البرٹ اپنی زوجہ سوژان کے ساتھ راس الخیمہ میں چھٹی منا رہا تھا۔ رضوان سالانہ تعطیلات گذارنے کے لیے بنگلا دیش گیا ہوا تھا۔ کوٹھی میں صرف غضنفر اور کرشنن رہ گئے تھے۔ ایسے میں وقت گزاری کے لیے غضنفر نے پی ٹی وی چلا دیا جس پر ایک پرانا ڈرامہ نشر ہو رہا تھا۔
کرشنن نے اسے بند کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو غضنفر وہ بولا میں ملیالی ڈرامے دیکھتے دیکھتے تمہاری زبان سیکھ چکا ہوں۔ آج تو تمہیں اردو ڈرامہ دیکھنا ہی ہو گا۔
کرشنن نے ہنس کر کہا بدلہ لے رہے ہو کیا؟
نہیں انصاف کی بات ہے اگر تم مجھے بور کرنے کا حق رکھتے ہو تو مجھے بھی یہ حق ملنا چاہیے۔ میں نے تمہارے چکر میں اس قدر ملیالم سیریل دیکھے ہیں کہ خدا کی قسم دنیا کی مشکل ترین زبان سیکھ گیا۔
ملیالم میں کیا مشکل ہے؟ ہمارے صوبے کا بچہ بچہ یہ زبان بولتا ہے۔
غضنفر کا دماغ چکرا گیا۔ وہ بولا کیا مطلب ملیالی بچے مجھ سے زیادہ ذہین ہیں؟
یہ میں نے کب کہا؟ میں نے تو بس ایک حقیقت کا اظہار کیا ہے۔
اگر ایسا ہے تو ہمارا بھی بچہ بچہ پشتو بولتا ہے۔ کیرالہ کا بچہ تو کجا بوڑھا بھی پشتو جانتا ہے؟
ٹھیک ہے بھائی نہیں جانتا جیسے صوبہ پختونخواہ کا بچہ ہو یا بڑا ملیالم نہیں جانتا۔ میچ ڈرا ہو گیا ٹھیک ہے۔ اب فٹبال لگاؤ جو نہ پشتو ہے اور نہ ملیالم۔
میں تمہارے جھانسے میں نہیں آؤں گا۔ دیکھو بچے تو ایک دوسرے کی زبان نہیں جانتے لیکن میں تمہاری زبان جانتا ہوں اور تم ہماری زبان نہیں جانتے۔ اب بولو؟
مجھے نہیں لگتا کہ تم جیسا پٹھان کچھ سیکھ سکتا ہے
اچھا اگر یقین نہیں آتا تو امتحان لے لو؟
ایسی بات ہے تو بتاؤ کہ ملیالم میں پانی کو کیا کہتے ہیں؟
بھئی پانی کو پانی کہتے ہیں اور کیا کہتے ہیں؟
وہ تو مجھے پتہ ہے کہ اردو میں پانی کہتے ہیں لیکن کیا دنیا کی ساری زبانوں میں پانی کو پانی ہی کہتے ہیں؟ میں پوچھ رہا ہوں کہ ملیالی زبان میں پانی کو کیا کہتے ہیں؟ ابھی ابھی تم نے دعویٰ کیا تھا کہ ملیالم زبان سیکھ گئے ہو اور امتحان کے لیے تیار ہو۔
غضنفر دماغ پر زور ڈال کر بولا ویلم کہتے ہیں۔
یہ کرشنن کی توقع کے خلاف تھا۔ وہ بولا کمال ہو گیا اچھا اب یہ بتاؤ کہ ٹھنڈے پانی کو کیا کہتے ہیں؟
یار اب یہ ٹھنڈے گرم کا چکر چھوڑو تم تو جانتے ہو کہ میں جاڑے کے موسم میں بھی ٹھنڈے پانی سے نہاتا ہوں۔
میں نہیں جانتا کہ تم سردیوں میں نہاتے بھی ہو یا نہیں اور نہ جاننا چاہتا ہوں۔ میں تو یہ پوچھ رہا تھا کہ پینے کے ٹھنڈے پانی کو کیا کہتے ہیں؟
بھائی پینے کا پانی تو ٹھنڈا ہی ہوتا ہے فریج کا ہو مٹکے کا؟ ہوتا تو ٹھنڈا ہی ہے بلکہ ہینڈ پمپ کا پانی تک ٹھنڈا ہوتا ہے۔ ویسے میں نہیں جانتا کہ کیرالا میں ہوتا ہے یا نہیں مگر ہمارے پاورش میں تو یہی ہوتا ہے۔
بھائی میں پاورش کی نہیں یہاں کی بات کر رہا تھا کیا تم نے ہر ملیالی ہوٹل میں پینے کا گرم پانی نہیں دیکھا اور اس کے ساتھ ٹھنڈا پانی بھی ہوتا ہے۔
دیکھا تو ہے لیکن کبھی گرم پانی پینے کی ہمت نہیں کی۔
کوئی بات نہیں لیکن اس کو کہتے کیا ہیں؟
یار تم کبھی گرم پانی کے بارے میں پوچھتے ہو کبھی ٹھنڈے پانی کے بارے میں آخر یہ چکر کیا ہے؟
یہ امتحان ہے۔ اچھا چلو ان دونوں میں سے کسی ایک نام بتا دو تب بھی سمجھو کہ تم کامیاب ہو گئے۔
غضنفر نے پھر اپنے دماغ پر زور ڈالا اور ڈرتے ڈرتے بولا ایک کیا دونوں کے نام بتا دیتا ہوں۔
دونوں کے! اچھا تو جلدی سے بتاؤ؟
ایک کا نام ہے چوڑ اور دوسرے کا تڑتل۔ کیوں ٹھیک ہے نا؟
کرشنن کو غضنفر کی زباندانی نے حیرت میں ڈال دیا تھا۔ اس نے کہا اچھا یہ بتاؤ کہ کھانے کو کیا کہتے ہیں۔
غضنفر آئے دن یہ الفاظ کیرالہ والوں کے ہوٹلوں میں سنا کرتا تھا اس لیے وہ فوراً بولا ساپڑ کہتے ہیں چاہو تو یہ بھی بتا دوں کہ موٹے یا باریک چاول کو کیا کہتے ہیں؟
وہ تو اردو کا موٹا اور باریک ہے لیکن یہ بتاؤ کہ چاول کو کیا کہتے ہیں؟
چاول کو!!! یہ کہہ کر غضنفر زور زور سے ہنسنے لگا۔
کرشنن بگڑ کر بولا اگر نہیں جانتے تو تسلیم کر لو اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟
یار اگر معلوم نہیں ہوتا تو کیوں ہنستا۔ میں تو اس لیے ہنس رہا ہوں کہ مجھے معلوم ہے اور حیرت ہے کہ میں نے اس پر آج تک غور کیوں نہیں کیا۔ مجھے یقین ہے کہ تم لوگوں نے بھی نہیں کیا ہو گا ورنہ اس کا نام ضرور بدل دیتے۔
کیوں ہم کیوں بدلتے اس کا نام؟
تم لوگ خوب دبا کر چاول کھاتے تو ہو مگر اس کو چور کہتے ہو چور۔ اب بھلا چور بھی کوئی کھانے کی چیز ہے؟
ارے احمق یہ اردو کا چور تھوڑے ہی ہے۔ یہ تو ملیالم چور ہے۔
ہاں ہاں وہی تو۔ چور تو چور ہے وہ اردو بولے یا ملیالم کیا فرق پڑتا ہے؟
فرق کیوں نہیں پڑتا؟ اردو میں چور کو پکڑتے ہیں اور ملیالم میں اسے کھاتے ہیں۔
ہاں ہاں کھانے کے لیے بھی تو اسے پکڑنا پڑتا ہے۔ وہ اپنے آپ چل کر منہ میں تو نہیں جاتا اور آپ لوگ تو اسے با قاعدہ لڈو بنا کر ہوا میں اچھالتے ہو۔
دیکھو اس طرح کسی کا مذاق اڑانا اچھی بات نہیں۔ ہر کسی کے کھانے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ اچھا یہ بتاؤ کہ سالن کو کیا کہتے ہیں؟
کیا پوری لغت پوچھو گے یہ بھی کوئی امتحان ہوا کہ ہر عمل کا حساب لیا جا رہا ہے؟
اب نہیں معلوم تو مان لو کہ نہیں معلوم اس میں بگڑنے کی کیا بات ہے کھیل میں ہار جیت تو ہوتی ہی ہے۔
نہیں ایسی بات نہیں اگر تم وعدہ کرو کہ یہ آخری سوال ہے تو میں اس کا جواب بھی دے سکتا ہوں۔ در اصل یہ غضنفر کی سیاست تھی۔ اس کو ملیالم زبان کے جتنے الفاظ ازبر تھے وہ ختم ہو چکے تھے اس لیے وہ اس معاملے تو سمیٹ دینا چاہتا تھا۔ یہ حسن اتفاق تھا کہ کرشنن نے روزمرہ کے وہ الفاظ پوچھے جو اسے معلوم تھے۔
ٹھیک چلو آخری سہی۔ کرشنن کسی طرح اپنی خجالت مٹانا چاہتا تھا۔
ہاں تو بھائی کان کھول کر سنو کہ اس کو چار کہتے ہیں اور تم لوگوں کو زندہ رہنے کے لیے چار چور کی کافی ہیں اور مرنے کے بعد چار کندھوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب یہ نہ پوچھ لینا کہ کندھے کو کیا کہتے ہیں؟ اس لفظ کا ملیالی ترجمہ غضنفر کو واقعی نہیں معلوم تھا۔ اس نے اپنی مدافعت میں کرشنن پر ہلہّ بول دیا اور پوچھ لیا اچھا یہ بتاؤ کہ آپ لوگ پراٹھا کو پروٹھا کیوں کہتے ہو؟
کرشنن بولا یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ پروٹھا ہی درست ہو اور آپ لوگ اسے غلط کہتے ہوں؟
یہ نہیں ہو سکتا پراٹھا اردو ہے اور ہم لوگ جو تلفظ ادا کرتے ہیں وہی صحیح ہے۔
اچھا تو کیا تمہارا پراٹھا اور ہمارا پروٹھا ایک جیسا ہوتا ہے؟
کون کہتا ہے کہ ایک جیسا ہوتا ہے؟ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
اگر واقعی زمین آسمان کا فرق ہے تو نام ایک جیسا کیوں ہو؟ اس میں تو خیر اتنا زیادہ فرق نہیں ہے۔
غضنفر لاجواب ہو گیا اس کی یہ کیفیت دیکھ کر کرشنن نے چین کا سانس لیا۔ کرشنن کا اعتماد پہلے ہی متزلزل ہو چکا تھا اس نے سوچا کہ جس پٹھان کو اس قدر ملیالم الفاظ معلوم ہیں ممکن ہے کندھے کی ملیالم بھی معلوم ہو اور وہ اسے بھی طنزو تشنیع کے تیر برسا کر بتا دے اس لیے بولا ہاں بھئی مان گئے تم ملیالم کے پنڈت ہو۔ میں ہار گیا اور تم جیت گئے بس اب تو خوش ہو؟
یار ایسی بیزاری سے مبارکباد نہیں دیتے۔ یہ تو کھیل ہے اور کھیل میں ہار جیت تو ہوتی ہی رہتی ہے کیوں؟ غضنفر انتقام لے رہا تھا۔
کرشنن کا موڈ خراب ہو گیا۔ ٹیلیویژن پر عمر شریف کے گھسے پٹے ڈرامے دکھلائے جا رہے تھے۔ وہ کھڑکی سے باہر سڑک کا نظارہ کرنے لگا کہ اچانک اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔ اب وہ زور زور سے ہنس رہا تھا۔
غضنفر یہ دیکھ کر کھڑکی میں آ گیا۔ اس نے کرشنن کو دیکھا پھر باہر دیکھا اسے کوئی ایسی غیر معمولی بات نظر نہ آئی جس پر اس طرح بے ساختہ ہنسا جائے۔ غضنفر نے کرشنن سے پوچھا پاگل ہو گئے ہو کیا؟
کیوں؟ کیا صرف پاگل ہی ہنستے ہیں تم نہیں ہنستے؟
میں بھی ہنستا ہوں اور ہر کوئی ہنستا ہے لیکن ہماری ہنسی کے پیچھے کوئی نہ کو ئی سبب ہوتا ہے۔ ہاں پاگل بلاوجہ ہنستے ہیں اس لئے اگر کسی کو یونہی ہنستا ہوا دیکھا جائے تو اسے پاگل سمجھا جاتا ہے۔
لیکن غضنفر اگر کسی کو پاگل سمجھا جائے تو ضروری نہیں ہے کہ وہ پاگل ہو۔ کوئی کسی سیانے کو اگر پاگل سمجھے تو تم اسے کیا کہو گے؟
میں! میں اسے پاگل کہوں گا۔ غضنفر اپنا سوال بھول گیا تھا۔
تو پھر اپنے آپ کو سمجھ لو۔ کرشنن نے مسکرا کر کہا
میں کیوں اپنے کو پاگل سمجھوں؟
اس لئے کہ تم ایک سیانے کو پاگل سمجھ رہے ہو۔
خیر مذاق چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ تمہارے بے ساختہ ہنسنے کی وجہ کیا تھی؟
ہاں اب تم نے صحیح سوال کیا۔ سمجھداروں والاسوال، اگر پہلے الزام تراشی کے بجائے یہ پوچھتے تو بلاوجہ کی بحث ہی نہ ہوتی۔
خیر بحث کو ختم کرو اور میرے سوال کا درست جواب دو۔
تم اندھے ہو کیا؟ کرشنن نے پوچھا اور پھر قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔
یہ میرے سوال کا جواب ہے یا کہ احمقانہ سوال ہے؟
سوال نہیں جواب ہے۔ سامنے سے گذرتے ہوئے دو لوگوں کو تم نہیں دیکھ رہے ہو۔ کیا تمہیں انہیں دیکھ کر ہنسی نہیں آتی؟ کرشنن نے اس طرح کی شکل و شباہت والے لوگ کیرالا میں کبھی نہیں دیکھے تھے۔
غضنفر نے دیکھا سامنے سے دو پٹھان گذر رہے تھے ایک دبلا پتلا سرو قد اور دوسراٹھنگنامگر خوب موٹا تازہ گول مٹول۔ لمبے والے کے سرپر بڑا سا صافہ تھا اور چہرے پر لمبی سی داڑھی اور پستہ قد کا موچھ داڑھی صاف سر گھٹا ہوا۔ دونوں آپس میں باتیں کرتے ہوئے چلے جا رہے تھے غضنفر کو ان میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آئی جس پر ہنسا جائے وہ بچپن سے اس طرح کے لوگوں کو دیکھتا رہا تھا۔ اس نے پوچھا اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟
ہنسنے کی بات نہیں بالکل گیند اور بلے کی طرح یہ دونوں چلے جا رہے ہیں کیا کوئی ایک بھی شئے ان کے درمیان مشترک ہے؟
غضنفر کے لیے یہ سوال ہی عجیب سے تھا ا س نے کہا ایک چیز؟ ہر چیز مشترک ہے دونوں کی تہذیب ایک ہے۔ زبان ایک، دین ایک ہے لباس ایک ہے، قوم ایک ہے اور ملک بھی ایک ہے۔ کیا چیز مشترک نہیں ہے ان دونوں میں؟
مگر یار دیکھو ایک کس طرح لمبا تڑنگا اور دوسراکس قدرپستہ قد ٹھنگنا۔ ایک کیسا منحنی اور دوسرا کتنا فربہ۔
او ہو یہ بھی کوئی فرق ہے یہ تو سب ظاہر بینی کی تفریق ہے؟ اور اس پر ان کا کیا اختیار اوپر والے نے جیسا بنایا ویسے ہیں چھوٹا بنایا تو ٹھنگنا اور لمبا بنایا تو اونچا۔ دبلا بنایا تو پتلا موٹا بنایا تو فربہ اسے کوئی کیا کر سکتا ہے؟
کرشنن کو اپنی دوسری غلطی کا احساس ہو گیا تھا لیکن انسان آسانی سے خطا مانتا کب ہے؟ اس نے کہا ٹھیک ہے قد اور صحت انسان کے اختیار میں نہیں ہے لیکن داڑھی مونچھیں اور بالوں کا کیا؟
او ہو تو تمہارا مطلب ہے کہ کوئی داڑھی والا مونچھوں والے سے دوستی نہیں کر سکتا؟ گویادوست کا انتخاب بالوں کی لمبائی اور چہرے کی تراش خراش پر منحصر ہونا چاہیے؟ کرشنن تمہارا دماغ تو درست ہے نا؟ غضنفر کے اندرون کو ٹھیس لگی تھی اس لئے بات دل سے نکل رہی تھی۔
کرشنن نے پھر بھی ہار نہیں مانی اور بولا نہیں میرا اعتراض توبس اس حد تک ہے کہ تمہارے مطابق ہر چیز مشترک ہے جبکہ میں کہہ رہا ہوں کچھ چیزیں مختلف بھی ہیں۔
غضنفر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا وہ بولا کرشنن میں تو تمہیں کتابوں کے الفاظ چگنے والا عالم فاضل آدمی سمجھتا تھا لیکن افسوس کہ تم رضوان سے بھی زیادہ گھامڑ، بدھو اور جاہل نکلے۔ کرشنن کی سمجھ میں بدھو کے علاوہ کچھ نہ آیا لیکن وہ خاموش رہا۔ غضنفر نے اپنی تقریر جاری رکھی وہ کہہ رہا تھا ان کے درمیان جس فرق کی بات تم کر رہے ہو وہ یا تو طبعی ہے مثلاً جسم کی ساخت یا ظاہری ہے جیسے بال یا لباس وغیرہ لیکن جو اشتراک ہے وہ نہ صرف اختیاری ہے بلکہ باطنی نوعیت کا ہے اور ظاہر کو باطن پر نیز اختیار کو جبر پر یقیناً فوقیت حاصل ہے۔
کرشنن پوری طرح ڈھیر ہو چکا تھا لیکن پھر بھی بات بنانے کیلئے وہ بولا غضنفر ایک بات بتاؤ یہ جو بڑی سی پگڑی اس شخص نے باندھ رکھی ہے کیا تمہیں نہیں لگتا کہ یہ کئی گز کپڑے کا ضائع کرنا ہے؟
نہیں کرشنن مجھے نہیں لگتا۔ تمہیں لگتا ہے اس لئے کہ تم اس کے فائدوں سے ناواقف ہو۔ یہ پگڑی اس کی شخصیت کو سنوارتی اور نکھارتی ہے جس طرح ہیٹ ہمارے صاحب کی شخصیت کو نکھارتا ہے اور شماغ عربوں کو سنوارتا ہے۔ اس کا اندازہ تمہیں اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک کہ تم اسے بغیر پگڑی کے نہ دیکھ لو۔ نیز گرمی میں یہ سورج کی تیز دھوپ سے اسے محفوظ رکھتی ہے۔ ٹھنڈ میں سرد ہواؤں سے حفاظت کرتی ہے۔ بوقت ضرورت وہ اسے تکیہ، چادر اور جاء نماز بنا لیتا ہے۔ ویسے ایک اور بھی بہت بڑا فائدہ ہے جس کا اندازہ کرنے کے لیے تمہیں ہمارے گاؤں پارہ چنار چلنا ہو گا۔
کرشنن نے پوچھا وہ کیا؟
در اصل ہمارے گاؤں میں پگڑی کا تعلق لاٹھی سے ہے وہاں ہر شخص سر پر پگڑی اور ہاتھ میں لاٹھی لے کر بے خوف و خطر سر اٹھا کر چلتا ہے۔ وہ اپنا سر اپنے جیسے لاٹھی بردار انسانوں کے آگے نہیں جھکاتا۔ اگر کوئی زور زبردستی پر اتر آئے تو لاٹھی کی مدد سے اسے لاٹھی کی طرح سیدھا کر دیتا ہے۔
او ہو تو گویا یہ ہیلمٹ کا کام بھی کرتی ہے؟ کرشنن لاجواب ہو چکا تھا لیکن پھر بھی بولا اگر اس کے فائدے اتنے زیادہ ہیں تو دوسرا آدمی اس سے استفادہ کیوں نہیں کرتا؟
اس کی مرضی آج وہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا تو نہیں باندھتا کل محسوس کرے گا تو باندھ لے گا۔ کوئی زور زبردستی ہے کیا؟
کرشنن نے زچ ہو کر بحث کا رخ غضنفر کی جانب موڑ دیا ا اور بولا اچھا تو تمہارا اپنا کیا ارادہ ہے؟ کل سے تم بھی مجھے پگڑی باندھے نظر آؤ گے؟
ہو سکتا ہے اور نہیں بھی یہ میری مرضی کا معاملہ ہے لیکن ایک بات طے ہے میں ایسا کروں یا نہ کروں دوسروں پر ہنسوں گا نہیں کسی کے لباس کا تمسخر نہیں اڑاؤں گا۔
کرشنن شرمندہ ہو گیا اور بولا یاراس لایعنی بحث کو چھوڑو میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں میں مانتا ہوں کہ اختلاف کو حقارت کی نظر سے دیکھنا غلط ہے اور اگر میرے ایسا کرنے سے تمہاری دل آزاری ہوئی ہے تو معافی چاہتا ہوں بس۔
نہیں دوست اس میں معذرت کی کیا بات ہے وہ تواچھا کیا جو تم نے اظہار کر دیا اور مجھے وضاحت کا موقع مل گیا ورنہ یہ غلط فہمی کبھی دور نہ ہوتی۔
تم ٹھیک کہتے ہو غضنفر جو بھی ہوا اچھا ہوا اور جو بھی ہوتا ہے اچھا ہی ہوتا ہے یہی گیتا کا گیان ہے۔
غضنفر بولا اچھا؟ مجھے نہیں لگتا لیکن اس مسئلہ پر بات ابھی نہیں پھر کبھی اس لئے کہ آج رضوان واپس آ رہا ہے اور مجھے اس کو لانے کیلئے ائیر پورٹ جانا ہے کرشنن نے مسکرا کر تائید کی اور غضنفر نکل کھڑا ہوا۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...