٭٭٭ یہ تو میں جانتا اور مانتا تھا کہ ادب و شعر کے علاوہ رسائل و جرائد کی اشاعت بھی تمہار ا عشق ہے ، مگر دیارِ غیر میں آکر بھی تمہارا یہ عشق قائم و سلامت رہے گا ،اس کی خبر نہ تھی ، یورپ اور امریکہ وغیرہ میں جہاں بندگانِ ایشیا ہر وقت زر و مال کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں ، وہاں تم نے خسارے کی دکان کھول کر اپنی دیوانگی کا ثبوت فراہم کر دیا ہے ۔جدید ادب معنوی اور صوری اعتبار سے بہت خوبصورت اور جامع میگزین ہے ، جی تو چاہتا تھا کہ اس پر کچھ بے رحمانہ سی تنقید لکھوں گا، مگر تم نے اس کی گنجائش چھوڑی نہ جواز کیونکہ تم نے خاصی محنت اور خلوص سے اسے شایع کیا ہے ۔۔۔۔۔غزلوں کی اشاعت کا شکریہ ۔ تین مزید غزلیں ارسال کر رہا ہوں ۔
حسن عباس رضاؔ ۔ نیویارک
I have seen the new issue of Jadeed Adab. I am well impressed with the contents as well as poetry included in this shumara. I would like to congratulate you for the Gosha about Dr. Anwar sadeed sahib. Dr Anwar sadeed sahib is very senior and active wriiter in urdu who has produced valuable litrature in urdu. his name and work alwayse will be remembered in the urdu history.
آپ نے بہت اچھا کیا کہ اتنی فعال شخصیت پر گوشہ نکالا ہے۔ پرویز مظفر۔برمنگھم
٭٭٭جدید ادب کا ساتواں شمارہ مل گیا ہے۔نوازش! اس بار بھی شمارہ ہمیشہ کی طرح بھرپور ہے۔مضامین سرسری دیکھے ہیں،لیکن اس اچٹتی نظر میں بھی اچھے لگے۔انور سدید صاحب پر گوشہ شائع کرکے آپ نے جدید ادب کو مزید جدید کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔محترمہ ترنم ریاض کی شاعری کے مجموعہ کی خبر اور اس پر آپ کا تبصرہ مجھے اس کتاب کی تلاش پر اُکسا رہا ہے۔ جاوید حیدر جوئیہ،بورے والا
٭٭٭تازہ شمارہ ہر لحاظ سے مکمل اور مفصل ہے۔تمام شمارہ دلچسپی سے پڑھا۔جدید ادب کی کامیاب اشاعت پر بے حد مبارک باد! وقار مسعود خان۔چین
٭٭٭اس بار کا جدید ادب زرا دیر میں پہنچا مگر اس دوران کئی ایک مضامین ، افسانے ، نظمیں اور غزلیں انٹر نیٹ پر ہی پڑھنے کو مل گئی ۔ حسب حال ایک خوبصورت ما ہیہ ٹا ئٹل کی رونق بڑھا رہا تھا :
مہکا ر ہے کلیوں کی ؍جیسے دعا کوئی؍دھرتی پہ ہو ولیوں کی
یقیناٌ ولیوں کی دعاؤ ں کے لیے کلیوں کی مہک سے خوبصورت کیا تشبہیہ ہوگی ؟ کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری دھرتی ا س خوبصورت ماہیے کی طرح ولیوں کی دعاؤں سے واقعی مہک اُٹھے ۔۔ڈاکٹر رشید امجد کا مضمون ـ ـ ـ’’ پاکستانی ادب کے نمایاں ر جحانات ــ ‘‘ پاکستان میں تخلیق ہونے والے مجموعی ادب کی بھرپور تاریخ سمیٹے ہوئے تھا ۔ ’’غالب کی شاعری کے عوامی رنگ ‘‘ محمد اظہر صا حب کا ایک مختلف اور پر لطف مضمون ثابت ہوا ۔نا ظم خلیلی سے واقفیت پہلی بار ڈاکٹر انیس صدیقی کے مضمون سے ہو ئی بالکل اسی طرح جیسے فرانز کا فکا کی کہانی ’’ بالکو نی پر ‘‘ لکھے گئے ڈاکٹر انور محمود کے فکر انگیز مضمون کے زریعے خود فرانز کا فکا کے بارے میں مجھے پہلی بار جانکاری ہوئی۔ مقالہ خصوصی ۔۔یہ ہماری زبان ہے ۔ میرے لیے ایک ثقیل مضمون ثابت ہوا ۔ڈاکٹر انور سدیدپر مرتب گوشہ اُن کی ادبی خدمات کا مختصر مگر بھرپور جائزہ محسوس ہوا ۔ نظموں ، غزلوں اور ماہیوں کے انتخاب میں ہمیشہ کی طرح ایک توازن تھا ۔ افسانے تو ہمیشہ سے میرے لیے کچھ نیا سیکھنے کا سبب بن جاتے ہیں ۔ سلطان جمیل نسیم اور ترنم ریاض کے افسانے بہت خوب تھے آپ کا افسانہ ’’ کہانیوں سے بھاگا ہوا کہانی کار‘‘ آپ کے ارد گرد بنی ہوئی مختلف کہانیوں کا ایک جال ہے جن سے سے ظاہر ہے آپ کبھی بھی بھاگ نہ پائے اور نتیجہ سامنے ہے ۔ اجمل اند کی کہانی کا ترجمہ یوں اچھا لگا کہ پڑھنے کے دوران قطعی تر جمہ محسوس نہیں ہوا۔ مجموعی اعتبار سے جدید ادب کا یہ شمارا بھی آپ کی ادبی کاوشوں کے سبب اعلی معیار کا ثابت ہوا ہے۔میری طرف سے دلی مبارکباد قبول فرمائیے۔ڈاکٹر بلند اقبال ۔ کینیڈا
٭٭٭جدید ادب کا شمارہ نمبر۷میں نے نہایت غور و دلچسپی سے پڑھا۔اطلاعاَ عرض ہے کہ اسی پرچے کے پہلے تین شمارے نمبر۲،۵اور ۶،جن میں سجاد ظہیرنمبر بھی شامل ہے،بھی میرے مطالعہ سے گزر چکے ہیں۔آپ اپنے پرچے کا ایک معیاری اسلوب متعین کرنے میں مزید کامیابیوں کی طرف گامزن ہیں۔جس کا اظہار متذکرہ بالا شماروں سے ہوتا ہے۔بالخصوص دنیائے ادب میں تخلیق،ادیب،مدیر اور پیش کش،یعنی جریدہ،ایک دوسرے سے لازم و ملزوم تو ہیں ہی،مگر اس کے ساتھ یہ خیال بھی آتا ہے کہ ان کے سوتے کہاں سے پھوٹتے ہیں،یعنی بعید از بعید ترین کیا ہے؟اسی موضوع کو غالبؔ نے کیا ہی خوبصورت انداز میں قلمبند کیا ہے
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
میں بیانِ گمان کے سر کش و آزاد گھوڑے کو کھینچ کر باندھنا چاہتا ہوں،مگر وہ خود ہی مجھ سے اپنا آپ چھڑا کر انجان سمتوں میں روپوش ہوجاتا ہے اور میں رویت سے لگا بندھا پھر آپ کے جریدے کے حالیہ شمارے کی طرف آتا ہوں۔واضح رہے کہ آپ کا پرچہ بے شمار معاملات میں روایت شکن بھی ہے،ورنہ یوں ہی تو اس کا نام’جدید ادب‘
نہیں ہے۔اسم با مسمٰی! موجودہ شمارے میں صبا اکبر آبادی کے کلام سے موصوف کی قادرالکلامی کے ساتھ ساتھ ان کی فکر انگیزی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ڈاکٹر رشید امجد نے اپنے مضمون میں پاکستانی ادب کے نمایاں رجحانات بیان کرتے ہوئے گویا کوزے میں دریا بند کر دیا ہے۔ایسے بے کنار موضوع کو مختصراَ صفحات میں سمیٹنا کہ حقِ حق ادا ہو جائے قابلِ تعریف ہے۔حصہ مضامین میں ہی ایک اور مضمون کافکا کی ایک کہانی’’بالکونی پر‘‘پر ہے جو’’جرمن ادیب فرانز کافکا۔۔۔‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔یہ درست ہے کہ کافکا نے یہ کہانی اور اپنی بیش از بیش تخلیقات جرمن زبان میں لکھی تھیں،لیکن اسے جرمن ادیب کہنا مناسب نہیں ہے۔اگر کوئی شخص پاکستان میں رہتے ہوئے،جبکہ اس کی پیدائش و تدفین بھی وہیں ہوئی ہو جیسا کہ فرانز کافکا کے معاملہ میں چیکوسلاویہ کے حوالے سے ہوا،انگریزی زبان میں لکھے تو ہم اسے ایک انگریز ادیب نہیں کہیں گے،ہاں اس میں اتنی رعائت ضرور ہے کہ ہم اسے انگریزی زبان کا ادیب کہہ سکتے ہیں! بہر کیف یہ مضمون بھی،پرچے کے زیادہ تر مشمولات کی طرح اچھا ہے۔شاید آپ نہ جانتے ہوں کہ فرانز کافکا میرے پسندیدہ ادیبوں میں سے ایک ہے اور میں نے ’’اسفارِ شب و روز‘‘کے پہلے سفر نامے’’راہنما راہیں‘‘میں اس کے متعلق قریباَ دس صفحے لکھے ہیں۔
آپ سال میں دو مرتبہ اپنے پرچے کا دیدار کرواتے ہیں۔اگر ممکن ہو تو اس ششماہی کی ضخامت میں اضافہ فرمادیں۔اتنی عمدہ تحریریں پلک جھپکتے ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ فاروق خالد۔ایمسٹر ڈیم ،ہالینڈ
٭٭٭’’ جدیدادب‘‘سنوارنے میں یقیناَ آپ کی محنت اور وقت دونوں صرف ہوتے ہیں مگر اردو ادب پڑھنے والوں کے لیے اچھا ادب پڑھنے کو مل جاتا ہے۔میں نے آپ کو دو مضمون ای میل کیے تھے ایک فاروق خالد کے ناول ’’سیاہ آئینے ‘‘ کے بارے میں تھا اور دوسرا محمد عاصم بٹ کے افسانوں ’’اشتہار آدمی اور دوسری کہانیاں‘‘ کے کرداروں کا مطالعہ تھا۔ آپ نے شاید کہا تھا کہ آپ پہلے ’’سیاہ آئینے ‘‘ والا مضمون آئندہ شمارے کا حصہ بنا لیں گے ۔میرا خیال ہے کہ عاصم بٹ کے افسانوں والا مضمون اس بارشامل کرلیں کیونکہ ’’سیاہ آئینے‘‘ والا مضمون میں دوبارہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ فاروق خالد کی بدقسمتی یہ ہے کہ اتنے اچھے ناول پر اردو پڑھنے لکھنے والوں میں کوئی کام نہیں ہوا۔میری خواہش ہوگی میرا مضمون شاید طویل تو ہوگا مگرآپ مکمل شامل کرلیں ۔عاصم بٹ نئے افسانہ نگاروں میں منفرد افسانہ نگار ہے۔ اس نے کافکا کی کہانیوں کے تراجم بھی کیے ہیں ۔ اس کا ناول ’’دائرہ‘‘ کچھ عرصہ قبل شائع ہوا تھا۔اب ایک اور ناول زیر طبع ہے۔ کامران کاظمی (اسلام آباد)
٭٭٭آج صبح صبح آپ کے جدید ادب کا شمارہ ۶اور ۷ملا۔بے ہوش ہونے لگا تو اپنے دکھ یاد آگئے۔کیا کچھ برداشت کرکے آپ ادب کا چمن لہلہا رہے ہیں۔بڑی ہمت ہے اور زر پھونک کر تماشا دیکھنے کا حوصلہ ہے۔اللہ مزید توفیق دے۔پھر یاد آیا آپ سے وعدہ کیا تھا کہ ملنے کی اطلاع دوں گا۔گھنٹہ بھر آپ کا فون نمبر تلاش کیا۔نہ فون نمبر ملا نہ ای میل کا پتہ۔اب یہکارڈ لکھ رہا ہوں۔آپ کی محنت کی داد دوں گا۔آج کل اس ناچیز کی اچھی صحت کے باوجود بعض کمزوریوں کا حملہ ہے۔نظر کمزور،یادداشت کمزور وغیرہ۔اب دھیرے دھیرے پڑھوں گا (مرعوبیت بھی تو ختم ہو)بہت بہت شکریہ۔آپ کا ہمارا تعارف چند برس پہلے ہوا تھا اس دوران آپ نے ترقی کرتے کرتے آسمان کو چھو لیا ہے ماشاء اللہ!خدا مزید ترقیاں،کامیابیاں دے۔آمین ۔
مقصود الہٰی شیخ۔بریڈ فورڈ۔ا نگلینڈ
٭٭٭www.rachelle.co.nrکے گیسٹ کنٹری بیوشن سیکشن میں آپ کا نام دیکھ کر خوشی ہوئی۔اس میں آپ کے حوالے سے کافی معلومات دی گئی ہیں۔جدید ادب کے دونوں شمارے پڑھ لئے ہیں،خوشگوار حیرت ہوئی کہ اردو دنیا سے اتنی دور یہ چمن آپ نے کیسے کھلایا ہوا ہے۔شمارہ ۷میں آپ کا اُٹھا یا ہوا یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ کیا مغربی ممالک میں اردو کے حقیقی ادیب اور شاعر سامنے آرہے ہیں یا نہیں؟اور کیا نئی نسل اردو پڑھ سکتی ہے؟
اس حوالے سے مجھے صورتحال کافی مایوس کن نظر آتی ہے۔آج پاکستان میں بھی بچوں کو بقا کے لئے انگریزی جاننا ضروری ہے اور بیشتر انگلش میڈیم اسکولوں کے بچے بہت ہی واجبی سی اردو جانتے ہیں۔میں خود اپنے بچوں پر خاص توجہ دیتا ہوں،پھر بھی میرے بچوں کے لئے اردو زیادہ مشکل ہے۔ARYمیں نیوز ریڈرز کی اردو اتنی خراب ہے کہ ہر لفظ کا تلفظ انہیں بتانا پڑتا ہے۔جدید ادب کا سجاد ظہیر نمبر بہت اچھی کوشش ہے۔اس میں مجنوں گورکھپوری،
اور خواجہ احمد عباس کے نایاب مضامین بہت پسند آئے۔جن سے بُوئے دوست محسوس ہوتی ہے۔سلطان جمیل نسیم کی تحریر بھی عمدہ ہے۔’’دُلاری‘‘افسانے میں ترقی پسند تحریک کامخصوص رنگ جھلکتا ہے۔
جدید ادب میں مجھے خاص طور پر ماہیے نے متاثر کیا۔ ماہیے میں شاید اپنی مٹی کی خوشبو ہے،شمارہ ۷میں سنجئے گوڑ بولے کے ماہیوں نے دل موہ لیا۔ٹائٹل کا ماہیا بھی دل پذیر ہے۔صبا اکبر آبادی میرے پسندیدہ شاعر ہیں،ان کی غزلیں اور محمد علی صدیقی کا مضمون عمدہ ہے۔
سجاد ظہیر نمبر میں آپ نے اداریے میں اپنے موقف کی اچھی وضاحت کی ہے۔لیکن پرویز مشرف کی روشن خیالی کو میں صرف ایک ڈرامہ سمجھتا ہوں۔ان کی روشن خیالی محض امریکہ کی خوشنودی اور اپنے اقتدار تک محدود ہے۔اسلام کے نام پر بنائے گئے کئی غلط قوانین کو ہٹانے کے ارادہ کے بعد وہ ہر بار یو ٹرن لے لیتے ہیں۔کیونکہ نام نہاد علماء ان کے اقتدار کے استحکام کی بنیاد ہیں،چنانچہ وہ چاہے جتنا روشن خیالی کا ڈھنڈورہ پیٹیں،مولویوں کے خلافِ منشا نہیں جائیں گے وگرنہ اپنے اقتدار کے لئے انہیں جہاں کوئی سخت فیصلہ کرنا ہو آسانی سے کر لیتے ہیں۔خیر یہ تو پاکستان کا المیہ ہے کہ ہمیشہ ایسے آمر اس کا نصیب ہوتے ہیں جو خود کو ناگزیر سمجھتے ہیں اور جن کے ذریعے کبھی ملک ٹوٹ جاتا ہے تو کبھی ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر ورثے میں چھوڑ جاتے ہیں۔نعیم الرحمن۔(ARYچینل)کراچی
٭٭٭مغرب میں رہ کر اتنے اعلیٰ معیار کا ادبی رسالہ باقاعدگی سے نکالنا جوئے شِیر لانے سے کم نہیں۔ہر شمارہ تازہ بتازہ معیاری تخلیقات سے متعارف کراتا ہے۔شمارہ نمبر ۷میں ڈاکٹر رشید امجد کا مضمون’’پاکستانی ادب کے نمایاں رجحانات‘‘عمدہ اور معلوماتی ہے۔ادب کی خدمت جدید ادب جیسے ہی رسائل کر رہے ہیں۔آپ کی ان تھک محنت اور لگن قابلِ داد ہے۔اللہ ہمیشہ آپ کی مدد کرے۔ پروین شیر(کینڈا)
٭٭٭آ پ کی سابقہ نوازشات کی طرح اب کی بار بھی جدید ادب کا ساتواں شمارہ کتابی شکل میں ملا۔یہ انٹر نیٹ پر پڑھنے کی نسبت لیٹ کر کتابی صورت میں پڑھنے سے اچھا لگتا ہے۔آپ کی سالہا سال کی ادب کے ساتھ وابستگی میرے لئے ایک خوشگوار حیرت ہے۔اور اس نتیجے میں آپ نے اپنی تخلیقات کے ساتھ جدید ادب کا جو معیار قائم کیا ہے وہ قابلِ قدر ہے۔موجودہ شمارہ بھی سابقہ شماروں کی طرح اپنی اچھی صورت کے ساتھ مندرجات کے حوالے سے بھی ادب کے اعلیٰ میعار کا نمائندہ ہے۔جس کے لئے آپ مبارک کے مستحق ہیں۔
پاکستانی ادب کے نمایاں رحجاناتــ ڈاکٹر رشید امجد کا اچھا مضمون ہے جو ان کے گہرے مطالعے اورتجزیے کی عکاسی کرتا ہے۔لیکن ان کے نزدیک پاکستانی ادب سے مراد زیادہ تر اردو ادب ہے۔کیونکہ انہوں نے پاکستان کی دوسری زبانوں کے ادب کو سوائے چند سطور میں نپٹا دینے کے اور کوئی بات نہیں کی۔
پاکستان کی دوسری زبانوں کے ادب میں بھی توانائی موجود ہے۔ان زبانوں میں سندھی ادب کافی آگے ہے جب کہ پشتو ادب ایک نئی دنیا سے آشنا ہو رہا ہے ۔غیر ملکی قبضے کے خلاف اتنی بڑی جدوجہد پشتو ادب کو زندگی کے نئے دھاروں سے جوڑ رہی ہے خود اس شمارے میں شامل افسانہ بریکنگ نیوز اردو ادب کے کسی اچھے افسانے سے کم نہیں۔سرائیکی ادب بھی آ ج نئی اٹھان کے ساتھ ہمارے سامنے ہے جس کا جائزہ لینا مناسب تھا۔پاکستان کی ان چھوٹی قومیتوں کے ادب کا نمایاں رجحان جبر کے خلاف مزاحمت اور دھرتی سے جڑت ہے جو اردو ادب میں اس انداز میں موجود نہیں(اگرچہ ماہیے نے ایک حوالے سے کسی حد تک اس کمی کو پورا کیا ہے)۔
کافکا کی کہانی کا اسلوبی اور فکری تجزیہ کس حد تک درست ہے۔پتہ نہیں کیونکہ کافکا ایک مخصوص حلقے کا پسندیدہ لکھاری ہے اور اس حلقے میں بھی اس کی کہانیوں کی تفہیم میں اکثر اوقات اختلاف رہتا ہے۔میں اس کی اتنی بڑی عالمی شہرت کی وجہ سے تبصرے سے ڈر رہا ہوں۔
یہ ہماری زبان ہے۔۔۔۔۔جناب پروفیسر شفیق احمد اور پروفیسر زوار حسین کی مشترکہ کوشش کا نتیجہ ہے۔یہ ایک علمی اور لسانی کاوش ہے۔بلا شبہ ان کا یہ خیال کہ زبانوں کے رشتے اور اصل کے بارے میں اسماء کی بجائے افعال کو بنیادی حیثیت دینی چاہیئے ایک بڑی اہم بات ہے۔لیکن اسماء کے حوالے سے زبانوں کے رشتے تلاش کرنے کے بارے میں اکثر ماہرین لسانیات متفق ہیں۔کیونکہ جب انسان نے بولنا شروع کیا تو اسماء ہی سے اپنا کام چلایا۔مثال کے طور پر وہ صرف شیر کہتا تو اس کا مطلب ہوتا شیر جھاڑی میں چھپا ہے یا شیر آ رہا ہے یا شیر سے ڈر لگتا ہے وغیرہ۔انسان نے زبان کا آغاز اس طرح کیا جس طرح بچہ کرتا ہے اور بچہ سب سے پہلے اسماء ادا کرتا ہے۔اور زیادہ تر گھر کے افراد کے رشتوں سے بولنا سیکھتا ہے۔اس لئے عام طور پر اگر رشتوں گھر کے برتنوں آبادیوں کے ناموں میں یکسانیت ہو تو زبانوں کے درمیان بھی ایک رشتہ ہوتا ہے۔اس مضمون میں جن افعال کے مشترک ہونے کا ذکر کیا گیا ہے آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ ان زبانوں میں اسماء بھی مشترک ہیں۔اسکے برخلاف اگر مختلف زبانوں میں اسماء مختلف پایئں گے تو ان کے افعال بھی مختلف ہوں گے ۔یہ اختلافات افعال کے اختلاف کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اسماء کے اختلاف کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اس مضمون میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ اردو کس زبان یا لہجے کی ارتقائی شکل ہے یا اس کا ارتقاکس علاقے میں ہوا ہے۔ کا تعین کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔یہ کہنا کہ اردو جس جس علاقے میں گئی اپنامختلف روپ چھوڑتی گئی۔یعنی دکن میں دکنی پنجاب میں پنجابی سندھ میں سندھی مہاراشٹر میں مہاراشٹری اور دہلی میں جا کر جوان ہوئی تو یہ کافی نہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آخر کہاں سے چلی اس کی ابتدائی شکل کونسی تھی جس سے اس نے ارتقا حاصل کیا۔کیونکہ ہمیشہ ہر زبان کی کوئی نہ کوئی ابتدائی شکل ہوتی ہے جس سے اس کا ارتقا ہوتا ہے۔تاریخی لسانیات میں عام طور پر اس کو بنیاد بنا کر کام کیا جاتا ہے۔یہ بات درست ہے کہ بہت سے لوگوں نے محبت میں اردو کو اپنی زبان کی ارتقائی شکل قرار دیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو نے سرحد سے دکن تک کے کسی درمیانی علاقے میں سے ایک میں ارتقا پایا ہے۔اصل میں تمام مغربی ماہرین لسانیات اور پروفیسر خلیل صدیقی اس بات پر متفق ہیں کہ راجہ کنشک(تخت نشینی 120ء)جس کا دارالخلافہ پشاور تھا کے عہد میں ایک زبان جس کو وہ شمال مغربی پراکرت یا لہندا کی کوئی شکل قرار دیتے ہیں پوری سلطنت میں LINGUA FRANCA کی شکل اختیار کر چکی تھی اور بعد میں اسی زبان نے مختلف علاقائی اور دیگر اثرات(خصوصی طور پر عربی اور فارسی وغیرہ)کے تحت ہندکو ،سندھی ،مارواڑی، میواتی ،گجراتی گوجری اور مہاراشٹری وغیرہ کی شکلیں اختیار کیں۔
ابھی تک محمود شیرانی کی کتاب پنجاب میں اردو کا جواب موجود نہیں انھوں نے پنجاب میں اردو کے ارتقا کی جو مثالیں دیں ہیں وہ سرائیکی شاعر عبدالحکیم اچوی سے لیں ہیں اور اس طور ثابت ہوتا ہے کہ اردو نے بھی لہندا ( قدیم سرا ئیکی) سے ارتقا پایا ہے ۔یہ بات دکنی میں سرائیکی کے الفاظ کی اکثریت کے حوالے سے اہم ہو جاتی ہے جبکہ گریرسن کی ڈیرہ غازیخان کی ہندکی اور ہندکو کے رشتوں کے ذریعے اور نمایاں ہے۔اس طرح سندھی اور سرائیکی کے رشتے کی مثال بھی دی جاسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کسی نے ہندکو کو اورکسی نے مہاراشٹری کو اردو کی ماں کہا۔جب کہ اصل صورت حال کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا۔
افسانوں میں بریکنگ نیوز اور اندھا فرشتہ پسند آئے۔جبکہ آپ کا افسانہ حاصل مطالعہ ہے۔جرمنی سے پاکستان تک کی بہت سی کہانیوں کو ایک کہانی میں پڑھ لیا ہے ۔فنی رو سے بھی یہ اعلیٰ معیار کا افسانہ ہے۔وزیر آغا کی نظمیں اچھی ہیں ۔جب کہ گوشہ انور سدید میں اکبر حمیدی کا مضمون دلچسپ ہے۔اور انور سدید کا اپنا مضمون بھی منٹو کے حوالے سے احمد ندیم قاسمی کی شخصیت کے کئی پہلووئں کو اچھے طریقے سے اجاگر کرتاہے۔ تفصیلی مطالعے میں تنکے کا باطن کے بارے میں ناصر عباس نیئر کامضمون گہرے فلسفیانہ تجزیے پر مبنی ہے۔اور پروفیسر نذر خلیق کا جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے بارے میں کتاب کے ساتھ جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کو سمجھنے میں بھی مدد کرتا ہے۔ باقی تخلیقات پر بھی لکھنے کو جی چاہ رہا ہے مگر آپ کے پاس اتنی جگہ کہاں ہو گی۔اسلم رسول پوری۔جام پور
٭٭٭جدید ادب کے لیٹیسٹ دونوں شمارے مجھے خانپور سے مل گئے تھے۔میں نے انہیں بڑی دلچسپی اور شوق سے پڑھاہے۔آپ اپنے رسالے کے ذریعے نہایت خوش اسلوبی سے صاف ستھرا ہمعصر ادب پیش کر رہے ہیں۔کسی زبان کے ادب کے معیار میں ادبی رسائل کا بہت حصہ رہتا ہے،یہ کام آپ بہت عمدگی سے انجام دے رہے ہیں۔چند روز پیشتر آپ کی کلیات کتاب سے آپ کے خاکوں اور یادوں کا مطالعہ کر رہا تھا۔انہیں پڑھ کر آپ کے خاندان کے مختلف افراد اور دوستوں سے گہری شناسائی کا احساس ہونے لگا،مانو میں بھی آپ ہی کے خاندان کے ساتھ ساری عمر جی لیا ہوں۔سبھی باتوں کو جوں کا توں بیان کر دینے سے اُن میں جان پڑ گئی ہے۔یہ سلسلہ جاری رکھیے۔ جوگندر پال(دہلی)
٭٭٭جدید ادب کانیا شمارہ ملا اور ہلکے نیلے رنگ کا ٹائٹل کوردیکھ کرہی طبیعت خوش ہو گئی۔نیلے رنگ کی طرح اندر کا مواد بھی خوش کن پایا۔ڈاکٹر انور محمودکا کافکا کی کہانی پر اور ڈاکٹر محمد علی صدیقی کاصبا اکبر آبادی پر مضمون بہت اچھا ہے۔مقالۂ خصوصی’’یہ ہماری زبان ہے‘‘ معلومات کا خزانہ تو ہے ہی،فکر انگیز بھی ہے۔افسانے کا حصہ اچھا ہے ۔اس کے ذریعے سلطان جمیل نسیم صاحب سے ملاقات ہو گئی،ورنہ ستارے بار بار رستہ روک لیتے ہیں ۔ ’’کہانیوں سے بھاگا ہوا کہانی کار‘‘ تو ہم سب ہی ہیں۔شاید یہ بھی اپنی ہی کہانی ہے۔ڈاکٹر بلند اقبال(اندھا فرشتہ) کی سوچ کے زاویے بہت منفرد ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا وطن میں رہتے ہوئے بھی ہم بے وطنوں کی ترجمان نظم لکھ کر حیران کر دیتے ہیں۔غزلوں میں بعض اشعار بہت اچھے ہیں،خصوصاَ احتجاجی لہجے کے اشعار۔صبا صاحب کا کلام اور ان پہ جو کچھ اس شمارے میں ملا،اس کے لئے آپ کا شکریہ! فیصل عظیم۔کینیڈا
٭٭٭تازہ پرچے کی ترسیل کے لیے شکریہ۔خیامؔ کی رباعیوں کا منظوم ترجمہ مجھ جیسے،فارسی نہ جاننے والے ،ضرور پسند کریں گے۔ڈاکٹر رشید امجد نے بڑی تفصیل سے پاکستانی ادب اور اردو ادب کی معنویت اور تاریخ پر بات کی ہے۔شاعری میں،آج کے سیاسی اور معاشرتی رویے حوالہ بنتے نظر آتے ہیں۔
زبانیں،عالمی سطح پہ اپنی پہچان کے حوالے سے،اپنے بولنے والوں کی محبت اور عظمت کا عکس ہوتی ہیں۔آپ کا پرچہ اْردو زبان کی آبیاری میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ قاضی اعجاز محورؔ۔گوجرانوالہ
٭٭٭آج آپ کا مرسلہ جدید ادب موصول ہوا۔میری لائبریری میں گرانقدر اضافہ ہوگیا۔ڈاکٹر شفیق احمد کا مضمون عمدہ ہے اور یہ بات درست ہے کہ اس موضوع پر مستقل تحقیق کر کے کتاب لانی چاہئے۔
سہیل احمد صدیقی۔کراچی
نوٹ:سجاد ظہیر نمبر شمارہ:۶پر احمد ہمیش کا ۲۶؍ جون ۲۰۰۶ء کا تحریر کردہ خط تاخیر سے ملا تھا۔اس لئے اسے شمارہ ۸میں شامل کیا جا رہا ہے۔فیض صاحب کے بارے میں ان کی رائے سے مجھے اختلاف ہے۔تاہم نثری نظم کی اردو میں ابتدا کامعاملہ اگرتحقیقی زاویے سے کسی حتمی نتیجہ تک پہنچایا جا سکے تو اچھی بات ہو گی۔نثری نظم کی اردو میں ابتدا کے مسئلہ سے دلچسپی رکھنے والے احباب اپنے اپنے دستیاب حقائق پیش کر سکتے ہیں۔(حیدر قریشی)
٭٭٭آپ نے سجاد ظہیر نمبر خوب نکالا۔اس نمبر میں شامل’’فراق سے انٹرویو‘‘ پروفیسر مجنوں گورکھپوری کے مضمون ’’بہ مرگ من یاد آرا‘‘ اور پروفیسر نذر خلیق کے مضمون ’’افکا ر کے سجاد ظہیر نمبر پر ایک نظر‘‘سے تو مذکورہ نمبر بڑی حد تک معتبر قرار دیا جا سکتا ہے۔آپ کے اداریہ ’’گفتگو‘‘ سے بھی کچھ تلخ حقائق نظر میں آتے ہیں۔مگر جو مواد سجاد ظہیر کو ترقی پسندتحریک کی چوٹی پر بٹھا کے انہیں مسلط کرنے کے متعلق ہے،وہ کم از کم میرے موقف پر پورا نہیں آج تک بہت سے لا علم لوگوں کو ایک حقیقت ہضم نہیں ہوئی کہ اردو نثری نظم کا آ غاز احمد ہمیش نے کیا۔(۱۹۶۰ء تا۱۹۶۳ء تاریخی ریکارڈ کے مطابق)۔جبکہ سجاد ظہیر نے اپنے غیر شعری مجموعہ’’پگھلا نیلم‘‘اشاعت ۱۹۶۴ء میں محض PROSAICسطریں جمع کر لیں اور ایک ہی ہلے میں فیض صاحب سے ’نثری نظم‘ کی سند بھی لے لی۔اس بد دیانتی کا کیا جواب دیا جائے۔سوائے اس کے کہ فیض صاحب کی شہرت کے بازار میں بہت کچھ سڑاگلا نظر آتا ہے۔ٹائپ کے مارے محبوب سے چند سطروں تک بات کرتے کرتے ایک دَم ’’مزدور کا گوشت‘‘بیچنے لگتے ہیں۔بالکل اسی طرح سجاد ظہیر نے اپنی غیر شعری نظم’’آج رات‘‘میں سطحی رومانوی تاثیر چند سطروں تک دے کے ہندی اردو پنجابی کب دودھ میں شکر ہو جائیں گی۔اور اس قبیل کی لگ بھگ ۳۹سطریں جمع کر دیں۔اس شہرت کے بازار میں سارا مال بس ایسا ہی ہے کہ سر سری دیکھ کے گزر جایا جائے۔خدا کی پناہ گھِن آتی ہے۔ سجاد ظہیر کے یہاں تو شاعری کا گزر ہی نہیں ہوا۔ہاں انہوں نے اپنے ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘میں بہت اچھی تو نہیں ،اچھی نثر کا استعمال کیا ہے۔ احمد ہمیش۔کراچی
٭٭٭جناب حیدر قریشی نے جرمنی سے ’’جدیدادب‘‘ کا ساتواں شمارہ شائع کر دیا ہے، جس کی ترتیب و تدوین کے لئے پاکستان سے ان کی معاونت پروفیسر نذر خلیق نے کی ہے۔ اس پرچے کی مجلس مشاورت میں ہندو ستا ن سے جوگندر پال اور شاہد ماہلی اور پاکستان سے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اور ڈاکٹر شفیق احمد شامل ہیں۔حیدر قریشی صاحب کا تعلق ادیبوں کے اس طبقے سے ہے جو بیرون ملک (جرمنی)جانے سے پہلے اردو ادب میں اپنی شناخت مکمل کر چکے تھے اور اس دور کے ادیبوں کی صف میں ان کا مقام معین ہو چکا تھا،ان کی اس خوبی کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ انہوں نے خان پور جیسے دور افتادہ مقام سے ادب کے فروغ کے لئے ماہنامہ’’جدید ادب‘‘جاری کیا اور نہ صرف اردو ادب کی بے لوث خدمت کی بلکہ خان پورکو بھی اردو کے نقشے پر ایک اہم مقام کا درجہ دے دیا۔ پھر وہ جرمنی گئے تواس ملک میں بھی اردو کا پرچم لہرانے کے لئے ’’جدیدادب‘‘جاری کر دیاجس کی اپنی ویب سائٹ بھی ہے اور جو انٹر نیٹ پر بھی پڑھا جا سکتاہے۔بیرونی دنیا میں اردو کے فروغ کے لئے مدیر ’’جدید ادب‘‘ (حیدر قریشی)کی کاوشوں کے علی الرغم مجھے یہاں شمارہ ہفتم کے اداریے کا ذکر کرنا ہے جس میں ’’اردو زبان اور ادب کی بین الاقوامیت‘‘کو موضوع بنایا گیا ہے۔اس ضمن میں اہم سوالات یہ اٹھائے گئے ہیں کہ:
’’کیا مغربی ممالک میں مقیم اور اردو سے محبت کرنے والوں کی نسلیں اردو سے اس حد تک منسلک ہیں کہ اردو لکھنا اور پڑھنا جانتی ہیں؟‘‘
’’کیا مغربی ممالک میں نئی نسل میں سے کوئی شاعر اور ادیب سامنے آیا ہے؟‘‘
زمینی حقیقت کے مطابق ان دونوں سوالات کا جواب نفی میں ہے۔اس کی وجہ بھی حیدر قریشی صاحب نے بیان کر دی ہے کہ ’’پاکستان اور انڈیا سے مغربی ممالک میں آبسنے والے شاعر اور ادیب ہی یہاں ادبی سرگرمیوں کا سبب ہیں۔‘‘اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ’’ان میں اضافہ ان’’غیر شاعروں‘‘کی تعداد سے ہو رہا ہے جو شاعر نہ ہو کر بھی نقد ادائیگی کر کے لکھے لکھائے اور چھپے چھپائے شعری مجموعے حاصل کر کے شاعر بن رہے ہیں۔‘‘اس اداریے میں’’ادبی بدعنوانی‘‘ اور’’ علمی بد عملی‘‘ کا وہ زاویہ پیش کیا گیا ہے جس کو پاکستان اور ہندوستان کے شعراء، ادباء ،مدیرانِ جرائد اور ناشرین منفعت زر کے لیے فروغ دے رہے ہیں۔اردو زبان سے بیرونی دنیا میں پلنے والی نئی نسل کی ناشناسائی کی دردناک تفصیل ڈاکٹر ستیہ پال آنند’’ کتاب نما‘‘ دہلی کے ایک ’’مہمان اداریے‘‘میں پیش کر چکے ہیں۔ ا نجمن ترقی اردو (ہند)کے رسالہ’’اردو ادب‘‘میں محترمہ صہبا علی لکھنوی نے اردو زبان کے متعلق ان تجربات کا آئینہ پیش کیا، جن سے وہ مغربی ملکوں خصوصاً سوئٹزرلینڈ اور امریکہ و کینیڈا وغیرہ میں گزر چکی تھیں۔ انہوں نے بیان کیا:’’میری ایک سہیلی جن کے بیٹے نے ہمیشہ اردو بولنے سے انکار کیا تھا، اچانک پچیس برس کی عمرمیں اردو لکھنے میرے پاس آئے، میں نے ان سے پوچھا اچانک انہیں یہ شوق کیسے پید اہوا؟ تو انہوں نے انگریزی میں کہا’’میری ماں مجھے اپنے ساتھ کچھ محفلوں میں پکڑ کر لے گئیں کہ چل کر لڑکیاں دیکھو اور کوئی پسند آئے تو بتاؤ …… ورنہ کوئی میم پکڑ لے گی۔ ان جگہوں پر کوئی نہ کوئی صاحب یا صاحبہ گا کر کچھ سناتے تھے اور باقی لوگ کہتے تھے “Vow, Vow, Vow, Wow” (یعنی واہ واہ ……پطرس کے’’ کتے‘‘ یاد آگئے نا!)تو میں نے سوچا:”This guy must by saying something terrific“
(یہ حضرت ضرور کوئی بہت عمدہ بات کہ رہے ہیں؟)میں اپنی ماں سے پوچھتا ہوں کہ وہ کیا بات کہہ رہے ہیں۔……تو وہ ڈانٹ کر جواب دیتی ہیں’’میں کیوں بتاؤں ، خود تو اردوسیکھی نہیں!‘‘
محترمہ صہبا علی لکھنوی نے ایک اور ذاتی واقعہ لکھا ہے کہ وہ لکھنو سے کچھ کپڑے اور حلوے لے گئیں تو میری بھانجی نے خوش ہو کر کہا:”Khala I love urdu clothes” (خالہ مجھے اردو کپڑے بہت پسند ہیں ) اور بھانجے نے کہا “Khala I love urdu food” (خالہ مجھے اردو کھانا پسند ہے)انہوں نے ان بچوں سے بات کی کہ آخر وہ لوگ اردو کیوں نہیں بولتے جبکہ وہ سمجھتے سب کچھ ہیں، اس پر ان بچوں نے اقرار کیا ’’جیسی اردو اماں، ابا اور آپ اور خالو بولتے ہیں و یسی ہم نہیں بول پاتے اور اپنے کو بیوقوف محسوس کرتے ہیں (We feel stupid) جب کہ انگریزی میں انہیں انعامات ملتے ہیں۔‘‘
ان دو واقعات سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اپنی زمین سے اکھڑے ہوئے ان پودوں کے لئے…… گھر کی فضا میں بھی اردو کی تربیت کے لئے مناسب زمین موجود نہیں اور وہ بچے جو غیر ملکی شہری بن چکے ہیں اور اس ملک کی زبان کے ساتھ ہی ان کا مستقبل وابستہ ہے، اردو سے بیگانہ ہوتے چلے جار ہے ہیں، چنانچہ ان ممالک میں ہی نہیں اردو کی موروثی بستیوں میں بھی اس زبان کا مستقبل مخدوش ہے جہاں انگریزی کو بالادستی حاصل ہے۔میری مراد ہندوستان اور پاکستان سے ہے جس میں اردو کی گرامر میں انگریزی بولی جار ہی ہے اور اردو کا قتل عام جاری ہے۔ حیدر قریشی نے یہ اداریہ بڑی دردمندی سے لکھا ہے۔اردو زبان کی بقا اورفروغ کے لیے اردو کی غیر ملکی بستیوں کے علاوہ ہندو پاک کے اردو مراکز میں بھی کم از کم بول چال کی زبان کو انگریزی الفاظ کے استعمال سے نجات دلانے اور زبان کو ’’مشرف بہ اردو‘‘کرنے کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ (کیا ڈاکٹر جمیل جالبی اس تحریک کے قافلہ سالار بن سکتے ہیں؟)
’’جدید ادب‘‘کے اداریے کا دوسرا نقطہ واقعی تشویش ناک ہے کہ نقد ادائیگی پر لکھے لکھائے اور چھپے چھپائے شعری مجموعے مل جاتے ہیں اور اس طرح ’’ناشاعروں‘‘کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ہندوستان کے ایک مصنف نے تو ’’ناشاعرات‘‘کی ادائیگی کا ’’عصمت سوز‘‘طریق بھی درج رجسٹر کر دیا۔بلا شبہ پاکستان اور انڈیا میں ان نا شاعروں اور نا شاعرات سے اپنے مفادات وابستہ رکھنے والی ’’شاعر گر‘‘ادبی شخصیات کے ’’مفاداتِ ہوس‘‘کا پورا ہونا اور’’شاعری‘‘کی خوب صورت اور دیدہ زیب کتابوں کا دھڑا دھڑ چھپنا ادب کا فروغ نہیں ہے لیکن جب تک انفرادی سطح پر شعر فروشوں کا ضمیر نہ جاگے ، اس معاشرتی نا سور کا علاج کس طرح ہو سکتاہے ؟چھپی ہوئی کتاب دیکھ کر کس طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شاعر اصلی ہے یا نقلی؟ ٭حیدر قریشی صاحب نے اس اداریے میں صرف شاعروں کا ذکر کیا ہے ۔ اب تو یہ وبا نثر میں بھی پھیل رہی ہے۔ ایم اے، ایم ، فل اور پی ایچ ڈی کے جعلی مقالات کا تذکرہ بھی عام ہے۔ ہمارے لاہور میں پچھلے دنوں ایک محقق کا ذکر ہوتا رہاجنہوں نے اپنی ایک شاگردہ کو ایک باب خود لکھ کر دیا اور پھر وہی باب اپنے نام سے ایک ممتاز ادبی پرچے میں چھپوا لیا۔ مدیر’’جدیدا دب‘‘کو چاہیے کہ وہ مصدقہ واقعات کے تذکرے میں ناموں کو اخفاء میں نہ رکھیں بلکہ انہیں معاشرے میں حسن مثنیٰ ندوی اورممتاز لیاقت کی طرح بے نقاب کریں۔ اپنے افسانے’’کہانیوں سے بھاگا ہوا کہانی کار‘‘میں انہوں نے جرمنی کے معاشرے کو آلودہ کرنے والے چند کرداروں کو بڑی جرات مندی سے موضوع بنایا ہے اور حقیقت نگاری کا عمدہ نقش قائم کیا ہے لیکن مجموعی تاثر ’’جگ بیتی‘‘کا پید انہیں ہوتا اور افسانہ افسانہ ہی رہتا ہے۔
مقالات کے حصے میں ڈاکٹر رشید امجد کا مقالہ’’پاکستانی ادب کے نمایاں رجحانات‘‘گزشتہ ساٹھ سال کا ایک عمدہ اور متوازن تنقیدی جائزہ ہے اور ایک ایسے وقت میں ایک بین الاقوامی پرچے میں شائع ہوا ہے جب پاکستانی ادب کی شناخت کا مسئلہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس کو کسی حد تک ’’حاصل کا افسوس‘‘بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔’’مارشل لاء کے اثرات آہستہ آہستہ سرایت کر کے معاشرے کی اندرونی پرت تک پہنچ گئے، خوف اور بے سمتی کی فضا نے داخلیت اور نئی مابعد الطبعیاتی فکر کو جنم دیا۔ دوسری شخصیت کی دریافت، باطنی شکست و ریخت، ایک شخصیت میں کئی شخصیتوں کی تلاش اور مجمع میں تنہائی کا احساس نمایاں موضوع بن گئے ۔‘‘(صفحہ۱۵)
جناب محمد اظہرنے ’’غالب کی شاعری کے عوامی رنگ‘‘زاویے دریافت کیے ہیں، اس مقالے کی نوعیت عوامی سمجھئے، دوسری طرف ڈاکٹر انور محمود نے کافکا کی کہانی ’’بالکونی پر‘‘کے اسلوبی اور فکری زاویوں کو اجاگر کیا ہے۔یہ مقالہ تجزیاتی نوعیت کا ہے اور نتیجہ یہ اخذ کیا گیا ہے کہ :
’’کافکا کے نزدیک اس دنیا میں انسان کا وجود ایک لمبی اور اندھیری سرنگ کے مانند ہے جس کا داخلی دروازہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو چکا ہے اور اس کا خارجی دروازہ ماورائے رسائی حد تک دور ہے جہاں سے آنے والی ایک ننھی سی جھلملاتی روشنی کی کرن اس کے وجود کا پتہ دیتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے صبا اکبر آبادی اور ڈاکٹر انیس صدیقی نے بھارت کی ریاست کرناٹک کے شاعر ناظم خلیلی کے ’’لٹے لٹائے قصر ادب ‘‘کی تعمیر نو کرنے کی کاوش کی ہے۔ ڈاکٹر گیان چند جین کی متنازعہ اور دل آزار کتاب ’’ایک بھاشا، دو لکھاوٹ، دو ادب ‘‘کے ہنگام میں پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد اور پروفیسر زوار حسین کا اردو زبان کے ماضی و حال اور تعمیر و تشکیل کے بارے میں مقالہ دلچسپی سے پڑھا جائے گا۔ تنقیدی حصے میں پروین طاہر کی شاعری کی کتا ب ’’تنکے کا باطن‘‘پر ناصر عباس نیر کا تبصرہ اور ناصر عباس نیر کی کتاب ’’جدیدیت اور ما بعد جدیدیت‘‘ پر نذر خلیق کا تجزیہ ان کتابوں کے نئے گوشے سامنے لاتا ہے۔ خصوصی مطالعے کا موضوع ’’انور سدید‘‘ ہے جس پر رائے دینے کے تمام حقوق آپ کے نام محفوظ ہیں، جناب اکبر حمیدی، اور شفیع ہمدم صاحب نے جو چراغ جلایا ہے اس میں ’’پابہ زمین‘‘قلم کا ر کو تلاش کرنا مشکل ہے۔غزل کے حصے میں ایک حیرت احمد ہمیش نے جگائی ہے جو ’’نثری نظم‘‘کے بانی ہونے کے دعوے دار ہیں ان کی غزل کے چند اشعار:
کس توقع پہ کیا اُٹھا رکھیے دل سلامت نہیں تو کیا رکھیے
بند ہو جائیں نہ کہیں آنکھیں خانۂ درد کو کھلا رکھیے
حسرتیں ہو چکیں تمام ہمیشؔ اب تو دنیا سے فاصلہ رکھیے
پاکستان میں ’’جدید ادب ‘‘ حاصل کرنے کا پتہ یہ ہے……پروفیسر نذر خلیق ۲۹۶ماڈل ٹاؤن بی‘ خان پور(۶۴۱۰۰)
ڈاکٹر انور سدید کا تبصرہ مطبوعہ ماہنامہ ’’الحمراء‘‘ لاہورستمبر ۲۰۰۶ء
٭ڈاکٹر صاحب! آپ کی حوصلہ افزائی کے لئے شکر گزارہوں۔میں اس سے پہلے چند جعلی شاعروں کے نام بھی ظاہر کر چکا ہوں اور بعض ایسے شاعروں کے وہ بے وزن شعری مجموعے بھی اوپن کرچکا ہوں جو وہ چھُپاتے پھر رہے تھے۔اس سلسلے میں مزید پیشقدمی کے لئے بھی تیار ہوں لیکن بہتر ہوگا کہ پاکستان سے بھی(اور انڈیا سے بھی) مزید دو تین اچھے ادبی رسائل کسی رو رعائت کے بغیر ایسا مواد بیک وقت چھاپنے کے لئے تیار ہوں تاکہ ایسے جعلی شاعروں اور ادیبوں کو پوری طرح بے نقاب کرکے ان کی اصلیت سنجیدہ ادبی اور علمی دنیا پر ظاہر کر دی جائے۔جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک ایک اور آسان طریقہ یہ ہے کہ باہر سے آنے والے سارے شاعروں اور شاعرات کے شعری مجموعوں میں سے کسی ایک غزل کے قافیہ ردیف کو تبدیل کرکے ایسے شاعروں اور شاعرات سے موقع پر صرف وزن میں تین چار شعر کہنے کے لئے کہا جائے۔جو لوگ پست مضمون سہی لیکن وزن میں شعر کہہ دیں انہیں شاعر مان لیا جائے۔لیکن جو لوگ وزن میں شعر نہ کہہ سکیں ان کی سرکاری اور غیر سرکاری ہر طرح کی پذیرائی بند کی جانی چاہئے۔افسوس کہ افتخار عارف جیسے باشعور ادبی ارباب اختیار بھی ان لوگوں کی پذیرائی کر رہے ہیں،کرا رہے ہیں جن کے بارے میں انہیں بخوبی معلوم ہونا چاہئے تھا کہ وہ بالکل شاعر اور شاعرہ نہیں ہیں۔
اردو جرمن لغت
خورشید علی،شازیہ یاسمین بلوچ اورٹوبیاس گیسلر کی مشترکہ کاوش
Urdu Deutsch Wörterbuch
Khurshid Ali Shazia Yasmin Baloch Tobias Gessler
VVB Laufersweiler Verlag Giessen, Germany.
eMail: [email protected] Tel.- 0641-5599888