عبدالرب اُستاد( گلبرگہ،انڈیا)
منشی پریم چند کے متعلق اُردو اور ہندی ،ہر دو زبانوں میں اب تک بہت کچھ لکھا جاچکا ہے ۔پر زاویہ سے ان کے ادب کو پرکھنے کی کوشش کی گئی ۔افہام و ففہیم کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔یہ وہ واحد فن کار ہے ،جس نے اُردو اور ہندی سے محبت کی اور اپنے خیالات کو پیش کرنے کے لیے انہی دو زبانوں کا سہار ا لیا ،جو خالص ہندوستانی اور عوامی زبانیں ہیں ۔ہر دو زبانوں کے بولنے ،لکھنے اور پڑھنے والوں نے جہاں آپ کی تعریف و توصیف میں رطب اللسانی کی ،وہیں بعض نے اعتراضات بھی کیے اور مخالفت میں بہت کچھ توانائیاں صرف کیں ۔مجھے نہ تو مخالفت میں کچھ کہنا ہے اور نہ ہی بے جا تعریف میں لکھنا ۔کیونکہ اعتراض یا مخالفت کے لیے ،تعریف کرنے سے کہیں زیادہ ،جاننا ضروری ہوتا ہے ،اور تعریف کے لیے ادب کا شعور و درک رکھنا ضروری ہے۔جب کہ ان دونوں سے میں اپنے آپ کو عاری سمجھتا ہوں ۔اس لیے اُردو کا ایک حقیر طالب علم ہونے کے ناطے سطحی ہی سہی،جائزہ لینے کی یہ مقدور بھر کوشش ہے ۔
محققین کی آراء کے مطابق منشی پریم چند کی ولادت ۱۸۸۰ء ہے اور وفات ۱۹۳۶ء۔اس طرح آپ کی عمر ۵۶سال قرار پاتی ہے ۔محققین کے مطابق منشی جی کی پہلی تخلیق ۱۹۰۸ء میں بتائی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ۲۸سال کی عمر سے لکھنا شروع کیا ۔اگر عمر کے ۵۶سال میں سے ۲۸سال منہا کردیں تو باقی ۲۸سال رہیں گے ۔یعنی دھنپت رائے عرف نواب رائے کی عمر ۲۸سال اور منشی پریم چند کی عمر ۲۸سال ہوجاتی ہے۔
محققین نے آپ کی جملہ ۲۸سال کی ادبی زندگی کو چار ادوار میں تقسیم کر دیا ۔
۱۔ پہلا دور ․․․․․․․․․․․․ ابتدائی کوشش ۱۹۰۹ء
۲۔ دوسرا دور ․․․․․․․․․ تاریخی اور اصلاحی افسانے ۱۹۱۰۹ء تا ۱۹۲۰ء
۳۔ تیسرا دور ․․․․․․․․․․․․․ اصلاحی اور سیاسی افسانے ۱۹۲۰ء تا ۱۹۳۲ء
۴۔ چوتھا دور ․․․․․․․․․․․ سیاسی اور فکری افسانے ۱۹۳۲ء تا ۱۹۳۶ء
ان ۲۸سالوں میں پریم چند نے ناولوں اور افسانوں کے علاوہ مضامین اور چند ایک ڈرامے بھی لکھے ۔مرور ایام کے ساتھ آپ کے مضامین اور ڈرامے نہ تو عوام کے ذہن کا حصہ بن پائے اور نہ ہی موضوع بحث رہے ،سوائے محققین کے ۔مگر افسانے اور ناولوں نے عوام اور خواص کے ذہنوں پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے اور آج بھی قاری ان افسانوں اور ناولوں کو پڑھ کر محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہتا۔
منشی جی کی وفات سے لے کر آج تک ادب میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔مختلف رجحانات نے جنم لیا،روے آئے ،تحریکیں اُٹھیں ،تجربے ہوئے مگر پریم چند کے ادب سے ہر ایک نے پریم کیا اور آج بھی کر رہا ہے ۔اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے کیوں نہ ہو پریم چند نے اس چمن ادب کو اپنے خون جگر سے سینچااور اس کی آبیاری کی ۔جس کی وجہہ سے نہ صرف ان کا ادب زندہ ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پریم چند کا نام بھی زندہ ہے اور اسے دوام حاصل ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ پریم چند کی کملہ قلمی کائنات کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور آخری دور کو نقادان ادب اور محققین پریم چند نے سیاسی اور فکری دور سے تعبیر کیا ہے ۔
انسانی ذہن چونکہ رفتہ رفتہ ترقی کرتا ہے ۔اس کے تجربات میں پختگی آتی ہے ۔قلم میں جولانی دکھائی پڑتی ہے اور ایک طرح کی سنجیدگی ٹپکتی ہے ۔بعینہٖ پریم چند بھی انھی مراحل سے گزرتے رہے۔
پریم چند کا مطالعہ وسیع تھا ،اہل علم کی صحبتیں انھیں نصیب تھیں ،ادب کے لیے ماحول اور ماحول کے لیے ان کا ادب ،ساز گار تھے ۔انھوں نے اپنے گرد و پیش کے ماحول سے نہ صرف مواد اخذ کیا بلکہ ماحول کو انھوں نے بہت کچھ دیا بھی،چنانچہ انھوں نے اپنے عہد کو دیکھا ،پرکھااور سمجھا ،پھر اپنے قلم کو ہتھیار کی مانند استعمال کیا ۔یہ قلم دو دھاری تلوار کی طرح نظر آتا ہے۔یہ جہاں سامراج کے خلاف بارود کا کام کر رہا تھا ،وہیں وطن اور ابنائے وطن کے لیے محبت،اُخوت،بھائی چارگی کے پھول برساتا نظر آتا ہے ۔یہ جہاں پر اخلاقی گراوٹوں ،معاشی استحصال کرنے والوں ،معاشرتی برائیوں اور سماجی ناہمواریوں پر وار کرتا ہے ،وہیں کمزور ،لاچار اور غربت کے ماروں کی حمایت ،کسانوں اور مزدوروں کی وکالت کرتا نظر آتا ہے ۔اس مین کوئی دو رائے نہیں کہ ان کا قلم ایک اچھا اور سچا فنکار ہونے کے ناطے سچ اُگل رہا تھا ،کہتے ہیں کہ سچ ہمیشہ کڑوا ہولگتا ہے ۔جس کی وجہہ سے کبھی ہندو اور برہمنوں کے دل ملول ہو رہے تھے ،تو کبھی مسلمان برہم ہو رہے تھے ۔مگراس کی انھوں نے پرواہ نہیں کی ۔کیونکہ جو کچھ ان کی آنکھ دیکھ رہی تھی اور ذہن سوچ رہا تھا اور دل محسوس کر رہا تھا اس کا اظہار ان کے قلم سے ہو رہا تھا ۔یہ سب ان کے مضامین سے عیاں ہے ۔ہاں ناولوں اور افسانوں کی حقیقت یہ رہی کہ نقادان ادب کے بقول حقیقت پسندی کا درس پریم چند نے سب سے پہلے دیا ۔وگر نہ تو پریم چند سے پہلے افسانوں ادب کی دنیا تو بس دل والوں کی دنیا تھی ،جسے حقیقت سے روشناس کرانے والے پریم چند تھے۔
جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں کہا گیا ہے کہ ۱۹۳۲ء تا ۱۹۳۶ء ،جسے آخری دور سے تعبیر کیا گیا ہے ،پریم چند کی فکر کا دور رہا ۔جس میں نہ صرف ان کی ساری زندگی کا تجربہ بلکہ علمی ،ادبی،سیاسی ،معاشی ،سماجی اور فکری تجربہ ،پوری آب و تاب کے ساتھ اس دور کی تحریروں میں جلوہ گر نظر آتا ہے ۔جن میں گیرائی و گہرائی،جامعیت و آفاقیت ،صداقت و معنویت اس قدر پیوست ہو گئی ہیں کہ وہ شاہ کار کا درجہ اختیار کر گئیں ۔خواہ وہ افسانہ کفن ہو کہ پوس کی رات یا ناول گؤ دان وغیرہ۔ان تمام سے قطع نظر منشی پریم چند کی وہ تحریر جس میں ان کی پوری زندگی کا ماحصل ،ادب کا نچوڑ در آیا ہے ،وہ ہے ترقی پسند مصنفین کے اجلاس کا خطبۂ صدارت ۔
یہ خطبہ صرف تقریر ہی نہیں بلکہ لائحہ عمل ہے ادب کا ،ایک Land Markہے اُردو اور ہندی لٹریچر کا ،جس نے سوتوں کو جھنجھوڑ کر جگا دیا،مردوں میں جان ڈال دی ،نئے لکھنے والوں کو ایک نئی راہ اور سمت دکھا دی۔ان میں آشا کی جوت جگا ئی ،کمزوروں کو توانا کردیا ،وقت کی دھارا کو بدل کر رکھ دیا اور ادب کو ایک نیا ذہن اور نیا اُفق عطا کیا۔یہ وقت کا تقاضا تھا جسے پریم چند نے سمجھ لیا تھا ،آپ کی فکر رسا نے آنے والے وقت کو بھانپ لیا تھا ،اور اس کے مطابق رائے دی۔یہ وہی کام تھا جو برسوں پہلے نظم کے حوالے سے حالیؔ اور آزادؔ نے کیا تھا ۔اس طرح حالیؔ نے شاعری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عصری ادب کو پرکھنے کی کوشش کی تھی جو بعد میں تنقید کی نیو ثابت ہوئی۔
حالیؔ نے شاعری کی وساطت سے بات کی تھی ،جب کہ پریم چند نے نثر کے حوالے سے بات کی۔جس طرح حالی کا مقدمہ ان کی شاعری پر تھا ۔اسی طرح یہ صدارتی خطبہ ،پریم چند کے فکشن کا مقدمہ معلوم ہوتا ہے ۔حالیؔ نے جہاں اصلیت ،جوش اور صداقت و نیز تخئیل ،کائنات کا مطالعہ اور تفحض الفاظ پر بحث کی ،وہیں پریم چند نے زبان ،آرٹ،حسن اور جملہ ادب پر سوالات قائم کیے اور پیش رو ادب کے ساتھ اپنے عہد کے ادب کا مقابلہ کرتے ہوئے مستقبل کے ادب کے بارے میں بتایا۔اس طرح یہ بھی واضح کر دیا کہ ادب کو اور ادیب کو کیا ہونا چاہیے۔اس طرح حالیؔ کا مقدمہ اور پریم چند کا خطبہ دونوں مل کر ادب کی تنقید کو مکمل کرتے ہیں۔
یہ خطبۂ صدارت گویا پریم چند کے پورے ادب کا مقدمہ معلوم ہوتا ہے ۔مقدمہ عموماً کتاب کے ابتداء میں ہوتا ہے جب کہ وہ آخر پر لکھا گیا ہوتا ہے ۔کیونکہ اس میں ساری کتاب کا نچوڑ ہوتا ہے ۔ساری کتاب کا نچوڑ ظاہر ہے کتاب کی تکمیل کے بعد ہی نکالا جاتا ہے ۔یہ خطبہ بھی عمر کے آخری حصہ میں بلکہ وفات سے چند ماہ قبل لکھا اور پیش کیا گیا تھا۔گویا انھوں نے اپنے عہد اور اپنے ادب کا بھر پور جائزہ لینے کے بعد ،انتہائی عرق ریزی اور محنت سے لکھا تھا۔تو یقیناً یہ کہا جاسکت اہے کہ جس طرح مقدمہ شعر و شاعری اردو تنقید کی پہلی کتاب ہے اسی طرح یہ خطبۂ صدارت بھی اردو فکشن یا اُردو نثر کی پہلی تنقید یا کم از کم تنقیدی کاوش قرار دی جاسکتی ہے اور قرار دی جانی چاہیے۔اس سے قبل یا آج تک بھی غالباً اس کو صرف ایک نظریاتی یا فکری تقریر ہی گردانا گیا ۔وگر نہ یہ صرف تقریر ہی نہیں نثر یا فکشن کی کسوٹی ہے ۔جس پر فکشن یا ادب کو پرکھا جاسکتا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا کیا واقعی اسے کسوٹی قرار دے سکتے ہیں ۔تو میرا جواب ہے کہ ہاں اسے یقیناً کسوٹی قرار دیا جاسکتاہے ۔کیوں کہ ادب کے لیے اور بطور خاص نثر اور تخلیقی نثر کے لیے زبان کا استعمال ضروری ہے ۔چنانچہ پریم چند خود کہتے ہیں کہ زبان بول چال کی بھی ہوتی ہے اور تحریر کی بھی ،اور جو تحریر ہے وہی ادب ،معاً ادب اور تحریر کے متعلق وضاحت بھی کرتے ہیں ،اقتباس ملاحظہ ہو
’’ ․․․․․․․․․․ ادیب وہی کام تحریر سے کرتا ہے ۔ہاں اس کے سننے والوں کا دائرہبہت وسیع ہوتا ہے ۔اور اگر اس کے بیان میں حقیقت اور سچائی ہے تو صدیوں اور قرنوں تک اس کی تحریریں دلوں پر اثر کرتی رہتی ہیں ۔میرا یہ منشا نہیں کہ جو کچھ سپرد قلم ہوجائے وہ سب کا سب ادب ہے ۔ادب اُس تحریر کو کہتے ہیں جس میں حقیقت کا اظہار ہو ،جس کی زبان پختہ ،شستہ اور لطیف ہو اور جس میں دل و دماغ پر اثر ڈالنے کی صفت ہو اور ادب میں یہ صفت کامل طور پر اسی حالت میں پیدا ہوتی ہے جب اس میں زندگی کی حقیقتیں اور تجربے بیان کے گئے ہوں ‘‘
اس اقتباس میں جہاں انھوں نے زبان کی پختگی،شستگی اور لطافت کا اظہار کیا،وہیں حقیقت اور سچائی یا صداقت کو ادب کے لیے ضروری قرار دیا ہے ،اور زندگی کے تجربوں کو بیان کرنا ،ناگزیر بتایا ۔یہ بات مسلم ہے کہ جس تحریر میں صداقت اور حقیقت ہو ،جس میں زندگی کے تجربات ،فن کارانہ انداز سے در آئے ہوں ،اس تحریر کا اثر صدیوں اور قرنوں تک انسانی دلوں پر رہتا ہے ۔اب خود منشی پریم چند کی تحریروں کو لیجیے کہ ایک صدی ہونے کے باوجود آج بھی ان میں وہی تازگی برقرار ہے جو ابتداء میں تھی۔اس طرح ادب کے متعلق اس خطبہ میں فرماتے ہیں کہ
’’ادب کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں ،لیکن میرے خیال میں اس کی بہترین تعریف ’’تنقید حیات‘‘ ہے چاہے وہ مثالوں کی شکل میں ہو یا افسانوں کی یا شعر کی ۔اسے ہماری حیات کا تبصرہ کہنا چاہیے‘‘پھر کہتے ہیں کہ ’’ادب اپنے زمانے کا عکس ہوتا ہے ‘‘ ا
س طرح وہ اپنے پیش رو عہد کا جائزہ لیتے ہوئے شعر و ادب پر اظہار خیال کرتے ہیں ۔جہاں یا تو مافوق الفطرت عناصر کی بہتات تھی ،یا تو داستانیں تھیں ،جن میں طلسماتی حکایتوں یا بھوت پریت کے حسن و عشق کے قصے ،جو سوائے دل بہلاؤ اور تفنن طبع کے کچھ نہیں تھا ۔عشق اور حسن کی بات تو ہو رہی تھی مگر عشق کا معیار نفس پروری تھا اور حصن کا معیار دیدہ زیبی۔یہ جنسی جذبات کے اظہار کا آلہ بنے ہوئے تھے ۔مگر انسانی زندگی صرف جنس نہیں۔جہاں حالیؔ نے اصلیت ،سادگی اور جوش کی بات کہی تھی وہیں پر پریم چند نے صداقت ،تجربہ اور حقیقت کے ساتھ ساتھ سعیٔ مسلسل ،اجتہاد فکر اور مشاہدے کو ادب کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔عصری تقاضوں کے مد نظر ادب کے منصب پر یوں گویا ہیں:
’’جس ادب سے ہمارا ذوق صحیح نہ بیدار ہو ،روحانی اور ذہنی تسکین نہ ملے ،ہم میں قوت و حرکت نہ پیدا ہو،ہمارا جذبۂ حسن نہ جاگے ،جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لیے سچا استقلال نہ پیدا کرے وہ آج ہمارے لیے بے کار ہے ۔اس پر ادب کا اطلاق نہیں ہوسکتا ‘‘
پریم چند کا نظریہ یہی تھا کہ ادب کا مقصد یا منصب یہ ہوکہ وہ اپنے قاری میں مثبت فکر پیدا کرے ،صحیح مذاق پیدا کرے اور وہ روحانی اور ذہنی تسکین کا موجب بن جائے جس سے قری میں قوت و حرکت پیدا ہو ،کچھ کر گذرنے کی صلاحیت اس میں آجائے ،اور اس کے ساتھ ہی حسن کا جذبہ بھی جاگے۔ادب میں وہ کیفیت ہو کہ فن کار اور قاری میں ،حق و باطل میں تمیز کرنے کی قوت پیدا ہو ،اچھائی اور برائی میں فرق کرسکے،اور جب وہ صداقت کو پالے یا سمجھ لے تو اس کے پائے ثبات میں لغزش نہ آنے پائے ۔بلکہ مشکلات پر فتح پانے کے لیے سچا استقلال اسی صداقت سے آسکتا ہے ۔چنانچہ انھیں یہ یقین تھا کہ ادب میں یہ قوت ہوتی ہے جو کمزوروں کو توانا اور تونگر بنا سکتی ہے ۔اقوام عالم کی تاریخ گواہ ہے کہ انقلابات ہمیشہ ادیبوں کی تحریروں سے آئے اور لائے گئے ہیں ،اور دنیا کی بساط الٹ دی گئی ہے اور کئی تبدیلیاں ہوئی ہیں ۔خواہ وہ انقلاب فرانس ہو کہ انقلاب روس ،یا اسی طرح کے اور انقلابات۔حسن کے متعلق پریم چند کا نثریہ ہے کہ وہ نام ہے توازن اور آہنگ کا ،کہتے ہیں
’’ہماری ترکیب ہی عناصر کے توازن سے ہوتی ہے اور ہماری روح ہمیشہ اسی توازن اور ہم آہنگی کی تلاش کرتی ہے۔ادب آرٹسٹ کے روحانی توازن کی ظاہری صورت ہے اور ہم آہنگی حسن کی تخلیق کرتی ہے ۔تخریب نہیں وہ ہم میں وفا اور خلوص اور ہمدردی اور انصاف اور مساوات کے جذبات کی نشو ونما کرتی ہے ۔جہاں یہ جذبات ہیں وہیں استحکام ہے ،زندگی ہے ،جہاں ان کا فقدان ہے وہیں افتراق ،خود پروری ہے اور نفرت اور دشمنی ہے اور موت ہے ‘‘
یہاں پریم چند نے ادب اور ادیب کے باہمی رشتہ کو واضح کرتے ہوئے حسن کے متعلق اظہار خیال کیا کہ یہ ایک ادیب یا آرٹسٹ میں توازن اور ہم آہنگی پیدا کرتی ہے ،کیونکہ انسان کی تخلیق بھی اسی ہم آہنگی اور توازن سے ہوئی ہے ۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزاء کا پریشاں ہونا
ادیب یا آرٹسٹ جو خود ایک انسان ہوتا ہے ،اسے چاہیے کہ وفا،خلوص ،ہمدردی،محبت،انصاف اور مساوات سے کام لیتے ہوئے ،انسانوں کے اندر جھانکے ،ان کے مسائل سے واقفیت حاصل کر لے اور مثبت فکر سے اپنی تحریروں کو مزین کرے،کیوں کہ یہی زندگی کی علامت ہے اور انھوں نے اسے زندگی سے تعبیر کیا ہے ،جب کہ افتراق ،خود پروری،نفرت اور دشمنی کو موت سے تعبیر کیا ہے کیونکہ یہ تخریبی عناصر ہوتے ہیں اور ادب یا حسن تخریب کی نہیں بلکہ تخلیق کی ضامن ہوتے ہیںَ۔
پریم چند نے ایک فن کار کی نظر سے اپنے معاشرے کو ،معاشرے میں ہونے والے مسائل کو اور تبدیلیوں کو ،بہ نظر غائر دیکھا اور محسوس کیا ،پھر اپنے ادب اور تحریروں کے ذریعہ اس انداز میں پیش کیا کہ وہ خود کے محسوسات نہیں رہے بلکہ قاری کے محسوسات بن گئے ۔اور قاری نے اس کو دل و جان سے لگا لیا۔اس سے محظوظ ہوا ،اس درد کو ،اس کرب کو اس نے بھی محسوس کیا۔
بہر حال منشی پریم چند کے نظریات اور افکار ان کے پورے ادب میں جھلکتے ہیں ،اور ان کے ادب کا نچوڑ گویا صدارتی خطبہ معلوم ہوتا ہے ۔وہ مجتمع ہو کر اتنا ہی رہ جاتا ہے کہ زندگی کو ادب اور ادب کو زندگی بتانا چاہیے۔ادب اور زندگی الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی سکہ کے دو رخ بن جانے چاہئیں۔
اس خطبہ کے آخری کلمات گویا اعلان کر رہے ہیں کہ ہاں یہ صرف خطبہ نہیں بلکہ کسوٹی ہے ،جس سے ہم اپنے فکشن کو ،نثر کو یا ادب کو پرکھ سکتے ہیں ،کہتے ہیں:
’’ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اُترے گا جس میں تفکر ہو ،آزادی کا جذبہ ہو،حسن کا جوہر ہو ،تعمیر کی روح ہو،زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو جو ہم میں حرکت اور ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے ،سلائے نہیں ،کیونکہ اب اور زیادہ سونا موت کی علامت ہے ‘‘