ڈاکٹر ناہید قمر(اسلام آباد)
رشید امجد کی افسانہ نگاری کا آغاز اس وقت ہوا جب اردو افسانہ حقیقت نگاری کے ٹھہرے ہوئے پانیوں سے آگے نکل کر نئی تحریکوں اور سوالات کی شکل میں فکر کے نئے سر چشمے تلاش کررہا تھا اور سیاسی و سماجی منظر نامہ تبدیل ہونے کے بعد بیانیہ کی پرانی روایت سے آزاد ہونے کی کوشش میں تھا۔ یہ کوشش دراصل اپنے عصر کی منقلب صورت حال کو اس کے ظاہری و باطنی نوکدار زاویوں سمیت گرفت میں لانے کے لئے نئے استعاروں اور علامتوں کی تلاش تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جدید افسانے کی بنیادیں مستحکم کرنے میں رشید امجد کے نام اور کام کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
مہدی جعفر، رشید امجد کے فنی تخصیص کے حوالے سے اپنے مضمون ’’رشید امجد کی کائنات‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’رشید امجد کا افسانوی میدان شہری ، واردات عصری، محسوسات، زخمی، سوچ تفکیری ،لہجہ شعری اور اظہار علامت رہا ہے۔ان کی توجہ عصری افسانوی ساخت پر مرکوز ہے۔ ان کی کوشش رہی ہے کہ معنوی حیثیت سے وہ عناصر جہت پا جائیں جو موجود تو ہوں مگر گرفت میں نہ آسکے ہوں، جنہیں لکھا تو جاتا ہو مگر ابھارانہ گیا ہو،جنہیں سمیٹ کر لفظ تو دیا جاتا ہو مگر گھیر کر شکل نہ دی جاتی ہو، جن کی کہانی تو کہی گئی ہو، علامتی صورت گری نہ کی گئی ہو۔‘‘(۱)
رشید امجد کے افسانے کہانی کے روایتی تصور سے گریز کی ایک واضح صورت رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کے ہاں موضوعات، تکنیک اور فکری سطح پر ایک نیا اسلوب بیان متشکل ہوتا ہے جس کے کوائف میں علامت ، استعارہ، تجرید اور تمثیل سب شامل ہیں اور ان کے موضوعات میں فرد کی اجنبیت، معاشرتی بے چہرگی اور تنہائی اہم ہیں،جو در حقیقت ان کے فکری نظام کے نیوکلیس یعنی عدم تشخص کی ہی مختلف صورتیں ہیں۔ یہ موضوع ان کے افسانوں میں پہچان کی گم شدگی، بے معنویت، بٹی ہوئی شخصیت ، وجود و عدم وجود، انفرادی ،اجتماعی اور کائناتی شناخت جیسے مختلف زاویوں سے بار بار سامنے آتا ہے۔ اس اعتبار سے رشید امجد کی کہانیاں صرف زمینی وارداتوں یا حکایات تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان کے موضوعات زندگی اور کائنات کے آفاقی سوالوں سے متعلق ہیں اور ان میں بات انفرادی تشخص سے اجتماعی شعور اور پھر کائناتی صداقتوں تک پہنچتی ہے۔ ان کے افسانوں میں ’ میں‘ایک ذات بھی ہے اور ایک اجتماعی شخصیت کا حصہ بھی اور اس فرد کے سوالات ذات، معاشرہ اور عصر کے حوالے سے وقت، کائنات اور تخلیق کے مسائل کی تفہیم کے راستے کھولتے ہیں۔ ان کے دو افسانوں ’چپ صحرا، اور ’جاگنے کو ملا دیوے آکے خواب کے ساتھ‘ کے دو اقتباسات یہاں درج کیے جا ر ہے ہیں جو ا ن کے فکری رویوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
۱۔ ’’کس زمین سے میرے سفر کا اغاز ہوا تھا اور یہ جو کبھی کبھی غوطہ لگا کر لمحہ بھر کے لیے کسی اور جہان میں پہنچ جاتا ہوں، یہ کیا زمانوں سے ماورا کسی پر اسرار ماضی کی کشش ہے یا کہیں آگے نکل جانے کی خواہش ،میرا سفر تو ایک دائرے ، ایک زمان کا پابند ہے۔‘‘(۲)(جاگنے کو ملا دیوے آ کے خواب کے ساتھ)
۲۔ ’’صورت یہ ہے کہ گھڑیاں مسلسل آگے کی طرف دوڑ رہی ہیں اور ہم صدی صدی پیچھے چلے جارہے ہیں۔ چند دنوں میں ہم پتھر کے زمانے میں داخل ہو جائیں گے۔‘‘(۳)(چپ صحرا)
دونوں اقتباسات ، وقت کی ماہیت پر غور کرنے کا ایک زاویہ سامنے لاتے ہیں کہ انسانی زندگی میں وقت کی حیثیت ایک جبر کی ہے اور انسان ازل سے اس جبر سے آزاد ہونے کی خواہش رکھتا ہے مگر نہ تو وہ وقت کا رخ بدل کر ماضی یا مستقبل کا مشاہدہ کر سکا ہے اور نہ ہی اس کی قید سے باہر نکل پایا ہے۔خواہ اس کے لئے اس نے وقت کے خطی، دائروی یا Springularکسی بھی تصور میں پناہ لی ہو، وقت اس کی دسترس سے ماورا ہی رہا ہے۔ اس نارسائی کامداوا انسان اپنے ذہنی تحرک سے کرنے کی کوشش کرتاہے اور یوں تخیل میں وقت اس کے لیے جبر سے ایک قدسر میں بدل جاتاہے جسے وہ اپنی سہولت سے کوئی بھی شکل دے سکتاہے۔
شمیم حنفی، رشید امجد کی افسانہ نگاری کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
’’رشید امجد کی کہانیوں سے ایک ساتھ کئی چہرے جھانکتے ہیں……رشید امجد کے زمان و مکان کا چہرہ ، خود رشید امجد کا چہرہ اور پھر کہانی کا چہرہ۔ان میں کوئی بھی کسی کے ہاتھوں خراب نہیں ہوتا۔‘‘(۴)
رشید امجد کے افسانوں میں وقت کے روایتی تصور سے گریز کرتے ہوئے زمانی تحرک کو بھی تجربے کا حصہ بنایا گیا ہے، جہاں کردار بیک وقت دو سطحوں پر متحرک نظر آتے ہیں جن میں سے ایک زمانہ حال ہے اور اس ے متوازی زمان کی ایک اور لہر بھی ساتھ چلتی نظر آتی ہے ۔ رشید امجد کا افسانہ’سمندر قطرہ سمندر‘اس رویے کی عمدہ مثال ہے جس میں کردار بس میں سفر کرنے کے ساتھ ساتھ صدیوں پہلے کے ایک سفر کی بازیافت کرتا ہے اور دونوں سفر ایک دوسرے میں پیوست ہو کر اپنی اپنی معنویت واضح کرتے ہیں۔ اس نکتے کی وضاحت کے لیے افسانے سے ایک اقتباس یہاں در ج کیا جا رہاہے۔
’’میرا وجود ساری بس پر چھا جا تا ہے۔ بس کے اندر کی ہر چیز اس میں سمٹ جاتی ہے۔ اب میں سڑک پر دوڑ رہا ہوں ۔ کٹے پھٹے زخمی میدان تیزی سے پیچھے رہ رہے ہیں۔ چاروں اور دور دور تک زمین بنجر اورویران ہے۔ اکادکا درخت بھی نظر آرہے ہیں۔ میرا وجود اب سڑک کی گرفت سے نکلنے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے لیکن دونوں کنارے مجھے مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں۔ میں کناروں کے ساتھ ساتھ کئی میل تک دوڑتا چلا جا رہا ہوں، دفعتہ ایک طرف کا کنارہ کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے،میں سمٹ کر جلدی سے اس کی راہ سے باہر نکل جاتا ہوں اور تیزی سے پھیلنے لگتا ہوں۔ اب کوئی حد بندی نہیں۔ میں پورے میدان پر چھا رہاہوں۔چٹیل پن ختم ہو رہاہے اور اس کی جگہ گھنا لہلہاتا جنگل ابھر رہا ہے۔میرا وجود پھر سمٹنے لگتاہے۔ــ‘‘(۵)
وقت کی کلیت کا یہ تصور جو ان کے افسانوں میں ابھرتا ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے رشید امجد اپنے ایک انٹرویومیں کہتے ہیں۔
’’میرے یہاں وقت کا تصور ماضی، حال یا مستقبل کے کسی ایک نقطے تک محدود نہیں۔ میں ماضی کو حال کے لمحہ موجود سے ملا کر مستقبل کی طرف سفر کرتے ہوئے وقت کی قید سے آزاد ہونا چاہتا ہوں۔ ’دریا‘ میرے یہاں ایک خاص استعارہ ہے جو بہتے ہوئے وقت کی تصویر بناتا ہے۔اس میں ماضی و حال اور مستقبل ایک ہو جاتے ہیں۔ میرے پاس وقت کا تصور زمانی تقسیم کے بغیر ہے۔‘‘(۶)
یہ نکتہ پیچھے زیر بحث لایا جا چکا ہے کہ رشیدامجد کے افسانوں میں ’وقت ‘ محض ایک تصور یا نظری بحث کے طور پر نہیں آیا بلکہ زمانی و مکانی تحرک کا وسیلہ بھی بنتا ہے۔ رشید امجد خود اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’میرے افسانوں کا مرکزی کردار بیک وقت کئی زمانوں میں سانس لے رہاہے اور وہ حال کے لمحہ پر کھڑا یک ہی جست میں کبھی ماضی اور کبھی مستقبل میں اتر جاتا ہے لیکن پڑھنے والے کو زمانی جھٹکا نہیں لگتا۔‘‘(۸)
یہاں زمانی جھٹکا نہ لگنے سے مراد وہ ہو سکتی ہے جس کا حوالہ E-M-Forsterنے اپنی تصنیف Aspects of the Novelمیں دیا ہے۔
“Daily life, whatever it may be really, is practically composed of two lives – the life in time and the life by values – and our conduct reveals a double allegiance.”(9)
رشیدامجد کے افسانوں میں بھی درحقیقت زندگی کی یہ دونوں سطحیں موجود ہیں مگر اس حقیقت کے شعور کے ساتھ کہ وقت اور اقدار دونوں میں بیک وقت زندہ رہنے کا مطلب زندگی کو اجزاء میں نہیں بلکہ ’کُل‘میں جینا ہے کیونکہ یہ دونوں سطحیں ایک دوسرے سے داخلی طور پر پیوست ہیں۔
رشید امجد کے افسانوں میں فرد کے ذاتی ماضی اور اجتماعی ماضی سے بیک وقت ایک تعلق کا احساس موجود ہے۔ وہ ماضی اور حال کو یکساں طور پر حیطہ ء ادراک میں لاتے ہیں اس لئے ان کا افسانہ اپنے ظاہری الجھاؤ کے باوجود وقت کے گذشتہ اور موجود کو ایک رشتے میں پرو دیتاہے۔اس اسلوب میں خواب، حافظہ، یاد اور واہمہ سب ایک ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف ان کے ہاں ایک ایسے انسان کی داخلی سر گزشت بھی ساتھ ساتھ چلتی نظرآتی ہے جو اپنے آپ کو دریافت کرنا چاہتاہے مگر یہ سمجھتا ہے کہ اس مقصدکا حصول ماضی کی نفی کیے بغیر ممکن نہیں۔ ان کے افسانوں’’چپ فضا میں تیز خوشبو‘ اور ’بے ثمر عذاب‘ کے درج ذیل اقتباسات اس ضمن میں قابل توجہ ہیں۔
۱۔ ’’کبھی لمحے ایک دوسرے سے اس طرح ملے ہوئے تھے کہ ان میں چھپے زمانوں کے دریچے پلک جھپکنے میں تلاش ہو جاتے تھے۔ ایک دریچے کو کھول کر چپکے سے دوسرے دریچے میں سے ہوتے ہوئے کسی دوسرے زمانے میں داخل ہو کر سب کچھ بھول جاتا تھا لیکن اب لمحے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نہیں تھے، لگتا تھا کہ ان کے درمیان کئی کئی شگاف پڑ گئے ہیں‘‘(۱۰) (دھند)
۲۔ ’’چیزیں آتی رہتی ہیں، کائنات کا سلسلہ بھی عجیب ہے ،چیزیں جنم لیتی ہیں اور پھر کسی بلیک ہول میں گم ہو جاتی ہیں۔ہر روشنی کے پیچھے ایک بلیک ہول ہے۔ ہر سانس بھی ایک بلیک ہول ہے کہ ہر سانس کے پیچھے موت کی دستک ہے، چھوٹی چھوٹی دستکیں اور پھر ایک لمبی اونچی دستک ، وقت بھی ایک بلیک ہول ہے جو بالآخر ہر شے کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔‘‘(۱۱) (چپ فضا میں تیز خوشبو)
۳۔ ’’میری عمر معلوم نہیں۔ عمر دس ہزار سال بھی ہو سکتی ہے ، پانچ ہزار بھی ایک ہزار بھی……اور ایک لمحہ بھی۔‘‘(۱۲) (بے ثمر عذاب)
اعجاز راہی، رشید امجد کی اس فکری جہت کے حوالے سے اپنے مضمون ،جیلانی کامران سے مکالمہ،میں لکھتے ہیں۔
’’وہ اپنے افسانوں میں انسانی تضادات کے مسئلے کو نئی وحدت ، نئی جہت بلکہ نئے انسان کی تخلیق کے تناظر میں دیکھتا ہے۔‘‘(۱۳)
رشید امجد کے افسانوں میں بے نام کردار کثرت سے نظر آتے ہیں جس سے ان کی حیثیت علامتی ہو جاتی ہے ۔ بے نام اور بے چہر ہ کردار کو انہوں نے اپنے عہد کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے جس کا اس کی روح ، اس کے اصل سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔ اس مشینی دور میں فرد کی شخصی پہچان غائب ہو چکی ہے اور اگر کوئی پہچان ہے بھی تو وہ گروہی حوالوں سے متعین ہو رہی ہے۔ بے نام اوربے چہرہ کردار اسی صورت حال کی نشان دہی کرتے ہیں اور رشید امجد نے سیاسی و سماجی مسائل کو براہ راست پیش کرنے کے بجائے انفرادی رویوں کی صورت میں پیش کیا ہے۔ اس اعتبار سے ان کہانیوں کے کردار اپنے چہرے اور شناخت کی تلاش میں ہیں۔ یہ نقش اوّل بھی ہو سکتاہے اور نقش ثانی The otherبھی۔ ان کے افسانوں ’نارسائی کی مٹھیوں میں‘ اور ’ڈوبتے جسم کا ہاتھ‘ میں یہ کیفیت نمایاں ہے۔
۱۔’’اس کی یادداشت کی چڑیا صدیوں کے گنجلک چہرے پر پھیلی ہوئی پہچان کو بہت دیر سے دانہ دانہ چگ رہی تھی لیکن جب بہت دیر کے بعد بھی بنجر شباہتوں کی گود سے یاد کے ہمکتے بچے نے سر نہ اٹھایا تو اس کے دل میں سر سراتی خوشی مرجھاہٹ کی کھردری مٹھیوں میں پھڑ پھڑاکر ر ہ گئی۔‘‘(۱۴) (نارسائی کی مٹھیوں میں )
۲۔ ’’سرمئی رنگ کے دائرے میں ہم دو ہیں۔ایک وہ جو تیز کلہاڑا لیے میرے پیچھے پیچھے آرہا ہے اور دوسرا جو کلہاڑے کے ہر وار پر اپنے جسم کا ایک ٹکڑا اس کے حوالے کرتاہے۔اس دائرے میں صرف وہی جاگتا ہے کہ اس کے تیز کلہاڑے کی چمک، رنگت کے سرمئی پن کی خالق ہے اور میں سوتا ہوں کہ میرے لئے جاگنے کے لمحے صرف دو ہیں۔ جب میں اس کی امانت اسے لوٹا تا ہوں۔ وہ کہتا ہے جب سے میں نے سالوں کا قرض لیا ہے وہ میرے ساتھ ہے لیکن میری پہچان کے دھندلکے اس موڑ پر آ کر میرا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں جہاں اس نے مجھ پر پہلا وار کیا تھا۔‘‘ (۱۵) (ڈوبتے جسم کا ہاتھ)
یہ افسانے ساٹھ اور ستر کی دہائی کے سیاسی و سماجی تناظر میں عدم تشخص اور بٹی ہوئی شخصیت کا مسئلہ ہمارے سامنے لاتے ہیں اور یہ حقیقت کھلتی ہے کہ تاریخ کے جبر سے انسان کا شعوری عمل مستثنیٰ نہیں ہے۔
رشید امجد اپنے افسانوں کے بے چہرہ کرداروں کے حوالے سے اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں۔
’’سایہ درا صل جسم ہی کا ایک علامتی اظہار ہے۔ بے نام کردارا ور بے چہرہ آدمی بھی اسی ہجوم کا ایک حصہ ہے جو خود بے شناخت ہو ا جا رہا ہے ۔ ہمارا عہد ایک بڑے زوال کے تسلسل میں ہے اور زوال میں چیزیں بے چہر ہ اور بے شناخت ہو ہی جاتی ہیں۔‘‘(۱۶)
عدم تشخص کے اس المیے کی ایک صورت فرد کی تنہائی بھی ہے جو طبقاتی، معاشرتی، سیاسی، تاریخی کسی بھی جبر کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ رشید امجد کے افسانوں میں فرد کی تنہائی انسان کی ازلی روحانی تنہائی کا عکس لیے ہوئے ہے۔یوں بے چہرگی،بے معنویت اور شناخت کی گم شدگی کی یہ صورت حال ان افسانوں میں دکھائی دینے والے عہد کو عہدِ افسوس بنا کر سامنے لاتی ہے جہاں انسان اپنی پہچان گنوا دینے کے بعد اسے اپنے اندر اور باہر تلاش کر رہا ہے مگر پہچان کا سرا ہاتھ نہیں آتا۔ معدومیت کا یہ سفر چہروں اور ناموں کی گم شدگی سے موت تک آپہنچا ہے اور فنا ، وقت اور تاریخ کے جبر کی صورت میں افراد سے تہذیبوں تک سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہے۔ اس تناظر میں ’قبر‘ کا استعارہ رشید امجد کے افسانوں کی معنوی دبازت میں اضافہ کرتا نظر آتا ہے۔
’’وہ جو قبر کے گردا گرد گھیرا ڈالے اسے باہر نکل آنے اور اسے ان کی پسند کا نام ، شخصیت اور ماحول اختیار کر کے ان کی مرضی بن جانے کا کہہ رہے ہیں اور وہ قبر کے اندر چت لیٹا دوسروں کی مرضی کے مطابق بن جانے سے انکاری ہے۔ ان سب کے ارد گرد موجود اور ناموجودگی کی سرمئی دھند میں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے وقت اور موسم اس سارے تماشے کو دیکھ دیکھ کر ہنس رہے ہیں۔‘‘(۱۷) (بے راستوں کا ذائقہ)
یہاں موت اور قبر کا استعارہ ، زندگی کی مسخ شدہ صورت کو واضح کرنے کے لیے آیا ہے۔ تقریباًانہی میں جن میں مجید امجد نے کہا تھا۔
’’موت کتنی تیرہ و تاریک ہے
ہو گی لیکن مجھ کو اس کا غم نہیں
قبر کے اندھے گڑھے کے اس طرف
اس طرف باہر اندھیرا کم نہیں۔‘‘(۱۸)
افسانے کے مندرجہ بالا اقتباس میں’وقت‘کے بے رحم بہاؤ کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے جو انسانی رویوں اور محسوسات سے بے نیاز ہے۔
احمد جاوید اپنے مضمون ’رشید امجد کا فنی سفر‘میں لکھتے ہیں۔
’’رشید امجد کا فن جامد نہیں بلکہ ارتقاء پذیر ہے۔ ابتدا میں تو اس نے زندگی کو اس کی خارجی حقیقتوں کے ساتھ بیان کیا تھا۔’بیزار آدم کے بیٹے‘ اور ’ریت پر گرفت‘اس کے اسلوب کی پہچان بنے۔’سہ پہر کی خزاں سے اس کے میلانات اور موضوعات کا باقاعدہ تعین ہوا مگر اب ایک اور مرحلہ اس کے مجموعے’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے ‘ سے آغاز ہوتا ہے اور اب وہ اپنے بکھرے ہوئے وجود کو مجتمع کرنے کی فکر میں مبتلا دکھائی دیتاہے۔خواب یادیں اور کشف اب اسے اپنے ساتھ لے کر چلنے لگے ہیں۔‘‘(۱۹)
رشید امجدکے افسانوں میں خواب، حافظہ اور تخیل مل کر ہی شے کو علامت کی شکل دیتے نظر آتے ہیں، انہی علامتوں میں سے ایک علامت ’وقت‘ ہے ۔ سائنس کہتی ہے کہ حافظہ ساریOrganic life میں موجود ہے، کہیں کم ، کہیں زیادہ۔ یعنی وقت ماضی، حال اور مستقبل کے نقوش ہر شے پر بناتا رہا ہے۔یہ اس حقیقت کی بھی دلیل ہے کہ ’وقت‘ زندگی کے ساتھ ہی وجود میں آیا۔ کانٹ نے کہا تھا کہ خارج میں ہونے والا تجربہ ہمیں مکان کا پتہ دیتا ہے اور ہماراباطن کا تجربہ زمان کی خبر دیتاہے۔یعنی ہمارے خارجی تجربات ہمیں Spaceکی نوعیت بتاتے ہیں اور اپنے باطن میں، خیالات و احساسات میں ہم جو کچھ بنتے بگڑتے رہتے ہیں وہ Timeکا پتہ دیتا ہے۔ یہی انسان کی دنیا ہے۔ زمان و مکان میں بند ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ انسان کا ’وقت ‘موجود ہوتے ہوئے بھی ’مجرد‘ہے۔ اس لیے وہ اسے تخئیل اور علامت سے فہم کے دائرے میں لانے کی کوشش کرتاہے۔ وہ اپنے ذہن پر نقش ماضی کی تصویر سے ایک نیا عکس بناتا ہے اور جس زمانے ، جس لمحے میں وہ واقعہ ہواوہ زمانہ اور وہ مقام علامتی بن جاتاہے۔رشید امجد کے افسانوں میں یہی حافظ وقت کے جبر کی علامت ہے۔
’’ہرپچھتاوے کے بعد جی چاہتا ہے کہ وقت کی قبر سے کسی ایک لمحے کو اٹھا کر واپس اپنی جگہ رکھا جائے اور دوبارہ سے سمت یا فیصلے کا تعین کیا جائے۔‘‘(۲۰) (تمنا کا دوسرا قدم)
وقت کی اسی قید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یونانی فلسفی Hereclitusنے کہا تھا کہ ہم ایک ہی دریا میں دوبارہ نہیں اتر سکتے ، یعنیTime & Spaceاپنی جگہ موجود ہیں،خواہ ہم رہیں یا نہ رہیں۔
رشید امجد کے افسانوں کے اس جائزے میں جو نکات زیر بحث آئے ہیں۔ ان کا خلاصہ ڈاکٹر وزیر آغا کی ’دشت نظر سے آگے‘ کے فلیپ پر درج رائے میں موجود ہے۔
’’رشید امجد نے حال کے نقطے پر کھڑے ہو کر ماضی اور مستقبل دونوں سے رابطہ قائم کیا ۔‘‘(۲۱)
………… ٭ …………
حوالہ جات
1 ۔ بھاگے ہے بیاباں مجھ سے (مشمولہ کلیات) رشید امجد ص670:
2۔ ایضاً ص:740
3۔ فلیپ دشت نظر سے آگے
4۔ دشت نظر سے آگے ص:202
5۔ مشمولہ سہ ماہی تسطیر (لاہور) مارچ 1998ئ ص:171
6۔ بھاگے ہے بیاباں مجھ سے (مشمولہ کلیات) رشید امجد ص:634,635
7۔ مشمولہ سہ ماہی تسطیر (لاہور) مارچ 1998ئ ص:167
8۔ E.M. Forster Aspects of the Novel 198 4Penguin Books U-Kئ Page 42,43
9۔ ست رنگے پرندے کے تعاقب میں ، رشید امجد حرف اکادمی راولپنڈی 2002ئ ص:54
10۔ پت جھڑ میں خود کلامی (مشمولہ کلیات )، رشید امجد ص:462
11۔ ایضاً ص:542
12۔ مشمولہ ماہنامہ زاویہ نیو یارک مارچ، اپریل 2001ئ ص: 37
13۔ ریت پر گرفت (مشمولہ کلیات ) رشید امجد ص:282
14۔ بیزار آدم کے بیٹے (مشمولہ کلیات )رشید امجد ص:141
15۔ مشمولہ سہ ماہی تسطیر لاہور مارچ 1998ئ ص:163
16۔ بت جھڑ میں خود کلامی (مشمولہ کلیات ) رشید امجد ص:539
17۔ شب رفتہ مجید امجد ص:64
18۔ مشمولہ عبارت (کتابی سلسلہ) ص:281
19۔ ست رنگے پرندے کے تعاقب میں ص:105
20۔ فلیپ دشت نظر سے آگے