(Last Updated On: )
تاجدار عادل(کراچی)
کمالِ عشق کا کچھ ایسا ماجرا ہوتے
اُسے نہ دیکھتے اور اُس کا آئینہ ہوتے
بچھڑنے والے کے ملنے سے فال نکلی ہے
وہ لمحے جتنے بھی ملتے گریز پا ہوتے
وفا کے اشک بھی آنکھوں ہم ہی بھر لائے
کہ اُس کی آنکھوں سے گر تے تو سانحہ ہوتے
کسی کو دیکھ کے اہلِ طلب یہ سوچتے ہیں
ہم اُس کی حد نہ سہی اس کا راستہ ہوتے
نصیب عشق میں منزل نہیں ہے رستہ ہے
ترے قریب بھی رہتے تو ہم جدا ہوتے
ہمیں سنبھال کے رکھو نہ یوں گنواؤ کہ ہم
جو گردِ راہ نہ ہوتے تو آئینہ ہوتے
گواہ ہوتے نہ گر روشنی کے ہم عادل
سکوتِ نیم شبی کی کوئی دعا ہو تے