وجئے اور کنگنا وقت مقر رہ پر مڈویسٹ اسٹیشن پر موجود اسٹار بکس نامی کافی ہاوس میں ملے۔ دونوں نے اپنی اپنی پسند کی کافی بنوائی اور کاغذ کے گلاس لے کر چل دیئے۔ ان کے ہاتھوں میں مختلف قسم کی کافی تھی یہ دیکھ کر کنگنا کو وجئے کا وہ جملہ یاد آیا جو اس نے کھنہ صاحب سے کہا۔ ’’کنگنا کی ہر پسند، لازماً میری پسند‘‘ ہے۔ کنگنا نے سوچا یہ سب کہنے سننے کی باتیں ہیں۔ ان کا حقیقت سے کیا تعلق ہے؟ حقیقت پسندی کا تقاضہ یہی ہے کہ انہیں نظر انداز کر دیا جائے۔ اس کے والد ونود کھنہ نے بھی گھر کو دیکھ لینے پر اصرار کر کے یہی کیا تھا۔
دونوں باپ بیٹی نہایت معقولیت پسند تھے اور بھان متی وہ تو کنگنا کی ماں تھی۔ ونود کھنہ کو حقیقت پسند بنانے کا سہرہ اسی کے سر تھا ورنہ کسی زمانے ونود بھی وجئے کی طرح جذباتی نوجوان تھا۔ بھان متی نے اپنے وقت میں جو سلوک ونود کے ساتھ کیا تھا اب اس کی بیٹی کنگنا وجئے کے ساتھ وہی سب کر رہی تھی۔ کال چکر اپنی متعینہ رفتار سے گھوم رہا تھا۔
ریلوے اسٹیشن کے آس پاس بہت ساری دوکانیں تھیں۔ مسافروں کی چہل پہل اور بسوں اور کاروں کی آمدورفت جاری تھی لیکن کچھ دور ساتھ چلنے کے بعد ماحول بدل گیا۔ اب ایک وسیع و عریض باغ کے ساتھ لگی فٹ پاتھ پر وہ دونوں رواں دواں تھے۔ ہوا کی سرسراہٹ اور پرندوں کی چہچہاہٹ تو تھی لیکن دور دور تک نہ آدم تھانہ آدم زاد۔
وجئے بولا اس علاقہ میں عجب ویرانی سی ویرانی ہے کنگنا۔
ہے بھی اور نہیں بھی۔
یہ کیا بات ہوئی؟ یا تو ہے یا نہیں ہے۔ دونوں بیک وقت کیسے ہو سکتے ہیں؟
کنگنا بولی کیوں نہیں ہو سکتے؟ بالکل ہو سکتے ہیں۔
وجئے کی سمجھ میں یہ منطق نہیں آئی وہ بیزار ہو کر بولا ویسے ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن ہوتا نہیں ہے۔
تم اس بات کو بہت دور لے گئے۔ ویرانی در اصل ایک احساس ہے جسے ناپنے کا کوئی پیمانہ تو ہے نہیں کہ تول کر بتا یا جا سکے کہ جناب یہ چار سو گرام کدو ہے۔
وجئے کو اپنے والد کمار سنگے کا خیال آیا جو دن بھر ناپ تول اور لین دین میں مصروف رہا کرتے تھے۔ اس کو محسوس ہوا کہ کنگنا اس کے والد کا مذاق اڑا رہی ہے۔ وہ بولا تمہیں اس معاملے میں میرے والد کو نہیں گھسیٹنا چاہئے۔
کنگنا نے حیرت سے پوچھا، میں نے تمہارے والد کے بارے میں کیا کہا؟
وہی ناپ تول والی بات!
یہی تو میں کہہ رہی تھی کہ ایک کیفیت کا مختلف احساس ہو سکتا ہے اور وہ متضاد بھی ہو سکتا ہے۔ ناپ تول کی مثال کے دوران مجھے تمہارے والد کا خیال تک نہیں گذرا لیکن تم نے اسے ان سے جوڑ دیا۔
تو کیا میں نے غلط کیا؟
یہ کس نے کہا۔ میں تو کہتی ہوں کہ یہ اختلاف فطری ہے۔ جو اس ماحول میں رہنے کا عادی نہ ہو اس کیلئے یہ ویرانی ہے اور جو اس کا عادی ہو اس کیلئے وہ چہل پہل جو ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں شور شرابہ ہے۔ اب ہمیں پیچھے کے بجائے آگے بڑھنا ہو گا۔
میں تمہاری بات نہیں سمجھا کنگنا؟
در اصل میں یہ کہنا چاہتی تھی کہ ہمیں اپنے آپ کو حالات کا عادی بنانا ہو گا۔ اس مصالحت کے بعد ہمیں یہ ویرانی اچھی لگنے لگی۔
اور وہ گہما گہمی؟
کنگنا بولی دیکھو وجئے دو افراد کیلئے ایک ہی کیفیت کا احساس کا مختلف ضرور ہو سکتا ہے لیکن ایک فرد ایک وقت میں ایک احساس رکھتا ہے وہ بیک وقت متضاد محسوسات کے ساتھ نہیں جی سکتا۔
اور اگر وقت بدل جائے؟
احساس بدل بھی سکتا ہے۔ نہیں بھی۔ میں تو یہی کہہ رہی ہوں کہ وقت کے ساتھ ہمیں اپنے آپ کو برضا و رغبت بدل لینا چاہئے ورنہ ۰۰۰۰۰۰
ورنہ کیا ہو گا؟
ورنہ گردش ایام کا جبر ہمیں بزور قوت بدل کر رکھ دے گا۔
وجئے کو ایسا محسوس ہوا گویا کنگنا اسے دھمکی دے رہی ہے۔ یہ گردش ایام کوئی اور نہیں خود کنگنا کھنہ ہے۔ وہ بولا لیکن اگر کوئی اس جبر کے آگے سپر ڈالنے سے انکار کر دے تو اس کا کیا ہو گا؟
بغاوت کرنے والوں کو گردش زمانہ اپنے قدموں تلے بڑی بے دردی سے روند دیتا ہے وجئے۔ اس لئے کبھی اس کا خیال بھی اپنے دل میں نہ لانا۔
وجئے کیلئے اب دھمکی بہت ہی واضح ہو گئی تھی۔ وہ ڈر گیا۔ زندگی کے اس خوشگوار موڑ پر وہ کچلے جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ وجئے بولا کنگنا یہ تمہارا گھر دنیا کے کس کنارے پر ہے کہ ہماری باتیں ختم ہو گئیں لیکن راستہ ختم نہیں ہوا۔
کنگنا ہنس کر بولی وہ میرا گھر نہیں ہے بلکہ میرے والد ونود کھنہ کا مکان ہے۔
وہی میرا مطلب جو ان کا ہے وہ تمہارا ہے۔
جی نہیں وجئے جو ان کا ہے وہ ان کا ہے اور جو ہمارا ہو گا وہی ہمارا۔
تو کیا ہمارا کچھ نہیں ہے؟
یہ کس نے کہا۔ میں تمہاری ہوں ۰۰۰۰۰تم میرے ہو ۰۰۰۰۰ہم دونوں ایک دوسرے کے ہیں۔
لیکن وہ گھر جسے دیکھنے کیلئے ہم لوگوں نے رختِ سفر باندھا ہے؟
وہ گھر! وہ گھر بھی ہمارا ہو سکتا ہے اگر میرے والد اور تمہارے ہونے والے ۰۰۰۰۰۰۰۰تم سمجھ گئے یا نہیں؟
جی ہاں ہمارے نام کر دیں۔ میں نے تم سے گھر کا محل وقوع پوچھا تو تم نے ملکیت کا قصہ چھیڑ دیا۔ میں تو صرف یہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا کبھی ہم اپنی منزل تک پہنچیں گے بھی یا یوں ہی راستے میں مٹر گشتی کرتے رہ جائیں گے؟
دیکھو وجئے تم جانتے ہی ہو میری منزل وہ گھر نہیں بلکہ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ ۰
وجئے بولا ہاں بابا سمجھ گیا وہی پرانی بات میری منزل تم ہو، تمہاری منزل میں ہوں اور ہم دونوں ایک دوسرے کی ۰۰۰۰۰۰
کنگنا ہنس کر بولی یار وجئے تم غصہ ہوتے ہو نا تو مجھے بہت اچھے لگتے ہو مگر ۰۰۰
مگر کیا؟
مگر یہ کہ تم بہت کم غصہ ہوتے ہو۔
تو کیا تم چاہتی ہو کہ میں ہمیشہ غصے میں رہوں؟
جی نہیں میں تو چاہتی ہوں کہ تم کبھی بھی غصے میں نہ آؤ۔
سمجھ گیا وجئے شوخی سے بولا تم نہیں چاہتیں کہ میں تمہیں بہت اچھا لگوں۔
یہ کس نے کہا؟
تم نے ہی تو ابھی ابھی کہا تھا کہ ۰۰۰۰۰۰۰
میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ جب تم غصہ ہوتے ہو تبھی بہت اچھے لگتے ہو۔
اچھا تو کیا کہا تھا؟
یہی کہ غصے میں تو بہت اچھے لگتے ہی ہو لیکن ویسے بھی اچھے لگتے ہوا کیونک ہ۰۰۰
میں نہیں سمجھا؟
اس لئے کہ تم بہت اچھے ہو؟
کہیں یہ تمہارا وہ احساس تو نہیں ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے؟
مجھے اس کے درست یا غلط ہونے کی پرواہ نہیں۔ بس اچھے لگتے ہو تو لگتے ہو۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتی اور نہ جاننا چاہتی ہوں۔
وجئے بولا لیکن کنگنا تم نے یہ بھی کہا تھا کہ وقت کے ساتھ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ ۰
وجئے کیا تم ان ساری باتوں کو بھول نہیں سکتے جو میں نے تم سے کہی تھیں؟
یہ کیا کہہ رہی ہو کنگنا۔ اب تم یہ کہہ دو گی کہ ان باتوں کے ساتھ مجھے بھی بھول جاؤ۔ یہ تو نا ممکن ہے۔
یہ کس نے کہا؟ میں تو بس یہ کہہ رہی تھی کہ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ہمیں چلتے چلتے آدھے گھنٹے کا وقت گزر چکا ہے۔ اس دوران تم نے بہت کچھ کہا لیکن وہ گھر کہاں ہے ۰۰۰۰۰۰وجئے الفاظ کے استعمال میں محتاط ہو گیا تھا۔ یہ کنگنا کی صحبت کا اثر تھا کہ وہ اس کے مکالمے میں سے کسی نہ کسی غیر ضروری لفظ کوپکڑ کر بات کو کسی اور سمت موڑ دیتی تھی۔
وہ گھر۰۰۰۰۰۰وجئے وہ تو بہت پیچھے چھوٹ گیا۔
ارے یہ کیا حماقت ہے۔ ہم جس کام کیلئے یہاں آئے تھے اس کو بھول کر دیگر مباحث میں ایسے الجھے کہ اپنے مقصد سے غافل ہو گئے۔
یہ کس نے کہا؟
ہر بات کا کہنا ضروری تو نہیں ہوتا۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے۔
چلو مان لیا۔ اب میرے ایک سوال کا جواب دو۔
وہ کیا؟
در اصل ہم لوگ نصف نہیں بلکہ ایک گھنٹے سے اس علاقے میں گھوم رہے ہیں۔ کیا اس دوران تمہیں ویرانی کا احساس ہوا؟
اس سوال نے وجئے کو چونکا دیا۔ وہ کچھ دیر خلاء میں دیکھتا رہا۔ خلاء نہ صرف اس کے سر پر آسمان میں تھا بلکہ چہار جانب پھیلا ہو تھا۔ اس کے دماغ میں بھی ایک بہت بڑا خلاء رونما ہو گیا تھا۔ اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہو چکی تھی۔
اس کے کانوں سے کنگنا کی آواز ٹکرائی۔ کس سوچ میں گم ہو گئے ہو وجئے؟ تم میرے سوال کا جواب کیوں نہیں دیتے؟ کھنہ صاحب تو کہتے ہیں تم بہت حاضر جواب ہو؟ میرے سوال کا جواب دو وجئے۔
میرے چاروں طرف ایک مہیب خلاء ہے کنگنا۔ وہ میرے اندر بھی داخل ہو گیا ہے۔ میں اندر ہی اندر کھوکھلا ہو گیا ہوں۔ میرا دماغ شل ہو گیا ہے۔ میں سوچ نہیں سکتا۔ میں تنہا ہو گیا ہوں۔ میرے پاس تمہارے سوال کا جواب نہیں ہے۔ میں خلاء میں ہوں۔
کنگنا کو ایسا لگا کہ گویا وجئے پر کوئی دیوانگی کا دورہ پڑا ہے۔ وہ بولی تم اپنے دل میں جھانک کر دیکھو ممکن ہے تمہاری تنہائی دور ہو جائے۔
جی ہاں، جی ہاں کنگنا تم سے سچ کہا وہاں خلاء نہیں ہے۔
تو کیا ہے؟
وہاں تم ہو کنگنا تم۔ میں بھی کیسا احمق انسان ہوں۔ میں اپنی تنہائی کو دور کرنے کی خاطر نہ جانے کہاں کہاں مارا پھرا لیکن ویرانی نے میرا پیچھا نہیں چھوڑا لیکن جب اپنے دل میں جھانک کر دیکھا تو دنیا بدل گئی۔ سب کچھ بدل گیا۔ اب ویرانی کا نام و نشان نہیں ہے۔ رونق ہی رونق۔ ہر طرف مختلف رنگوں کی شمعیں روشن ہیں اور ان سب پر ایک ہی نام لکھا ہے۔
مجھے پتہ ہے وجئے کہ ان پر کس کا نام لکھا تھا۔ وہ دیکھو ان مکانوں کے سلسلے میں درمیانی مکان ہمارا ہے۔
لیکن تم نے تو کہا تھا کہ ہم آگے نکل آئے ہیں۔ ابھی ہم پیچھے مڑے بھی نہیں اور اپنے گھر پر پہنچ گئے یہ کیسے ہو گیا؟
یہ دنیا گول ہے وجئے۔ اس میں اگر انسان اپنے ناک کی سیدھ میں بے تکان چلتا چلا جائے تو وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے چلا تھا۔ کسی مقام پر لوٹ کر آنے کیلئے پیچھے مڑ کر واپس آنا ضروری نہیں ہے۔
تو پھر لوگ پیچھے کیوں مڑ جاتے ہیں؟
اس لئے کہ وہ آسان ہوتا ہے۔ لوگوں کی سہل پسندی ان سے یہ بزدلانہ حرکت کرواتی ہے لیکن اگر وہ صبر واستقامت کے ساتھ اپنا سفرجاری رکھیں تو کھوئی ہوئی منزلیں بھی دوبارہ آن کر ان کے قدم چوم لیتی ہیں۔
تو کیا پیچھے مڑ جانے والوں کے ساتھ یہ نہیں ہوتا؟
جی نہیں اکثر ان کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا اس لئے کہ ان کی تلونّ مزاجی انہیں تذبذب کا شکار کر دیتی ہے اور وہ راستہ بھٹک جاتے ہیں۔ گم گشتہ راہ ہو جاتے ہیں۔
اگر ایسا ہے تو ہمیں مزید وقت ضائع کئے بغیر اپنی منزل میں قدم رکھ دینا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم یہیں کھڑے کے کھڑے رہ جائیں اور منزل ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جائے؟
یہ کیوں کر ممکن ہے وجئے؟
میں نے پڑھا ہے زمین گھومتی ہے اس لئے لازماً اس پر رہنے بسنے والی ہر چیز محو گردش رہتی ہے۔
یہ تو میں نے بھی پڑھا ہے لیکن اگر دو اشیاء ایک رفتار سے ایک ہی سمت میں سرگرم سفر ہوں تو وہ دونوں ایک دوسرے کیلئے ساکت ہو جاتے ہیں۔
حالانکہ ساکت نہیں ہوتے۔ وہی احساس والی بات جو تم نے کہی تھی لیکن میں نے یہ بھی سنا ہے منزلیں بھی چلتی ہیں اور راستے بھی چلتے ہیں۔
کنگنا مسکرا کر بولی میں نے یہ سب نہیں سنا۔ میں تو یہ جانتی ہوں کہ مسافر چلتے ہیں آؤ چلو ہم اپنے گھر میں چلتے ہیں۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...