راجن اور ریوتی کی سازش کامیاب رہی۔ چندریکا کی شکل میں انہیں گھر کے اندر کام کرنے والی ایک نہایت سستی ملازمہ میسر آ گئی لیکن چندریکا کے طفیل اسی کے شوہر کمار کا ویزا بن گیا اور بیٹے راجن کی تعلیم کا انتظام ہو گیا۔ چندریکا چونکہ ریوتی کی بہت احسانمند تھی اس لئے دل لگا کر خدمت کرتی تھی۔ وہ بیچاری نہیں جانتی کہ اس کا کس پیمانے پر استحصال ہو رہا ہے۔
راجن نے کمار اور چندریکا کے ساتھ جو کیا سو کیا لیکن ان کے بیٹے وجئے کے حق میں ایک بہترین فیصلہ کر دیا۔ اس نے وجئے کا داخلہ اپنے بیٹے سنجے کے اسکول میں کروا دیا۔ وہ اپنے آپ کو سمجھانے کیلئے وجئے کی فیس بھی کمار کی تنخواہ میں شمار کیا کرتا تھا لیکن اس نے یہ راز کمار یا چندریکا پر افشاء نہیں کیا تھا۔ گردشِ ایام نے راجن، ریوتی، کمار اور چندریکا کو بوڑھا کر دیا۔ وجئے اور سنجے جوان ہو گئے۔ گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر کمار کو اس کی ماں کے موت اطلاع بہت تاخیر سے دی گئی۔ کمار کے لیے اب سری لنکا آنے کی نہ کوئی وجہ تھی اور نہ ضرورت۔ صبر کا گھونٹ پی کر اس نے اپنا گھر خالہ کو ہبہ کر دیا۔
تعلیم کے میدان میں وجئے کو سنجے پر واضح فوقیت حاصل تھی۔ اسے بہت جلد اسکول میں وظیفہ ملنے لگا جس سے راجن کا بوجھ ہلکا ہو گیا اور اس نے کمار کی تنخواہ میں معمولی اضافہ کر دیا۔ اسکول کے بعد وجئے کو امتیازی کامیابی کے سبب انجینیرنگ کالج میں داخلہ مل گیا اور سنجے اپنے باپ کا کاروبار سنبھال کر اسے ترقی دینے لگا۔ اس نے سب سے پہلے اپنی دوکان کا نام راجن ویجن سے بدل کر فریش اینڈ مور رکھ دیا۔
اس علاقہ میں چونکہ غیر انگریز آباد تھے اس لئے دوکان کے نام کا ترجمہ پہلے اردو اور ہندی میں ’’تازہ اور زیادہ ‘‘ کیا لیکن آگے چل ہر ایشیائی زبان میں وہ نام مشہور ہو گیا۔ اس دوکان پر چینی و کوریائی زبان میں بھی نام کی تختی لگی ہوئی تھی۔ اس طرح راجن کے زمانے دوکان سے دور رہنے والے لوگ بھی قریب آ گئے تھے۔
سنجے نے دوکان میں سبزی کے ساتھ پھلوں کا اضافہ کر دیا۔ ہر موسم کے خاص پھل وہ ہند و پاک سے براہِ راست منگوانے لگا۔ ہندوستان اور پاکستان سے آنے والے بھانت بھانت کے آم کی قسموں نے تو ہنگامہ مچا دیا۔ سنجے ان کامیابیوں سے مطمئن ہو کر بیٹھنے والوں میں سے نہیں تھا۔ اس نے اپنے پڑوس والی جوتے کی دوکان کرائے پر لے کر اس میں فریش اینڈ مور کے نام سے مچھلی کو دوکان کھول دی۔ وہ دوکان مچھلی کے بڑے بڑے سردخانوں اور کاٹنے و صفائی کے جدید آلات سے آراستہ تھی۔ بیچنے والے کے تن پر سفید صاف ستھرا یونیفارم، سر پر ٹوپی اور ہاتھوں میں دستانے ہوتے تھے۔ فریش اینڈ مور بہت جلد حفظانِ صحت کیلئے مشہور ہو گئی۔ وہ اعلیٰ درجے کے متوسط طبقے کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔
اول تو دوکان کا نام بدل جانا راجن کو گراں گذرا تھا۔ برسوں سے قائم کئے گئے تشخص کا یکسر مٹ جانا اس کو ناگوار تھا لیکن ریوتی کے سمجھانے بجھانے پر اس نے وہ صدمہ برداشت کر لیا۔ مچھلی والے معاملے میں ریوتی خود بھی سنجے سے ناراض ہو گئی۔ ریوتی تمل ناڈو کی اینگر براہمن تھی۔ اس نے راجن سے اس شرط پر شادی کی تھی کہ زندگی بھر اس کے باورچی خانے میں گوشت مچھلی کا گزر نہیں ہو گا۔ راجن کو گھر کے باہر اپنی مرضی سے کھانے پینے کی اجازت تھی لیکن وہ احمق ریوتی کے عشق میں ایسا گرفتار ہوا کہ باہر بھی گوشت اور مچھلی کو چھونے سے توبہ کر لی۔ وقت کے ساتھ راجن بھی اینگر جیسا بن چکا تھا۔
راجن نے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے اس نے سنجے سے الگ ہو کر پاس کے محلے میں پھر سے راجن ویجن نامی سبزی کی دوکان کھول لی اور کمار کو اپنے ساتھ لے گیا۔ زمانے کی گردش نے اپنے محور کے گرد ایک چکر پورا کر لیا تھا۔ کسی زمانے میں راجن نے ایک پرانی دوکان کرائے پر لے کر نیا کاروبار شروع کیا تھا اور اب اس نے ایک نئی دوکان کرائے پرلے کر پرانے کاروبار کا آغاز نو کیا۔ اس وقت بھی راجن کے ساتھ کمار تھا اس وقت بھی وہ دونوں ایک ساتھ تھے لیکن اس دوران تھیمس ندی کے اندر بہت سارا پانی بہہ چکا تھا۔ جو پانی بہہ گیا تھا وہ لوٹ کر نہیں آ سکتا تھا اسی طرح عمر کا جو حصہ ان لوگوں نے گزار دیا تھا اس کا واپس آنا نا ممکن تھا۔ راجن اور کمار اس صورتحال سے خوش نہیں تھے لیکن مجبور تھے۔ زندگی کی کشتی کو آگے بڑھانے کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور متبادل نہیں تھا۔ وہ دونوں وقت کے دھارے پر بے یار و مدد گار تنکوں کی مانند بہے جا رہے تھے۔
سنجے اور اجئے کی کیفیت اپنے والدین سے یکسر مختلف بلکہ متضاد تھی۔ وہ دونوں وقت کے دھارے کے ساتھ نبرد آزما تھے اس کی سمت اور رفتار کو اپنے قابو میں کرنا چاہتے تھے۔ سنجے کیلئے پرانی ساخت کا کمار بے مصرف تھا اس کے باوجود اس کو ملازمت سے نکالنے کی اخلاقی جرأت اس کے اندر نہیں تھی۔ سنجے کو کمار کے راجن کے ساتھ چلے جانے کا ذرہ برابر قلق نہیں تھا بلکہ خوشی تھی کہ کمار سے چھٹکارہ مل گیا۔
بچپن سے سنجے نے کمار کو اپنے گھر کے فرد کی طرح دیکھا تھا۔ سنجے نے جتنا وقت ریوتی کی گود میں گزارہ تھا اس سے کم وقت چندریکا کے پہلو میں نہیں گزارہ تھا۔ وجئے اور سنجے دونوں ریوتی اور چندریکا کو ممی کہہ کر پکارتے تھے۔ ویسے راجن اور کمار کو وہ پاپا یا انکل کہتے تھے۔ وقت تیزی کے ساتھ گزر رہا تھا۔ فریش مور کے ساتھ وجئے بھی تعلیم ختم کر کے مائکرو سوفٹ کی لندن شاخ کا ایک ہونہار انجینیر بن چکا تھا۔
وجئے کا منیجر پنجاب کے رہنے والے ونود کھنہ تھے۔ ان کی بیٹی کنگنا کھنہ کالج میں وجئے کے ساتھ پڑھتی تھی۔ ان دونوں کے درمیان ملک و قوم اور زبان و تہذیب کا فرق ضرور تھا مگر مزاج میں بلا کی یکسانیت تھی۔ کنگنا کی سفارش پر ونود کھنہ نے وجئے کو ملازمت پر رکھا تھا۔ ونود کھنہ کی خصوصی توجہ اور اپنی محنت و جانفشانی کے ساتھ بہت جلد وجئے کا شمار کمپنی کے سب سے ہونہار ملازمین میں ہونے لگا۔ ونود کھنہ اس کو ایسے اہداف دیتا جو سہل الحصول ہوتے اور پھر اس کی کامیابیوں کا خوب چرچا اور تشہیر ہوتی۔ اس حکمت عملی کے سبب وجئے بڑی تیزی کے ساتھ اپنے ہمعصروں کو پچھاڑتا ہوا ترقی کی منازل طے کر رہا تھا اور دیکھتے دیکھتے وہ پروجکٹ منیجر کے عہدے پر فائز ہو گیا۔
ایک دن کھنہ صاحب نے وجئے کو اپنے کمرے میں بلایا۔ وجئے نے سوچا کہ شاید کسی نئے پروجکٹ کے سلسلے میں یاد فرمائی ہوئی ہے لیکن جب کھنہ صاحب نے کہا وجئے ذرا دروازہ بند کر دو تو وہ چونک پڑا اس لئے کہ کھنہ صاحب کھلے دربار کے قائل تھے۔ ان کے دفتر میں آنے سے لے کر واپس جانے تک دروازے کو بند ہونا نصیب نہ ہوتا تھا۔ ان سے ملنے کے خواہشمند لوگ جب دیکھتے کہ وہ کسی کے ساتھ بات کر رہے ہیں تو از خود لوٹ جاتے بلکہ اگر کوئی نہایت ضروری کام ہوتا تو درمیان میں ہی معذرت طلب کر کے خلل بھی ڈال دیتے تھے۔ کھنہ صاحب ان باتوں کا برا نہیں مانتے تھے۔
دروازے کو بند کرتے ہوئے وجئے نے دفتر پر نظر دالی تو اکثر و بیشتر لوگ جا چکے تھے۔ دوچار لوگ اپنی میز پر جلدی جلدی کام نمٹا رہے تھے تاکہ رفو چکر ہو سکیں۔
کھنہ کے سامنے بیٹھ کر وجئے بولا فرمائیے؟ آپ نے آج بڑی تاخیر سے یاد کیا؟
جی ہاں ایک تاخیر سے متعلق گفتگو کرنی تھی اس لئے اس وقت کا انتخاب کیا۔
وجئے اپنے سارے کاموں کا جائزہ لینے لگا۔ اتفاق سے اس کے سارے کام قابو کے اندر تھے یعنی مدت عمل میں پورے ہو رہے تھے بلکہ ان میں سے کچھ کے قبل از وقت پورا ہو جانے کا امکان تھا۔ دو روز پہلے وہ اپنی ہفتہ وار رپورٹ میں اہداف کا جائزہ پیش کر چکا تھا اور اس پر کوئی منفی تبصرہ موصول نہیں ہوا تھا۔ سارے متعلقین اس کی رفتار کار سے مطمئن تھے۔ وجئے نے سوال کیا آپ کا مطلب میں نہیں سمجھا؟
کھنہ صاحب بولے وجئے تم اپنے سارے کام تو اپنے وقت پر کر دیتے ہو لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایک اہم کام کو بلاوجہ متاخر کر رہے ہو۔
کس اہم کام کی بات آپ کر رہے ہیں؟
کھنہ صاحب بولے دیکھو وجئے میں کنگنا کے پہلے جنم دن کے ایک ہفتہ بعد پروجکٹ منیجر بنا تھا جبکہ تمہیں پروجکٹ منیجر بننے کے بعد ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ اس کے باوجود۰۰۰تم سمجھ رہے ہو کہ۰۰۰۰۰۰۰ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔
کھنہ صاحب نے بڑی حکمت کے ساتھ شادی اور کنگنا دونوں کا ذکر ایک ساتھ کر دیا تھا حالانکہ اس کا حقیقت سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ ونود کھنہ کو وجئے کی مانند کوئی گاڈ فادر میسر نہیں آیا تھا۔ جس وقت اسے پروجکٹ منیجر کا عہدہ ملا تھا کنگنا پانچویں کلاس کا امتحان دے چکی تھی لیکن اس سے کیا فرق پڑتا تھا یہ پرانے وقتوں کی باتیں تھیں۔ کسی کے پاس نہ اس کی تحقیق و تفتیش کیلئے فرصت تھی اور نہ ضرورت خیر۔
وجئے نے اپنے آپ کو سنبھال کر کہا جی ہاں کھنہ صاحب آپ کی بات درست ہے لیکن شادی کیلئے صرف ملازمت اور عہدہ ہی تو کافی نہیں ہے۔
جی ہاں مجھے پتہ ہے سب سے زیادہ اہمیت زوج کی ہوتی ہے۔ کیا تم نے اس بابت کوئی پیش قدمی نہیں کی؟
وجئے کو کنگنا نے تو یہ بتا رکھا تھا کہ کھنہ صاحب کو ان کے بیاہ پر کوئی اعتراض نہیں ہے پھر بھی وہ کنگنا کا نام اپنی زبان پر لانے کی جرأت نہیں کر سکا۔ بات بنانے کیلئے بولا کھنہ صاحب آپ کی بات درست ہے شادی تو زن و شو کے رشتے سے ہو جاتی ہے لیکن پھر ان لوگوں کو ساتھ رہنے کیلئے ایک گھر کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ لندن میں گھر کا مسئلہ کس قدر سنگین ہے؟
کھنہ مسکرا کر بولے دیکھو وجئے میرا تو یہ ماننا ہے کہ دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ جس کا حل موجود نہ ہو۔ یہ اور بات ہے کہ انسان اس کو جانتا نہ ہو یا اس کی جانب قدم بڑھانے کی جرأت اس کے اندر نہ ہو۔
جی ہاں میں آپ سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں اور تسلیم کرتا ہوں کہ میرا شمار پہلی قسم کے لوگوں میں ہے جو کہ حل نہیں جانتے۔
لیکن میں جانتا ہوں۔
کھنہ صاحب کے اس جواب سے وجئے چونک پڑا۔ وہ سوچنے لگا کہ کہیں کھنہ صاحب اسے گھر داماد تو بنانا نہیں چاہتے۔ اول تو کسی کا گھر داماد بننا وہ اپنی عزت نفس کے خلاف سمجھتا تھا اور دوسرے اس کے والدین بھی تھے۔ اپنے والدین کے ساتھ کھنہ صاحب کے گھر میں جا کر رہنا نا ممکن تھا۔ اس نے کہا کھنہ صاحب آپ کا شکریہ لیکن شاید یہ حل اس قدر سہل بھی نہیں۔
کھنہ صاحب کا زوردار قہقہہ بلند ہوا اور وہ بولے برخوردار لگتا ہے اب تم پہلے زمرے سے دوسرے زمرے میں شامل ہو گئے ہو میرا مطلب ہے جرأت کا فقدان والے لوگوں میں۔
جی نہیں ایسی بات نہیں ویسے تو میں جرأت مند آدمی ہوں پھر بھی۔
پھر بھی ڈر لگتا ہے ہاں؟ دیکھو تم نے حل جانے بغیر اس پر قیاس آرائی شروع کر دی۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ تمہارا اندازہ غلط ہو؟
وجئے کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا وہ بولا جی ہاں ممکن ہے جلد بازی میں ۰۰۰۰۰
جی ہاں انسان ویسے بھی جلد باز واقع ہوا ہے اور اس عمر میں تو کچھ زیادہ ہی خیر۰۰۰۰۰۰مجھے پتہ ہے اس لئے کہ ایک زمانے میں ۰۰۰۰۰میں بھی
وجئے نے کہا جی ہاں جب کنگنا پہلی کلاس میں رہی ہو گی۔
وجئے کی زبان پر پہلی مرتبہ کنگنا کا نام آیا تھا۔ وہ کھنہ صاحب کے چہرے پر ظاہر ہونے والے تاثرات کو بغور دیکھ رہا تھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ کہیں کھنہ صاحب اس رشتے سے ناراض تو نہیں ہیں۔ ورنہ چھوکری کے ساتھ ساتھ نوکری کے بھی ہاتھ سے نکل جانے کا خطرہ تھا اور اگر اچھی خاصی نوکری ہاتھ سے نکل جاتی تو چھوکری کا نکل جانا تقریباً طے تھا۔ وجئے نے دیکھا کھنہ صاحب پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
وہ بولے جی نہیں وجئے کنگنا کی پہلی کلاس نہیں بلکہ میرے کالج کی آخری کلاس کا زمانہ تھا جب کنگنا کی ہونے والی ماں نے مجھ سے پوچھا تھا ونود کہیں کالج سے رشتہ توڑ لینے کے بعد تم مجھے بھی تو نہیں بھول جاؤ گے۔
کھنہ صاحب نے ایک نیا افسانہ چھیڑ دیا۔ کھنہ صاحب کی بیوی تو اسکول کے آخری امتحان میں فیل ہو چکی تھا۔ وہ تو ان کے والدین نے دونوں کا رشتہ طے کیا اور شادی ہو گئی۔
وجئے کیلئے کھنہ صاحب کی بات ماننے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔ وہ بولا جی ہاں تو آپ نے کنگنا کی ماں سے کیا کہا؟
کھنہ صاحب بگڑ کر بولے تم کیا بکتے ہو۔ میں اس وقت برطانیہ میں نہیں بلکہ ہندوستان میں تھا۔ اس دور میں تو کوئی برطانیہ میں بھی یہ سوچ نہیں سکتا تھا کہ شادی سے پہلے ہی کوئی کسی بچے کی ماں یا باپ بن جائے۔ یہ تو نئے زمانے کی مغربی خرافات ہے۔ یقین کرو آج بھی ہندوستان میں اسے بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ کھنہ صاحب کے وجئے پر بہت زیادہ خوش ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کنگنا کے ساتھ اس قدر قدیم تعلقات کے باوجود ان لوگوں نے اپنے آپ کو حدود و قیود کا پابند بنا رکھا تھا ورنہ وہ اپنے دوستوں کے کئی ایسے بچوں سے واقف تھے جو اس کا پاس و لحاظ نہیں رکھ پانے کے سبب خوار ہو چکے تھے۔ خیر اس میں ان کا کم اور ماحول کا قصور زیادہ تھا اس کے باوجود رسوائی تو رسوائی تھی۔
وجئے نے معذرت چاہتے ہوئے کہا جناب آپ بہت دور نکل گئے میں اپنی غلطی کی معافی چاہتا ہوں۔ مجھے کہنا چاہئے تھا کہ کنگنا کی ہونے والی ممی یا میری آنٹی نے کیا جواب دیا تھا۔
کھنہ صاحب نے اپنی کہانی آگے بڑھائی اور بولے میں نے کہا میری جان میں نے کالج میں جو کچھ پڑھا ہے وہ سب بھول سکتا ہوں لیکن تمہیں نہیں بھول سکتا اور ہوا بھی یہی کہ اگر آج کوئی مجھ سے پوچھے کہ میں نے دہلی کے دین دیال کالج میں کیا کیا پڑھا تھا تو مجھے کچھ بھی یاد نہیں لیکن کنگنا کی ممی! اس کی ایک ایک ادا اب بھی میرے قلب و ذہن کے نہاں خانے میں نقش ہے۔
یہ سن کر تو آنٹی خوش ہو گئی ہوں گی۔
جی نہیں وہ کنگنا کی مانند نہایت ذہین عورت تھی۔ میرے اس جواب کو سن کر وہ غمزدہ ہو گئی اور سوال کیا۔ صرف مجھے یاد ہی کرتے رہو گے کہ کچھ اور بھی کرو گے؟
کہانی دلچسپ موڑ میں داخل ہو گئی تھی وجئے نے پوچھا پھر کیا ہوا؟
کھنہ صاحب بولے ہونا کیا تھا؟ میں نے موقع غنیمت جان کر کہہ دیا کہ میری جان میں تو آج تمہارے ساتھ سات کیا دس پھیرے لگانے کیلئے تیار ہوں لیکن پھر اس کے بعد تمہارے گھر والے تمہیں اپنے گھر سے نکال دیں گے اور میرے گھر میں ہمارے لئے جگہ نہیں ہے اس لئے رہیں گے کہاں؟ بالکل وہی سوال جو تم آج کر رہے ہو میں نے بھی کر دیا تھا۔
وجئے سمجھ گیا اب کھنہ صاحب اس کے مسئلے کا حل بتایا چاہتے ہیں۔ اس نے سوال کیا اچھا تو آنٹی جی نے کیا کہا۔
کھنہ صاحب بولے اس وقت آنٹی تھوڑی نہ تھی۔ پھر بھی وہ بیچاری کیا کہتی اس نے ایک بھارتیہ ناری کی طرح لجا شرما کر کہا آپ میرے پتا شری سے بات کریں۔ وہ ضرور اس سمسیا کا سمادھان کر دیں گے۔ ان کا شمار شہر کے امیر کبیر لوگوں میں ہوتا ہے۔
وجئے نے سوال کیا پھر کیا ہوا؟
کھنہ صاحب کے اندر کا داستان گو جوان ہو چکا تھا وہ بولے میں نے کہا یہی تو سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ وہ شہر کے رئیس آدمی ہیں اور میں ایک غریب طالبعلم ہوں۔ میں ان سے بات کرنے کی ہمت کیسے کر سکتا ہوں؟
وجئے نے سوچا یہ تو فلمی کہانی بن رہی ہے پھر بھی اس نے پوچھا تو آپ کو آنٹی جی نے کیا جواب دیا؟
وہ بولی آپ جو بھی ہیں لیکن میں بھی تو ایری غیری نتھو خیری نہیں ہوں۔ میں سیٹھ دینا ناتھ اگروال کی اکلوتی کنیا بھان متی ہوں۔
مجھے پتہ ہے۔ یہ کہہ کر میں کالج سے نکل کر سیدھے سیٹھ جی کی آڑھت پر پہنچ گیا۔ دوپہر کے وقت سیٹھ جی اکیلے بیٹھے تھے میں نے ڈرتے ڈرتے اپنا مدعا بیان کر دیا تو پتہ چلا بھان متی یعنی تمہاری آنٹی نے انہیں پہلے ہی تیار کر رکھا ہے۔ انہوں نے مجھے اپنے ایک خالی مکان کا پتہ دیا اور کہا کہ میں اسے ایک بار دیکھ لوں۔ اگر پسند ہو تو اسے تیار کروا دیا جائے اور مکان کی تیاری کے دوران کنیا دان کی تیاری بھی کر لی جائے۔
اس وقت سے پہلے میں بھان متی کا عاشق تھا لیکن اس کے بعد میں اس کا بندۂ بے دام ہو گیا اور اب بھی وہی حال ہے۔ ویسے میرا بھی ایک خالی مکان شہر کے مضافات میں ہے اگر تم مناسب سمجھو تو اسے دیکھ سکتے ہو۔
اس کی کیا ضرورت؟ اگر کنگنا کو پسند ہے تو مجھے کنگنا کی ہر پسند لازماً پسند ہے۔
ویسے تو تمہاری یہ بات سمجھداری کی ہے پھر بھی میری رائے ہے کہ تم ایک بار کنگنا کے ساتھ جا کر اس گھر کو دیکھ لو تاکہ آگے چل کر کوئی بدمزگی نہ ہو۔
کھنہ صاحب نے من گھڑت کہانی کی مدد سے اپنی بات نہایت سلیقہ سے کہہ دی تھی۔ وجئے ان کا شکریہ ادا کر کے باہر آیا اور کنگنا کو فون پر ساری تفصیل بتا دی۔ کنگنا کو حیرت نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے کہ سب کچھ حسب توقع و منشاء ہو رہا تھا۔
وجئے کے پسند والے جملے نے کنگنا کو خوش کر دیا۔ اس نے سوال کیا تو کب چلیں گے؟
وجئے بولا جب تم کہو۔ میں تو ابھی بھی تیار ہوں۔
کنگنا بولی ایسی بھی کیا جلدی ہے؟ کل شام پانچ بجے مڈویسٹ ریلوے اسٹیشن پر آ جانا۔ وہیں سے ساتھ چلے چلیں گے۔
اس رات وجئے اور کنگنا بالکل نہیں سوئے۔ دونوں اپنے مستقبل کے نت نئے خواب سجاتے رہے لیکن ان کے درمیان خاصہ فرق تھا۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...