ڈاکٹر رشید امجد (اسلام آباد)
گلابی آنکھوں اور سرمئی انگلیوں والی دیوی اپنے سنہری رتھ پر سوار خراماں خراماں دہلی ائیر پورٹ پر اتر رہی تھی اور اس کے پیچھے جہاز لینڈنگ کی تیاریاں کر رہاتھا۔لاہور سے دہلی کا سفر اتنا ہی تھا کہ جہاز اڑا توچائے کی ٹرالیاں آگئیں اور ابھی ائیر ہوسٹس برتن سمیٹ ہی رہی تھیں کہ کپتان کی آواز گونجی کہ کچھ دیر بعد جہاز دہلی ائیر پورٹ پر اترنے والا ہے۔ائیر پورٹ کا منظر لاہور جیسا ہی تھا۔کسٹم کے مسائل سے فارغ ہو کر آگے نکلے تو ان کی جماعت کی سربراہ نے اعلان کیا کہ سامنے کسٹم شاپ ہے جس جس نے اپنا توشہ لینا ہو لے لے۔ لاہور اور دہلی کے ائیر پورٹوں میں بس ہی ایک فرق تھاکہ وہاں کسٹم شاپ پر شراب پینی تھی اور یہاں رنگ برنگی بوتلیں اپنے چاہنے والوں کو آنکھیں مار رہی تھیں۔
ائیر پورٹ سے باہر نکلے تو کار پارک ، لان ، سڑکیں سب کچھ ایک جیساتھا۔ جن لوگوں کی دعوت پر وہ کانفرنس میں شرکت کے لئے آئے تھے ان کے نمائندے لابی میں موجود تھے۔ رسمی تعارف کے بعد سب کوچ میں بیٹھ گئے۔ ایئر پورٹ کے پہلومیں لیٹا شہر جاگ چکا تھا۔ ایک بڑا شہر جو جمنا کے دونوں کناروں پر دور تک لیٹا ہواتھا۔لاہور اور یہاں کی سڑکوں اور لوگوں میں کوئی خاص فرق محسوس نہ ہوا، آنکھیں موند کر سیٹ سے ٹیک لگاتے ہوئے اس نے سوچا سب کچھ کتنا بدل گیا ہے۔۔۔قرنوں پہلے جب وہ قندھار سے دلی کے لئے روانہ ہوا تھا تو اسے سفر کی خصوصیتوں کا احساس نہیں تھا، روانگی کے وقت تو چچازاد فرغانہ کی آنکھوں میں جھلملاتے ستارے تھے جو قندھار سے رخصتی کے وقت اسی کی آنکھوں میں چمکے تھے اور چچا آغا قلی خان کے تقاضے، کہ وہ جلدی دلی پہنچے تاکہ وہ فرغانہ سے اس کی شادی کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائے۔
قندھار کے نواح میں ان کی بڑی حویلی تھی جس میں اناروں کے درخت ہی درخت تھے۔ان درختوں کی چھاؤں میں وہ اور فرغانہ ایک ساتھ جو ان ہوئے تھے۔کھاتا پیتا گھرانہ تھا، کوئی پریشانی نہیں تھی کہ اچانک آغاقلی خان نے فیصلہ کیا کہ وہ دلی جا کر دربار میں رسائی حاصل کرے گا۔
روانگی کا منظرذر ا اداس تھا، فرغانہ کی کشادہ آنکھوں میں جھلملاتے ستارے چمک چمک کر بجھ رہے تھے۔طے یہی ہوا تھا کہ آغا قلی خان دلی جا کر جونہی مناسب ملازمت حاصل کرے گا اسے بھی بلائے گا اور فرغانہ سے اس کی شادی دلی ہی میں ہو گی۔چھوٹا سا قافلہ جونہی نظروں سے اوجھل ہوا،قندھاراداس ہو گیا۔ انار کے پھولوں کی خوبصورتی ماند پڑ گئی اور اناروں کی مٹھاس میں ترشی آگئی۔
روزانہ شام کو وہ سرائے میں آجاتا اور آنے جانے والوں سے دلی کی خبریں معلوم کرتا لیکن چچا اور فرغانہ کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہوتا۔ایک شام وہ سرائے کے ایک کونے میں اداس بیٹھا گئے دنوں کو یاد کر رہا تھا کہ سرائے کے ملازم نے اسے پیغام دیا کہ ابھی ابھی ایک قافلہ دلی سے آیا ہے۔وہ بھاگم بھاگ دوسری طرف آیا۔ قافلہ سالار دبیز قالین برریشمی تکیے سے ٹیک لگائے سستا رہا تھا۔ اسے دیکھ کر چونکا ، پھر بولا۔۔’’نوجوان تم آغا قلی خان کے بھتیجے تو نہیں ، تمہاری صورت ان سے بہت ملتی ہے۔‘‘
اس کے جوا ب پر وہ بولا۔’’تمہارے چچا تمہیں یا دکر رہے ہیں، دلی کی تیاری پکڑو۔‘‘
قندھار سے نکلتے ہوئے اسے نہ سفر کی طوالت اور نہ اس کی مشکلات کا اندازہ تھا۔ چھوٹاسا قافلہ دن کو درختوں کے سایوں میں آرام کرتا اور رات کو چلتا کہ یہ گرمی کے دن تھے۔لاہور پہنچتے پہنچتے اس کی کمر پتھر کی سل بن گئی لیکن فرغانہ کی آنکھوں میں جھلملاتے ستارے۔۔۔۔!
یہ ابھی لاہور تھا اور دلی۔۔۔۔
’’کتنا فاصلہ اور ہے؟‘‘اس نے اپنے ساتھی سے پوچھا۔وہ ہنسنے لگا۔’’لگتا ہے بہت تھک گئے ہو‘‘
لاہور سے دلی۔۔۔لیکن اب تو جہاز رن وے سے اوپر اٹھ کر ابھی سیدھا ہی ہواتھا کہ دہلی آگیا۔
آغا قلی خان اسے دیکھ کر چونکا۔
’’ہاں میں نے ہی بلا یا تھا مگر۔۔۔‘‘
’’مگر کیا۔۔۔۔‘‘اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’سمجھ میں۔۔۔۔جاؤ پہلے سفر کا اسباب کھولو،کھانا کھاتے ہوئے باتیں کریں گے۔‘‘
وہ گھر کے اندرونی حصہ میں جانے کے ئے بے چین تھا لیکن آغا قلی خان اسے مردانہ حصہ ہی میں لئے جار ہے تھا۔
کھانا مردانہ حصہ میں کھایا گیا۔وہاں دوسرے لوگ بھی تھے اور ان کے انداز گفتگو سے معلوم ہو رہا تھا کہ آغا قلی کو کوئی خاص حیثیت حاصل ہے۔ اسے سب کچھ مصنوعی سا لگ رہا تھا۔بار بار فرغانہ کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتا تھا لیکن آغا قلی خان ادھر آتا ہی نہیں تھا۔بڑے رکھ رکھاؤ سے اسے سونے کے کمرے میں پہنچایا گیا۔آغا قلی خا ن نے کہا۔۔۔’’باقی باتیں ناشتہ پر ہوں گی۔‘‘
سفر کی تھکاوٹ فرغانہ کی غلافی گلابی آنکھوں پر حاوی ہو گئی صبح آنکھ کھلی تو باغ میں پرندے چہچہا رہے تھے۔
ناشتہ پر چچا کے علاوہ اور کوئی نہ تھا۔
اس نے پوچھا۔۔۔’’فرغانہ کہاں ہے، کیسی ہے؟‘‘
چچا کچھ دیر چپ رہا پھر دھیمی لرزتی آواز میں بولا۔۔۔’’جب میں نے تمہیں پیغام بھیجا تو صورت حال کچھ اور تھی لیکن قندھار سے دلی ایک دن میں تو نہیں پہنچا جا سکتا۔‘‘
وہ چپ ہو گیا۔ایک عجیب تکلیف دہ خاموشی ان کے درمیان پاؤں پسارکے بیٹھ گئی۔
کچھ دیر بعد چچانے گہری سانس لی اور کہنے لگا۔۔۔‘اس دوران ایک دن بادشاہ کی نظر فرغانہ پرپڑ گئی او ربادشاہ تو صرف خواہش کا اظہار کرتا ہے۔‘‘
پرندوں کی چہچہار یک دم بند ہوگئی۔یوں لگا گلابی آنکھوں اور سرمئی آنکھوں والی صبح کا کھلتا رتھ درمیان میں کہیں رک گیا ہے۔۔چچا ناشتہ ادھورا چھوڑ کر اٹھ گیا۔
قندھار۔لاہور۔۔۔۔۔دلی!
جھٹکے سے آنکھ کھل گئی۔کوچ ہوٹل کی پارکنگ میں داخل ہو رہی تھی اور ان کے میزبان ہار لئے پورچ میں ان کے منتظر تھے۔
پروگرام کے مطابق اسے صبح سویرے دہلی سے نکل کر علی گڑھ جانا تھا واپسی کی بھی یہی صورت تھی۔۔اس کے پاس بس یہ رات ہی تھی ۔کھانا کھائے بغیر، وہ ہوٹل سے نکلا اور رکشا پکڑ کر جامع مسجد کی سیڑھیوں پر جا اترا۔جامع مسجد گھٹنوں کے بل بیٹھی اورنگھ رہی تھی۔شروع کی چند سیڑھیوں پر میونسپل کمیٹی کے کھمبوں کی نحیف سی روشنی سسکیاں بھر رہی تھی، وہ اوپر مسجد پر کھڑا رہا، کبھی اوپر دیکھتا ، کبھی نیچے چھوڑی سڑک کو جہاں اکا دکا رکشا آجا رہا تھا۔کچھ سوچا۔۔۔اور اوپر چڑھنے لگا، دفعتاً ساری فضا روشن ہو گئی۔مسجد جاگ اٹھی ، سیڑھیوں پر اترتے چڑھتے لوگوں کا شور، سامان بیچنے والوں کی آوازیں ، ایک طرف چھوٹے سے مجمع سے خطاب کرتے مقرر کی آواز ۔۔قدم قدم بھرتا اوپر پہنچا تو دائیں طرف قلعہ کی لمبی دیوار اور چوب دار کی آواز ۔۔۔نقارے پر تھاپ پڑی۔
فرغانہ نے ریشمی تکیے سے سر اٹھایا، لمبے بالوں کو سیدھا کر کے، پشت پر ڈال کر باندھا، بستر کی گرمی، شہنشاہ کے ابھی ابھی جانے کی خبر دے رہی تھی، قلعہ کے اندر سے مسجد نظر نہیں آتی لیکن وہ اوپر کی سیڑھی پر ، بڑے دروازے سے ذراہٹ کر ٹھنڈے فرش پر اکڑوں بیٹھا مسلسل قلعہ کی دیواروں کو دیکھے جا رہا تھا۔
فرغانہ کی کنیز یں اسے غسل دینے کے لئے آ گئی تھیں، ان کے جلو میں وہ نیم گرم تالا ب کی سمت بڑھی جس کے شفاف پانی میں خوشبو بکھیر دی گئی تھی۔ لمبافرغل اتار کر جب وہ تالاب میں اتری تو لگا بجلی کا کوندا چمک گیا۔
برسوں پہلے قندھار کے تالاب میں جو اُن کے گھر کے بائیں باغ میں گھنے درختوں سے گھرا ہوا تھا، وہ اسی طرح بجلی کی لہر بنی تالاب میں اتر رہی تھی کہ وہ کہیں سے سامنے آگیا۔فرغانہ چیخ مار کر تالاب میں کود پڑی تھی۔وہ کنارے بیٹھ گیا۔
شہنشاہ کے آتے ہی کنیز یں ہٹ گئیں۔شہشاہ نے اپنا ہاتھ تالاب میں ڈال کر اسے پکڑنے کی کوشش کی ، وہ مسکراتے ہوئے دور ہٹ گئی۔کھردرے ٹھنڈے فرش پر ،قلعہ کی دیوار کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے ہوئے ،وہ نہ جان سکا کہ اس مسکراہٹ میں بے بسی تھی یا اطمینان۔
رات گئے جب وہ لوٹا تو میزبان پریشانی کے عالم میں اسے تلاش کرتے پھر رہے تھے۔رات عجب تذبذب میں گزری ، ویران اداس سیڑھیوں تک پہنچا، جونہی پہلا قدم رکھا سیڑھیاں جاگ اُٹھیں۔۔جامع مسجد اس کی تاریخ تھی، جس کی کلکاریاں،دور ماضی میں کہیں دم توڑ گئی تھیں اور یہ جدید شہر جو اسی کی روایات کا امین تھا اب کتنا اجنبی ہو گیا تھا۔اجنبی تو یہ شہر اس وقت بھی نہیں تھا جب اسی شہر میں اس کا سب کچھ لٹ گیا تھا۔ چچا نظریں چراتے تھے، اکثر کھانے پروہ کوئی بہانہ بنا کر ادھر اُدھر ہو جاتے لیکن خادموں کو حکم تھاکہ اس کا ہر طرح خیال رکھیں، چراغ علی،قندھار سے ان کے ساتھ آیا تھا ، فرغانہ اور اس کے سارے معاملات سے واقف تھا، اس کی کیفیت دیکھ کر ٹوٹ ٹوٹ جاتا، ایک دن کہنے لگا۔۔’’آقا!چلیں آپ کو نظام الدین لے چلوں، وہاں کی برکت آپ کو ضرور سکون دے گی۔‘‘
نظام الدین شہر کے والی تھے جس طرح داتا صاحب لاہور کے رکھوالے تھے۔دلی آتے ہوئے وہ سلام کرنے داتا صاحب گیا تھا۔ ایک عجب بات ہوئی۔
وہ دعا مانگ رہا تھا کہ ایک ملنگ اس کے قریب آیا ، چند لمحے غور سے اسے دیکھتا رہا، پھر جیسے خود ہی بات کر رہا ہو بولا۔۔۔لُٹ تو سب کچھ گیا ہے لیکن کوئی اور بھی تو منتظر ہے۔‘‘
جلدی سے دعا پڑھ کر ، دائیں بائیں دیکھا، ملنگ جیسے ہوا میں تحلیل ہو گیا تھا۔
دلی آکر معلوم ہواتھا کہ سب کچھ لٹ چکا ہے اوراب نظام الدین کے احاطہ میں قدم رکھتے ہوئے یک لخت سکون آ گیا۔دروازے سے ایک بادشاہ جا رہا تھا اور ایک آ رہا تھا۔۔۔یا شیخ یہ عروج و زوال کیا ہے؟دن روشنی ہے تو رات تاریکی لیکن روشنی اور تاریکی تو ایک ہی ہیں۔ نقطہ ، دائرے کا مرکز ہے لیکن دائرے کا قیدی،دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ہوئے اسے داتا صاحب کے ملنگ کی بات یاد آئی۔۔۔کون میرا منتظر ہے؟
دعا مانگ کروہ سنگ مر مر کے ٹھنڈے فرش پر بیٹھ گیا اک عجب لذت کا احساس ہوا۔
چراغ علی مسلسل اسے دیکھے جا رہاتھا۔
اے شہر کے رکھوالے ! ایک بھٹکی ہوئی بھیڑ اپنے ریوڑ کی تلاش میں ہے، اسے بشارت دو۔
پھر ایک عجیب بات ہوئی، ایک درویش رقص کرتا بڑے دروازے سے اندر داخل ہوا، رقص کرتے کرتے اس کے قریب آیا، رکا، غور سے دیکھا ، بولا۔۔’’اک شخص نہیں‘‘ اور رقص کرتے کرتے دوسری طرف نکل گیا۔
چراغ علی اسے چاندنی چوک کی طرف لے گیا۔ شام ہو چکی تھی لیکن لوگوں کا ہجوم اسی طرح تھا۔دونوں خاموشی سے چلتے رہے چراغ علی نے کھانس کر گلا صاف کیا پھر بولا۔۔’’زرغونہ کہتی تھی آغا سے کہو پریشان نہ رہا کریں۔‘‘
زرغونہ ، فرغانہ کی چھوٹی بہن تھی۔
اس رات خوابوں کے دھند لکوں میں منظر عجیب طور بدلتے مٹتے رہے۔
اگلے چند دن زرغونہ، فرغانہ اور ۔۔۔فرغانہ، زرغونہ کے ایک دوسرے میں مدغم ہونے ، ابھرنے ، علیحدہ علیحدہ ہونے کی کشمکش میں گزرے۔ چچا کا رویہ ضرورت سے زیادہ مشفقانہ ہو گیا۔دستر خوان پر ان کی پرانی جملہ بازی لوٹ آئی۔۔پھر سب کچھ خواب سی کیفیت میں ہوا۔زرغونہ سے شادی کے تیسرے دن وہ سلام کرنے نظام الدین آئے۔
فضا میں موسیقی کی تانیں بکھری ہوئی تھیں اور قوال کی آواز چاروں طرف گونج رہی تھی۔
اے خواجہ۔۔۔اے خواجہ!
کانفرنس کے آخری روز کچھ تھکاوٹ ، کچھ بے زاری کی وجہ سے اسے بخا ر ہو گیا ۔ علی گڑھ سے دہلی کا سفر سوتے جاگتے گزرا۔شام کو طبیعت ذرا سنبھلی تو خیال آیا کہ دہلی آکر نظام الدین نہ گیا، تو دہلی آنے کا کیا فائدہ۔
رکشہ نے بڑی سڑک پر اتار دیا، چھوٹی سڑک پر آتے ہی احساس ہوا جیسے بڑے شہر سے نکل کر چھوٹے سے قصبے میں آگیا ہے۔نظام الدین سے پہلے اب غالب کا مزار تھاجہاں مرزا اپنے کنبے کے ساتھ لیٹے سارے شہر ، ساری دنیا پر جملے کس رہے تھے۔فاتحہ پڑھ کر وہ غالبؔ کے پاؤں میں بیٹھ گیا۔اے عاشقوں کے عاشق، کچھ مجھے بھی عطا کر۔‘‘
دو گلیاں آگے نظام الدین تھا، بڑے دروازے سے اندر آیا تو سامنے امیر خسرو تھے، انہوں نے اس کی انگلی پکڑی اور حضرت کے مرقد پر لے گئے۔تا دیر دونوں چپ کھڑے رہے پھر کہیں سے تان ابھری
گوری سوئے سیج پر، مکھ پر ڈارے کیس
چل خسرو گھر آپنے سانجھ پئی چوندیس
فضا میں عجب سی اداسی تھی۔
وہ دن کہاں گئے جب یہاں ایک ہجوم ہوتا تھا۔جامع مسجد ، چاندنی چوک، نظا م الدین ، یہ سب میری تاریخ ہیں اور قلعہ ۔۔لیکن قلعہ شاید میری نہیں فرغانہ کی تاریخ کا قصہ ہے۔۔جامع مسجد کی سیڑھیوں سے قلعہ کا منظر بڑا خون آلود ہے!
دوسرے دن ……کو واپسی تھی۔۔۔صبح سویرے اس نے قطب صاحب کی راہ لی، وہاں سیاحوں کا ہجوم تھا، ملک ملک کے لوگ اور وہ ۔۔۔۔جس کی یہ بھی ایک تاریخ تھی۔
میری تاریخ میرے جغرافیہ کی وجہ سے تھی، جغرافیہ ہی نہ رہا تو تاریخ کے کیا معنی، ایک مردہ روایت۔
دہلی سے لاہور پینتالیس منٹ کا سفر تھا جو جہاز میں چائے کے آتے اور پیتے گزر گیا۔
لاہور کے ہوائی اڈہ پر اترتے ہوئے اس کا ذہن قندھار ، لاہور اور دہلی کے درمیان سفر کرنے لگا،درویش کہاں بسیرا ہوا۔کہاں کہاں کی خاک چھان کر دلی پہنچا۔۔۔اے خاک بکھر کر بھی تو ،تو خاک ہی رہتی ہے اور ختم نہیں ہوتی۔بس اڑتی رہتی ہے۔
خاک قندھار سے اڑی ، لاہور کو چھوتی دلی پہنچی، یہ جغرافیہ کا سفر تھا، اور تاریخ تو میں خود ہوں۔ ہوائی اڈہ کی ضروریات سے فارغ ہو کر وہ جب لاؤنج سے گزر رہا تھا تو نظر ٹی وی پر پڑی،سلائیڈ چل رہی تھی۔ ۔۔ قندھار پر امریکی طیاروں کی شدید بمباری۔۔۔
اس نے گھبرا کر دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ لئے بیگ نیچے جا پڑا۔۔قندھار، لاہور، دلی سب ملبے کا ڈھیر بن گئے۔
اور وہ تن تنہا اپنے ہی ملبہ پر کھڑا اپنا جغرافیہ ڈھونڈ رہا ہے۔
٭٭٭
راولپنڈی میں بھی ہر جمعہ کو حلقہ ارباب ذوق کی نشستیں ہوا کرتی تھیں(شاید اب بھی ہوتی ہیں)میں
بھی کسی کسی جمعہ کو چلا جایا کرتا تھا۔وہاں ان ادیبوں سے تعارف تو ہوا مگر سوائے رشید امجد کے اور کسی سے
خاص قربت حاصل نہ ہو سکی۔۔۔۔رشید امجد نے نئے افسانے کو جن نئی جہتوں سے آشنا کیا ہے ان میں
سب سے قابل ذکر طرز اظہار کی ایک شگفتہ پیچیدگی ہے جس کے پیچھے تخلیقی کشمکش کی ایک پوری دنیا آباد ہے
اردو ادب کے لیے انہوں نے ایک بڑا کام یہ کیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ہم عصر ادیبوں کے مضامین،افسانے
اورڈرامے جمع کرکے کتابی صورت میں چھ جلدوں میں شائع کیے ہیں۔پاکستانی ادب کا انتخاب’’پاکستانی
ادب ۴۷ء سے ۸۵ء تک‘‘۔
( یاد خزانہ از جمیل زبیری صفحہ نمبر۲۹۶اور ۲۹۹)