تالاب اور دلدل ہے ،تک جاناہے ۔‘‘
سمندر اتنا کہہ کر آگے بڑھا تو ایک لق و دق صحرا ملا۔۔صحرا نے بھی سمندر سے وہی سوال کیا،جو چٹان نے کیا تھا۔سمندراس موقف میں نہیں تھاکہ خشک اور بے برگ و بار صحرا ک ابھی ٹھہر کر جواب دیتا ۔وہ خاموش سیدھی سمت میں تیز بہاؤسے بڑھنے لگا۔چٹان ،صحرا اور میدان ،سمندر کی اس تیز گامی پر حیران تھے ۔دلدل نے سمندر کو اپنی طرف تیز گام آتا ہوا دیکھ لیا اور اپنے اوپرلپٹنے والی بیلوں سے خود کو ڈھانک لیا اور تالاب متوحش ہوگیا۔ندی اپنی ہی ترنگ میں بہتی رہی ۔لیکن سمندر کی گڑگڑاہٹ نے ندی کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا۔ندی تالاب کی وحشت کو دیکھ کر پشیمان ہوگئی تھی ۔وہ یہی سمجھتی رہی کہ شاید میری باتوں نے تالا ب کی یہ حالت بنارکھی ہے ۔لیکن راز ،راز ہی رہا۔۔سمندر نے آہستہ آہستہ دلدل پر قبضہ کرلیا۔پھر تالاب کی طرف بڑھا اور ندی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پہاڑوں ،صحراؤں اور میدانوں میں بہنے لگا۔۔۔۔۔
اور تمام دوسرے مناظر ڈوبتے چلے گئے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانہ کہنے کے ان گنت جانے اور انجانے طریقے ہیں،اور اسی غیر رسمی پن کی بدولت اس کی یہ خوبی قائم ہے کہ وہ زندگی کے مخفی گوشوں میں پھیلتا چلا جائے،مگر ہر افسانے کے تمام تر وسائل اُسی میں مضمر ہوتے ہیں اور صرف اُنہی وسیلوں کی دریافت پر وہ اپنی اصل سورت اختیار کر پاتا ہے۔علامت،تجریداور اسطور بھی بیانیہ کے مانندہمارے افسانے کے گراں بہا ذروئع ہیں۔تاہم قیمتی ذرائع بھی اس شئے کا نعم البدل نہیں ہوتے جس کے حصول کی خاطر انہیں کام میں لایا جاتا ہو۔
جوگندر پال کے مضمون نیا اردو افسانہ:زبان و بیان کے مسائل سے اقتباس