اگلی صبح دروازے پر ہلکی ہلکی دستک سن کر انتخاب عالم اپنے بستر سے اٹھا وہ سمجھ گیا یہ بابا بہارالاسلام ہے لیکن دروازہ کے سامنے ایک حسین و جمیل دوشیزہ کو دیکھ کر حیران رہ گیا وہ خوفزدہ اور شرمندہ سی لڑکی اپنے ہاتھوں میں پھولوں کی ایک ٹوکری لئے کھڑی تھی۔
دروازہ کھلتے ہی اس نے ٹوکری آگے کر دی۔ انتخاب بولا یہ کیا ہے؟
چمیلی!
انتخاب کو اپنے سوال کے بے معنی ہونے کا احساس ہوا۔ تم کون ہو؟
چمیلی۔
کیا یہ بھی چمیلی تم بھی چمیلی؟
وہ کھی کھی کر کے ہنسنے لگی۔
اس طرح کیا ہنس رہی ہو تم پاگل ہو کیا؟
پاگل ہوں پاگل! سب لوگ مجھے پاگل کہتے ہیں۔ وہ پاگل پاگل کہہ کر چھوٹے بچوں کی طرح تالی بجانے لگی۔ جی ہاں واقعی پاگل سب لوگ مجھے یہی کہتے ہیں۔
اچھا؟ لیکن پاگل تو اپنے آپ کو پاگل نہیں کہتے؟
جی ہاں آپ صحیح کہتے ہیں۔
اچھا تو تم پاگل نہیں ہو۔
جی ہاں میں بھی اپنے آپ کو پاگل نہیں کہتی۔
کیوں؟ ؟ ؟
کیوں کہ میں پاگل ہوں اور پاگل اپنے آپ آپ کو پاگل نہیں کہتے۔
انتخاب عالم اس پاگل پن کی گفتگو میں بری طرح الجھ گیا تھا وہ بولا اچھا اگر تم پاگل نہیں ہو تو کون پاگل ہے؟
اس لڑکی نے جھٹ کہا وہ لوگ پاگل ہیں جو مجھے پاگل کہتے ہیں۔
لیکن میں تو تمہیں پاگل نہیں کہتا۔
آپ نہیں کہتے تو آپ پاگل نہیں ہیں۔ نہیں ہیں آپ پاگل۔ آپ بھی میری طرح سیانے ہیں۔ بہت سمجھدار اور دانشمند۔ وہ اپنے آخری جملہ کو بار بار دہرا رہی تھی کہ پیچھے سے آواز آئی چمیلی۔ بیٹی چمیلی تم کہاں ہو؟
میں یہاں ہوں اوپر
او ہو یہ پاگل اوپر پہونچ گئی۔ بہارالاسلام منہ ہی منہ میں بدبدایا۔
چمیلی بولی سنا آپ نے میرے بابا بھی مجھے پاگل کہتے ہیں۔
بہارالاسلام دوڑ کر اوپر آیا اور انتخاب عالم سے معذرت طلب کی وہ بولا معاف کیجئے ڈاکٹر صاحب یہ میری بیٹی ہے اس کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے اس کی بات کا برا نہ مانیں یہ پاگل ہے۔
میں پاگل نہیں ہوں۔ یہ ڈاکٹر صاحب بھی پاگل نہیں ہیں اور ہمارے علاوہ سب لوگ پاگل ہیں بالکل پاگل۔ کیوں ڈاکٹر صاحب؟
جی ہاں چمیلی تم صحیح کہتی ہو۔
بہارا لاسلام نے کہا ہاں بابا ہم ہی پاگل ہیں اب چل نیچے چل۔ صبح صبح ڈاکٹر صاحب کو نیند سے بیدار کر دیا۔ تیرے پاگل پن سے پریشان ہو ک ریہ ڈاکٹر بھی بھاگ جائے گا۔
چمیلی کے پاگل پن نے انتخاب عالم کے ہوش اڑادیئے وہ سوچنے لگا۔ اس لڑکی میں طبعی حیثیت سے کیا کمی ہے؟ ہر لحاظ سے صحتمند ہے۔ بولتی ہے سنتی ہے کھاتی ہے پیتی ہے دوڑتی ہے بھاگتی ہے ہنستی ہے روتی ہے وہ کیا کام ہے جو دوسرے کرتے ہیں اور یہ نہیں کرتی۔ پھر یہ پاگل کیوں کہلاتی ہے؟
شاید اس لئے کہ اس کے پاس ان سب افعال کے کرنے کا کوئی معقول جواز نہیں ہے۔ بلاوجہ وہ ان سارے کاموں کو کرتی رہتی ہے لیکن دنیا میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو بغیر کچھ سوچے سمجھے جانوروں کی مانند زندگی گذار رہے ہیں۔ وہ پاگل تو نہیں ہیں؟ چمیلی شاید اس لئے پاگل ہے کہ وہ اس بات سے بے نیاز ہے کہ لوگ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور کیا کہتے ہیں؟
اسی کے ساتھ انتخاب کے ذہن میں سوالات کا تانتا بندھ گیا۔ اگر اسی وجہ سے یہ پاگل ہے تو کیا صرف یہی پاگل ہے؟ کیا ہم سب زیادہ تر کام بغیر جانے بوجھے نہیں کرتے؟ کیا ہم غیروں کی اندھی تقلید سے محفوظ ہیں؟ حالانکہ ہم جن لوگوں کی اتباع کرتے ہیں وہ خود بھی نہیں جانتے کہ کیا اور کیوں کر رہے ہیں؟ اس طرح ایک طویل زنجیر ہے۔ ایک اندھے نے اپنی انگلی دوسرے اندھے کو پکڑا رکھی ہے اور دوسرے نے تیسرے کو۔ اندھوں کی عظیم جمعیت ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے ایک گہری کھائی کی جانب رواں دواں ہے۔
اس نے کھڑکی سے باہر جھانک کر گہری کھائی پر نظر ڈالی تو اس کا دل خوف سے لرز گیا۔ اس لیے کہ وہ خود بھی گونگوں بہروں کی بھیڑ میں شامل تھا۔ تباہی کے دہانے پر پہنچ کر اس نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ یہ کچھ مختلف قسم کی وادی ہے کہ اس کے اندر سے آگ کی لپٹیں اٹھ رہی ہیں۔ لوگ اس میں گرتے ہیں جھلستے ہیں لیکن مرتے نہیں۔ اس عجیب و غریب منظر کو دیکھ کر وہ گھبرا گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ یہ سب لوگ ایک بہت بڑے مائکرو اوون میں گھوم رہے ہیں۔ تپش ان کے جسم کو جھلسا تو رہی ہے لیکن جلا نہیں رہی۔ وہ کھڑکی سے دور آ کر بیٹھ گیا اور سر پکڑ کر سوچنے لگا کہ ایک پاگل لڑکی اسے کہاں سے کہاں لے گئی؟
چمیلی کا خیال آتے ہی اس کے پاگل پن سے متعلق دوسرا سوال انتخاب کے سامنے مجسم آن کھڑا ہوا۔ وہ بے چاری نہیں جانتی کہ وہ کیا کر رہی ہے اور کیوں کر رہی ہے لیکن صرف وہی کیوں؟ کون جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ کوئی اور جانتا ہویا نہ ہو لیکن وہ خود یعنی انتخاب عالم تو کم از کم نہیں جانتا کہ وہ کیا کر رہا ہے کیوں کر رہا ہے؟ کیوں جی رہا ہے؟ وہ نہیں جانتا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اور کیوں ہو رہا ہے؟
فکر و تدبر کا آتش فشاں سوالات کا لاوہ اگل رہا تھا۔ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ کیا اسے پتہ ہے کہ وہ کون ہے؟ کہاں سے آیا اور اسے کہاں جانا ہے؟ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے لیکن چمیلی نے اس کے اندر یہ احساس جگا دیا تھا کہ اسے یہ سب جاننا چاہئے۔ اگر طبیب بھی یہ نہ جانے گا کہ مرض کیا ہے تو اس کا علاج کیسے کرے گا؟
انتخاب عالم کو اپنے طبیب ہونے کا احساس تو ہو گیا تھا لیکن حکیم ہونے کا ادراک نہیں ہوا تھا در اصل طب کی حکمت سے وہ آشنا نہیں تھا۔ سلوک کی کٹھن پنگھٹ پریہ اس کا پہلا قدم تھا جس میں ہر شئے مشکوک ہو گئی تھی۔ وہ چمیلی کے آخری جملے پر غور کر رہا تھا۔ یہ سب پاگل ہیں میرے اور ڈاکٹر صاحب کے علاوہ سب کے سب پاگل ہیں۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر چمیلی کو پتہ چل جائے کہ ڈاکٹر بھی دوسرے لوگوں کی طرح پاگل ہے تو اس کا کیا حشر ہو گا؟
وہ تو بے چاری پاگل ہو جائے گی۔ لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ کوئی پاگل بھی پاگل ہو سکتا ہے۔ نہیں اگر کوئی ایک بار پاگل ہو گیا تو پھر وہ دوبارہ پاگل نہیں ہو سکتا۔ لیکن سیانہ ہو سکتا ہے۔ کیوں نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی سیانہ پاگل ہو سکتا ہے تو پاگل سیانہ کیوں نہیں ہو سکتا۔ اس نے ارادہ کیا کہ وہ چمیلی کا علاج کرے گا۔ انتخاب نے معرفت کی پہلی منزل طے کر دی اور دوسری کے حدود میں داخل ہو گیا اب وہ اپنی ذات سے باہر کسی اور کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
پاگل ایسا نہیں کرتے وہ تو بس اپنی ذات میں گم رہتے ہیں وہ دوسروں کے بارے میں نہیں سوچتے لیکن انتخاب عالم چمیلی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کے پاگل پن کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کے علاج کے بارے میں سوچ رہا تھا اور چونکہ یہ سب ہو رہا تھا اس لئے وہ پاگل نہیں ہو سکتا تھا۔ ایک پاگل پاگل کا علاج نہیں کر سکتا۔ اس لئے وہ پاگل نہیں تھا۔
لیکن کیا چمیلی واقعی پاگل تھی؟ وہ چمیلی جس نے ڈاکٹر کے پاگل پن کو چٹکی بجاتے دور کر دیا۔ اسے پاگل سے سیانہ بنا دیا تھا۔ چمیلی اگر واقعی پاگل تھی تو اس نے انتخاب عالم کا علاج کیسے کر دیا؟ اور اگر کر دیا تو اس کا مطلب پاگل بھی علاج کر سکتا ہے۔ اگر وہ پاگل ہے تب بھی اور سیانہ ہے تب بھی ہر دو صورت میں وہ علاج کر سکتا ہے۔
اس نے سوچا ممکن ہے پاگل پن کی بھی کئی قسمیں ہوں۔ کوئی کسی کے پیچھے پاگل ہے تو کوئی کسی اور کا دیوانہ۔ یقیناً دیوانوں کا علاج دیوانے کر سکتے ہیں؟ دو دیوانے ایک دوسرے کی دیوانگی کو دور کر سکتے ہیں؟ چمیلی زبانِ حال سے کہہ گئی تھی کہ یہ ممکن ہے اور بالکل ممکن ہے۔
انتخاب عالم کے دروازے پر دوسری آہٹ ہوئی اس بار چمیلی نہیں بلکہ بہار الاسلام تھے اور ان کے ہاتھوں میں ناشتہ دان تھا۔ انتخاب دوڑ کر دروازے تک گیا ہاتھوں سے برتن لئے اور کہا آپ نے زحمت کیوں کی؟ آپ مطب کے دواساز ہیں آپ کا کام نسخہ بنانا ہے ناشتہ بنانا نہیں۔ بہارالاسلام نے کہا بیٹے تمہاری بات درست ہے۔ میں نے وہ کام کیا جو میرا نہیں ہے۔ آپ میرے باس یعنی آقا ہو اور اپنے بندۂ بے دام کو من چاہی سزا دے سکتے ہو۔ لیکن آپ صرف یہاں کے معالج نہیں میرے مہمان بھی تو ہیں۔
جی ہاں لیکن آپ کو زحمت ہوئی ۰۰۰۰۰
میں نے کیا ہی کیا؟ مجھے اپنے اور چمیلی کے لئے ناشتہ بنانا ہی تھا تھوڑا سا بڑھا دیا تو تمہارا بھی بن گیا۔
انتخاب عالم نے کہا ٹھیک ہے بابا لیکن مہمان داری صرف تین دن چوتھے دن سے بند۔ اور آج کا یہ دوسرا دن ہے۔
بہارالاسلام نے سر ہلا کر تائید کی اور بولا جی سرکار جیسی آپ کی مرضی۔ گرم گرم پراٹھوں اور سبزی کی بھاپ نے انتخاب کی بھوک چمکا دی وہ ہاتھ دھو کردستر خوان پر بیٹھ گیا۔
بہارالاسلام ابھی تک کھڑا تھا۔ بابا آپ بیٹھیں کھڑے کیوں ہیں؟ بہارالاسلام بھی بیٹھ گیا۔ انتخاب نے پوچھا بہت ہی عمدہ ناشتہ ہے۔ آپ کے علاوہ کون کون ہے اس گھر میں؟
جی میں اور چمیلی۔ اس کی ماں کا انتقال بچپن میں ہو گیا۔ اسے تو شاید یاد بھی نہ ہوکہ اس کی ماں کیسی تھی؟
اچھا تو اس نے کبھی پوچھا نہیں۔
ایک بار پوچھا تھا۔
اس نے یہ سوال کب کیا تھا؟
یہ اس وقت کی بات ہے جب اس کے اوپر پہلی مرتبہ دیوانگی کا دورہ پڑا تھا اور وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگی تھی۔
اچھا؟
جی ہاں ڈاکٹر صاحب ایک دن وہ اچانک زور زور سے ہنسنے لگی اور پھر بلاوجہ رونے لگی۔ اسی دوران اس نے مجھ سے پوچھا؟ میری ماں کہاں ہے؟ اسے بلاؤ میں اس سے ملنا چاہتی ہوں؟
اچھا۔ تو پھر آپ نے کیا کیا؟
میں سوچنے لگا کہ اس لڑکی نے یہ سوال بڑے غلط وقت پر کیا ہے اگر یہ پہلے کرتی تو میں اسے سمجھاتا کہ تمہاری ماں وفات پاچکی ہے۔ چکا لیکن اب اس پاگل لڑکی کو دنیا کی اس عظیم ترین مگر تلخ حقیقت سے کیسے واقف کرایا جائے۔
پھر؟
پھر وہ مچل گئی، بگڑنے لگی، اصرار کرنے لگی ابھی کے ابھی، اسی وقت میری ماں کو بلاؤ۔ مجھے اس سے ملنا ہے۔
پھر آپ نے کیا کیا؟
بہارالاسلام رک گیا۔ رکا رہا اور بولا میں نے ایک پاگلوں کی سی حرکت کر ڈالی۔
وہ کیا؟ انتخاب نے حیرت واستعجاب سے پوچھا۔
میں نے چمیلی سے کہا میں تمہیں اپنی ماں سے ضرور ملواؤں گا لیکن میری ایک شرط ہے۔ بولو منظور ہے؟ وہ بولی ہاں مجھے منظور ہے۔ میں نے کہا اچھا آنکھیں بند کرو۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں میں اس کی آنکھوں پر ایک ہاتھ رکھ دیا اور پھر اس کا دوسراہاتھ پکڑ کر اسے آئینے کے سامنے لے گیا اور اس کرسی پر اسے بٹھا دیا جس پر بیٹھ کر اس کی ماں بناؤ سنگار کرتی تھی۔ اس کے بعد آنکھوں کے سامنے سے ہاتھ ہٹا لیا۔ اور کہا دیکھو تمہاری ماں تمہارے سامنے بیٹھی ہے۔
اس نے آئینہ میں اپنا عکس دیکھا اور مسکرائی۔ عکس نے مسکرا کر جواب دیا۔ وہ کھل کھلا کر ہنس پڑی سامنے سے بھی وہی ہوا۔ وہ خوش ہو کر تالیاں بجانے لگی تالیوں کا جواب تالیوں سے ملا۔ اب وہ اپنی ماں سے باتیں کر رہی تھی اس کی ماں اس سے باتیں کر رہی تھی۔ دیر تک دونوں ایک دوسرے سے باتیں کرتی رہیں۔ اب یہ حال ہے جب کبھی چمیلی کو اپنی ماں سے ملنا ہوتا ہے وہ آئینے کے سامنے جا کر بیٹھ جاتی ہے۔ اور اپنی ماں سے باتیں کر لیتی ہے۔
اور آپ؟
میں اس کو اور اس کی ماں کو دیکھتا ہوں۔ ان کی باتیں سنتا ہوں۔
آپ صرف سنتے ہیں آپ نہیں بولتے۔
بہارالاسلام بولا بیٹے سچ بات تو یہ ہے کہ میں سوچتا ہوں کہ کاش میں بھی پاگل ہوتا۔ میں چمیلی کی طرح اس کی ماں سے باتیں کرتا۔ اس کے ساتھ ہنستا کھیلتا لیکن افسوس کہ میں یہ سب نہیں کر سکتا؟ نہیں کر سکتا بیٹے نہیں کر سکتا۔
بہارالاسلام برتن سمیٹ کر چلا گیا اس کی بھی عجیب حالت تھی اسے اپنی بیٹی کے پاگل ہونے پر افسوس تھا اور اپنے سیانے ہونے کا غم تھا۔ وہ دونوں کیفیات کی تبدیلی کا خواہاں تھا۔ جس بدلاؤ کو وہ اپنے لئے پسند کرتا تھا وہی بات اپنی بیٹی کیلئے بھی چاہتا تھا۔ بہارالاسلام کی شدید خواہش تھی کہ اس کی بیٹی اس کی طرح سیانی ہو جائے اور وہ اپنی بیٹی کی طرح پاگل ہو جائے۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...