تعارف:حیدر قریشی
روحیں چناب کی(ماہیے) ماہیا نگار:نسرین نقاش
صفحات:144 ناشر:ادبی دنیا پبلی کیشنز، شاستری نگر۔جے پور،راجستھان
سیدہ نسرین نقاش سری نگر کشمیر میں اردو صحافت کے لیے اہم خدمات انجام دے رہی ہیں۔ صحافت کے ساتھ انہوں نے شعرو ادب سے بھی اپنا تعلق قائم رکھا ہے۔ غزلوں کا مجموعہ چھپ چکا ہے اوران کے ادبی مضامین بھی چھپتے رہتے ہیں۔مشاعروں میں بھی ان کانام گونجتا رہتا ہے۔یوں نسرین نقاش بیک شعروادب اور صحافت کی خدمت کر رہی ہیں۔اردو زبان کی خدمت کر رہی ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے نسرین نقاش نے ماہیا نگاری کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ہندوستان میں جو لوگ اردو ماہیانگاری کی طرف راغب ہوئے ،اپنے اخلاص کے باعث پنجابی زبان سے اور پنجاب کے ثقافتی پس منظر سے واقف نہ ہوتے ہوئے بھی انہوں نے کئی عمدہ ماہیے تخلیق کیے۔ایسے ماہیانگاروں کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی میں نسرین نقاش کی ماہیا نگاری اس لحاظ سے کچھ ہٹ کر ہے کہ کشمیر کی سرزمین سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ماہیے کی لوک لَے از خود ان کی روح میں رچی ہوئی ہے۔چنانچہ انہیں ماہیے کو سمجھنے کے لیے کسی عروضی مہارت کی ضرورت پیش نہیں آئی اور وہ اپنی فطری روانی میں ہی اردو ماہیے کہتی چلی گئیں۔
نسرین نقاش کے ماہیوں میں ایک طرف نسائی محجوبیت ہے تو دوسری طرف والہانہ محبوبیت ہے۔ایک طرف کشمیر کا حسن ہے تو دوسری طرف اس حسن کو گہناتا ہوا بارودی دھواں ہے۔ بنتے ،ٹوٹے ہوئے انسانی رشتے۔دکھ،سکھ۔خوشیاں اور غم۔ملن اور جدائی۔کامیابیاں اور ناکامیاں۔ اس طرح کی متعدد متضاد کیفیات سے گھلتے ملتے ہوئے نسرین نقاش کے ماہیوں میں تخلیقی حسن پیدا ہو گیا ہے۔خوشی کی بات ہے کہ نسرین نقاش نے ماہیے سے اپنی داخلی وابستگی کی بنا پر اتنے ماہیے کہہ لیے ہیں کہ اب ان کے ماہیوں کا مجموعہ چھپ گیا ہے۔
میں دلی خوشی کے ساتھ نسرن نقاش کے ماہیوں کے مجموعہ کا استقبال کرتاہوں!(کتاب کے فلیپ پر درج رائے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو افسانہ ۱۹۸۰ء کے بعد مصنف: ڈاکٹرغضنفر اقبال
صفحات:226 قیمت: 300 روپے ناشر:کاغذ پبلشرز۔ سائبان، زبیرکالونی،رنگ روڈ۔گلبرگہ
ڈاکٹر غضنفر اقبال کا یہ پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جسے انہوں نے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔پروفیسر عتیق اللہ کے’ حرفِ عتیق ‘، ڈاکٹر اکرام باگ کے ’حرفِ اکرام‘اور خود غضنفر اقبال کے پیش نامہ کے علاوہ جوگندر پال کی رائے سے یہ کتاب مزین ہے۔اس میں ۱۹۸۰ء کے بعد کا ہندوستانی افسانہ موضوع بحث ہے۔پہلے باب میں اردو افسانے کے ارتقائی سفر کو خصوصی طور پر پندرہ افسانہ نگاروں کے تخلیقی کام کے تناظر میں دیکھا گیا ہے۔اگلے ابواب میں ۱۹۸۰ء کے بعد کے افسانے کو’موضوعات و مسائل‘،’ہیئت و تیکنیک‘،’کردار نگاری‘اور’زبان و بیان ‘کے عناوین کے تحت تفصیلی طور پر زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ آخری باب میں اپنے سارے کام کا خلاصہ’ماحصل‘ کے تحت پیش کیا ہے ترقی پسند افسانے اور جدید افسانے کے ادوار کے بعد ہندوستان کے افسانہ نگاروں کی نئی نسل کہاں کھڑی ہے اس کتاب سے اس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر غضنفر اقبال نے اپنے موضوع کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل چھونے والا منظر(ہائیک) ہائیکو نگار:وضاحت نسیم
صفحات: 120 قیمت: درج نہیں ناشر:کینوپس پبلی کیشنز۳۹۳سٹی ولاز،یونیورسٹی روڈ۔کراچی
وضاحت نسیم اردو کی اچھی شاعرہ ہیں۔زیرنظر مجموعہ ان کے ہائیکو پر مشتمل ہے۔مجموعہ میں دو طرح کے ہائیکو شامل کئے گئے ہیں۔طبع زاد اردو ہوئیکو اور جاپانی ہائیکو سے براہ راست ترجمہ۔یہاں اس براہِ راست ترجمہ کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ ہمارے بیشتر جاپانی ہائیکو کے ترجمہ نگاروں نے انگریزی میں ترجمہ شدہ ہائیکو کو پھر اردو میں ترجمہ کیا،یوں ترجمہ در ترجمہ کرنے کے باوجود انہوں نے حقیقت کا اظہار کرنے سے گریز کیا۔اور عام قارئین کے لیے جاپانی زبان کے ماہر بنے رہے۔وضاحت نسیم نے پورے تیقن کے ساتھ براہ راست تراجم کا دعویٰ کیا ہے جو اس لیے خوشکن بات ہے کہ ہمیں ترجمہ در ترجمہ سے نہیں گزرنا ہوگا۔پروفیسر ڈاکٹر ابوالخیر کشفی نے کتاب کے شروع میں’’اختصار میں ایجاز‘‘ کے عنوان سے وضاحت نسیم کی شاعری اور ہائیکو پر اظہار خیال کیا ہے۔’’روایت کے ساتھ جدیدیت‘‘عنوان کے تحت وضاحت نسیم نے ہائیکو کے حوالے سے کچھ وضاحتِ احوال کی ہے۔سہیل احمد
صدیقی، جو ہائیکو کے حوالے سے ایک مستند نام بن چکے ہیں، انہوں نے انگریزی میں ان کا تعارف کرایا ہے۔اردوہائیکو میں اس مجموعہ کو ایک خوشگوار اضافہ کہا جا سکتا ہے۔ کراچی سے ماہیے اور ہائیکو کے حوالے سے ایک محدودحلقہ کوئی سنجیدہ اور با معنی کاوش کرنے کی بجائے سطحی نام آوری کو ہی ادب کی معراج سمجھے ہوئے ہے،ایسے لوگوں کے بر عکس سہیل احمد صدیقی اور ان کے وضاحت نسیم جیسے سنجیدہ ادبی احباب کی کاوشیں قابلِ تعریف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترا آئینہ ہوں میں(غزلیں) شاعر:پروفیسرزُہَیر کنجاہی
صفحات: 176 قیمت:250 روپے ناشر:فرہادپبلی کیشنز،سعید مارکیٹ،کمال آباد۔۳راولپنڈی
پروفیسر زُہیر کنجاہی غزل اور ماہیا کے معروف شاعر ہیں۔’’ترا آئینہ ہوں میں‘‘ ان کی ایک حمدیہ،ایک دعائیہ اور ۷۸غزلیات کا مجموعہ ہے۔پروفیسر شریف کنجاہی نے اور ڈاکٹر احمد حسین احمد قلعداری نے شروع میں ان کی شاعری کے بارے میں جن تاثرات کا اظہار کیا ہے وہ بالکل مناسب ہیں۔بغیر کسی انتخاب کے اس مجموعہ کے چند اشعار پیش ہیں:
بٹ جائے کرچیوں میں نہ تیرا وجود بھی مجھ کو نہ توڑ دیکھ ترا آئینہ ہوں میں
اُترا تھا میرے دل میں جو مہمان کی طرح وہ بس گیا ہے روح میں ارمان کی طرح
بہاروں کو ترستا تھا جو ہر دَم بتا کچھ حال اس تنہا شجر کا
کتاب نہایت دیدہ زیب شائع کی گئی ہے۔اس کے لئے شاعر کے ساتھ،ان کے ناشر عارف فرہاد کو بھی مبارکباد دی جا سکتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرمنی کے شب و روز(کالم) کالم نگار:ثریا شہاب
صفحات:216 قیمت:250 روپے ناشر:فرہاد پبلی کیشنز۔کمال آباد نمبر ۳۔راولپنڈی
ثریا شہاب ایک عرصہ تک جرمنی میں مقیم رہی ہیں۔یہاں ان کا سب سے اہم کارنامہ یہ رہا کہ انہوں نے پاکستانیوں کو ممکنہ حد تک متحد رکھنے کی کوششیں کیں۔اس میں وہ جزوی طور پر کامیاب بھی رہیں۔ ریڈیو،ٹی وی اور اخبار تک چونکہ بنیادی طور پر ثریا شہاب صحافی تھیں اس لئے جرمنی سے وہ روزنامہ جنگ لندن میں جرمنی کی ڈائری بھی لکھا کرتی تھیں۔کالم نگاری ۱۹۹۰ء سے شروع کی گئی اور بیسویں صدی کے اختتام تک، جرمنی میں اپنے قیام تک وہ اسے وقفے وقفے سے لکھتی رہی ہیں۔ ان کالموں میں زیادہ تر پاکستانیوں کی کمیونٹی سرگرمیوں کا احوال ہے۔تاہم بعض کالموں میں انہوں نے جرمنی کے بارے میں عمدہ معلومات فراہم کی ہے،بعض اہم مسائل پر فکری گفتگو کی ہے،نائن الیون کے سانحہ سے پہلے ہی وہ بنیاد پرستی کے حوالے سے پاکستانیوں کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کے مشورے دیتی رہی ہیں۔اسی طرح مسلمانوں کے جرمنی میں باہمی انتشار اور لڑائی جھگڑوں پر بھی انہوں نے دردمندانہ کالم لکھے ہیں۔ایک بڑا اہم نکتہ انہوں نے یہ بیان کیا کہ کسی مغربی ملک میں ہندوستان،بنگلہ دیش یاسری لنکا کی سیاسی جماعتوں کی شاخیں قائم نہیں ہیں۔وہ لوگ اپنی مجموعی قومی شناخت کو ہی اپنا سرمایہ سمجھتے ہیں۔ان کے بر عکس پاکستان کی کئی سیاسی جماعتوں کی شاخیں مغربی ملکوں میں قائم کر دی گئی ہیں۔مذہبی مناقشات کا زہر الگ سے اپنا کام دکھا رہا ہے۔ یوں پاکستانی مختلف گروہوں میں بٹ کر رہ گئے ہیں۔ ثریا شہاب ان منفی رویوں پر دکھ اور کرب کا اظہار کرتی ہیں۔یہ کتاب ایسے دردمندانہ کالموں کے حوالے سے خاص اہمیت رکھتی ہے۔