قاضی سلیم(اورنگ آباد)
(قاضی سلیم مرحوم نے حمید سہروردی کی نظموں کے مجموعہ ’’شش جہت آگ‘‘ کے پیش لفظ کے طور پر یہ مضمون زیرِ عنوان’حمید سہروردی:ایک مہم جو شاعر‘ لکھا تھا۔یہ مضمون’ شش جہت آگ ‘ سے جدید ادب میں دیا جا رہا ہے۔)
یہ جان کر خوشی ہوئی کہ دکن کے ممتاز افسانہ نگار پروفیسر حمید سہروردی نے اپنے تخلیقی کارگاہ کوشاعری تک پھیلا دیا ہے۔ویسے آثار توپہلے ہی بتا رہے تھے جب ان کے تجریدی افسانوں میں کئی ایک ایسے مقام آنے لگے،اگر الگ سے پڑھیں جائیں تو نظم کی اکائی میں ڈھلتے نظر آئیں۔در اصل بیسویں صدی کے ابتدائی دہائیوں ہی سے یورپ کی جدیدیت پر آواں گارد تحریکات اثر انداز ہونے لگی تھیں۔وہ چاہے کیوبزم ہو،فیوچرازم ہویا باداداازم،باہمی اختلاف کے باوجود یہ بات مشترک ہے کہ آرٹ کی روایات موجودہ انسان کی حسیت اور سوچ کی تہذیب میں ناکام ہو چکی ہیں۔انسان میں جبلی خود غرضانہ بہیمیت عود کر آئی ہے،اس لیے آرٹ کی جمالیاتی بوطیقا کی بنیادیں ہی بدلنی ہوں گی۔یہ ایک طرح کی احتجاجی تحریکات تھیں جنہیں اعلیٰ اقدار کی پیہم شکست اور عقائد کی تشکیک نے جواز مہیا کر دیا تھا۔ان سے موسیقار، مصور، شاعر اور سارے فنکاراور انسانیت دوست متاثر ہوئے۔اس لیے فنونِ لطیفہ کی سرحدیں بھی ٹوٹ ٹوٹ کر ایک دوسرے سے ملنے اور استفادہ کرنے لگیں۔چنانچہ مصوری کا اثر امیج سازی پر پڑا،شاعری کا ارتکازی رویہ فکشن میں نظر آنے لگا۔اردو کے بعض جدید شاعر جن میں سے دو تین نام مجھے یاد آرہے ہیں افتخار جالب،انیس ناگی،احمد ہمیش وغیرہ جو جدیدیت کے انتہا پسند گروہمیں شامل تھے اور بے باکانہ تجربے کئے۔حمید سہروردی در اصل اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔
عموماََ اردو شاعری مناسبات لفظی و معنوی سے اپنی تہہ داریاں پاتی ہے اور یہی تہ داریاں ہماری فکر و احساس کو مہمیز کرتی ہیں۔حمید سہروردی نے کبھی مناسبات اور کبھی تضادات کو سرئیلسٹ انداز میں برتا ہے سیاہ کے پس منظر میں سفید سر۔۔کے متوازی۔۔زیادہ روشن نظر آتے ہیں۔یہی انداز انہیں دیگر جدید شاعروں سے مختلف بناتا ہے۔
وہ اسباب و علل کا ایک نیا طلسم باندھتے ہیں اس لیے حمید سہروردی کے استعاراتی نظام کو سمجھنے کے لیے ہمیں آزاد ذہن سے بار بار نظمیں پڑھنی پڑتی ہیں۔ابہام پیدا ہوجانے کا امکان اسی برتاؤ میں مضمر ہے۔شاعری میں ابہام کس قدر ہو؟یہ مسئلہ اضافی ہے جس کی خوبیاں اور کوتاہیاں دونوں اپنا استدلال رکھتی ہیں۔حمید سہروردی سمجھتے ہیں کہ چونکہ ہر انسان کے اندر تخلیقی جوہر بھی ودیعت کیا گیا ہے ہمارا کام صرف اتنا ہوگا کہ قاری کے اندر تخلیقی رَو کو ایک راہ پر لگا کر متحرک کریں۔ ہر پڑھنے والا حسبِ استطاعت نظم کا محور پالے گا۔کسی موجد سائنس داں کی طرح اپنی تخلیقی کٹھالی میں وہ مختلف عناصر تجربات کو ملا کر دل کی آنچ دیتے ہیں،اور اکثر نئی دریافت میں کامیاب ہوتے ہیں۔ممکن ہے آنے والوں کے لیے راستے ہموار ہو جائیں۔یقیناَ تجرباتی شاعری میں ناکامی کے امکانات بھی چھپے ہوتے ہیں۔ہو سکتا ہے تجربہ گاہ بھک سے اُڑ جائے مگر کون کہہ سکتا ہے کہ مستقبل میں کتنے کامیاب تجربے اردو شاعری کی روایات میں قبول کر لیے جائیں گے۔اس لیے اس مہم جوئی کی افادیت سے انکار ممکن نہیں،تاریخ شعروادب کے مسلسل ارتقائی بہاؤ کے لیے ایک طرف روایات کو زندہ رکھنے والے اور اس حدود میں گھرے شاعری میں اجتہاد کرنے والے ضروری ہیں تو دوسری طرف ایسے ساہسی شاعروں کی اہمیت کچھ کم نہیں جو نامعلوم آبِ حیات کی تلاش کے لیے بحر ظلمات میں بے خطر نکل پڑے ہیں۔شاعری کا ہر نیا موڑ انہیں کا رہینِ منت ہوگا۔
آخر میں ایک دو باتیں نظم کے الفاظ کی ترتیب اور ان کی لکھاوٹ کے بارے میں ضرور کہوں گا جسے دیکھ کر اس مجموعے کے پڑھنے والے ضرور چونکیں گے۔حمید سہروردی کی بعض نظمیں پورے صفحے پر تجریدی مصوری کا روپ دھارتی نظر آئیں گی،یہ شاعری پر پینٹنگ کا اثر ہے۔اپولونیر نے ایسے تجربے کئے تھے۔It is raining کے
مصرع کو پورے کا غذ پر ایسے انداز میں لکھا تھا کہ دیکھنے میں بارش کے قطرے ٹپکتے نظر آئیں۔سماعت کے ساتھ بصارت کی حس کو بیدار کرنے کی کوشش حمید سہروردی نے کامیابی سے انجام دی ہے۔آپ ان نظموں کو ڈوب کر پڑھئے،اگر آپ ان کے محور تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں تو شاعری کی دیگر خوبیوں کے ماسوا انکشاف کی لذت سے بھی آشنائی ملے گی۔میں اس امید پر حمید سہروردی کو خوش آمدید کہتا ہوں کہ شاعری کا یہ ہراول دستہ نئے امکانات،نئے آفاق کی نشاندہی کرنے والا،ادب کو زندہ اور رواں دواں رکھنے والا ہے۔
’’ یہ بارش کے قطرے ؍ تری یاد کا سلسلہ بن گئے
کڑکتی ہوئی بجلیاں زلزلے
تری یاد کی صورتوں میں
عذابوں کے دروازے وا کر گئے
ہوا اور پھر یہ
کہ ممیاں بنی تھیں وہ سب صورتیں‘‘
(حمید سہروردی کی نظم ممیاں بحوالہ شش جہت کی آگ ص۱۱۳)