شرکائے گفتگو:
ڈاکٹر سید احمد قادری، سید سجاد اختر،
نور الحسنین، عارف خورشید
سید سجاد اختر:- آپ ادب کی طرف کب آئے اور اپنی صلاحیتیں آپ پر کب منکشف ہوئیں؟
پروفیسر حمید سہروردی:- قصّے کہانیاں بچپن ہی سے اچھی لگتی تھیں، پڑھ لیا کرتے تھے ۔ پی یو سی میں ہی احباب کا ایک حلقہ بن گیا جن میں اکرام باگ ، بشیر باگ، حامد اکمل، حکیم شاکر وغیرہ شامل تھے۔ ہم لوگ اس زمانے میں کوئی سابھی تازہ شمارہ پڑھ لیتے اور اس پر بحث و مباحثہ کرتے یہیں سے یہ خواہش ہوئی کہ ہم بھی تخلیقی کام کریں اور کوشش کرنے پر یہ اندازہ بھی ہوا کہ ہم تخلیقی کام کر سکتے ہیں پڑھنے میں سینئر بزرگ افسانہ نگار اور شاعر آتے رہے ان سبھی کو جس طرح پڑھ سکتے تھے۔ پڑھ لیا۔
ڈاکٹر سید احمد قادری:- اگر پریم چند کفن جیسا افسانہ نہ لکھتے تو کیا آج اُردو افسانے کو جو معیار اور وقار حاصل ہے وہ نہ ہوتا آپ کا کیا خیال ہے؟
پروفیسر حمید سہروردی:- پریم چند اُردو افسانوی ادب کی ایک تاریخی حقیقت ہے میں انہیں اُردو کا ایک اہم افسانہ نگار سمجھتا ہوں، مگر یہ کہنا کسی قدر زیادتی ہوگی کہ افسانہ ، کفن، اگر نہ ہوتا تو آج جو اُردو افسانے کو معیار اور وقار حاصل ہے وہ نہیں ملتا، (ایسا کہنا) ان کے ہم عصر اور ان کے بعد آنے والی نسل کے ساتھ زیادتی ہے پھر میرے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اگر اُردو میں داستان نہ ہوتی تو پریم چند کیا لکھتے؟ کیا پریم چند کچھ نہیں لکھتے؟ وغیرہ وغیرہ بے شک کفن اُردو کا ایک ناقابل فراموش افسانہ ہے جس طرح زندگی کہیں نہیں رکتی بالکل اسی طرح زندہ زبان کا ادب کبھی نہیں تھمتا۔
سید سجاد اختر:- جن سیاسی وسماجی حالات و واقعات نے ہمارے افسانہ نگاروں کو بے حد متاثر کیا ہے وہ کس قسم کے تھے؟
پروفیسر حمید سہروردی:- پریم چند انگریزوں کے دور میں تھے ان کے مسائل دیہاتی زندگی کے مسائل تھے ۔ پریم چند سیاسی سطح پر اپنے ملک کی آزادی کے خواہاں تھے پھر 1947ء میں آزادی کی مسرت تو حاصل ہوئی لیکن تقسیم ملک کا المیہ بھی رونما ہوا فسادات ہوئے اس کے بعد اقدار کی شکست وریخت واقع ہوئی اور انسان کے اندر کا بنجر پن انسانی رشتوں کے ٹوٹنے سے پید اہوا۔ عالمی ادبی تحریکات کے وسیع تناظر کی وجہ سے بھی تبدیلی آئی، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین اور جو گندر پال کے یہاں مہاجریت کے مختلف شیڈز اور Moodsپائے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر سید احمد قادری:- آپ افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے ہیں۔ کیا آپ اپنے احساسات و جذبات کے اظہار کے لئے کسی ایک ہی صنف کا سہارا نہیں لے سکتے؟ کیا جو بات آپ شاعری میں کہنا چاہتے ہیں۔ یا جو بات آپ افسانہ میں پیش کرنا چاہتے اس کا اظہار شاعری میں نہیں ہوسکتا۔
پروفیسر حمید سہروردی:- برادرم آپ نے میری مشکل تو آسان کردی ہے آپ کے سوال میں ہی میر اجواب موجود ہے میں کیا اور عرض کر سکتا ہوں، جہاں تک خیال اور موضوع کی بات ہے یہ میرے افسانوں اور نظموں میں الگ الگ ہیں۔
نور الحسنین:- آپ کی افسانوی تکنک پر ایک الزام یہ بھی عائد کیا جاتا ہے کہ آپ ڈرامہ کی تکنک کو افسانے میں برتتے ہیں جس کی وجہ سے خارجی اظہار تو ہو جاتا ہے لیکن داخلی کیفیات کی عکاسی آپ کے کردار نہیں کرپاتے اور مجموعی تاثر کہانی کے بطن ہی گھٹ کر رہ جاتا ہے؟
پروفیسر حمید سہروردی:- جناب من ! ذرا غور کیجئے ڈرامہ اور افسانہ میں بے شمار مماثلتیں ہونے کے باوجود ڈرامہ کا فن بڑا فن ہے یعنی شاعری کے بعد اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ میں افسانوں میں ڈرامہ کی تکنک سے کام لیتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ وہ میرے افسانوں کا تقاضہ تھا تکنک کے اعتبار سے میرے افسانوں میں ڈرامائیت سے مراد مکالمہ اور فضا آفرینی ہے تو افسانے کا تقاضہ ہے۔ اب رہی بات خارج اور داخل کی تو میرے افسانے خارج کے نہیں ہوتے (جیسے عام معنوں میں سمجھا جاتا ہے) بلکہ داخلی کیفیات کا اظہار کرتے ہیں چوں کہ میرے افسانوں کی بنیادی سوچ جذبہ و فکر پر ہے اس لئے میرے افسانوں پر انہیں سطحوں پر غور کرنا ہوگا۔ ہو سکتا ہے یہ عمل دانش وارانہ نہ ہو۔ مجھے اس سے انکار نہیں۔ ہوتا یہی ہے۔ تاثر تو مکمل فن پارہ سے ہی حاصل ہوتا ہے ویسے بھی میرے افسانے کسی قدر نامانوس ہوتے ہیں قاری فوراً تاثر کو قبول نہیں کرتا ہوگا اس کے لئے پریم چند سے لے کر نئے افسانے تک کا مطالعہ ضروری ہے۔ میں ادب تفریح کے لئے نہیں لکھتا میرے لئے ادب ایک مہندب دیوانگی کا عمل ہے۔
ڈاکٹر سید احمد قادری:- آپ اپنی شاعری یا افسانہ نگاری دونوں میں سے کس صنف سے مطمئن ہیں؟
پروفیسر حمید سہروردی:- میں نہ شاعری سے مطمئن ہوں اور نہ ہی اپنی افسانہ نگاری سے، سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ میں نے ابھی کیا ہی کیا ہے؟ ابھی تو میں نے اپنا سفر شروع کیا ہے۔ میری خواہش اور کوشش یہی ہے اور رہے گی کہ میں سفر میں رہوں۔
عارف خورشید:- کس افسانہ نگار کو پڑھ کر راحت ملتی ہے؟
پروفیسر حمید سہروردی:- جو فن اور زندگی کو یک جاکر کے پیش کرتا ہے۔
عارف خورشید:- کس کو پڑھ کر الجھن ہوتی ہے یا غصہ آتا ہے۔
پروفیسر حمید سہروردی:- غصہ ان پر آتا ہے جو فن کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں اور الجھن ان سے ہوتی ہے جو فن کو اکہری سطح پر برتتے ہیں۔
سید سجاد اختر:- بعض اوقات تعمیر کے لئے تخریب ضروری ہوتی ہے آپ کے خیال میں جدید ادب و تنقید نے ایسی تخریب کاری کہاں کی ہے؟
پروفیسر حمید سہروردی:- جدید تنقید تو بڑی سخت رہی پہلے ہماری تنقید میں جو مشرقیت کے آداب و اخلاق تھے اس کو توڑا۔ فن بارے کو جانچنے میں ادبی اصولوں کو ہی بروے کار لائی۔ اخلاق و آداب اپنی جگہ درست مگر ادب فہمی کے لئے کہیں نہ کہیں مانع ہیں ترقی پسند تحریک وہاں تک اچھی تھی کہ اپنے معاشرے کی اصلاح مقصود تھی معاشرے کے مسائل کو حل کرنے کی ادبی انداز سے کوشش جاری تھی لیکن جب اس نے پارٹی مینی فیسٹو کو فالو کرنا شروع کر دیا تو ادبی معیار سے ہٹتی چلی گئی جدیدیت کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ترقی پسندی کی توسیع ہے یا پھر رد عمل ! لیکن میرا خیال ہے کہ یہ نہ تو رد عمل ہے اور نہ توسیع بلکہ وقت کی دین اور حالت کی پیداوار ہے اور اپنے طور پر پھوٹنے والے شجر کی طرح ہے۔
نور الحسنین:ـ- حمید صاحب! آپ میں بھرپور تنقیدی بصیرتیں ہیں۔ ایک سلجھا ہوا ذہن ہے آپ کے پاس۔ آپ چاہتے تو تنقید کے نئے زاویئے دریافت کر سکتے تھے آپ پر یہ الزام ہے کہ آپ نے نثری شاعری کر کے اپنی تنقیدی صلاحیتوں کا خون کیا ہے اور نثری نظمیں لکھ کر اپنے ادبی وقار کو ٹھیس پہنچائی؟
پروفیسر حمید سہروردی:- میں ہر لکھنے والے سے یہی امید رکھتا ہوں کہ وہ ذہن و شعور سے کام لے، اندھا دھند لکھنے سے کیا حاصل۔ آپ غور کیجئے ایک تنقیدی بصیرت رکھنے والے اور ایک سلجھا ہوا ذہن رکھنے والے افسانہ نگار سے تفریحی افسانوں کی امید کیوں رکھی جائے کیا یہ اس کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی۔ کیوں ہوگی کہ نہیں؟ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے کیوں ٹھیک ہے نا؟ ہم کسی لکھنے والے سے پابندی موضوع اور پابندی فن کا تقاضہ کیوں کریں۔ اب ہمارے معاشرے میں ادیب ہی تو آزادیٔ ذہن کا اظہار کرسکتا ہے کیوں کہ اس کے پاس زبان ہے اور زبان کے بہت سارے لوازمات علامت تمثیل، استعارہ اور ابہام وغیرہ۔
ادب میں تنقید ایک فن کی حیثیت رکھتی ہے عام طو رپر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اعلیٰ تخلیق بغیر تنقیدی شعور کے ممکن نہیں اس لئے یہ کہنا درست ہے کہ ہر تخلیق میں تنقیدی شعور کارفرما ہوتا ہے میں اپنی تخلیقات کے بارے میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ میری تخلیقات اعلیٰ درجہ کی ہیں۔ مگر یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ان تخلیقات میں تنقیدی شعور ضرور ہے۔ میرا افسانہ سماج کے لئے ایک نئی تنقید کا زاویہ دریافت کرتا ہوا لگے گا۔
اب رہا نثری نظموں کا سوال ! مستقبل کی شاعری نثری نظم ہی ہوگی میں نے ایسی تنقیدی صلاحیتوں کا خون ہرگز نہیں کیا۔ نثری نظمیں پڑھیئے۔ میری شاعری محض زلف ورخسار کی شاعری نہیں ہے میں نے معاشرہ کی آلودگی، حکومت کی ناقص کارکردگی، رہنماؤں کی خود غرضی اور اشخاص اور جماعتوں کے قول وفعل کے تضاد کی باتیں کی ہیں۔ جہاں میں نے معاشرہ کے ایک پہلو کی بات کی ہے وہیں دوسرا پہلو بھی میرے نزدیک اہم ہے۔ مجھے کسی سے بغض وعناد نہیں ہوتا میری تخلیقات تفریحی ادب کے زمرہ میں نہیں آئیں وہ افسانہ ہوکہ نظم ہر صنف ادب میں میں نے سماج پر راست یا ناراست طور پر تنقید کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں میں نے نثری نظمیں لکھ کر ادبی وقار کو ٹھیس پہنچایا ہے! کمال ہے برادرم نورالحسنین میری نثری نظمیں کئی انتھالوجیوں میں شامل ہوگئی ہیں۔ کتنے ہی غزل گوہیں جن کی غزلیں کسی انتھالوجی سے محروم ہیں۔
سید سجاد اختر:- آپ کا شمار اُردو کے شاعر افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے آپ کے خیال میں افسانے کی زبان کیسی ہونی چاہئے؟
پروفیسر حمید سہروردی:- آپ نے جو بات کہی ہے کہ شاعر افسانہ نگاروں میں میرا شمار ہوتا ہے تو یہ بات درست ہے افسانے کی زبان نثر ہی کے تقاضوں کو پوری کرنے والی ہو لیکن جب افسانے میں ایک اسرار پیدا ہوجاتا ہے تو وہاں زبان نثر کے تقاضوں کو پور ا کرنے سے قاصر رہتی ہے نثر میں آہنگ ہوتا ہے شاعری میں نغمگی ہوتی ہے اس فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے تاکہ یہ حدیں آپس میں گڈمڈنہ ہوجائیں۔
ڈاکٹر سید احمد قادری:- اُردو کے نقادوں سے آپ کو کوئی شکایت:
پروفیسر حمید سہروردی:- اُردو کے نقادوں سے کیوں شکایت ہوگی بھائی قادری صاحب نقاد اپنا کام کرتا ہے اس کی نیک نیتی پر شک کیوں کریں کوئی نقاد کسی مکتب فکر سے وابستہ ہے ، کوئی کسی دوسرے مکتب فکر سے ہر نقاد اپنی مقدور بھر کوشش اور اپنی آئیڈیالوجی کے تحت فن پارہ کی فہم تک رسائی کی کوشش کرتا ہے کیا نقاد کا کہا حرف آخر ہے؟ ایسا تو نہیں ہے پھر افسانہ نگار کا اپنا کام یہی ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ لکھے اور فنی تقاضوں کو بھرپور استعمال کرنے کی کوشش کرے۔