اچھی اردو بھی کیا بری شے ہے
اردو اور شناختی سیاست کی تاریخ
اردو کے لسانی اور ادبی کلچر کی ایک بات جس کی طرف میں یہاں توجہ دلانا چاہتا ہوں، اور جو میرے نزدیک اس زبان سے وابستہ شناختی سیاست کی کنجی ہے، یہ عجیب رواج ہے کہ شروع ہی سے مختلف افراد اور گروہ ایک دوسرے کو بتاتے آئے ہیں کہ تمھاری زبان معتبر نہیں ہے اور تم اچھی اردو نہ بول سکتے ہو اور نہ لکھ سکتے ہو۔ یہ رواج مجھے افغانستان میں کئی برس طالبان کے زیر تسلط قائم رہنے والی امارت اسلامی کی یاد دلاتا ہے جس میں بندوق بردار افراد لوگوں کی ڈاڑھیوں اور لباسوں کی لمبائی ناپ کر ان کے ایمان کی گہرائی کے بارے میں فیصلے بلکہ فتوے صادر کیا کرتے تھے۔
اس لسانی فرقہ پرستی کا رشتہ اردو کی ابتدا کے بارے میں عجیب الخلقت اور باہم متضاد تصورات سے ملتا ہے جو میرے علم کے مطابق کسی اور زبان کے بارے میں نہیں پائے جاتے۔ ہر زبان کسی خاص جغرافیائی علاقے کی ہوتی ہے جہاں کے بولنے والے اس کو صدیوں کے سماجی عمل میں ایک خاص شکل دیتے ہیں جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ ہمارے خطے میں بولی جانے والی باقی زبانوں کے سلسلے میں ایسا کوئی ابہام نہیں ہے کہ یہ کہاں کی زبان ہے اور اس کی خصوصیات کیا ہیں۔ جیسے پنجاب کے رہنے والے مختلف لہجوں اور رنگوں میں جو زبان بولتے ہیں اسے پنجابی کا نام دیا جاتا ہے۔ جغرافیے ہی کے لحاظ سے لوگ اپنی بولی کو نئی زبان کا نام دینا چاہتے ہیں — جیسے سرائیکی— جو معقول اور سمجھ میں آنے والی بات ہے۔
لیکن اردو کی ابتدا کے بارے میں کچھ انوکھے تصورات رائج ہیں۔ ایک تحقیق تو مستقل چل رہی ہے کہ یہ بلوچستان میں پیدا ہوئی تھی، پنجاب میں یا بنگال میں، جہاں سے وہ کسی مافوق الفطرت عمل کے نتیجے میں دلّی کے لال قلعے میں جا پہنچی جہاں وسط ایشیا سے آئے ہوئے فاتحین آباد تھے جن کی اصل زبان تو ترکی تھی لیکن وہ مقامیوں پر حکمرانی کے لیے فارسی استعمال کرتے کرتے تاریخ کے کسی نامعلوم موڑ پر اردو کے مالک بن بیٹھے، جس کا اصل نام ہندی تھا! اس خانہ ساز تاریخ پر کسی کو حیرت نہیں ہوتی کیونکہ ہمارے ہاں تاریخ کو جغرافیہ سے بالکل الگ رکھنے کا شغل عام ہے۔ ’’اسلامی‘‘ تاریخ ایک سن سے کسی ایک جغرافیائی خطے میں شروع ہوتی ہے، پھر کہیں اور نکل جاتی ہے، پھر اندلس سے ہوتے ہوئے محمد بن قاسم کے ساتھ وہ یہاں آ پہنچتی ہے۔ یہ دنیا کی غالباً واحد تاریخ ہے جو کسی علاقے اور اس کے رہنے والوں کی نہیں ہے۔ یہی کام اردو زبان کے ساتھ کیا گیا ہے۔
’’تاریخ ساز‘‘ لوگ چاہے جو بھی کہیں، حقیقت یہ ہے کہ اردو (ہندی) زبان جس علاقے میں بولی جاتی تھی بدقسمتی سے اردو والوں نے اس کا نام لینا چھوڑ دیا۔ اس علاقے کو ہندوستان کہتے تھے ؛ اب تو ہندوستان کا نام پورے بر صغیر کے لیے لیا جانے لگا ہے ورنہ یہ نام اس علاقے کا تھا جسے اب سرحد کے اُس پار ’’ہندی بیلٹ‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ شبلی کا ایک مصرع ہے:
زبمبئی چو بہ ہندوستاں رسم شبلی
یعنی ’’جب میں بمبئی سے ہندوستان پہنچا‘‘، گویا بمبئی ہندوستان کی اس تعریف میں شامل نہیں تھا۔ اسی طرح راجستھان، پنجاب اور بنگال میں اس خطے سے آنے والوں کو ہندوستانی بلایا جاتا تھا۔ (1947 کے بعد پنجاب میں اس علاقے کے لوگوں کو اول اول ہندوستانی ہی کہا گیا؛ کلکتہ میں آج بھی انھیں ہندوستانی کہا جاتا ہے۔ )
ایک مسئلہ تو یہ ہوا کہ ہندوستان کی تعریف بدل گئی، جو ایک الگ دلچسپ موضوع ہے۔ پھر اردو کی سیاست کرنے والے مراعات یافتہ طبقے نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ زبان پورے برصغیر میں بولی جاتی ہے، جو حقیقت سے کوسوں دور بات تھی- وجہ اس کی سیاسی تھی کیونکہ دلّی والے حکمران طبقے اقتدار کھونے کے بعد نئے زمانے میں اپنا تہذیبی اثر و رسوخ قائم رکھنا چاہتے تھے۔ اگرچہ مغل دربار کی زبان کبھی اردو نہیں رہی تھی لیکن ایک خاص موقع پر انھوں نے مقامی زبان کو، جسے ہندی، ہندوی یا ہندوستانی کہا جاتا تھا، فارسی کی جگہ اپنا لیا اوراسے نام دیا ’’زبانِ اردوئے معلّیٰ‘‘— یعنی لال قلعے اور اس کے اردگرد کے علاقے میں، جہاں تک مغلوں کا اقتدار محدود ہو چکا تھا، بولی جانے والی فارسی زدہ مقامی زبان جو اپنے آپ کو بادشاہ سمجھنے والا آخری مغل حکمران بھی بولتا اور لکھتا تھا اور اس سے وابستہ مراعات یافتہ لوگ بھی۔
اخلاق احمد دہلوی نے اپنی کتاب یادوں کا سفر میں اسی تیموری گھرانے کی ایک خاتون کا ذکر کیا ہے جن کو 1857 کے غدر کے دنوں میں لال قلعے سے بھاگنے پر ان کے دادا نے پناہ دی تھی۔ ان خاتون کو لال قلعے کی نشانی سمجھا جاتا تھا- اخلاق احمد دہلوی کے مطابق ان کے بچپن میں وہ ایک بزرگ ہستی کے طور پر ان کے گھر میں رہتی تھیں، جہاں کوچہ چیلاں کے باسی— مولانا محمد علی جوہر اور حکیم اجمل خاں وغیرہ — ان کی باتیں سننے آیا کرتے تھے۔ ایک پردہ ڈال دیا جاتا تھا جس کے پیچھے سے وہ اپنی باتیں کیا کرتی تھیں۔ ایک دن گفتگو میں انھوں نے ’’طوطی‘‘ کا لفظ استعمال کیا تو حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ آپ نے اسے مونث بولا ہے جبکہ داغ نے اسے مذکر باندھا ہے۔ دلّی کے شرفا داغ کو استاد مانتے تھے، کیونکہ وہ اپنی زبان دانی کا بڑے بلند بانگ طریقے سے اعلان کر چکے تھے:
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
اردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
دوسرے شعر کا دوسرا مصرع اصل میں یوں تھا:
ہندوستاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
یعنی ہندوستان بھر میں میری زبان دانی کا چرچا ہے۔ (بعد میں اس مصرعے میں ہندوستاں کی جگہ سارے جہاں ٹھونک کر اس کو اردو کی دنیا بھر کی باقی زبانوں پر ’’برتری‘‘ کے سلسلے میں بھی استعمال کیا جانے لگا!)
وہ بزرگ خاتون اس پر تحکمانہ نخوت سے بولیں کہ داغ تو لونڈی بچہ تھا، اس کا کیا تعلق اردو سے ؟ … اردو تو ہم بتائیں گے کیسے بولی جانی چاہیے !
اب یہ روایت شاید مکمل صحیح نہ ہو، کیونکہ اخلاق احمد دہلوی خاصے گپ باز تھے، لیکن اس سے ’’مستند‘‘، ’’معتبر‘‘ اور ’’اچھی‘‘ اردو کے سلسلے میں قائم کی جانے والی بے بنیاد حفظ مراتب یا ہائر ارکی کی نشاندہی ضرور ہوتی ہے جس کا چلن عام تھا اور نام نہاد ’’علمی دنیا‘‘ میں اب بھی ہے۔ آگے چل کر وہ بتاتے ہیں کہ انھیں کھاری باؤلی جا کر اپنے ہم عمر شاہد احمد دہلوی کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہ تھی کہ ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے کہیں ان کی زبان خراب نہ کر دیں کیونکہ ڈپٹی صاحب اگرچہ دلّی کے ایک معزز ’’علمی گھرانے ‘‘ میں شادی کر کے شہر کے شرفا میں شمار ہونے لگے تھے، لیکن تھے تو بجنور کے رہنے والے !
بہرحال، یہ ایک کم و بیش تسلیم شدہ چیز تھی کہ کسی محاورے، روزمرہ یا کسی لفظ کی تذکیر و تانیث کے سلسلے میں (اردو میں انھی معمولی باتوں پر ہونے والی سرپھٹول کو علمی بحث سمجھا جاتا ہے ) لال قلعے سے تصدیق ہو گی تو اسے مستند مانا جائے گا۔ دنیا کی کسی اور زبان میں ایسا نہیں ہوتا۔ زبان کو اسے بولنے والے عام لوگ بناتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ اسے بدلتے بھی وہی ہیں۔ دنیا کی ہر زبان میں یہی اصول تسلیم کیا جاتا ہے، تو پھر اردو کے سلسلے میں کیوں نہیں ؟
مولانا الطاف حسین حالی کا کہنا تھا کہ اردو اس کی مستند ہے جو دہلی اور اس کے آس پاس کا رہنے والا ہو اور مسلمان ہو۔ اب زبان کا تعلق تو کسی مذہب سے نہیں ہو سکتا۔ پنجاب میں رہنے والے سکھ، مسلمان، ہندو اور عیسائی سب پنجابی بولتے ہیں۔ یہی معاملہ بنگلہ، سندھی اور دوسری زبانوں کا ہے۔
جوں جوں مغلوں کا اقتدار کمزور پڑتا گیا، مختلف صوبے علیحدہ ریاستیں بننے لگے۔ جیسے اودھ۔ زبان کے معاملے میں بھی اودھ کا صدرمقام لکھنؤ ایک الگ مرکز بن گیا۔ لکھنؤ والوں کی کوشش تھی کہ مستند زبان والے تصور پر (جو اصلاً بے بنیاد تھا) اس دربار اور اس سے وابستہ امرا اور علما کی اجارہ داری ہو جائے۔ ایک لمبے عرصے تک لکھنؤ اور دلّی کے مابین یہ کشمکش رہی کہ کس کا روزمرہ، محاورہ اور لہجہ مستند ہے۔ (یہ سلسلہ بہت بعد تک چلتا رہا، مثلاً پاکستان میں 1960 کے برسوں میں شاہد احمد دہلوی اور جوش ملیح آبادی اس بات پر دست و گریباں تھے کہ کون سی زبان معتبر ہے۔ جوش کے نزدیک دلّی کی، یعنی شاہد احمد کے دادا، ’’سودخور ملّا‘‘ ڈپٹی نذیر احمد کی زبان مستند نہیں تھی، جبکہ شاہد احمد کہتے تھے کہ لکھنؤ والوں کی زبان تو ’’پورب کے لونڈے لپاڑوں کی بولی ٹھولی‘‘ ہے۔ جی، وہی شاہد احمد جن کے ساتھ کھیلنے کو اخلاق احمد کی والدہ منع کرتی تھیں۔ )
1860 میں انگریزوں نے، غدر یا جنگ آزادی کو، جو کچھ بھی آپ اسے کہنا چاہیں، نمٹانے کے بعد، یہ فیصلہ کیا کہ اونچے حکومتی درجوں جیسے اعلیٰ عدلیہ، تعلیم کے اعلی اداروں اور سول سروس میں فارسی کی جگہ انگریزی کو رکھا جائے گا، جبکہ نچلی سطح یعنی پرائمری تعلیم، تھانے، کچہری، ڈاک خانے، آبپاشی، پٹوار وغیرہ میں مقامی زبانوں کو شامل کیا جائے گا- اکثر جگہوں پر تو اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا، جیسے سندھ میں سب کو معلوم تھا کہ وہاں مقامی زبان سندھی ہے۔ اسی طرح بنگال میں نچلی سرکاری سطح پر بنگالی رائج ہو گئی۔ لیکن مشکل آ گئی اس علاقے میں جسے بعد میں یو پی کہا گیا، یعنی موجودہ ’’ہندی بیلٹ‘‘ کے ایک حصے میں۔ وہاں زبان کا رشتہ رسم خط یا لپی سے جوڑ کر بڑا ہنگامہ برپا کیا گیا، حالانکہ عوام (جسے پہلے رعایا کہا جاتا تھا) کی اکثریت (97 فیصد) تو لکھ پڑھ ہی نہیں سکتی تھی، لہٰذا لکھاوٹ سے زبان کا تعلق جوڑنا مضحکہ خیز تھا-
لیکن دہلی کے نزدیک ہونے کے باعث، جہاں مسلم امرا کا اثر و رسوخ تھا، نچلے درجوں کی حکومتی نوکریوں کے لیے اردو جاننے کو لازمی قرار دیا گیا۔ ادھر آبادی کے ایک بڑے طبقے (ہندوؤں ) نے سرکاری انتظام کے تحت قائم اسکولوں میں ناگری رسم خط میں پڑھنا شروع کیا ہوا تھا۔ ان کا انگریز حکمرانوں سے کہنا تھا کہ آپ تعلیم تو لازمی کر رہے ہو لیکن ملازمتوں کے دروازے ہم پر بند کر رہے ہو۔ اس کے نتیجے میں ایک پوری تحریک چلی جس کا مطالبہ تھا کہ ناگری لپی کو بھی ملازمت کی اہلیت کی شرائط میں شامل کیا جائے۔
1900 میں یو پی (اس وقت نارتھ ویسٹ پراونسز اینڈ اودھ) کے گورنر میکڈانل نے ایک حکم جاری کیا جس کے تحت ناگری رسم خط جاننے والوں کو بھی ملازمتوں کے لیے قابلِ قبول مانا گیا- اس حکم میں کہیں بھی اردو کو معز ول نہیں کیا گیا تھا، لیکن ملازمتوں پر اجارہ داری کے خاتمے کے امکان نے اس تنازعے کو سیاسی شکل دے دی- لہٰذا اردو کی بقا کو ملازمتوں اور سرکاری سرپرستی سے جوڑ دیا گیا- اسی کو اردو کا ’’فروغ‘‘، ’’ترویج‘‘، ’’ترقی‘‘ وغیرہ کہا جانے لگا۔ ’’اردو کی خدمت‘‘ کا عجیب فقرہ ایجاد کیا گیا۔ مطلب یہ تھا کہ اس وقت جو لوگ اردو میں ماہر تھے انھیں ملازمتیں زیادہ ملیں۔ – اس لڑائی میں ہندی اور اردو والوں نے اپنی اپنی زبان کے بارے میں مبالغہ آمیز دعوے کیے۔ – جیسے ہندی والے کہتے تھے کہ ہندی پورے ہندوستان (یعنی برصغیر)میں بولی جاتی ہے ؛ یہ کہتے تھے اردو پورے ہندوستان (یعنی برصغیر) میں بولی جاتی ہے۔ دونوں ہی دعوے (مثلاً بنگلہ، تمل، سندھی، گجراتی یا کوئی اور زبان بولنے والوں کی نظر میں ) محض فراڈ تھے۔
اسی زمانے میں پنجابی مسلمانوں نے اردو کو اپنا لیا – اس کی وجہ بھی شناختی سیاست تھی کیونکہ پنجاب میں 1843 تک سکھوں کی حکومت رہی تھی جس دوران مسلمان ’’سکھا شاہی‘‘ سے سخت نالاں رہے تھے۔ رنجیت سنگھ کے تخت لاہور کے انگریزوں کے ہاتھوں خاتمے سے پہلے مغلوں نے سکھوں کو دبا کر رکھا ہوا تھا۔ لہٰذا نئے حالات میں پنجابی مسلمانوں نے پنجابی کو سکھوں سے منسوب کر کے نئے استعمالات کے لیے رد کر دیا اور تعلیم اور ملازمتوں کے لیے اردو کو ترجیح دی۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہریانہ اور ہماچل کے علاقوں کے ساتھ ساتھ موجودہ خیبر پختونخواہ بھی اس وقت پنجاب ہی کا حصہ تھا اور بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں تک رہا، اور پشتو اور دوسری مقامی زبانیں بولنے والوں کے پنجابی زبان کو اختیار کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہو سکتی تھی۔ )
1860 کے بعد اردو پنجاب کے پرائمری اور ہائی سکولوں میں پڑھائی جانے لگی تھی۔ اسی دور میں پرنٹنگ پریس بھی عام ہو چکا تھا۔ اردو صحافت کا مرکز بھی پنجاب بن رہا تھا۔ جب کوئی آبادی کسی زبان کو اپنا لیتی ہے تو اس پر اختیار کا حق بھی رکھتی ہے۔ پنجابی مسلمانوں نے خود ہی طے کرنا تھا کہ وہ زبان کیسے بولیں گے ؛ – لکھنؤ اور دلّی والوں سے پوچھ پوچھ کر تو نہیں بولنا اور لکھنا تھا۔ بعد میں اردو کے بیشتر بڑے صحافی، ادیب اور شاعر اس وسیع تر پنجاب ہی سے آئے اور اردو پر ان کا اختیار جائز طور پر قائم ہو گیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کا کچھ کیا نہیں جا سکتا۔
گویا شناختی سیاست کا پہلا مرحلہ تو وہ تھا جب اردو والوں (یعنی ’’ہندوستانیوں ‘‘) نے ہندی سے اپنے آپ کو علیحدہ کیا۔ اب دوسرے مرحلے میں ان کو فکر تھی کی اردو کی اجارہ داری ان سے چھن نہ جائے۔ شمالی ہندوستان سے جو لوگ پنجاب آ کر آباد ہوئے، اور 1947 کے بعد تو ظاہر ہے کہ بڑی تعداد میں آئے، انھیں ’’ہندوستوڑے ‘‘ پکارا جاتا تھا (منٹو کی کہانی ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ میں بھی یہ لفظ ملتا ہے )۔ جواب میں وہ ’’پنجابڑوں ‘‘ یا ’’پنجابی ڈھگّوں ‘‘ کے لہجے اور رہن سہن کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ یہ سب لسانی سیاست کا حصہ تھا، جھگڑا یہ تھا کہ نئی ریاست سرکاری سرپرستی، ملازمتوں اور اثرورسوخ پر کس کی اجارہ داری ہو گی- 1947 کے بعد پاکستان میں شناختی سیاست ایک نیا لسانی رخ اختیار کرنے والی تھی۔
کرسٹوفر کنگ نے اردو ہندی جھگڑے کے موضوع پر اپنی تحقیقی کتاب One Language Two Scripts میں ہندی اور اردو صحافت و اشاعت کے ابتدائی سالوں کے اعداد و شمار دیے ہیں۔ یوپی اور دوسرے علاقوں میں اردو اس میدان میں ہندی کا مقابلہ نہیں کر پا رہی تھی۔ ایک تو مسلمان آبادی کا صرف پندرہ بیس فیصد تھے۔ پھر اردو والوں کا تصور تھا کہ ان کی زبان لال قلعے کی ہونے کی بدولت سرکاری سرپرستی کی مستحق اور محتاج ہے۔ اس زمانے کی اردو کتابوں میں قیمتیں درجوں کے حساب سے رکھی جاتی تھیں ؛ عوام الناس سے ایک قیمت لی جاتی تھی، رؤسا کے لیے ایک اور قیمت اور والیانِ ریاست کے لیے کچھ اور ہدیہ رکھا جاتا تھا- انجمن ترقی اردو اورنگ آباد میں جا کر بنی کیونکہ حیدرآباد ریاست نے اس کے لیے پیسہ فراہم کیا تھا۔ اس کے برعکس ہندی میں اشاعت کرنے والوں نے بنیادی طور پر اپنے خریداروں پر انحصار کیا، اور چونکہ وہ آبادی کے اسی پچاسی فیصد حصّے کے لیے چھاپ رہے تھے تو کچھ ہی عرصے میں ہندی کتابوں، اخباروں اور رسالوں کی سرکولیشن اردو سے کئی گنا ہو گئی۔ ہندی بیلٹ کے بہت بڑے ناول نگار پریم چند اردو میں لکھتے تھے لیکن ان کی بولی مقامی رنگ میں تھی اور ان کی زبان کو کبھی مستند تسلیم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پھر اردو کے مسلمان ادیبوں کے برعکس، وہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں لکھتے تھے۔ ان کی کئی کتابیں ہندی میں پہلے شائع ہوئیں۔ اپنے ایک خط میں وہ لکھتے ہیں کہ ہندی میں نہ چھپواؤں تو پھر کھاؤں کہاں سے ؟
یو پی سے کچھ ناشروں اور مدیروں نے بھی، جن میں ہندو بھی شامل تھے، پنجاب میں آ کر پرنٹنگ پریس لگائے اور رسالے جاری کیے، کیونکہ یہاں اردو اشاعت کامیاب اور منافع بخش کام تھا-
اردو بولنے اور استعمال کرنے والوں ( ’’اہلِ زبان‘‘ اور ’’غیر اہلِ زبان دونوں ) کے شناختی بحران کا تعلق ان کے مذہب سے بھی ہے – سامنے کی بات ہے کہ برصغیر کے 99 فیصد مسلمان اپنا پرانا مذہب چھوڑ کر اسلام میں آئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اسی دھرتی سے تعلق رکھتے ہیں۔ پنجاب میں تو یہ بالکل واضح ہے جہاں اکثر لوگوں کے خاندانی نام بھی ہندوؤں اور سکھوں جیسے ہیں۔ لیکن ایک افسانوی بات بنائی اور پھیلائی گی جو آج تک رائج ہے۔ لوگ اپنی بات شروع ہی یہاں سے کرتے ہیں کہ ’’جب مسلمان ہندوستان میں آئے …‘‘ ارے بھائی! مسلمان ہندوستان میں نہیں آئے بلکہ یہاں کی آبادی کے پندرہ بیس فیصد حصے نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا۔ – اسے ماننے میں کیا حرج ہے ؟ اس تبدیلی سے مذہب تو وہی ہو گیا جو دنیا کے دوسرے علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کا ہے، لیکن رہنے والے تو آپ وہیں کے رہے نا! یہاں کچھ ایسا تاثر دیا جاتا ہے جیسے ’’ہم کہیں اور سے آئے تھے شاید‘‘، اور اپنا رہن سہن بھی وہیں کہیں سے لائے تھے ! مسلمان حکمرانوں اور زمینداروں کے لیے یہ شناخت کا ایک اہم جزو بن گیا کہ وہ اپنا ناتا وسطی ایشیا، افغانستان یا عربی علاقوں سے جوڑیں۔
ہمارے کلچر میں بیرونی مال اور زبان کی کشش تو شروع ہی سے رہی ہے۔ سیاست اور تاریخ کے عمل میں فارسی زبان کے جو لفظ اردو میں شامل ہوئے انھیں ایک خاص مقام حاصل ہے، – جیسے یہ شاید اونچی ذات کے الفاظ ہوں – اور جو مقامی الفاظ ہیں وہ شاید نیچی ذات کے ہیں۔ نت نئے اصول وضع کیے گئے، مثلاً فارسی اور ہندی الفاظ کے مابین اضافت نہیں لگا سکتے — اب فارسی میں تو اضافت لگانے کا ایک ہی طریقہ ہے، – فارسی بولنے والے ہمارا یہ اصول نہیں سمجھ سکیں گے ؛ لیکن یہاں ہم نے ذات پات کی ایک دیوار کھڑی کر دی۔ ایک پوری سیاسی تحریک چلائی جاتی رہی ہے جس کے تحت جس زبان میں فارسی کے لفظ اور ترکیبیں زیادہ تھیں وہ اتنی ہی مستند ٹھہری۔ مزید یہ کہ مقامی الفاظ کو ترک کر دینا چاہے اور ان کی جگہ فارسی الفاظ استعمال کرنے چاہییں، – جیسے کہ ’’’آنا‘‘ نہیں کہنا چاہیے، ’’تشریف لانا‘‘ یا ’’حاضر ہونا‘‘ ‘کہنا چاہیے …وغیرہ۔ غالباًاسی بنا پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اردو کسی زبان کا نہیں بلکہ ایک خاص تہذیب کا نام ہے۔
اردو کو جس طرح ایک سیاسی (اور مذہبی) کاز بنایا گیا ہے اس میں سارے وہی ہتھکنڈے استعمال ہوئے جو اسلام کا سیاسی استعمال کرنے کے سلسلے میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثلاً اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے نافذ کرنا چاہیے ؛ اسلام کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اسے نافذ کرنا چاہیے۔ پھر چونکہ اسلام کے بنیادی متن (قرآن، حدیث اور روایات) عربی زبان میں ہیں، اور عام لوگ عربی نہیں جانتے، اس لیے علمائے دین کا وجود بہت ضروری ہے جو لوگوں کو بتائیں کہ اسلام کیا ہے اور اس پر عمل کیسے کرنا ہے۔ اسی طرح سے اردو آپ کو کیا پتا کس طرح بولی جاتی ہے ؟ اس لیے کچھ علمائے شعر و ادب ہونے چاہییں جو آپ پر لسانی حکمرانی کر سکیں۔ اگر آپ کو کوئی مذہبی مسئلہ درپیش ہو تو آپ مولوی کے پاس جاتے ہیں پوچھنے کے لیے ؛اسی طرح جو ’’غیر اہلِ زبان‘‘ اردو لکھتے پڑھتے ہیں ان کو ان علما سے رجوع کرنا چاہیے زبان و بیان کی تصحیح کرانے کے لیے – اگر آپ حلق سے ‘ ’’ع‘‘ اور ’’ ق‘‘ کی آواز نہیں نکال سکتے تو سمجھا جاتا ہے کہ آپ کا اسلام کمتر ہے اور آپ کو مولویوں سے رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اردو بھی کچھ لوگوں کی برتر قرار پائی؛ باقیوں کو ان سے پوچھ پوچھ کر بولنا چاہیے۔ وغیرہ۔
ہندی سے بہت عرصہ الجھنے کے بعد بھی اردو کا احساسِ برتری ختم نہیں ہوا، بلکہ یہ سلسلہ 1947 کے بعد بھی چلتا رہا۔ اب ان کے ساتھ پنجابی بھی شامل ہو گئے –، کیونکہ تقسیم کے بعد کے اولین برسوں میں فوج میں پنجابی غالب تھے (اب بھی ہیں )، اور افسر شاہی میں اردو بولنے والوں کا راج تھا (جو اَب نہیں ہے )۔ سیاسی طاقت پر قبضہ کرنے کی حد تک ان دونوں گروہوں کے مفادات ایک سے تھے۔ ہندوستانیوں اور پنجابیوں نے سب سے پہلے اردو کو بنگالیوں کے خلاف استعمال کیا۔ یہ طے کر دیا گیا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔ پنجابیوں کا اپنا تجربہ یہ تھا کہ جب وہ اپنی زبان کو غیرمسلموں کی زبان سمجھ کر دفتری زندگی سے خارج کر سکتے ہیں تو دوسروں کو بھی ایسا کر لینا چاہیے۔ لیکن وہ یہ بھول گئے یا سمجھ نہ سکے کہ بنگالیوں کا رشتہ اپنی زبان سے بالکل اور طرح کا، یعنی فطری انداز کا تھا۔ – یہی حال سندھیوں کا بھی تھا۔ ان دونوں قوموں کا کہنا یہ تھا کہ اردو کو رابطہ کی زبان ماننے کا مطلب یہ کہاں سے ہو گیا کہ ہم اپنی زبان چھوڑ دیں۔ مشرقی بنگال والوں کا کہنا یہ تھا کہ ہم نے مثلاً بلوچستان جا کر کاروبار تو کرنا نہیں ؛ – ہمارا روز کا لین دین تو بنگالی میں ہی ہوتا ہے۔ لیکن یہاں سے جو افسر اور فوجی لوگ وہاں جاتے تھے حکومت کرنے کے واسطے، ان کے لیے تو بنگالی سیکھنا ہتک کی بات تھی۔ ایک تو ویسے ہی بنگالی بائیں سے دائیں لکھی جاتی ہے — جو غیرمسلم زبان کی نشانی ہے ! پھر اس میں سنسکرت کے بہت سے الفاظ شامل ہیں، تو وہ کیسے مسلمانوں کی زبان ہو سکتی ہے۔ بنگالیوں کے بارے میں یہ طے شدہ تھا کہ ان کا اسلام بھی ہم سے کمتر ہے اور ان کی زبان بھی۔
1971 میں بنگالیوں کا قصہ تو نمٹ گیا۔ اس کے بعد سے کراچی اور پنجاب میں اردو صحافت اور میڈیا کے دباؤ سے اردو اب پورے پاکستان کی زبان ہے۔ پچھلی مردم شماری کے مطابق پاکستان کے کوئی 7 فیصد لوگ ہیں جنھوں نے اپنی مادری زبان اردو لکھوائی؛ – ان کے سوا باقی سارے لوگ کم از کم دو زبانیں یکساں مہارت سے بول اور سمجھ سکتے ہیں۔ یہ خاصیت شمالی ہند کے لوگوں میں قدرتی ہے۔ حتی کہ انگریزوں نے جب مردم شماری میں لازمی قرار دیا کہ لوگ ایک مادری زبان کا اعلان کریں تو وہ سوچ میں پڑ جاتے تھے کہ کس زبان کا انتخاب کریں، – کیونکہ وہ پنجابی بھی بولتے تھے، ہندوستانی بھی اور مقامی بولی بھی۔ مشرقی یوپی کے لوگ اپنے گھر میں پوربی اور بھوجپوری بولتے تھے، جس کو اردو ہی نہیں مانا جاتا – لیکن انھوں نے بھی مردم شماری میں اپنی مادری زبان اردو ہی لکھوائی۔ مگر اردو پر تو قبضہ تھا لال قلعے کا اور لکھنؤ کا، – تو وہ جو خالص اسلام کی طرح دھلی ہوئی خالص زبان تھی اس کو انھوں نے اپنی مادری زبان کہہ دیا۔ اب مادری زبان ان کی وہ ہو گئی جس میں وہ اپنی ماں سے بات چیت نہیں کر سکتے کیونکہ وہ اس کی سمجھ میں ہی نہیں آئے گی! یہ سب شناختی سیاست کے کرشمے تھے۔
اعجاز احمد نے اپنے ایک لیکچر میں بہت پتے کی بات لکھی ہے کہ انگریزوں نے اپنے یورپین تجربہ سے خود ہی یہ اخذ کر لیا تھا کہ کسی علاقے میں رہنے والوں کی ایک ہی زبان ہوتی ہے، – لیکن برصغیر میں یہ بات بالکل ہی غیر حقیقی تھی۔ – یہاں تو لوگ اپنی زبان کا نام تک نہیں رکھتے، اسے ’’بھاشا‘‘ کہہ دیتے ہیں۔ (انڈونیشیا اور ملائیشیا والے اپنی زبانوں کو ’’بہاسا انڈونیشیا‘‘ اور ’’بہاسا ملائیشیا‘‘ کہتے ہیں۔ ) میاں محمد بخش سیف الملوک میں اپنی زبان کو ہندی کہتے ہیں۔ اسی طرح کئی مراٹھی اپنی زبان کو ہندی کا نام دیتے ہیں۔ لیکن انگریزوں نے لسانی سروے کے دوران یہاں لازم کر دیا کہ ایک ہی مادری زبان منتخب کرنی ہے۔ تو لوگ اس وقت کے سیاسی حالات کے حساب سے انتخاب کیا کرتے تھے۔
اردو کی برتری کی ساری تحریک سیاسی تھی— – بشمول اس بات کے کہ اگر آپ خالص اردو نہیں بول سکتے تو آپ اچھے مسلمان نہیں ہو سکتے۔ مقصد یہ نہیں تھا کہ لوگ اپنی زبان چھوڑ کر اردو اختیار کر لیں ؛ کسی کے گھر میں جا کر تو نہیں دیکھا جاتا کہ کون سی زبان بولی جا رہی ہے۔ – نظریہ یہ تھا کہ تعلیمی اور انتظامی سطح پر (جہاں ملازمتیں ملتی ہیں اور اثرورسوخ قائم ہوتا ہے ) اردو کی بالادستی تسلیم کی جائے۔
1970 کے بعد سے، جب پہلی دفعہ بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالے گئے تھے، خواص اور عوام کے درمیان فرق اصولی طور پر ختم ہو رہا ہے۔ کسی بھی قسم کی جمہوریت میں تعداد کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ابتدا میں تو علمائے زبان و تہذیب اس بات پر معترض تھے کہ عالم اور جاہل دونوں کا ایک ووٹ کیسے ہو سکتا ہے ؟ لیکن اب کوئی شخص اگر ان پڑھ ہے تو اس کا کہنا ہے کہ ’’تعلیم کی کمی کو میری معذوری کیسے سمجھا جا سکتا ہے ؟ – مجھے تو ووٹ ڈالنے کا شوق ہی اس لیے ہے کہ سماجی ناہمواری کو دور کرنے میں کردار ادا کر سکوں۔ اگر اس طرح کی شرطیں لگا دی جائیں کہ اسمبلی میں صرف گریجو یٹ جا سکتے ہیں تو پھر بھائی، گریجویٹوں کو تو پہلے ہی غیر تعلیم یافتہ لوگوں سے زیادہ حقوق حاصل ہیں۔ پھر پارلیمنٹ کا فائدہ کیا ہے ؟‘‘
نمبروں کا دباؤ ہی اردو والوں کو یہ کہنے پر مجبور کرتا ہے کہ اردو (بولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے ) دنیا کی تیسری (یا شاید دوسری، یا چوتھی) بڑی زبان ہے – لیکن اس تعداد میں ہندی بولنے والے بھی بلا تکلف شامل کر لیے جاتے ہیں، جبکہ ویسے لکھاوٹ کے فرق کی بنیاد پر ان کی زبان کو اردو نہیں مانا جاتا، کہ اردو تو وہ ہے جو عربی فارسی والے رسم خط میں لکھی جاتی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ اردو سبھی اقوام بشمول پنجابی، سندھی، پشتون اور بلوچ سمجھتے /بولتے ہیں، اس لیے یہ سب کی ’’قومی‘‘ زبان ہے ؛ – لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان اقوام کی اردو خالص نہیں ہے۔ تو خالص اردو کی تعریف کرنا پھر مشکل ہو جاتا ہے۔ جب تک ہم کنویں کے مینڈک بنے رہیں تب تک تو اردو برتری کی سیاسی بنیاد کسی حد تک محفوظ رہتی ہے –، لیکن جیسے ہی باہر سر نکالتے ہیں اس کا علمی بنیاد پر دفاع کرنا ممکن ہو جاتا ہے –
٭٭
یادوں کا سفر، اخلاق احمد دہلوی، مکتبہ عالیہ، لاہور، 2010
One Language Two Scripts: The Hindi Movement in Nineteenth Century North India by Christopher R. King New Delhi: Oxford University Press, 1994
Hindi Nationalism, Alok Rai, Orient Longman, 2000
In the Mirror of Urdu: Recompositions of Nation and Community, 1947-65. Front Cover. Aijaz Ahmad. Indian Institute of Advanced Study, 1993
٭٭٭
فائل کی فراہمی کے لیے مصنف کا شکریہ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید