ڈاکٹر وزیر آغا
آنکھیں کھول کے باہر آ
اور دیکھ کہ گلیاں سب اجڑی ہیں
گلشن بے آباد ہیں سارے
ریت کے دھارے!
ریت کے دھارے،تیل کے دھارے بن کر
اُبل پڑے ہیں
لوہا جیسے جاگ اُٹھا ہے؍چہک رہا ہے
چاروں جانب کُوک رہا ہے
تتلی،بھنورا،کوئل،چڑیا۔۔۔سب لوہا ہے
لوہے کے پر اُگ آئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب دھرتی پر آوازوں کا شور اُٹھا تھا
اور فولاد کا راج ہوا تھا
انساں سارے لوہے کے روبوٹ بنے تھے
بے چہرہ،بے نام ہوئے تھے
کالے،پیلے ہندسے بن کر
لفظوں کے انکھووں پر جیسے ٹوٹ پڑے تھے
اک اک ’’لفظ ‘‘پہ ثبت ہوئے تھے
اور اب
ہندسے ہی ہندسے ہیں
جمع کرو تو دُگنے تگنے ہو جاتے ہیں
لاکھوں کا اک لشکر بن کر
آگ اور خون کے کھیل کا منظر
دکھلاتے ہیں
ضرب لگے تو بھنور سا بن کر تیز ہوا کا،
پاگل بھوتوں کے
وحشی گرداب کی صورت
ایک ہی پل میں
دھرتی اور آکاش سے اُونچے اُٹھ جاتے ہیں
کرو اگر تفریق۔۔۔صفر ہوجاتے ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے بھی اک ایسا ہی ؍طُوفان آیا تھا
تب اک بیج کی کشتی میں تُو
پانی کی شکنوں پر چلتا؍ایک پہاڑ پہ جا پہنچا تھا
ایک نیا انکھوا پھوٹا تھا؍ایک نیا سورج نکلا تھا!
آج وہی طوفان
نئے انداز میں ہم پر ٹوٹ پڑا ہے
لیکن اب کی بار یہ طوفاں؍اگنی کا ہے
جلے ہوئے کیسر کے ڈنٹھل
شعلوں کے گرداب،ہوا کا شور
گھنے بادل کے تن پر
دھڑ دھڑ پڑتے،آگ کے دُرّے
ایک عجب کہرام بپا ہے!
(وزیر آغا کی طویل نظم سے تین اقتباس)