پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقأر(استنبول،ترکی)
ترکی میں اردو کیوں سیکھتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب اب تک نہ میں دے سکا نہ ہی اردو دان لوگ۔مجھے یہ تو علم ہے کہ میں بذات خود کیوں اردو سیکھنے لگا لیکن اس کا سبب اردو بولنے والوں کو نہیں سمجھا سکا اور بالخصوص وہ اردو دان لوگ جو اپنی زبان کو ایک سیکنڈ کلاس(!) کی زبان ماننے کی عادت رکھتے ہیں اب تک اس راز کو نہ سمجھنے کے لیے بڑی استقامت سے کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے مطابق اس گلوبل ولیج جس کی واحد زبان صرف اور صرف انگریزی ہے، میں کوئی اور زبان بالخصوص اردو جیسی ایک زبان سیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اِن کے خیال میں انگریزی جانو تو دنیا میں تمام دروازے آپ کے سامنے کھل جائیں گے تو کیوں اردو سیکھنے کی تکلیف اُٹھائی جائے۔ لیکن خود اہل زبان کی اردو کے خلاف ثابت قدمی کے ساتھ سعی و محنت کے باوجود دنیا کے مختلف ملکوں میں کم از کم یونیورسٹی کی سطح پر اردو کی تعلیم جاری ہے اور ترکی دنیا کے ان مختلف ملکوں میں سے ایک ہے۔
ترکی میں اردو کیوں سیکھتے ہیں؟ اس سوال کو مختلف پہلوؤں سے جانچا جاسکتا ہے لیکن یہاں ہمارا مقصد اس موضوع پر تفصیلی مضمون لکھنا نہیں ہے۔ در اصل اس لئے یہ کوشش کی جائے گی کہ استنبول یونیورسٹی، ادبیات فیکلٹی، شعبہ زبان و ادبیات اردو کے طالبعلموں سے لئے گئے مندرجہ ذیل بیانات سے اس سوال کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیاجائے۔ لیکن اس سے قبل مختصراً اس کی وضاحت کرنا چاہوں گا تاکہ قارئین کرام کے لیے موضوع کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
مجموعی طور پر اگر ان پر بحث کرنی ہے تو یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ترکی میں اردو سیکھنے کی ایک اہم وجہ برصغیر کے لوگوں کے ساتھ ترکوں کے دلی روابط ہیں۔ صدیوں سے برقرار دوستی اور برادری کے احساسات دن بہ دن کم ہونے کے باوجود اب تک ہمارے دلوں میں بسے ہوئے ہیں اور بعض طالبعلم بس اسی بناء پرہی اردو سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری وجہ ترکی میں یونیورسٹی میں داخلے کے امتحانات کا نظام ہے۔ اس نظام کے مطابق طالبعلم ہائی اسکول کے جس شعبے سے فارغ التحصیل ہوں اسی شعبے کے مطابق ان کو یونیورسٹی میں داخلہ ملتا ہے۔ اور امتحانوں سے اخذ کئے گئے نمبروں کے مطابق وہ مختلف شعبوں میں جاتے ہیں اور یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ اردو میں داخلے کے لیے ضروری نمبروں کی نسبت دوسری زبانوں سے کم ہے۔ در اصل یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ داخلے کے امتحان میں اردو کے لیے ضروری نمبر کم ہیں ورنہ ہمارے طالبعلموں کی تعداد آج سے بھی بہت کم ہوتی۔یہ دو مثبت پہلو ہیں جو ترکی میں اردو کی تعلیم میں محرک ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسے منفی پہلو بھی ہیں جو ترکی میں اردو تعلیم کے سامنے رکاوٹ پیدا کردیتے ہیں۔
طالبعلم اپنے مستقبل کے لیے یونیورسٹیوں میں آتے ہیں۔ اور اردو زبان سیکھ کر ان کا جو مستقبل بننا ہے وہ ذرا مشکوک ہے۔کیونکہ برصغیر کے انگریزی کے دل دادہ لوگ انگریزی دانی میں اتنے مست ہوگئے ہیں کہ ان کو آگے پیچھے کا کچھ خیال ہی نہیں رہا ہے۔ اگر کسی زبان کے بولنے والے اپنے ملک میں اپنی قومی زبان کو چھوڑکر تجارت سے لے کر سیاست تک اپنے تمام کام کسی غیرزبان میں کرنے لگیں گے تو دوسروں کے ہاں ان کی زبان کے احترام کی گنجائش رہتی ہے کہ نہیں؟ اور ایک ایسی زبان کو اجنبی سیکھنا چاہیں گے کہ نہیں؟ پھر بھی اس کے باوجود کچھ طالبعلم اپنا شوق لے کر آتے ہیں اور اردو سیکھنے لگتے ہیں تو ان کے سامنے اردودانوں کی سخت مخالفت کھڑی ہوجاتی ہے۔ یقین کیجئے میرے طالبعلموں کے ساتھ یہ واقعہ بھی ہوا ہے کہ وہ کسی سلسلے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے بامعتبر ادارے کے آفسر کے پاس گئے تو ان سے یہ کہاگیا ’’آپ لوگوں کے پاس عقل کی کمی ہے کہ اردو سیکھتے ہیں اردو سیکھ کر کیا کریں گے، انگریزی سیکھیں کسی اور زبان کی ضرورت نہیں!‘‘ یہ کہنے والے صاحب کو یہاں تک کا پتا نہیں کہ اردو سیکھنے کے لیے جو طالبعلم ہمارے پاس آتے ہیں وہ داخلے کے امتحان میں انگریزی، جرمن یا فرانسیسی زبانوں میں سے کسی ایک زبان کے سوالات حل کرکے ہمارے شعبوں میں آتے ہیں۔ یعنی ان کو کسی یورپین زبان کی اچھی خاصی دسترس ہوتی ہے۔
یہ ایک منفی پہلو ہے۔ دوسرا منفی پہلو یہ ہے کہ دوستی اور قلبی ارتباط کے باوجود ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اردو ترکی کا لفظ ہونے کے باوجود کسی مشخص ملک سے عنوانی تعلق قائم نہ رکھنے کی وجہ سے ذہنوں میں کوئی پہلو اجاگر نہیں کرتی ہے۔ سو ترکوں کے ذہن میں بھی پہلی دفعہ سننے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اوردو کونسے ملک کی زبان ہے؟ پھر جس زبان سے لوگ ناشناس ہیں اسی زبان کو سیکھنے کی طرف کم رغبت ہوتی ہے۔ اور ترکی میں اردو زبان و ادب سے تعارف نہ کروائے جانے کی وجہ سے بھی اردو سے دلچسپی لینے والوں کی تعداد گھٹتی ہے۔
باقی آپ سوچئے کہ ترکی میں کیوں اردو سیکھتے ہیں؟ یہاں میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ ترکی میں اردو سیکھنے کے تمام تر وجوہات پر حاوی ایک تفصیلی مضمون لکھوں۔ میری باتیں بس اس موضوع کی کچھ جھلکیاں ہیں جس کی تفصیل ہمارے طالبعلموں کے بیانات میں بخوبی نظر آئیں گی۔
گللو شاہ یلماز (Gullusah Yilmaz)
یونیورسٹی کے امتحانات سے پہلے انٹرنیٹ کے ذریعے ایک مختصر تحقیق کی۔ میں ہائی اسکول سے غیر ملکی زبان اور ادبیات کے شعبے سے فارغ التحصیل ہونے کی وجہ سے میری پہلی ترجیح اجنبی زبان کا شعبہ تھی۔ اس کے بعد دو یونیورسٹیوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ اُن میں سے ایک استنبول یونیورسٹی ادبیات فیکلٹی شعبہ اردو زبان و ادبیات اور دوسری انقرہ یونیورسٹی شعبہ اردو زبان و ادبیات۔ اِن دونوں یونیورسٹیوں میں سے ایک میں داخلہ لینے کے لیے سوچنے کی وجہ کچھ نئی چیزیں سیکھنے کی خواہش تھی اور انگریزی زبان تو اب سب کو آتی ہے اور جگہ جگہ انگلش کے لیے کورس موجود ہیں۔ اور اردو کوئی نہیں جانتا۔ یہاں تک کہ ننانوے (۹۹) فی صد لوگ اردو زبان کس ملک میں بولی جاتی ہے اسے بھی نہیں جانتے۔ لیکن اسے میں جانتی ہوں یہ میرے لیے اہم ہے۔ اور آگے چل کر میں اردو میں ایم اے کرنا چاہتی ہوں۔ پاکستان جاکر وہاں کے لوگوں کو اردو بولتے ہوئے سننا چاہتی ہوں اور کسی سرکاری ادارے میں اردو کی فروغ کے لیے کام کرنا چاہتی ہوں۔
دویگو بہار (Duygu Bahar)
سب سے پہلے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میں شعبے سے منسلک ہونے سے پہلے اِس کے بارے میں مجھے کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ یہاں تک کے اردو زبان کی الف بے تک نہیں جانتی تھی۔ لیکن اردو زبان سے متعلق پہلے سے میرے ذہن میں کوئی منفی رائے نہیں تھی۔ جب بھی اردو زبان و ادب سے متعلق کوئی نئی چیز سیکھتی تو میری دلچسپی اس کے ساتھ اور بھی بڑھتی گئی۔ اِس کے ساتھ ساتھ ایک مشرقی زبان ہونے کی بناء پر مشرقی ثقافت اور مشرقی انسانوں کی طرزِ معاشرت بھی میری دلچسپی کا باعث بنی۔ کیونکہ ایک زبان سیکھنے کے لیے جس قدر اس زبان کے قواعد و قوانین جاننے اور لکھنے کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے اس کو مکمل طور پر جاننے کے لیے اسی قدر اس زبان کو بولنے والے لوگ، علاقہ، ثقافت، ادبیات، سیاست اور تاریخ کے بارے میں بھی جاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں ترکی میں مشرقی زبانوں اور ادبیات کی تعلیم سے مطمین نہیں ہوں۔ مثلاً اردو ادبیات کی طالب علم ہونے کے ناطے پاکستان کے اعلیٰ سطح کے تعلیمی اداروں کے ساتھ معلوماتی اور علمی ارتباط معدوم کالعدم ہے۔ اپنے طور پر اپنے شعبے میں پاکستانی مہمانوں کو وقتاً فوقتاً دیکھنا چاہتی ہوں۔ میرے لئے ان کے ادبی خیالات سے واقف ہونا اور ان کو اردو بولتے ہوئے سننا دلچسپی کا باعث ہوگا۔
خاقان یلدزآل قان (Hakan Yildazalkan)
شعبہ اردو زبان اور ادبیات کے انتخاب کرنے کی پہلی اور بڑی وجہ اسکول کے شعبۂ لسانیات سے فارغ التحصیل ہونا اور دوسری وجہ انگریزی کے علاوہ ایک اور زبان سیکھنے کی خواہش تھی میں چاہتا تھا کہ جو زبان میں سیکھوں گا وہ کوئی ایسی زبان ہونی چاہئے جس کا تعلق مشرق سے ہو۔ کیونکہ انگریزی مغربی زبان ہے اور مغربی زبان جاننے کے ساتھ ساتھ مشرق سے رابطے کے لیے مشرقی زبان بھی جاننے کی ضرورت ہے۔ اس لئے میں نے مشرقی زبانوں میں سے اردو کو چُنا۔
موگے آندچ (Muge Andac)
میں بہت سالوں سے انگریزی پڑھتے پڑھتے بہت تنگ آگئی تھی۔ اس لئے کوئی مختلف زبان ہونی چاہئے سوچتے ہوئے اردو زبان و ادبیات کے شعبے کا انتخاب کیا۔ فی الحال میرے لیے تھوڑی سی مشکل ہی سہی لیکن پھر بھی ایک نئی زبان سیکھنے کا شوق میرے لئے خوشی کا باعث ہے۔ جب میں نے پہلی دفعہ اردو الف بے کو دیکھا تو ناامیدی کا شکار ہوگئی، لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ میں نے یہ محسوس کیا کہ جتنی زیادہ میں اس سے قریب ہوتی ہوں اتنے ہی زیادہ وہ میرے لیے اپنے دروازے کھول دیتی ہے۔ اِس زبان کو انتخاب کرتے ہوئے داخلے کے امتحان کی فہرست میں اتفاقاً اس کا نام لکھا تھا لیکن اب یہ بات اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ کیونکہ میں یہ زبان سیکھنے پر خوش ہوں۔
ایمل اوزچیلک (Emel Ozcelik)
سچی بات تو یہ ہے کہ میں اِس شعبے میں داخل ہونے تک اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ اس وقت تک میرے ذہن میں کسی ایسے شعبے کو چننے کا خیال تک نہ تھا۔ اِس شعبے میں داخل ہونے کی بڑی وجہ یونیورسٹی کے داخلے کے امتحان میں جو نمبر میں نے لئے وہ اور میری قسمت ہے۔ لیکن اگر آپ مجھ سے یہ سوال کریں کہ اس شعبے سے منسلک ہونے پر خوش ہو تو میرا جواب ’’جی ہاں‘‘ ہوگا۔ میں خوش ہوں اور اس سے محبت کرنے لگی ہوں۔ اور اب یہ سوچتی ہوں کہ اچھا ہوا جو اس شعبے میں داخلہ ملا۔ ایک نئی زبان سیکھنا سچ مچ بہت دلچسپ ہے اور اوپر سے اگر آپ کو شوق بھی ہو اور یہ کام خوشی خوشی کررہے ہوں تو اور بھی دلچسپ ہوجاتا ہے۔ مختصراً شروع میں جس زبان کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتی تھی اور اس کو سیکھ پاؤں گی کہ نہیں کا ڈر مجھے لاحق تھا اب میرے لیے خوشی کا باعث ہے۔
برگل دورموش (Birgul Durmus)
اردو زبان کو انتخاب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بہت پہلے سے عربی الف بے میرے لئے دلچسپی کا باعث تھی۔ مڈل اسکول میں طالبعلمی کے دوران اسی دلچسپی کے سبب عربی زبان کو زیادہ اچھے طریقے سے سیکھنے کے لیے عربی زبان میں تعلیم دینے والے ایک مڈل اسکول میں چلی گئی تھی۔ اس کے بعد ہائی اسکول میں بھی شعبۂ لسانیات کا انتخاب کیا۔ یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہوئے ایک مختلف زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ میرے امتحان کے نمبر بھی اِسی شعبے کے لیے کافی تھے۔ اور آج اسی وجہ سے اس شعبے میں ہوں۔ عربی الف بے اور رسم الخط کو پہلے سے جاننا میرے لئے اردو سیکھنے میں آسانی کا باعث بنے۔ ہمارے شعبے میں اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی زبانیں بھی سکھائی جاتی ہیں اور ان دونوں زبانوں کو سیکھنا میرے خیال میں بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔
سیوال کار (Seval Kar)
اس شعبے کو چننے کی سب سے بڑی وجہ ہندوستان کا میرے لیے جاذب نظر ہونا ہے۔ بہت سی زبانیں اور ادبیات کے شعبہ جات موجود تھے پڑھنے کے لیے لیکن ہندوستان میرے لیے مختلف ہے۔ اور تاریخی لحاظ سے بھی ایسے ہی ہے۔ کونسے ملک ہیں جنھوں نے ہندوستان پر قبضہ کے لیے نہ سوچا ہو۔ وہ ایک جاذب نظر ملک ہے۔ طرز زندگی اور ثقافت کے لحاظ سے میرے لئے یہ دلچسپی کا باعث تھا اور انہیں وجوہات نے مجھے اس شعبے کے انتخاب کے لیے اور زیادہ اُکسایا۔ اور میری سب سے بڑی خواہش اِس شعبے میں سکھائی جانے والی زبان کو اہل زبان کے منہ سے سننا، ہندوستان اور پاکستان کو مکمل طور پر پھرکر دیکھنا۔ انشاء اللہ آئندہ چل کر ان ملکوں کو مختلف پہلوؤں کو اور زیادہ جان سکوں گی۔
دویگو فرطینا (Duygu Firtina)
اِس شعبے میں داخلے سے قبل مجھے اِس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ ترجیحات کی فہرست میں سب سے آخری نمبر پر اردو زبان تھی۔ وہ بھی میں نے اس لیے لکھ دی تھی کہ اگر کسی اور شعبے میں داخلہ نہیں ملے گا تو اردو ہی پڑھ لوں گی۔ یہ سوچ میرے لیے باعث اطمینان تھی۔ زندگی میں بعض چیزوں کے بارے میں ان کو جانے بغیر ان کے بارے میں رائے قائم کرنے کی اور حتیٰ اُ ن کو نیچا دیکھنے کی بری عادت کی وجہ سے ’’یہ شعبہ اور یہ عجیب سی زبان کہاں سے میرے حصے میں آگئی؟‘‘ سوچ کی سبب بنی۔ لیکن اب میرے لیے اس سلسلے میں کوئی بھی دکھ یا پشیمانی نہیں ہے۔ حتیٰ جب میں یہ کہتی ہوں کہ میں اردو زبان پڑھ رہی ہوں تو میرے سامنے کھڑے بہت پڑھے لکھے انسان بھی حیرت سے مجھے دیکھ کر یہ پوچھتے ہیں کہ ’’وہ کیا ہے؟ کہاں بولی جاتی ہے؟‘‘ اور اسی طرح کے اور بہت سارے سوالات تجسس کے ساتھ پوچھتے ہیں تو اِن کے سامنے اپنے آپ کو بہت عالم فاضل انسان کی طرح محسوس کرتی ہوں۔ مختصراً اِس شعبے میں داخل ہونے پر خوش ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز وساز
لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل خشتِ بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز
ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ! جو سراپا ناز تھے ، ہیں آج مجبورِ نیاز
حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز
ہو گیا مانندِ آبِ ارزاں مسلم کا لہو مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز
گفت رومی’’ہر بنائے کہنہ کا باداں کنند‘‘ می ندانی ’’اول آں بنیاد را ویراں کنند‘‘
علامہ اقبال