وجئے اور کنگنا نے واپسی کا سفر پیدل طے کرنے کے بجائے بس سے کیا اور مڈویسٹ اسٹیشن پہنچ کر مخالف سمتوں میں روانہ ہو گئے۔ زیر زمین ریل گاڑی میں بیٹھا ہوا وجئے کنگنا کے ساتھ اپنی گفتگو پر غور کر رہا تھا۔ کنگنا کی ساری منطق اور دلائل کے باوجود اس کو اپنے والدین سے الگ ہو جانا غلط لگ رہا تھا۔ وہ اپنے اطمینان کیلئے اس مسئلہ پر کسی سے گفتگو کرنا چاہتا تھا۔ اس ادھیڑ بن میں اسے اپنے لنگوٹیا یار سنجے کا خیال آیا۔
سنجے راجن آج کل رات گئے گھر آتا تھا تب تک وہ سوچکا ہوتا۔ صبح سویرے جب وہ دفتر کیلئے نکلتا تھا تو سنجے سورہا ہوتا تھا۔ آخر ہفتہ میں وجئے کو فرصت ہوتی تو سنجے کی مصروفیت زیادہ ہوتی اور دوپہر کے وقت جب سنجے فارغ ہوتا تو وجئے دفتر کے اندر مصروفِ کار ہوتا۔ اس لئے دونوں ایک مکان میں رہنے کے باوجود ایک دوسرے سے کم ہی ملتے تھے۔
وجئے نے سنجے کو فون لگایا ہیلو سنجے کیسے ہو؟
سنجے فوراً وجئے کی آواز پہچان گیا اور خوش ہو کر بولا بھئی زہے نصیب۔ یہ بتاؤ کیسے یاد کیا؟ خیریت تو ہے؟
وجئے بولا ویسے تو سب خیر ہے لیکن پھر بھی تم سے ملنا ہے۔
کیوں نہیں کیوں نہیں؟ واقعی بڑا لمبا عرصہ ہو گیا تمہارے ساتھ بیٹھ کر بات ہی نہیں ہوئی بس یونہی چلتے پھرتے سلام دعا پر گذارا ہو رہا ہے خیر ایسا کرتے ہیں کہ اس اتوار کو دوپہر کا کھانا ساتھ میں کھاتے ہیں۔ میں ممی سے کہہ دوں گا۔ وہ تمہاری پسند کے سارے پکوان بنا دیں گی اور تم تو جانتے ہی ہو؟
جی ہاں مجھے پتہ ہے۔ تم سے ملاقات نہیں ہوتی لیکن ان کے ہاتھوں کا بنا کچھ نہ کچھ وقتاً فوقتاً ملتا ہی رہتا ہے لیکن یار اتوار تو بہت دور ہے۔
کس نے کہا؟ آج جمعرات ہے جو تقریباً ً گزر چکا ہے درمیان میں جمعہ اور ہفتہ بس دو دن پھر اتوار اور دعوت۔ بڑی چالاکی سے سنجے نے چار دنوں کے وقفہ کو دو دن میں بدل دیا تھا۔
وجئے نے اصرار کیا نہیں میں اپنی ایک خاص الجھن پر تم سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں اس لئے آج، ابھی اور اس وقت ملنا ضروری ہے۔ یہ بتاؤکہ تم کہاں ہو؟
سنجے سمجھ گیا معاملہ سنگین ہے ورنہ مرنجان مرنج طبیعت کا مالک وجئے کیا جانے کہ آج کے آج اور ابھی کے ابھی کی اہمیت کیا ہوتی ہے؟ یہ تو کوئی سنجے جیسا کائیاں تاجر ہی جان سکتا ہے۔ وہ بولا میں فی الحال ریل گاڑی میں سوار ہونے جا رہا ہے اور میرا ارادہ گرین پارک جا کر جوتے خریدنے کا ہے۔
وجئے ہنس کر بولا بھائی سنجے جوتا نہ ہوا ہے نہ غذا۔ اس کو اگر انسان دوچار دن نہ کھائے تو کیا مر جائے گا؟
وہ تو صحیح ہے لیکن میرے جوتے ایک ماہ سے پھٹے ہوئے ہیں۔ آج پاپا نے آخری وارننگ دے دی ہے اگر میں پھٹے ہوئے جوتوں میں گھر واپس آیا تو اسی سے مار مار کر گنجا کر دیں گے۔ ویسے تم فی الحال کہاں ہو؟
میں مڈویسٹ سے ٹرین میں سوار ہوا ہوں۔ لگتا ہے جوتا سر سے اونچا ہو گیا ہے۔
ہاں تو ٹھیک ہے ایسا کرو کہ وارنگٹن سے ٹرین بدل لو۔ میرا خیال ہے ہم ایک ساتھ گرین پارک اسٹیشن پہنچ جائیں گے۔ دونوں نے پلیٹ فارم پر موجود اخبار کے اسٹال پر ملنے کا وعدہ کیا اور فون بند کر دیا۔
گرین پارک میں ان کا بچپن گزرا تھا۔ ایک زمانے میں وہ ہر روز چندریکا کے ساتھ گرین پارک کے سینٹ مائیکل اسکول میں جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس بازار کی ہر دوکان سے واقف تھے۔ کہاں کیا اچھا ملتا ہے؟ کس وقت کس ہوٹل میں کیا بنتا ہے؟ کہاں عید پر پاکستان سے کپڑے درآمد کئے جاتے اور کس دوکان سے دیوالی کی خریداری کی جاتی ہے۔ یہ سب ان کو پتہ تھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ ایک عرصے کے بعد وہ دونوں گرین پارک پر ایک دوسرے سے مل رہے تھے بلکہ اسکول کے بعد پہلی بار۔
وجئے جب گرین پارک پہنچا تو سنجے اس کا منتظر تھا۔ سنجے بولا یار مزہ آ گیا میں نہ جانے کتنی بار اکیلے یہاں آیا لیکن نہ بھولا کی چاٹ کھائی اور بٹ کی مٹھائی چل وہیں چلتے ہیں اس دوران تیری بات بھی ہو جائے گی پھر واپسی میں جوتے خرید لیں گے۔
وجئے بولا یار مجھے لگتا ہے کہ یہ ترتیب غلط ہے۔ یہ سامنے اپنے باٹا کی دوکان ہے پہلے وہاں سے جوتے خرید لو ورنہ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
بھائی میرے پیر کے جوتے شاید اس دوکان میں نہ ملیں اس لئے ہمیں ملن پان کے پاس کلارک کی دوکان میں جانا پڑے گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ اتنی جلدی بند ہو گی۔
عجیب آدمی ہو۔ مجھے پتہ ہے کہ کلارک بڑا نام ہے اور اس کے جوتے بھی مہنگے ہوتے ہیں لیکن گرین پارک میں سب سے بڑی جوتوں کی دوکان یہی باٹا ہے اور اس میں جوتے نہ صرف ہندوستان و چین بلکہ اٹلی سے بھی بن کر آتے ہیں اور تم قیمتی سے قیمتی جوتا خرید سکتے ہو۔ مجھے دیکھو میں ہمیشہ یہیں سے جوتا خریدتا ہوں۔
سنجے کے انکار کے باوجود وجئے اسے باٹا کی دوکان میں لے گیا اور اپنے شناسا سیلس میں سے بولا بھائی یہ میرے خاص دوست ہیں ان کے پیر کا اچھا سا جوتا دکھاؤ۔ قیمت کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ چہرے سے نہیں لگتا مگر آدمی امیر کبیر ہے۔ سیلس میں نے سنجے کے پاؤں دیکھے اور وجئے سے بولا معاف کیجئے میرے پاس ان کیلئے جوتے نہیں ہیں۔
سنجے کھسیا گیا لیکن وجئے اس سے الجھ گیا۔ نہیں ہے کیا مطلب؟ اتنی بڑی دوکان اتنے سارے جوتے؟ کیا تمہیں ان سے دشمنی ہے؟
جی نہیں صاحب گدھا گھاس سے دشمنی کرے گا تو کیا کھائے گا؟
وجئے بولا دوستی یا دشمنی؟
بھئی ایک ہی بات ہے آپ تو زبان پکڑ لیتے۔
سنجے نے وجئے سے کہا بھائی اس قدر عظیم اعتراف کے باوجود تم اس کی گردن نہیں چھوڑتے۔ اب اسے چھوڑو ہم لوگ کلارک کی دوکان میں چلتے ہیں راستے میں ۰۰۰۰۰۰
مجھے پتہ ہے بھولا چاٹ والا لیکن یہ اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے میں اس کے منیجر سے شکایت کروں گا۔
صاحب، منیجر کیا جنرل منیجر سے شکایت کیجئے مجھے فرق نہیں پڑتا ہے۔ ہم تو آپ لوگوں کی خدمت پر تعینات ہیں۔
مجھے پتہ ہے تمہاری خدمت یہ بتاؤ کہ تمہارا منیجر کدھر ہے؟
سنجے بولا چھوڑو یار وقت ضائع کرنے سے کیا فائدہ سر سلامت تو پگڑی ہزار۔
وجئے بولا مسئلہ پگڑی کا نہیں جوتے کا ہے میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔
سنجے کو کسی کا فون آ گیا اور وجئے منیجر کے کمرے میں چلا گیا۔ اس کے تعاقب میں سیلس میں بھی پہنچ گیا۔
منیجر بولا فرمائیے جناب میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟
اس سیلس میں کا دماغ آپ کسی اطالوی جوتے سے درست کر دیجئے۔
منیجر نے سیلس میں کو مخاطب کر کے پوچھا کیا معاملہ ہے؟
اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا وجئے بولا یہ بے وقوف کہتا ہے کہ اس کے پاس میرے لئے جوتے نہیں ہیں جبکہ برسوں سے میں اس دوکان کا گاہک ہوں۔
جناب ان کیلئے نہیں بلکہ ان کے دوست کیلئے۔ یہ بلاوجہ بگڑ رہے ہیں۔
وجئے نے اپنی اصلاح کی اور بولا ہاں ہاں میرے دوست کیلئے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ میں یا میرا دوست؟
بہت فرق ہے جناب اُن کے پیر کا ناپ ۶ نمبر ہے اور اس دوکان میں بچوں کے جوتے نہیں بکتے۔
منیجر بولا جی ہاں جناب! معاف کیجئے ہم صرف بڑوں کے جوتے بیچتے ہیں۔
وجئے بولا لیکن میرا دوست کوئی بچہ تھوڑی نا ہے ہم دونوں ہم عمر ہیں۔
منیجر بولا اس سے کیا ہوتا ہے جناب عالی۔ جس طرح کسی بچے کے پیر بڑے ہو سکتے ہیں اس طرح کسی بڑے کے پیر چھوٹے بھی ہو سکتے ہیں۔ ہماری معذرت قبول فرمائیں۔ آپ کے دوست کو جوتے ہر اس دوکان میں مل جائیں گے جہاں بچوں کے جوتے بکتے ہیں۔
وجئے کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ وہ سوری بول کر باہر آ گیا۔ سنجے اب بھی فون پر لگا ہوا تھا۔ عقب سے منیجر کی آواز آ رہی تھی وہ خوش گفتار سلیقہ مند غلام اپنے سیلس میں پر الفاظ کے کوڑے برسا رہا تھا اور اس سے پو چھ رہا تھا کہ تم نے اسے یہ بات کیوں نہیں بتائی؟ کیا تمہارے منہ میں دہی جمی ہوئی تھی؟
سیلس میں بولا صاحب وہ بد دماغ گاہک سنتا کب تھابس اپنی ہانکے چلا جاتا تھا۔ میرے تو جی میں آیا کہ اطالوی ایمبیسیڈر سے اس کا دماغ درست کر دوں لیکن کیا کروں پاپی پیٹ کا سوال آڑے آ گیا۔
وجئے کو ایسا لگا جیسے واقعی اس کے سرپر جوتے برس رہے ہیں اس نے سنجے کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور دونوں دوست کلارک کی جانب چل پڑے۔ راستے میں جب بھولا چاٹ والے کی دوکان آئی تو سنجے کا منہ بھر آیا اس نے اشارے پوچھا کیا ارادہ ہے۔ وجئے نے اشارے سے کہا واپسی میں۔ کلارک کی دوکان آ گئی لیکن سنجے کی بات ختم نہیں ہوئی۔ وجئے کو کوفت ہونے لگی تھی مگر چونکہ سنجے سے غرض تھی اس لئے وہ نخرے برداشت کرتا رہا۔ سنجے کا فون بند ہوا تو وہ دونوں دوکان میں داخل ہو گئے۔ یہاں پر سنجے رو بوٹ کی مانند ایک الماری کے قریب جا کر اس میں جوتے دیکھنے لگا۔
ایک جوتا اٹھا کر اس نے وجئے سے پوچھا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟
وجئے بولا لگتا تو اچھا ہے لیکن کتنے کا ہے؟
یار دیکھو انسان روز روز جوتا تو نہیں خریدتا کہ مینو میں قیمت دیکھے۔ کلارک کے جوتے ایک مرتبہ لو کم از کم تین سال کی فرصت اس لئے میں قیمت نہیں صرف ڈیزائن دیکھتا ہوں۔ اوپر کا ڈیزائن اور نیچے کا سول۔
وجئے نے پوچھا یار سنجے مجھے تمہاری یہ منطق سمجھ میں نہیں آئی۔
اس میں سمجھنے والی کیا بات ہے؟ ڈیزائن دوسروں کیلئے اور سول اپنے لئے۔
میں اب بھی نہیں سمجھا؟
میرا مطلب ہے دیکھنے والے ڈیزائن دیکھ کر تعریف کرتے ہیں بھئی کیا زبردست جوتا خریدا ہے لیکن پہننے والے کو آرام سول سے ملتا ہے جسے کوئی نہیں دیکھتا۔ وہی تو ہمارا بوجھ ڈھوتا ہے اور وہی سب سے پہلے گھستا یا پھٹتا ہے۔
وجئے کا خیال تھا کہ وہ پڑھ لکھ بہت قابل ہو گیا ہے لیکن اب پتہ چلا کہ جس سنجے کو وہ نرا احمق سمجھتا ہے کم از کم جوتوں کے معاملے میں کافی سمجھدار ہے ممکن دیگر معاملات میں بھی یہی کیفیت ہو۔ وجئے نے اپنی پیٹھ تھپتھپائی کہ ایک اہم مسئلے پر گفتگو کیلئے اس نے نہایت موزوں فرد کا انتخاب کیا ہے۔ جوتے کا انتخاب کر لینے کے بعد وہ اسے ہاتھ میں لے کر ایک اور الماری کی جانب چلا گیا اور بہت دیر تک اسی کی مانند جوتا تلاش کرتا رہا۔ جب ناکامی ہوئی تو دوبارہ پہلے والی الماری کے پاس جا کر ایک اور جوتا نکالا۔ اس بار وجئے رائے لینے کی زحمت نہیں کی۔ وہ اس جوتے کے ساتھ دوسری الماری کے پاس آیا اور اس میں سے بھی بالکل اسی طرح کے جوتے کا جوڑا نکال کر کاؤنٹر پر آ گیا۔ سنجے نے آخر تک جوتوں کی قیمت نہیں دیکھی تھی۔ اس نے جوتے اور کریڈٹ کارڈ اد ائے گی کیلئے دے دئیے۔ وجئے کو خیال ہوا کہ اس کا دوست کس قدر سعادتمند ہے اپنے ساتھ ساتھ اپنے والد کیلئے بھی بالکل مماثل قیمتی جوتے خرید لئے۔ وجئے کی نظروں میں سنجے کا احترام بڑھ گیا تھا اس لئے کہ اسے خود کبھی ایسا کرنے کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔
جوتے کی دوکان سے نکل کر دونوں دوست بھولا چاٹ کی دوکان میں آ گئے۔ اپنے پسندیدہ چھولے بٹورے کا آرڈر دینے کے بعد وجئے نے کہا مجھے خوشی ہے کہ تم انکل کا اتنا خیال رکھتے ہو۔
سنجے بولا بہت زیادہ تو نہیں پھر بھی اچانک تمہیں یہ خیال کیوں آیا؟
ارے بھائی تم نے اپنے ساتھ ساتھ انکل کیلئے بھی ۰۰۰۰۰۰۰
یہ کس نے کہا؟
کسی کے کہنے کی کیا ضرورت۔ میں نے خود تمہیں دو جوڑے جوتے خریدتے دیکھا جو اب اس میز کے نیچے پڑے ہوئے ہیں۔
سنجے بولا لیکن وہ دونوں میرے اپنے لئے ہیں۔
تمہارے اپنے لئے؟ لیکن وہ مختلف ۰۰۰۰۰۰۰۰
جی ہاں اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ایک داہنے اور دوسرا بائیں پیر کیلئے۔
اس جواب نے وجئے کو حیرت زدہ کر دیا وہ بولا لیکن دونوں پیر یکساں ہوتے ہیں بالکل ایک دوسرے کے عکس معکوس۔
یہ کس نے کہا؟
تیسری بار سنجے کے منہ سے کنگنا کا تکیہ کلام سن کر وجئے اسی طرح چونک پڑا جس طرح لکشمی کا نام سن کر کنگنا کی حالت ہوئی تھی۔ وہ بولا سنجے یہ کیا بار بار کس نے کہا، کس نے کہا لگا رکھا ہے؟ پہلے تو یہ تمہارا تکیہ کلام نہیں تھا۔
جی ہاں وجئے پہلے تو بہت کچھ نہیں تھا لیکن اب ہو گیا ہے۔ زمانے کے ساتھ بہت کچھ بدلتا رہتا ہے مثلاً میرے جوتوں کا ناپ۔
میں نہیں سمجھا؟
در اصل پہلے میرا مسئلہ وہ تھا جس کا مشاہدہ تم نے باٹا میں کیا۔ عام دوکانوں میں جہاں بڑوں کے جوتے بکتے ہیں میرے جوتے نہیں ملتے تھے لیکن یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ میں ان دوکانوں کا رخ کرنے لگا جہاں بچوں کے جوتے ملتے ہیں اور بڑے بچوں کے جوتوں سے میرا کام چل جایا کرتا تھا لیکن پھر یہ ہوا کہ میرا ایک پیر بڑھنے لگا اور داہنے پیر کی جسامت بائیں پیر سے مختلف ہو گئی۔
اچھا یہ کیسے ہو گیا؟
میں نہیں جانتا کہ یہ کیوں اور کیسے ہوا؟ لیکن اب میرا مسئلہ سنگین ہو گیا اگر میں ایک پیر کے ناپ کا جوتا خریدتا تو دوسرے میں تنگ ہو جاتا اور جب دوسرے کے ناپ کا خریدتا تو پہلے میں ڈھیلا ہو جاتا۔
وجئے بولا او ہو یہ تو بڑا سنگین مسئلہ ہے۔
ہے نہیں بلکہ تھا بالآخر اس کو بھی میں نے حل کر دیا۔ دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کا کوئی حل نہ ہو اور کئی مرتبہ مسائل کے حل نہایت سہل ہوتے ہیں لیکن ان کی جانب ہماری توجہ نہیں جاتی۔
وجئے بولا میں سمجھ گیا بھان متی آنٹی نے تمہیں یہ بات بتائی ہو گی۔
بھان متی یہ کون ہے؟ میں کسی بھان متی کو نہیں جانتا۔
ہاں، ہاں تم تو نہ کھنہ صاحب کو جانتے ہو اور نہ کنگنا کا
سنجے بولا یہ تم کن لوگوں کی بات کر رہے ہو۔ میں ان لوگوں کو نہیں جانتا۔
کوئی بات نہیں بہت جلد جان جاؤ گے۔ یہ بتاؤ کہ تم نے اس مشکل سے کیسے نجات حاصل کی؟
او ہو تم اب بھی نہیں سمجھے میں تو تمہیں پڑھا لکھا آدمی سمجھتا تھا۔
وجئے بولا اب لومڑی کے کھٹے انگور والا قصہ چھوڑو اور اپنا حل بتاؤ۔
ارے بھئی میں دو سائز کے جوتے خریدنے لگا اور کیا؟
لیکن پھر ہر ایک کے جوڑے کا کیا کرتے ہو؟
سنجے قہقہہ لگا کر بولا ان سے اپنے سر کی مالش کرتا ہوں کیا سمجھے؟
کچھ نہیں سمجھا؟
ارے بھائی پھینک دیتا ہوں اور کیا کر سکتا ہوں میرے باپ۔ سنجے نے ویٹر کو دوعددآئس کریم کے ساتھ فالودہ لانے کا آرڈر دے دیا اور بولا کیوں ٹھیک ہے؟
لیکن تم تو صرف آئس کریم کھاتے تھے اور وہ بھی بٹر سکاچ۔ یہ فالودہ کب سے کھانے لگے؟
تم مجھ سے جھوٹ سننا چاہتا ہو یا سچ؟
پہلے جھوٹ بولو اور پھر سچ۰۰۰۰
جھوٹ تو یہ ہے کہ تمہارے اعزاز میں، چونکہ تمہیں فالودہ پسند ہے اس لئے آج فالودہ ہو جائے۔
اور سچ؟
سچ تو یہ ہے دوست کہ میری پسند بھی وقت کے ساتھ بدل گئی ہے اب مجھے آئس کریم بھی اچھی لگتی ہے اور فالودہ بھی۔
لیکن یہ کیسے ہو گیا؟
بھئی اگر پیروں کا ناپ بدل سکتا ہے تو مشروب کی پسند کیوں نہیں بدل سکتی؟ خیر تم اپنے بجائے میرے جوتوں میں الجھ کر رہ گئے۔ یہ تو بتاؤ کہ آج ملنے کی غرض و غایت کیا ہے؟
سچ بتاؤں یا جھوٹ؟
پہلے جھوٹ پھر سچ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
جھوٹ تو یہ ہے کہ تیرے ساتھ جوتا خریدنا تھا۔
اور سچ؟
سچ یہ ہے کہ میں اپنے جس مسئلے کا حل پوچھنا چاہتا تھا وہ مجھے مل گیا۔
سنجے بولا بہت خوب تم واقعی پڑھے لکھے آدمی ہو۔
شکریہ زہے نصیب ۰۰۰۰۰چلو گھر چلتے ہیں۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...