اگر آپ کو پچھلے ایک دو برس میں کراچی میں منعقد ہونے والے دو میلوں، کراچی لٹریچر فیسٹول اور کراچی انٹرنیشنل بک فیئر میں شرکت کرنے کا اتفاق ہوا ہے تو شاید آپ نے محسوس کیا ہو کہ یہ دونوں ذہنی اعتبار سے دو مختلف دنیاؤں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ غور سے دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں دنیائیں ایک دوسرے سے مختلف ہی نہیں بلکہ بے نیاز بھی ہیں، اس حد تک بے نیاز کہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتی تک نہیں، ایک دوسرے کو جاننے یا آپس میں مکالمہ کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ صورت حال اس گہری تقسیم کی نشان دہی کرتی ہے جو ہمارے آج کے پاکستانی معاشرے میں پائی جاتی ہے اور روزبروز خطرناک بلکہ ہلاکت خیز حد تک مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔
کراچی لٹریچر فیسٹول ایسے ادیبوں اور ان کی کتابوں کو سامنے لاتا ہے جن کے ذریعے سے مقامی ادبی سرگرمی کو کتابوں کی اشاعت اور فروخت کے بین الاقوامی منظر نامے سے جوڑا جا سکے۔ سرحد کے اُس پار جے پور لٹریچر فیسٹول جو اس سے چند برس پہلے شروع ہوا تھا، اس کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جاتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے یہ ادبی میلے عام طور پر اس تنقید کا ہدف بنتے ہیں کہ ان میں مقامی ادیبوں کی انگریزی میں لکھی گئی تحریروں کی زیادہ تشہیر کی جاتی ہے اور مقامی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں اور ان کے لکھاریوں کی کم۔ کراچی کے ادبی میلے کے منتظمین کو غالباً اس تنقید کا احساس ہے، جس کا پتا اس بات سے چلتا ہے کہ اس میں ہر سال اردو ادب پر پہلے سے زیادہ توجہ دی جانے لگی ہے۔ تاہم دوسری ( ’’علاقائی‘‘ کہلانے والی) زبانوں — سندھی، پنجابی، سرائیکی، بلوچی اور پشتو — پر توجہ اب بھی اتنی کم ہے کہ اسے محض خانہ پُری سمجھا جا سکتا ہے۔ مرکزی اہمیت بہرحال انگریزی ہی کو حاصل رہتی ہے۔
انگریزی کا بڑا قومی اخبار ڈان ہرا توار کو کتابوں اور ادیبوں کے بارے میں اپنا خاص میگزین ’’بُکس اینڈ آتھرز‘‘ شائع کرتا ہے۔ اس کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک اس کے دو صفحے اردو کتابوں پر تبصروں کے لیے وقف ہوتے تھے۔ جب سے انتظار حسین کا کالم اخبار کے صفحوں سے اس میگزین میں منتقل کیا گیا ہے، اردو کتابوں پر تبصرے کے لیے ایک ہی صفحہ رہ گیا ہے، جو پاکستان بھر کی اردو اشاعتی سرگرمی کا غور سے جائزہ لینے کے لیے بہت کم ہے۔ دیگر زبانوں کی کتابوں کا ذکر تو اس میگزین میں شاذونادر ہی ہوتا ہے۔
دوسری طرف کراچی بک فیئر کو دیکھنے سے — اس کے باوجود کہ اس کے نام کے ساتھ ’’انٹرنیشنل‘‘ کا سابقہ لگا ہوا ہے — پاکستان میں ہونے والی اشاعتی سرگرمی کی زیادہ سچی تصویر سامنے آ سکتی ہے، بشرطے کہ کوئی دیکھنے اور غور کرنے پر آمادہ ہو۔ بک فیئر کا اہتمام ہر سال پاکستان کے ناشر اور کتب فروش اپنے جائز کاروباری مفادات کے زیر اثر تجارتی بنیاد پر کرتے ہیں۔ یونیورسٹی روڈ پر واقع ایکسپو سنٹر میں لگنے والے اس کتاب میلے میں جانے والے کو ایک سامنے کی حقیقت کا فوری طور پر ادراک ہو جاتا ہے: کہ وہاں سجائی، بیچی اور خریدی جانے والی کتابوں کی اکثریت ذہنوں کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنے والے سیاسی نظریے سے تعلق رکھتی ہے جس کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کی شدت پسندانہ مذہبی نوعیت ہے۔ جہاں تک ’’علاقائی‘‘ کہلانے والی زبانوں کا تعلق ہے، وہ منظر سے قریب قریب غائب محسوس ہوتی ہیں۔ بظاہر ان سے دلچسپی رکھنے والے خریداروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ ان میں اس غالب مذہبی سیاسی نظریے کی ترویج اس شدت سے نہیں پائی جاتی جیسے اردو کتابوں میں ملتی ہے۔ لیکن یہ محض ایک اندازہ ہے۔
کتابیں خریدنے اور پڑھنے کے شوقین عام لوگ، یعنی ہم اندازہ لگانے سے زیادہ کر بھی کیا سکتے ہیں ؟ بے پناہ تخلیقی صلاحیت رکھنے والے ہمارے ادیب — اردو، انگریزی یا کسی اور زبان میں لکھنے والے — جو لٹریچر فیسٹول جیسی ادبی تقریبوں میں اسٹیج سے تقریریں کرتے ہیں، وہ تو ہمیں اس صورت حال کے بارے میں کچھ بتاتے نہیں۔ یا شاید انھیں بھی معاشرے میں پائی جانے والی اس تقسیم کا کچھ اندازہ نہ ہو۔ یا وہ اسے اہمیت ہی نہ دیتے ہوں۔
شکاگو یونیورسٹی میں پچاس برس برصغیر کے کلچر اور اردو زبان و ادب کی تعلیم دینے والے پروفیسر چودھری محمد نعیم نے پچھلے دنوں اپنے انگریزی بلاگ پر ایک دلچسپ سوال اٹھایا ہے۔ پاکستان کے ایک بڑے میڈیا ادارے کے انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون میں ایک اداریہ لکھا گیا جس کا موضوع یہ تھا کہ کیا دولتِ اسلامی عراق و شام (داعش) کی حمایت کرنے والے پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ اداریے میں بجا طور پر اسلام آباد کی لال مسجد اور جامعۂ حفصہ کا ذکر کیا گیا تھا۔ پروفیسر نعیم نے اداریہ نگار کی جرأت کی داد دینے کے بعد یہ سوال اٹھایا کہ انھیں اپنے ہی ادارے کے اردو اخبار ایکسپریس میں چھپنے والے وہ مقبول عام کالم کیوں دکھائی نہیں دیے جو اوریا مقبول جان کے تحریر کردہ ہیں اور جن میں داعش کی کھلم کھلا حمایت ظاہر کی گئی ہے ؟ کیا انگریزی اخبار کے اداریہ نگار اپنے ہی ادارے کے اردو اخبار کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے ؟
کچھ عرصہ پہلے پروفیسر نعیم ہی نے ایک چشم کشا مضمون ’’لشکر کی مائیں ‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا (آج شمارہ 61)جو لاہور کے ایک اشاعت گھر دارالاندلس کی تین جلدوں میں شائع کردہ کتاب ہم مائیں لشکرِ طیبہ کی کے تفصیلی تعارف اور تبصرے پر مشتمل تھا۔ اس کتاب میں ان نوجوان مجاہدوں کا احوال ان کی ماؤں کی زبانی درج کیا گیا ہے جنھوں نے قتال فی سبیل اللہ کے سلسلے میں اپنی جان دی۔ یہ احوال کتاب میں آنے سے پہلے لشکرِ طیبہ کے رسالے مجلہ الدعوہ میں قسط وار شائع ہوئے تھے۔ 1998 سے 2003 تک کے عرصے میں اس کتاب کی تین جلدوں کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے (جن میں سے ہر ایڈیشن گیارہ سو کی تعداد میں چھپا) اور پڑھنے والوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
ہمارے سینئر اور ابھرتے ہوئے ادیبوں میں سے کتنے ہوں گے جنھوں نے کبھی اس کتاب، یا اس جیسی بے شمار دوسری مطبوعات کے بارے میں جاننے کی کوشش کی؟ اور کتنوں نے لٹریچر فیسٹول میں اپنی باتیں غور سے سننے والے اپنے مداحوں کو معاشرے میں ہونے والی اس ہلچل کے بارے میں آگاہ کرنے کی کوشش کی؟ شاید کسی نے بھی نہیں۔ ادبی نقاد صرف ان کتابوں پر توجہ دیتے ہیں جو ان کے نزدیک اعلیٰ ادب کے دائرے میں آتی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں اردو، ابلاغ عامہ، سماجیات وغیرہ کے شعبے صرف نظریۂ پاکستان کی ترویج میں مصروف رہتے ہیں، چنانچہ پاکستانی سماج میں ہونے والی یہ گہری تبدیلی ان کی تحقیق کا موضوع بھی نہیں بنتی۔ ممکن ہے وہ اس تمام بکھیڑے سے لاعلم رہنا ہی مناسب سمجھتے ہوں۔
لاعلم رہنا، جیساکہ کسی نے کہا ہے، ایسا عمل ہے جس کا آدمی خود انتخاب کرتا ہے۔
لیکن ادیبوں، دانشوروں اور یونیورسٹی کے استادوں کی مرضی اپنی جگہ، یہ بات بہرحال حقیقت ہے کہ جہادی شہدا اور ان کی شہادت پر فخر کرنے والی ماؤں کی یہ کہانیاں شائع ہوئیں اور پڑھنے والوں نے انھیں شوق سے پڑھا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انھی اقدار کا سبق پڑھانے والی تحریریں شہدا کی سبق آموز کہانیوں کے منظر عام پر آنے سے پہلے سے لکھی اور پڑھی جا رہی ہیں۔ یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب شمالی ہندوستان میں پرنٹنگ پریس کا کاروبار شروع ہوا تھا۔ یہ لٹریچر، چاہے اسے ادب کہا جائے یا کچھ اور، لکھنا پڑھنا سیکھنے والے بالغوں اور نو عمروں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کرتا رہا ہے اور ہمارے ملک میں اس کے پڑھنے والوں کی تعداد اور اس پر ہونے والا اثر متواتر بڑھتا رہا ہے۔ نظریۂ پاکستان تک محدود رکھی جانے والی درسی کتابوں کا تو اب خاصا ذکر ہونے لگا ہے، لیکن ان کے ساتھ ساتھ ان مقبولِ عام کتابوں نے بھی پاکستان کے عام پڑھنے والے کے ذہن کو اس سانچے میں ڈھال دیا ہے کہ وہ اپنے اردگرد کی دنیا کا تصور انھی کی روشنی میں کرتا ہے۔
اگر آپ کراچی کے اردو بازار میں کتابوں کی دکانوں کا چکر لگائیں، یا صدر کے علاقے کے نیوز اسٹالوں پر نظر دوڑائیں تو ایسے مقبول لکھنے والوں کی ایک نامکمل سی فہرست تیار کر سکتے ہیں جن کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھی جاتی ہیں: نسیم حجازی، طارق اسمٰعیل ساگر، عنایت اللہ (جن کا ناول بی آر بی بہتی رہے گی بہت مشہور ہوا)، خواجہ محمد اسلام (موت کا منظر اور حسن پرستوں کے انجام کا منظر کے مصنف)، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، محمد الیاس، عمیرہ احمد… یہ کتابیں اپنے پڑھنے والوں کو کیا بتاتی ہیں ؟ آئیے ان بنیادی خیالات کا ایک ادھورا خاکہ بنانے کی کوشش کریں جن پر یہ کتابیں یقین رکھتی بھی ہیں اور پڑھنے والوں کو یقین کرنے پر آمادہ بھی کرتی ہیں۔
مسلمان برصغیر میں (عرب، ایران، افغانستان، وسط ایشیا یا توران یا ماوراء ا لنہر، اندلس، بلقان یا کہیں اور سے ) آئے تاکہ کفر کے اندھیروں میں ڈوبی اس سرزمین میں اسلام کی روشنی پھیلائیں اور یہاں حکمرانی کریں۔ ان کی (یعنی ہماری) حکمرانی ہندوستان پر ایک ہزار سال تک بزورِ شمشیر بڑی شان و شوکت سے قائم رہی۔ اس کے بعد — چونکہ ہم رفتہ رفتہ اسلام اور جہاد فی سبیل اللہ سے دور ہو گئے تھے — انگریز سامراج نے ہمیں تخت سے اتار کر ہندوستان پر قبضہ کر لیا اور حکمرانی کرنے لگا۔ جب خدا خدا کر کے اہلِ کتاب انگریزوں کے جانے اور ہندوستان کا تخت ہمیں لوٹانے کا وقت آیا تو مکار مقامی کافروں نے (جو آبادی کے تین چوتھائی حصے پر مشتمل تھے ) جمہور کی حکمرانی کا راگ چھیڑ کر ہمیں ایک بار پھر ہمارے حکمرانی کے ازلی و ابدی حق سے محروم کرنے کی سازش کی۔ آخر ہم مسلمان اللہ کے حکم سے دنیابھر پر غلبہ پانے اور راج کرنے کے لیے ہی تو پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن ہم نے ہندوستان کو تقسیم کر کے کافروں کی اس سازش کو ناکام بنا دیا اور پاکستان حاصل کر لیا، جو ہم اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام کا قلعہ ہے اور جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے لیے وجود میں آیا ہے۔ اسی جہاد و قتال کو جاری رکھ کر ہم ایک دن لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرائیں گے اور پورے برصغیر جنوبی ایشیا، افغانستان، وسط ایشیا اور پھر اللہ نے چاہا تو پوری دنیا پر غلبہ حاصل کریں گے۔ لیکن بیرونی دشمن کفار ہمارے اندرونی دشمنوں (یعنی ہماری مذہبی اور فرقہ وارانہ اقلیتوں اور ان سے ہمدردی رکھنے والے گمراہ نام نہاد مسلمانوں ) کے ساتھ مل کر ہمارے اس اسلامی اور قومی فریضے کو ناکام بنانے کی مذموم سازشیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان سازشوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو (اور خصوصاً اپنی لڑکیوں اور عورتوں کی زندگیوں کو) اسلام کے سانچے میں ڈھالیں، عقائد کو راسخ کریں اور بیرونی اور خاص کر اندرونی دشمنوں کی سازشوں سے آگاہ رہیں۔ انشا اللہ ایک دن ہم اپنے دشمنوں پر غالب آئیں گے، لیکن اس فتح کے لیے ہمیں اپنے اندرونی دشمنوں کا بڑی تعداد میں قتال کرنا ہو گا اور خود اپنی جان و مال کا نذرانہ بھی پیش کرنا ہو گا۔ بے شک اللہ کا دین غالب آنے والا ہے اور ہم ساری دنیا پر حکمرانی کرنے والے ہیں۔
کیا آپ کو یہ سب دیوانے کا خواب لگتا ہے ؟ خیر، آپ کو جو لگتا ہے لگتا رہے، سچ یہ ہے کہ یہ ہمارا دینی اور قومی خواب ہے، اور اس کی تعبیر پانے کی کوششیں نہ صرف مقامی کفار اور نام نہاد مسلمانوں کے خلاف قتال فی سبیل اللہ کے بڑھتے ہوئے مبارک رواج میں دیکھی جا سکتی ہیں بلکہ پاک فوج کے دفاتر کے باہر درج ’’ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے اعلانات، ہمارے اسلامی ایٹم بموں اور فاتح مومن حملہ آوروں کے متبرک ناموں پر رکھے ہمارے میزائلوں کے ناموں میں بھی۔ اور ہماری درسی کتابوں میں بھی۔ اور اردو بازار اور کتاب میلوں میں شوق سے خریدی اور پڑھی جانے والی کتابوں میں بھی۔ آپ آنکھیں بند کر کے اس خواب سے لاعلم رہنا چاہیں تو آپ کی مرضی— ملکی صورت حال کا تو اس سے کچھ بگڑنے سے رہا۔
اشتیاق احمد ہی کی مثال لے لیجیے جو پاکستان کے نوعمر پڑھنے والوں کے لیے سینکڑوں ولولہ انگیز اور نہایت مقبول ناول تحریر کر چکے ہیں۔ آپ شاید اس حقیقت سے بھی لاعلم ہوں کہ ان کے ناول کا آخری صفحہ ننھے مجاہدوں کو بیرونی اور مقامی کفار — عیسائیوں، ہندوؤں، احمدیوں ( ’’قادیانیوں ‘‘)، شیعوں — اور ان کے سازشی ساتھیوں کے ناپاک عزائم سے آگاہ کرنے کے لیے وقف رہتا ہے۔
ہمارے تخلیقی ادیب، نقاد، دانشور اور اساتذہ — اور ان کے عقیدت مند پڑھنے والے، یعنی ہم — اس بات پر بجا طور پر حیرت اور صدمے سے دوچار ہیں کہ یہ ہمارے معاشرے کو کیا ہوتا جا رہا ہے، ہمارے ہاں کسی کی جان و مال محفوظ کیوں نہیں رہی، وغیرہ وغیرہ۔ بلاشبہ ہمیں حیران اور دل گرفتہ ہونے کا پورا حق ہے۔ بک فیئر میں کھڑے ہو کر دیکھیں تو یہ سب دانشور (اور ہم سب قارئین) ایک ایسی احمق اقلیت دکھائی دیتے ہیں جو قتال اور غلبے کے قومی خواب سے بے نیاز اپنے ہی کسی دیوانے خواب میں مبتلا ہے اور قتال کا ہدف بننے کی منتظر ہے۔
اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود ہمارے تخلیقی ادب — خصوصاً اردو ادب — میں ہمارے قومی خواب کے بیشتر حصوں کی تائید کی گونج صاف سنائی دیتی ہے۔ قتال میں ہلاک ہونے سے پہلے یہ مان لینے میں آخر کیا حرج ہے کہ اس قومی خواب کی امانت ہمارے مقبول عام ادیبوں، سیاست دانوں اور فوجی فیصلہ سازوں کے ہاتھوں میں ہمارے مایۂ ناز ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں ہی نے سونپی تھی جنھیں ہم بجا طور پر اپنے قوم کا ضمیر کہتے ہیں ؟ مثلاً یہی خیال کہ برصغیر کے مسلمان کسی اور متبرک مقام سے کفار کی اس ناپاک سرزمین میں آئے تھے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں نوے فیصد سے زیادہ کہیں باہر سے نہیں آئے، یہیں کے رہنے والے ہیں جنھوں نے برضا و رغبت یا حالات کی مجبوری سے اسلام قبول کیا تھا۔ لیکن اس خیال کی شدومد سے ترویج کرنے کے نتیجے میں دیسی چیزوں کو بجا طور پر تحقیر کی نظر سے دیکھا جانے لگا: دیسی (ہندوانہ) رسم و رواج، دیسی تہوار (جیسے بسنت)، ادب اور شاعری کی دیسی اصناف، ادبی تنقید کی دیسی روایتیں، دیسی رہن سہن، ہر چیز۔ یہاں تک کہ مذہب کی دیسی شکلیں رفتہ رفتہ قبرپرستی اور بدعت کہلائی جانے لگیں اور جب اللہ نے مجاہدوں کو توفیق دی تو داتا دربار، اور عبداللہ شاہ غازی اور رحمٰن بابا کے مزار اور وہاں حاضری دینے والے بدعتی بم دھماکوں میں اڑائے جانے لگے۔ اور ہندی، بنگالی، پنجابی، سندھی جیسی دیسی، کفر آلود زبانیں بھی اسی تحقیر کا ہدف بننے لگیں جو ان کا حق تھا۔
اردو کے بیشتر جغادری نقاد ابھرتے ہوئے ادیبوں کو یہی تلقین کرتے رہے (اور اب تک کرتے ہیں ) کہ اردگرد پھیلے ہوئے معاشرتی فساد سے پریشان ہو کر اپنی تخلیقی عظمت کو بٹہ نہ لگائیں اور روایتی آفاقی اور جدید ذاتی موضوعات پر توجہ مرکوز رکھیں ورنہ ان کے ادب کے صحافت کے اندھے کنویں میں جا گرنے کا خطرہ ہے۔ پچھلے چند برس سے داستانِ امیر حمزہ (بشمول طلسم ہو شربا) کی عقیدت مندانہ مدح سرائی کا سلسلہ جاری ہے، جس کے بنیادی موضوعات میں مسلمان فاتحین کا کفار کی سرزمینوں پر ایک ایک کر کے غلبہ پانا، میلوں ٹھیلوں اور عیش و عشرت میں مگن کفار کا قتال کرنا اور ان کے سر قلم کرنا، ان کے سرکش سرداروں کو بزورِ شمشیر مشرف بہ اسلام کرنا اور ان کی حسین چالباز عورتوں کو مجاہدینِ اسلام کے حرم میں داخل کرنا شامل ہے۔ دائرۂ اسلام میں داخل کیے جانے والے کم ذات مقامیوں کو عیاروں کا روپ دے کر ان سے قتال فی سبیل اللہ کا کام لیا جاتا ہے۔ داستانوں کی یہی موضوعاتی روایت بعد میں اسلامی تاریخی ناولوں کی شکل میں ڈھلتی ہے جن کا نقطۂ عروج حضرت نسیم حجازی کے ایمان افروز اور غلبہ و قتال سے بھرپور مقبول عام ناولوں میں سامنے آتا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جنرل ضیا الحق شہید کے اسلامی دورِ حکومت میں اردو کے مایۂ ناز ادیبوں نے نسیم حجازی کے چیدہ چیدہ ناولوں کی ڈرامائی تشکیل پی ٹی وی پر فخریہ پیش کی تھی۔ کیوں ؟ تاکہ جہاد و قتال فی سبیل اللہ کا کلچر قوم کے مزاج کا حصہ بنایا جا سکے، اور کیوں ؟ اسی کی برکت ہے کہ اب نجی ٹی وی چینلوں پر زید حامد جیسے مقدس کردار (علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ساتھ) نسیم حجازی کو اپنا آئیڈیل ادیب قرار دیتے ہیں اور غزوۂ ہند اور اس سے آگے کی فتوحات کی نوید مسرت سناتے ہیں۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ اردو کے ایک نسبتاً کم معروف ادیب سید انیس شاہ جیلانی نے اپنے ہندوستان کے سفر کی روداد کا عنوان سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان رکھا تھا؟ چلیے یہ نہیں تو اتنا تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ٹی وی اور فکشن کی دنیا کی زمانۂ حال کی نہایت معروف لکھاری عمیرہ احمد کے شاہکار ناول پیرِ کامل کا مسلمان ہیرو کس طرح ’’قادیانی‘‘ ہیروئن کو راہِ راست پر لا کر دائرۂ اسلام میں داخل کرتا ہے ؟
برصغیر کی مسلمان صحافت اور سیاست کے کارنامے بھی بجا طور پر سنہری حروف میں لکھے جاتے ہیں۔ دیسی عوام کی دیسی زندگی کی مشکلات کو درخورِ اعتنا نہ جان کر آفاقی اور بین الاسلامی موضوعات کو ترجیح دینا ان کارناموں میں بجا طور پر شامل ہے۔ اس کی صرف ایک مثال کافی ہو گی: مولانا ابو الکلام آزاد (1888-1958) نے 1912 میں کلکتہ سے اپنا جریدہ الہلال جاری کیا۔ اپنے زمانے کی جدید ترین طباعتی ٹیکنالوجی سے مزین یہ رسالہ اپنے قارئین کو بلقان اور طرابلس کی ان جنگوں کا احوال سناتا تھا جو ترکی کی اسلامی خلافت عثمانیہ اپنے نوآبادیاتی مقبوضات کو اس زمانے کی یورپی نوآبادیاتی طاقتوں سے بچانے کے لیے لڑ رہی تھی۔ کلکتہ اور بنگال کو چھوڑیے، انگریزوں کے زیرتسلط ہندوستان کا ذکر بھی الہلال میں اگر آتا تھا تو صرف اس فخریہ اعلان کی صورت میں کہ ہندوستان کے مسلمان بین الاقوامی اسلامی خلافت کی بقا کے لیے کٹ مرنے کو ہمہ وقت تیار ہیں (بالکل اسی طرح جیسے آج پاکستانی مسلمان حضرت ابو بکر البغدادی کی اسلامی خلافت کے لیے دوسروں کی اور اپنی جان قربان کرنے پر آمادہ ہیں )۔ الہلال کے ساتھ ساتھ مولانا ظفر علی خاں کی زیر ادارت لاہور سے شائع ہونے والا جریدہ زمیندار بھی اسی موقف کی ترجمانی کرتا تھا۔
خیر، ترکوں نے تو ہمت ہار کر اتاترک کی قیادت میں ’خلافتِ اسلامیہ‘ ہی کو لپیٹ دیا، کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ لیکن اس وقت تک برصغیر میں ان مقتدر اور روشن دماغ صحافیوں کی چھیڑی ہوئی دھن ( ’’جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘) پر یہ بانسری تحریک خلافت (1919-1922) کی صورت میں بج اٹھی تھی۔ خلافت کے المناک خاتمے کے بعد یہ تحریک تو ختم ہو گئی لیکن اس سے ہندوستانی مسلمانوں میں جو جذبۂ جہاد بیدار ہو چکا تھا، اس سے اگلے دو عشروں کے دوران مسلمان قوم کا سیاسی تشخص پیدا کرنے میں بڑی مدد ملی۔ (جنگِ طرابلس ہی کے ذیل میں اقبال نے فرمایا: ’’فاطمہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے ‘‘۔ ) اسی جذبۂ جہاد کی بدولت کفار کے جمہوری دیوِ استبداد کے دستِ قاتل کو جھٹک کر آزادی کی نیلم پری پاکستان کی صورت میں حاصل کی گئی جو رہتی دنیا تک نہ صرف قائم رہنے بلکہ لال قلعے اور اللہ نے چاہا تو باقی دنیا پر سبز پرچم لہرانے کے لیے وجود میں آیا ہے۔
جہاں تک دیسی زبانوں کا تعلق ہے، ان پر درآمدی زبان فارسی کا غلبہ اس وقت تک قائم رہا جب تک (1860 کی دہائی میں ) اہلِ کتاب انگریز سامراجیوں نے تعلیم اور انتظامِ ملک کی اعلیٰ سطحوں پر انگریزی اور ادنیٰ سطحوں پر دیسی زبانوں کو رائج نہ کر دیا۔ جونہی حکمرانوں کی پالیسی بدلی، ہندوستانی مسلمانوں کے دانشور طبقے نے، جو خیر سے نسلی اور مالی اعتبار سے بھی اعلیٰ طبقہ شمار ہوتا تھا، جھٹ پٹ، محض دو پشتوں کے عرصے میں، ’’پڑھو فارسی، بیچو تیل‘‘ کہہ کر فارسی کو ترک اور انگریزی کو اختیار کر لیا۔ اردو کو بھی، اس کی دیسی اصل یعنی ہندی سے ناپسندیدہ عناصر چھانٹ کر درآمدی رسم الخط، فارسی و عربی لفظوں اور ترکیبوں کی کثرت اور دیسی الفاظ اور محاوروں کو ’’متروک‘‘ قرار دینے کے ذریعے قریب قریب غیرملکی شکل دے دی گئی تاکہ تازہ تازہ مسلمان ہونے والے کم ذات مقامی — جنھیں انگریزی پڑھانے کا، بقول سرسید احمد خاں، کوئی فائدہ نہیں مرتب ہونے والا — اسے اپنا کر دیسی، ہندوانہ اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ اس کے بعد ان کم ذاتوں کو دیسی اسکولوں، مدرسوں اور نسیم حجازیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ سپردم بہ تو مایۂ خویش را، تو دانی حسابِ کم و بیش را۔
رہے خود اعلیٰ ذات اور اعلیٰ طبقے کے دانشور— بلکہ اب تو وہ لوگ بھی جنھیں بجا طور پر تحقیر سے نو دولتیے کہا جاتا ہے — تو ان میں سے بہت سوں کو آپ نے بمشکل چھپائے جانے والے فخر کے ساتھ یہ کہتے سنا ہو گا کہ مقامی انگریزی میڈیم اسکولوں اور ممتاز بین الاقوامی یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ ان کے بیٹے اور بیٹیاں اردو نہ لکھ پڑھ سکتے ہیں اور نہ بول پاتے ہیں (پنجابی، سندھی وغیرہ کا تو ذکر ہی کیا)۔ چنانچہ مستقبل میں پاکستان کا انتظام سنبھالنے کا عزم رکھنے والی یہ اعلیٰ نوجوان نسل ایک دوسرے سے صرف انگریزی ہی میں تبادلۂ خیال کرنے پر قادر ہے، اور اسے آج کل یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ کہیں ان سے پہلے طالبان، القاعدہ اور داعش ان کے ملک کا انتظام نہ سنبھال لیں۔
رہے اردو کے قومی خواب کے قیدی ادیب، صحافی، دانشور وغیرہ، تو وہ بیچارے — ہم جیسے اپنے قارئین کو ساتھ لے کر — کراچی لٹریچر فیسٹول میں بطور مقامی نمونۂ کلام شرکت کا اِذن پا سکتے ہیں اور بھولا سا منھ بنا کر تعجب کر سکتے ہیں کہ زمانہ ان سے پوچھے بغیر قیامت کی چال بھلا کیسے چل گیا۔ بک فیئر جیسے میلوں کی طرف نگاہ اٹھانے کی انھیں نہ ہمت ہوتی ہے اور نہ خواہش، جہاں خواجہ محمد اسلام، نسیم حجازی، اشتیاق احمد، اشفاق احمد اور عمیرہ احمد قومی خواب کی کشتی میں سوار، قبول عام اور بقائے دوام کے تلاطم خیز پانیوں میں رواں دواں ہیں اور داعش یا اس کے مقامی طالبان مجاہدین کی فاتحانہ آمد کے منتظر ہیں۔
اے آمدنت باعثِ بربادیِ ما
٭٭٭