شہناز نبی(کلکتہ)
نئے موسم کی آہٹ
چلو خالی کرو جگہیں
برائے برگِ تازہ چھوڑدو شاخیں
زمیں سے جڑ کے رہنے پر بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا
نسوں میں اب نہیں بالیدگی کی اک رمق باقی
یہ دل تو ریزہ ریزہ غم کا لقمہ بن گیا کب کا
کہ ذہنِ تازہ کو گھن کھا گیا بے درد یادوں کا
بدن میں پڑ گئی نآسودگی کی اک بنا ایسی
اگر تعمیر کچھ ہوگا بھی تو احساسِ تنہائی
بہت سوچا ،بہت ڈھونڈا
کہیں پر ایک ریزہ وصل کا جھلمل نہیں کرتا
رفاقت کا کوئی نقطہ
ستارہ سا نہیں دِ کھتا
فلک تا بہ فلک ہے ہجر کا گھنگھور اندھیرا
ہزیمت بے ثمر
سعی، لا حاصلی کا کرب،ریاضت بے اثر
گردِ ملامت- کارناموں کا اجر
نشانِ امتیازی ہے نہ تمغۂ طلائی ہے
ہمارے کاندھوں پہ بس اپنا سر ہی اک کمائی ہے
ہماری سوچ کا دریا کبھی پایاب نہ ہوگا
بدن مرتا ہے
مرجائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دردِ زہ
وہ تھا اک لمحۂ تخلیق
جس نے آگ روشن کی
تڑپتی تھی صفورہؔدردِ زہ سے
اور موسیٰ کو
سرِ وادئی سینا نور کا لپکا نظر آیا
خدائے عزو جل سے
ہمکلامی کی سعادت ہو گئی حاصل
ملا عہدہ پیعمبر کا
مگروہ کوکھ میں جس نے
مہینوں تھام کر رکھا
محبت کا منزہ لمحہ
جس نے غنچۂ نورس کو چٹکایا
سرِ شاخِ رفاقت
جس نے لوری کے بنے ہیں بول
ولی ہے وہ
نبی ہے
اور نہ پیعمبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھوک
ایک کھاؤں
دو کھاؤں
یا تین کھاؤں
سننے والے شیخ چلیؔ کی یہ بات ہنسی میں ٹال گئے
تاہم اس نے دجلہ و فرات کا پانی پیا اور
عباسیوں کے اگائے ہوئے اناج سے بنی روٹی کھا ئی
ایک ایک لقمہ حلق سے اتارتے ہوئے
دوسری روٹی پر جھپٹا
ایک کھاؤں،دو کھاؤں ،یا تین کھاؤں
ساری دنیا چوکنی تھی لیکن خاموش،۔چند بلیاں غرائیں
تو ان کے سامنے کچھ ٹکڑے ڈال دئیے گئے
امنِ عالم کی بقا کے لئے
شیخ چلیؔکی نظر اب تیسری روٹی پر ہے
اس کا اناج کہاں سے آیا؟
کن دریاؤں نے اسے گوندھا؟
آنچ کس چولہے کی لگتی ہے؟توا کس لوہے کا بنا ہے؟
شیخ چلی کی بھوک بڑھتی ہی جارہی ہے
سننے والے اس کی بات اب ہنسی میں نہیں ٹالتے
بلکہ سہم جاتے ہیں اور سوچتے ہیں
وہ چوتھی روٹی کون سی ہے
جو شیخ چلیؔ کا لقمہ بننے والی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیااستعارہ
اسے دیکھتے ہی
تمازت کا احساس بڑھنے لگا ہے
یہ دیواریں کیسی اٹھائی گئی تھیں
کہ جن کی بلندی
ہمارے سروں سے چرا لے گئی چھت
یہ دہلیز کن پتھروں سے بنی تھی
کہ جس کو کبھی پار کرنے کی ہمت نہیں تھی کسی میں
یہ گھر کیسا گھر ہے
کہ دیوار و در اس میں بے انتہا ہیں
پہ باہر کا رستہ نہیں شرط کوئی
نہ سایہ ہے اس کے مقدر کا لکھا
فقط چلچلاتی ہوئی دھوپ دیتی ہے پہرا
یہ بے سائباں گھر
کہ جس سے کبھی کچھ شکایت نہیں تھی
اسے کیوں ملامت سے تکنے لگے ہیں
کوئی ابر پارہ
کوئی شاخِ زیتوں
اگر ہے بھی سر پر تو بس ایک لمحہ
تمازت کا جیسے نیا استعارہ