اردو، ’بابایانِ اردو‘ اور برصغیر کا مسلم معاشرہ
گیان چند جین کی کتاب ایک بھاشا، دو لکھاوٹ، اردو ادب پر شمس الرحمٰن فاروقی کے تبصرے سے جو بحث شروع ہوئی تھی، اس سے اردو کی ادبی دنیا، اور اس سے وسیع تر اور اہم تر، برصغیر کے مسلمان معاشرے کے بارے میں کئی دلچسپ اور اہم نکات سامنے آتے ہیں۔ ان کی طرف مختصراً اشارہ کرنے سے پہلے میں گیان چند جین کے لیے اپنی ممنونیت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ اردو کے ادبی ماحول میں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ غالب نقطۂ نظر کے سوا کوئی اور موقف پڑھنے والوں کے سامنے آئے۔ جین صاحب نے اپنی تمام عمر اردو میں تحقیق و تصنیف میں گزارنے کے بعد، اور اس ماحول کی شدید عدم رواداری سے واقف ہوتے ہوئے، یہ کتاب لکھنے کا خطرہ مول لیا، میں اسے قابلِ قدر بات سمجھتا ہوں۔
ان کے موقف کے سامنے آنے پر اختلاف رائے کا پیدا ہونا تو قابل فہم ہے، لیکن یہ بات بھی کچھ ایسی غیر متوقع نہیں کہ اس اختلاف کا اظہار زیادہ تر محض غیظ و غضب پر مشتمل رہا ہے۔ اس موضوع پر اظہار خیال کرنے والے کئی لوگوں نے تو کتاب پڑھ کر رائے قائم کرنے کے بجائے صرف فاروقی صاحب کا جارحانہ تبصرہ پڑھ لینا کافی سمجھاجو اب تک سرحد کے دونوں جانب متعدد رسالوں اور اخباروں میں شائع ہو چکا ہے۔ یوں بھی کسی ناپسندیدہ نقطۂ نظر کے سامنے آنے پر ہمارے یہاں پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اسے گفتگو کے قابل valid موقف کے طور پر عزت دینے کے بجائے ’ہرزہ سرائی‘، ’دریدہ دہنی‘، ’دل آزاری‘، ’اردو دشمنی‘ جیسی کسی پٹاری میں بند کر دیا جائے تاکہ اس میں اٹھائے گئے نکات پر گفتگو کا موقع ہی نہ آنے پائے۔ جن لوگوں کو اپنا ایمان عزیز ہے وہ یہ ڈراؤنے الفاظ سن کر اس قدر سہم جاتے ہیں کہ ان پٹاریوں کے مشمولات کے بارے میں تجسس تک ظاہر کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اور یہ کہنا غیر ضروری ہے کہ اردو اب زبان سے کہیں آگے بڑھ کر ایمان کا معاملہ بن چکی ہے۔ کسی نے مروج عقائد سے ذرا سا انحراف کیا تو اسے اردو دشمن قرار دینے میں ایمان والوں کو ذرا دیر نہیں لگتی، اور اردو دشمنی اور اسلام دشمنی میں تو کچھ فاصلہ رہنے ہی نہیں دیا گیا۔
اس رد عمل کا مظاہرہ چند برس پہلے اس وقت ہوا جب گیان چند جین نے 1936 کے اُس جلسے کے بارے میں ایک مضمون لکھا جس میں مولوی عبدالحق اور گاندھی شریک تھے اور جس میں مفروضہ طور پر گاندھی کے کہے ہوئے الفاظ اردو مائتھالوجی بلکہ عقیدے کا حصہ بن چکے ہیں۔ (اس مضمون کے مشمولات ان کی زیر نظر کتاب میں باب 13 کے طور پر شامل ہیں۔ ) جین صاحب نے کچھ ایسے شواہد پیش کیے جن سے ان الفاظ کا گاندھی سے انتساب غلط ثابت ہوتا ہے، اور انھوں نے حیات اللہ انصاری، جمیل جالبی اور مشفق خواجہ کا حوالہ بھی دیا جنھوں نے ان الفاظ کے جعلی ہونے کی تصدیق کی تھی اور اس جعلسازی کے ذمے دار فرد کا نام بھی لیا تھا۔ جین صاحب کے مطابق یہ شواہد پہلی بار 1960 میں پیش کیے گئے تھے، اور کراچی میں جمیل جالبی اور مشفق خواجہ اس تمام عرصے میں اس جعلسازی کی حقیقت سے واقف رہے۔ اس کے باوجوداس موضوع پر متعدد اردو کتابوں میں ( جن میں سے بعض اسی کراچی شہر میں لکھی اور شائع کی گئیں )انھی فرضی الفاظ کی بنیاد پر شدومد سے من مانے نتائج اخذ کیے جاتے رہے ہیں۔ اس طرح اگر ان کتابوں کے مصنّفین (مثلاً فرمان فتح پوری، معین الدین عقیل وغیرہ) اس بارے میں غلط بیانی کے مرتکب ہوئے ہیں تو اس موضوع سے تعلق رکھنے والے باقی محقق، مورخ اور نقاد (سرحد کے دونوں طرف) تاریخ کی اس تحریف سے چشم پوشی کرنے اور خاموشی اختیار کرنے کے قصوروار ٹھہرتے ہیں۔ اس مضمون کے شائع ہونے پر بھی ایک بحث شروع ہوئی تھی جس میں کھٹ سے یہ ایمان افروز دلیل سامنے آئی کہ گیان چند جین غیرمسلم ہونے کے باعث اردو سے جذباتی وابستگی نہیں رکھتے اس لیے ان کا یہ مضمون اردو دشمنی پر مبنی ہے۔ حقائق تک پہنچنے کی غیر جذباتی جستجو بھلا کہیں ایسی محکم دلیل کے آگے ٹھہر سکتی ہے !
خواہ اس کے مفروضہ سکیولر کردار کی کتنی بھی دہائی کیوں نہ دی جائے، زمینی حقیقت یہی ہے کہ اردو ہندوستان میں مسلمان اقلیت اور پاکستان میں حکمران اکثریت کی سیاست سے ناقابلِ تلافی طور پر وابستہ ہو چکی ہے۔ مولوی عبدالحق کا نام اس سیاست کے نمایاں ترین ذمے دار افراد میں آتا ہے۔ مولوی صاحب ایک اول درجے کے نثرنگار، اوسط درجے کے محقق اور تیسرے درجے کے لغت نویس تھے، لیکن ان کے وقت، صلاحیتوں اور توانائی کا بیشتر حصہ ان علمی و ادبی سرگرمیوں میں نہیں بلکہ اردو سے متعلق سیاست میں صرف ہوا، اور ان کی سرگرمیوں کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد میری رائے یہ ہے کہ ان کی سیاست تیسرے درجے سے بھی نیچے کے منطقے سے تعلق رکھتی تھی۔ میں نہیں جانتا کہ کس ستم ظریف نے انھیں ’’بابائے اردو‘‘ کے مضحکہ خیز اور بے معنی لقب سے متصف کر کے اردو کی مائتھالوجی میں ایک icon کا درجہ بخش دیا، لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ وہ تمام عمر حکیم اسرار کریوی اور جمیل الدین عالی جیسے مفاد پرست لسانی سیاست بازوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنے رہے۔ مولوی صاحب کے درج ذیل الفاظ جین صاحب نے اپنی کتاب میں نقل کیے ہیں: ’’پاکستان کو نہ جناح نے بنایا نہ اقبال نے بلکہ اردو نے پاکستان کو بنایا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں اختلاف کی اصلی وجہ اردو زبان تھی۔ سارا دو قومی نظریہ اور سارے ایسے اختلاف صرف اردو کی وجہ سے تھے، اس لیے پاکستان پر اردو کا بڑا احسان ہے۔ ‘‘(ص7-266) برصغیر کی تقسیم کے نہایت پیچیدہ عمل کے بارے میں اس قسم کا سادہ خیال بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ کہنے والے کو سیاسیات، معاشیات، عمرانیات اور علم تاریخ جیسی مخلوقات کے وجود تک کا علم نہیں اور اس کے نزدیک عقلی سرگرمی محض عقل کے پیچھے لٹھ لے کر پھرتے رہنے کا نام ہے۔ اس قسم کے ارفع سیاسی شعور سے لیس ہو کر خود ساختہ بابایانِ اردو، اپنے حقیر شخصی اور گروہی مفادات کے فروغ کی خاطر، پاکستان کے پنجابی اور مہاجر حکمران طبقے کا آلۂ کار بنے اور بنگلہ اورسندھی لسانی گروہوں پر غیر جمہوری تسلط قائم کرنے کی منفی سیاست میں شریک رہے۔ مجھے اس بات میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ اس سیاست سے میری زبان اردو کا مفاد وابستہ نہیں تھا، اور پاکستانی تاریخ کے ان واقعات کا مطالعہ کرتے ہوئے میرا رد عمل سخت رنج، غصے اور شرمندگی کا ہوتا ہے۔
جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے، وہاں کی مخصوص فرقہ وارانہ سیاست کے زیر اثر اردو کونسل اور اس جیسے تمام اداروں پر خرچ کی جانے والی کل رقم سرکاری کھاتے میں مسلمان ووٹ بینک پر کی گئی سرمایہ کاری کے طور پر درج کی جاتی ہے، اگرچہ یہ بات ظاہر ہے کہ مثلاًکونسل کا بجٹ ایک کروڑ سے بڑھا کر آٹھ کروڑ کیا سولہ کروڑ بھی کر دیا جائے تو ہندوستانی مسلمانوں کی کل آبادی کو اس ریزگاری سے کسی قسم کا فائدہ پہنچنے کا قطعی اندیشہ نہیں۔ مرلی منوہر جوشی جیسے سیاست کاروں کی شان میں موقع بموقع جو قصیدہ گوئی کی جاتی رہی ہے اس کا تعلق اسی ریزگاری سے ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی اس سرمایہ کاری سے شخصی فائدہ حاصل کرنے والے (چند سو یا بہت سے بہت چند ہزار اشخاص پر مشتمل) نام نہاد اردو انٹیلی جنشیا کا کام فقط اتنا ہے کہ اقلیتی مسلمان آبادی کے اصل مسائل کو توجہ کا مرکز نہ بننے دے۔ اس دانشور طبقے نے اردو کو مسلمانوں کے اہم ترین مسئلے کے طور پر پیش کر کے اس اقلیتی آبادی کی نہیں بلکہ اس کا استحصال کرنے والی (خارجی اور داخلی) سیاسی قوتوں کی خدمت کی ہے، اور اردو کی مبینہ ترقی کے سلسلے میں قائم کیے جانے والے اردو کونسل جیسے اداروں کے لیے سرکاری رقوم کی فراہمی کو اس ’’اہم ترین‘‘ مسئلے کا حل قرار دے کر سواے اپنے کسی کی خدمت نہیں کی۔ تاہم ان کے اس self-serving نقطۂ نظر سے مختلف ایک اور نقطۂ نظر بھی موجود ہے، خواہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو۔ مثلاً ابھی پچھلے ہی مہینے بی بی سی کے ایک سروے میں بہار کے نوعمر مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کا صاف صاف کہنا تھا کہ ان کی ضرورت اردو نہیں بلکہ تعلیم ہے۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کا مسلمان معاشرہ (اردو کی ادبی دنیا جس کا نہایت مختصر جزو ہے اور اس جزو میں کُل کا عکس آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے ) مجموعی طور پر نہ صرف شدید قدامت پرست اور غیر روادار ہے بلکہ اس قدامت پرستی اور عدم رواداری کی شدت مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچنے کے نام پر مولانا عبدالماجد دریابادی جیسے لوگوں نے مثلاً مرزا یگانہ اور انگارے کے مصنفین کے خلاف جو طوفان برپا کیا تھا اس کا زور نہ صرف یہ کہ تھمنے میں نہیں آ رہا بلکہ اب تو عدم رواداری کا یہ طوفان ہماری نمایاں تہذیبی شناخت بن گیا ہے۔ معلوم نہیں ایسے لوگ اقلیت میں ہیں یا اکثریت میں، لیکن اپنے شور و غوغا سے ماحول کو اس حد تک اپنے قابو میں کر لیتے ہیں کہ ان سے اختلاف رکھنے والوں کو بہت سے موقعوں پر تو زبان کھولنے تک کی ہمت نہیں ہوتی۔ پاکستان میں ان فتنہ پردازوں کا زور اتنا بڑھا کہ انھوں نے منتخب اور غیر منتخب دونوں قسم کی حکومتوں سے اپنی مرضی کے غیر معقول اور غیر منصفانہ قوانین بھی نافذ کروا لیے جنھوں نے آبادی کے کئی طبقوں، خصوصاً عورتوں اور مذہبی اقلیتوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ اس چیرہ دستی کی جھلک ادبی میدان میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ مثلاً یہاں کے ایک سرکاری ادارے اقبال اکیڈمی کے تنخواہ دار کار پردازان رفتہ رفتہ اتنے دلیر ہو گئے ہیں کہ اقبال کے بعض اشعار اور افکار پر نعوذ باللہ کی ضربیں لگانے اور ان کے ایمان کو مشکوک ٹھہرانے تک سے نہیں چوکتے۔ ہندوستان میں پوری مسلمان آبادی کو پرسنل لا بورڈ والوں نے یرغمال بنا رکھا ہے جو اپنی مرضی کے نان ایشوز کو مسلمانوں کے اصل مسائل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور کسی کو انھیں ٹوکنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ اس مروجہ تنگ نظر اور دقیانوسی نقطۂ نظر سے اختلاف کی جرأت کرنے والے مسلمانوں تک کو دائیں بازو کی ہندو سیاسی پارٹیوں کا ہم نوا قرار دے کر چپ ہونے پر مجبور کر دیا جاتا ہے ؛ رہے اردو کے معدودے چند غیرمسلم ادیب تو ان کے لیے تو لکیر سے ذرا اِدھر اُدھر ہونے پر بی جے پی یا آر ایس ایس سے وابستگی کا الزام تیار ہی رکھا رہتا ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں کی اس بڑھتی ہوئی قدامت پرستی اور عدم رواداری کا پورا عکس گیان چند جین کی کتاب پر ہونے والی بحث میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے مخالفین کا سارا زور مصنف کو بدنیت اور سازشی ٹھہرانے پر رہا ہے جبکہ کتاب میں اٹھائے گئے نکات کا تجزیہ کرنے پر تقریباً کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس کی مثال کتاب کے ’انتساب زدگان‘، مقدمہ نگاروں اور ناشر کے سلسلے میں کی جانے والی خیال آرائیاں ہیں جن کا اصل بحث سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک متجسس پڑھنے والے کی حیثیت سے میں نے زیر بحث کتاب کا بغور مطالعہ کیا اور کئی جگہ مصنف سے مختلف رائے رکھنے کے باوجود مجموعی طور پر اس کتاب کے لیے اپنے دل میں بڑی قدر محسوس کی۔ ہم دوسروں کو کیسے دکھائی دیتے ہیں، یہ ہمیں دوسروں کی رائے کے بے روک ٹوک اظہار کے سوا بھلا اور کس ذریعے سے معلوم ہو سکتا ہے ؟ (یہ تاریخ اور سیاست کا المیہ ہے کہ تمام عمر اردو میں لکھنے اور اردو پڑھانے والے گیان چند جین کو ’’دوسرا‘‘ یا ’’غیر‘‘ کہنا پڑ رہا ہے ؛ وجہ صرف یہ کہ ان کا مذہبی عقیدہ اورلسانی و تہذیبی نقطۂ نظر اردو لکھنے پڑھنے والوں کی غالب —اور غضب ناک— اکثریت سے مختلف ہے۔ )
مجھے اپنے مشاہدے کی روشنی میں ان کی یہ مرکزی بات حقیقت پر مبنی محسوس ہوتی ہے کہ اردو پر قدامت پرست مسلمان نقطۂ نظر کا غلبہ ہے اور اس نقطۂ نظر کا اظہار کئی موقعوں پر خاصا پُر تشدد اور غیر روادارانہ ہو سکتا ہے۔ اس کی جھلکیاں ادب میں بھی کثرت سے ملتی ہیں، لیکن اسے محض ادب تک محدود رکھنا نادانی ہو گی۔ مثلاً پاکستان کے بڑے قومی روزناموں (جنگ، نوائے وقت، امت وغیرہ)میں شائع ہونے والے مضامین اور کالموں میں، اور پاکستانی تعلیمی اداروں میں مروج درسی کتابوں میں، غیرمسلموں کے مذہب، رسم و رواج اور ثقافتی یا سیاسی نقطۂ نظر کی تحقیر اور تذلیل ایک معمول کی بات ہے۔ (اور تو اور، علامہ اقبال سے کتنی ہی ایسی باتیں روایت ہیں جن میں انھوں نے غیرمسلموں خصوصاً ہندوؤں کے بارے میں اسی قسم کے خیالات ظاہر کیے ہیں۔ ) یہودیوں اور قادیانیوں کی تو بات ہی جانے دیجیے جن کی حمایت میں کچھ کہنا گویا مصیبت کو دعوت دینا ہے، ہندوؤں کے لیے جو الفاظ بے دھڑک استعمال کیے جاتے ہیں وہ شیخ احمد سرہندی کے الفاظ کی بازگشت معلوم ہوتے ہیں۔ اب شیخ سرہندی ہوں یا شاہ ولی اللہیا مولانا اشرف علی تھانوی یا علی میاں یا ان کے کوئی پاکستانی ہم رتبہ بزرگ، یہ سب ہستیاں عقیدت کی ایسی گاڑھی دھند میں ملفوف ہیں کہ ان کے تنگ نظر خیالات سے کھلم کھلا اختلاف کرنا انتہائی دشوار بنا دیا گیا ہے۔ یہ دشواری پاکستان میں تو ہے ہی جہاں اس غالب نقطۂ نظر کو مقتدر قوتوں اور ان کے من مانے قوانین کی پشت پناہی حاصل ہے، ہندوستان میں بھی ہر اعتبار سے بند مسلمان معاشرے کے داخلی دباؤ کے باعث کچھ ایسی کم نہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ جین صاحب پر کھل کر کڑکنے اور برسنے والے معترضین بشمول شمس الرحمٰن فاروقی، شمیم حنفی، اسلم پرویز، اطہر فاروقی وغیرہ، مذکورہ بالا متبرک ہستیوں کے خیالات، ہندوستانی مسلم آبادی کی ذہنیت اور طرز عمل پر ان کے اثرات اور ہندوستانی معاشرے کے لیے ان کے مضمرات کو تفصیل سے زیر بحث لانے اور ان کی بابت اپنی موافق یا مخالف رائے ظاہر کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہاں اگر گھٹنے پیٹ کی طرف مڑنے نہیں لگتے تو پانی نشیب میں مرنے لگتا ہے۔ گیان چند جین نے اگر شیخ سرہندی وغیرہ کے معروف اور مروج خیالات کی طرف توجہ دلائی تو ان پر سازش اور فرقہ پرستی کے قابلِ افسوس الزامات یا بنیا ہونے کے نسل پرستانہ طعنے کے ساتھ چڑھ دوڑنا البتہ آسان کام ہے جس میں کسی چوٹ چپیٹ کا اندیشہ نہیں۔
جملۂ معترضہ: جدید دنیا کے کم از کم دو بڑے پہلو ایسے ہیں جن سے نمٹنے کی کوئی تدبیر مسلمان معاشرے میں مروج قدیم دقیانوسی نسخوں میں دستیاب نہیں: ایک تو یہ کہ ایسے کثیر مذہبی اور کثیر تہذیبی معاشرے میں کیسے رہا جائے جہاں مختلف گروہوں کا باہمی تعلق حاکم اور محکوم کا نہ ہو؛ دوسرا یہ کہ جدید دور کی عورت سے کیسے معاملہ کیا جائے جو مرد کے برابر کا فرد بننے سے کم پر راضی نہیں۔ میری رائے میں آج کی دنیا کے ان دونوں پہلوؤں کے بارے میں کوئی معقول تہذیبی طرز عمل مرتب کرنے کے لیے مسلمانوں کا مذکورہ بالا قدامت پرست انداز فکر سے علی الاعلان پیچھا چھڑانا ضروری ہے۔ یہ مسلمانوں کے دانشور طبقے کی ذمے داری ہے جسے وہ موثر طور پر انجام دینے سے اب تک قاصر رہا ہے۔
برصغیر کے مسلمان معاشرے میں رائج تعصب اور تنگ نظری پر مبنی خیالات ادبی اور تنقیدی تحریروں میں بھی اپنا عکس ڈالتے رہے ہیں۔ جین صاحب نے بطور مثال داستان امیر حمزہ اور بوستان خیال، کاظم علی جوان اور اخترحسین رائے پوری کے ترجموں، اور مولوی عبدالحق، ابو اللیث صدیقی، معین الدین عقیل، فرمان فتحپوری وغیرہ کی تحریروں کے باقاعدہ حوالے دیے ہیں اوراقتباسات پیش کیے ہیں۔ اس پر ان کے معترضین کا رد عمل صرف اس تلملاہٹ تک محدود رہا ہے کہ یہ حوالے دینے یا ان اقتباسات سے کوئی معنی برآمد کرنے کی جرأت ہی کیونکر کی گئی۔ ان حضرات کا خیال ہے کہ اس موضوع کی جانب اشارہ کرنا اور اردو کے قدیم اور جدید ادیبوں، مورخوں، مترجموں، محققوں اور نقادوں کی تحریروں میں اس قسم کے رجحانات کی نشان دہی کرنا ہی فرقہ پرستی کے مترادف ہے۔ اِدھر پاکستان میں ہند مسلم معاشرے اور اردو کی انھی متعصبانہ خصوصیات کو اس کے اعزاز و اکرام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اردو کی دو رُخی سیاست کو دیکھتے ہوئے مذکورہ بالا رد عمل کوکسی حیرت کا سبب نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستانی بابایانِ اردو اس زبان کو دو قومی نظریے اور قیام پاکستان کی بنیاد قرار دینے میں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں تو ان کے ہندوستانی ہم رتبہ بزرگ اسے ہندومسلم اتحاد کی زبان قرار دینا مرغوب رکھتے ہیں۔ ہم جیسے سادہ لوحوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ان دونوں یکسر متضاد خیالات پر بیک وقت اور یکساں درجے کا ایمان رکھیں۔ انگریزی ناول 1984 کے مصنف جارج آرول نے اسی قسم کے انداز فکر و گفتگو کے لیے ’’ڈبل تھنک‘‘(doublethink) اور ’’ڈبل اسپیک‘‘ (doublespeak) کی اصطلاحات وضع کی تھیں۔
گیان چند جین نے یہ کہنے کی جرأت کی ہے کہ جب اردو کے مسلمان لکھنے والے دیگر مذاہب کی متبرک سمجھی جانی والی ہستیوں، ان باشندوں کے رسم و رواج، ان کی ثقافتوں اور زبانوں کی تحقیر کرتے ہیں، یا مسلمان حملہ آوروں، حکمرانوں اور داستانی کرداروں کے ان کارناموں پر فخر کرتے ہیں کہ انھوں نے کتنی بت شکنیاں کیں، کتنی عبادت گاہیں مسمار کیں، کتنے کفار کو تہہ تیغ کیا، کتنوں کو(بزورِ شمشیر یا بزورِ کولھو) حلقۂ اسلام میں اور کتنوں کی مستورات کو(بزورِ نکاح یا بلا نکاح) اپنے حرم میں داخل کیا، وغیرہ، تو خواہ خود ان لکھنے والوں یا ان کے ہم مذہب پڑھنے والوں کو اس کا احساس ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو، دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو اس سے رنج پہنچ سکتا ہے اور پہنچتا ہے۔ میں ان کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں، اور یہ سمجھتا ہوں کہ ان تمام مذکورہ (اور غیر مذکورہ) تحریروں کا مطالعہ اس زاویے سے بھی کیا جانا چاہیے تاکہ اردو زبان سے ان منفی رجحانات کو دور کیا جا سکے اور اردو کے لکھنے اور پڑھنے والوں کو ان امور کے بارے میں حساس بنایا جا سکے۔ اگر اردو دنیا اور برصغیر کے مسلم معاشرے میں انصاف کا چلن ہوتا اور ہم لوگوں میں اپنے سے مختلف کسی دوسرے نقطۂ نظر کے وجود کو تسلیم کرنے کی اہلیت ہوتی تو یہ بات اردو کے کسی مسلمان لکھنے والے کی طرف سے سامنے آنی چاہیے تھی۔ اس کے برخلاف یہاں حال یہ ہے کہ اس حقیقت کو سامنے لانے پر گیان چند جین پر لعن طعن کی جا رہی ہے۔
ہمارے یہاں مروج اس رویے اور اس کے عواقب کا اندازہ مندرجہ ذیل تین نمایاں مثالوں سے کیا جا سکتا ہے جو ’حریف‘ زبانوں سے اردو کی کشمکش کے سلسلے میں ہماری تاریخ میں ملتی ہیں۔ 1900 میں شمال مغربی صوبہ و اودھ کے لیفٹیننٹ گورنر میک ڈونل نے حکم جاری کیا کہ اردو کے ساتھ ساتھ ناگری رسم الخط کو بھی صوبے کی عدالتوں میں استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔ 1954 میں پاکستان کی مرکزی اسمبلی نے (مشرقی بنگالیوں کی چھ سالہ مسلسل جد و جہد کے بعد ) ایک رسمی قرار داد منظور کی کہ اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ کو بھی پاکستان کی قومی زبان سمجھا جائے گا۔ 1972 میں صوبہ سندھ کی اسمبلی نے (سندھیوں کی تیرہ برس کی متواتر کوشش کے بعد ) قرار داد منظور کی کہ اردو کے ساتھ ساتھ سندھی کو بھی صوبے کے اسکولوں میں لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے گا۔ اس بات کو دھیان میں رکھیے کہ ان تینوں موقعوں پر اردو کو ہٹا کر اس کا مقام کسی دوسری زبان کو نہیں دیا جا رہا تھا بلکہ اردو کو اس کی جگہ قائم رکھتے ہوئے دوسری زبان کو اس کا حق دینے کی کوشش کی جا رہی تھی، لیکن بابایانِ اردو نے اس کوشش کو بلا تکلف اردو کے قتل سے تعبیر کیا، کیونکہ کسی اور زبان کو جینے یا پنپنے کی گنجائش دینا ان حضرات کے نزدیک اردو کی موت کے مترادف ہے۔ وجہ بالکل سادہ ہے: اردو کی سیاست پر قابض یہ لوگ اس بات کا ادراک کرنے کے اہل ہی نہیں کہ لوگوں کے کسی اور گروہ کی بھی اپنی زبان سے وابستگی ہو سکتی ہے اور اس گروہ کے بھی لسانی حقوق ہو سکتے ہیں۔ ان کا اندازِ فکر انیسویں صدی کی ہندمسلم معاشرت کے بطلِ جلیل، شہید ملت نواب شمس الدین خاں (بابائے داغ) سے مستعار معلوم ہوتا ہے جن کی نظر میں انصاف اس کا نام تھا کہ ان کے والد کی چھوڑی ہو ئی جاگیروں میں سے ان کے برادرِ خورد کو کچھ نہ ملے، سب کچھ نواب موصوف کو دیا جائے، اور فرنگی استعمارسے ان کی دشمنی اسی ارفع اخلاقی قضیے کی بنیاد پر شروع ہوئی تھی کہ انگریز حاکموں نے اس ترکے کا ایک حصہ ان کے بھائی کے حوالے کر کے انصاف کا خون کر دیا تھا۔
رسم الخط سے متعلق باب میں گیان چند جین نے جو بات کہی اس کا رد عمل بھی بلاسوچے سمجھے غیر ضروری طیش کے اظہار کے سوا کچھ نہ ہوا۔ جین صاحب کے مطابق وہ اس بات کے قائل ہیں کہ اردو کا رسم الخط بدلا نہیں جانا چاہیے، لیکن اس رسم الخط کے برقرار رہنے کا صرف یہی جواز کافی ہے کہ اس زبان کے استعمال کرنے والے اس کے رسم الخط کو بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اس کے لیے دنیا کے باقی ہر رسم الخط کو اردو کے مروجہ رسم الخط سے کمتر اور ناقص ثابت کرنے کی بے سود کوشش میں خود کو ہلکان کرنا آخر کیوں ضروری ہو؟ جیسے دوسرے ہر رسم الخط کی اپنی خوبیاں اور محدودیتیں ہیں ویسے ہی اردو کے مروج رسم الخط کی بھی ہیں۔ اگر رسم الخط کسی زبان کے بولنے اور لکھنے پڑھنے والوں کے درمیان ایک سمجھوتے کا نام ہے کہ کن آوازوں کے لیے کون سی علامتیں استعمال کی جائیں گی، تو اس میں ایک رسم الخط کے دوسرے رسم الخط پر مطلق اعتبار سے برتر ہونے کا سوال کیونکر پیدا ہوتا ہے، سواے اس کے کہ آپ کسی مخصوص رسم الخط کو آسمان سے اترا ہوا سمجھتے ہوں۔ اسی بحث میں گیان چند جین کی کتاب سے ایک اور معنی خیز نکتہ یہ بھی برآمد ہوتا ہے: اگر گاندھی یہ کہنے پر مذمت کے سزاوار ٹھہرے کہ قرآن کے حرفوں میں لکھے جانے کی وجہ سے اسے مسلمانوں کی مذہبی زبان سمجھا جانا چاہیے، تو محمد حسن عسکری اپنے اس قول پر اس سے مختلف سلوک کے حقدار کیوں ہیں کہ ’’اردو رسم الخط ملتِ ابراہیم حنیف کا پرچم ہے بلکہ یہ رسم الخط تو موذن ہے جو ہر وقت…الخ‘‘ ؟ (موذن مرحبا ’’ہر وقت‘‘ بولا!)
جس زبان کو امرت رائے اور شمس الرحمٰن فاروقی دونوں اپنے اپنے نقطۂ نظر سے ’’ہندی‘‘ کا نام دیتے ہیں اس کی ابتدا کی تحقیق کے سلسلے میں گیان چند جین کا کہنا ہے:
’’اردو کی قدیم تاریخ جاننے کے لیے عربی فارسی نہیں، پراکرت اور اپ بھرنش کی واقفیت چاہیے، اگر براہ راست نہیں تو کم از کم ہندی میں جو مواد ملتا ہے اس سے تو استفادہ کر لیں۔ لیکن بیسویں صدی کے نصف اول کی اردو تحریک نے ہندی زبان اور قدیم تحریروں کی محض تضحیک کرنا سکھایا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس علم کے بغیر اہلِ اردو اپنے شجرے کے بارے میں جاہلِ مطلق رہ گئے۔ …اردو ہندی کے آغاز کی بات محض اصطلاحوں کا معاملہ نہیں، وہ تو ہندی اور اس کے اجداد، اپ بھرنش، پراکرت، سنسکرت اور ویدک بھاشا سے اچھی جانکاری کی بات ہے۔ اردو والوں کو ان زبانوں اور ان کے الفاظ سے ایک بھڑک، ایک چڑ ہے۔ ‘‘ (ص7-66)
مجھے یہ توقع معقول محسوس ہوتی ہے کہ اردو ہندی تنازعے کے موضوع پر لکھنے والے اردو مورخ اور محقق، جو یقیناً اردو کی قدیم تاریخ کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر رکھتے ہوں گے، ہمیں یہ بھی بتائیں کہ اس سلسلے میں دوسرا یا مخالف نقطۂ نظر کیا ہے، کن افراد کی کن کتابوں میں ملتا ہے، کن شواہد کو پیش کرتا ہے، کس استدلال کی بنیاد پر ان شواہد کا تجزیہ کرتا ہے، کن نتائج پر پہنچتا ہے اور یہ شواہد، استدلال اور نتائج کس بنیاد پر رد کیے جانے کے مستحق ہیں۔ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے ایک عام قاری کی حیثیت سے میں مثلاً شمس الرحمٰن فاروقی سے یہ توقع کرنا اپنا حق سمجھتا ہوں۔ لیکن انھوں نے اپنی کتاب اردو کا ابتدائی زمانہ میں اس بارے میں صرف اتنا کہنا کافی سمجھا:
’’زمانۂ حال میں اس نظریے کو سب سے زیادہ تفصیل اور بسط کے ساتھ امرت رائے نے اپنی کتاب …میں پیش کیا ہے۔ امرت رائے کا نظریہ تضادات سے پُر ہے، اور اس کی بنیاد متعصبانہ ظن و تخمین پر ہے، نہ کہ ٹھوس حقائق پر۔ لیکن اردو والوں نے اس کا کوئی اطمینان بخش جواب تا حال نہیں دیا ہے۔ … میرے علم و اطلاع کے مطابق صرف مرزا خلیل احمد بیگ نے امرت رائے کا رد لکھا، لیکن وہ پوری طرح کارگر نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اپنی زبان کے آغازی سرچشموں کے بارے میں خود اردو والوں کے ذہن صاف نہیں ہیں۔ ‘‘ (ص 11-12)
تو پھر سوال یہ ہے: مقابل یا مخالف نقطۂ نظر کا جواب دینے یا اسے رد کرنے کے منفی جذبے ہی سے سہی، یہ کام آخر کون کرے گا، اور اس کے لیے اس جانکاری کی ضرورت ہو گی یا نہیں جس کی طرف گیان چند جین نے مندرجہ بالا اقتباس میں توجہ دلائی ہے ؟ اس قسم کی توقع ابو اللیث صدیقی اور فرمان فتحپوری جیسے مصنفوں سے تو وابستہ کی نہیں جا سکتی، جن کی کتابیں اپنی گوناگوں خصوصیات کے باعث، میری طالب علمانہ رائے میں، ردی کی ٹوکری میں جگہ پانے کی مستحق ہیں۔
گیان چند جین نے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ اپنے اپنے محدود اور تنگ نظر اندازِ فکر کے باعث اردو اور ہندی کے محقق اور زبان داں افراد اپنی اپنی زبان کی تاریخ کا ادھورا تصور رکھتے ہیں ؛ اس تصور کو معقول حد تک وسیع اور مکمل کرنے کے لیے ان دونوں کو اپنے انداز فکر میں وسعت پیدا کرنی ہو گی اور شمالی ہندوستان کے اردو اور ہندی سے متعلق خطے میں پائے جانے والے نمونوں کا احتیاط سے تجزیہ کر کے زبان کے تاریخی ارتقا کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ (پروفیسر چودھری محمد نعیم نے اپنے مضمون Urdu in the Pre-modern Period: Synthesis or Particularism? میں ایسے کئی نمونوں کی نشان دہی کی ہے جنھیں کسی نہ کسی وجہ سے اردو کے تاریخی canonکا حصہ نہیں بنایا گیا۔ ان میں ملک محمد جائسی کی پدماوت بھی شامل ہے جس کے اولین مخطوطے اردو رسم الخط میں ملتے ہیں۔ میں نے 2003 میں پروفیسر نعیم کے اس مضمون کا اردو میں ترجمہ کر کے ’’ماقبل جدید دور کی اردو: امتزاج یا امتیاز؟‘‘ کے عنوان سے اپنے رسالے آج کے شمارہ 42میں شائع کیا تھا۔ ) جین صاحب کا خیال ہے کہ اس قسم کی کوشش امرت رائے نے اپنی کتاب A House Divided میں کی ہے اور ان کی کتاب میں سامنے لائے گئے نمونوں میں سے ایک چوتھائی کو بھی اردو والوں کی توجہ حاصل نہیں ہوئی۔ میرے نزدیک اس بات پر برا ماننا قطعی غیر ضروری ہے۔ اگر اردو کے محققوں کی جستجو حقائق تک پہنچنے کے لیے ہے تو انھیں امرت رائے کے پیش کردہ نمونوں کا اپنے نقطۂ نظر سے تجزیہ کر کے اپنی تحقیق کے نتائج کو پڑھنے والوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور جو نمونے اس کتاب میں سامنے نہیں لائے گئے ان کو بھی سامنے لانا چاہیے۔ جین صاحب کا کہنا ہے کہ زبان کی تاریخ کی بابت اس تحقیقی عمل کی راہ میں اردو اور ہندی والوں کے وہ سیاست زدہ موقف رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جنھیں تاریخ کے ایک خاص نقطے پر اختیار کیا گیا تھا۔ میں ان کی اس بات سے بھی متفق ہوں۔
شمالی ہندوستان میں اردو ہندی تنازعہ اس وقت پیدا ہوا تھا جب انگریزوں نے نچلی عدالتوں اور انتظامی اور تعلیمی اداروں میں فارسی کی جگہ مقامی زبانوں کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ (یہ برصغیر کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ حکومت کی طرف سے عام مقامی باشندوں کی تعلیم کے سلسلے میں کسی قسم کی پالیسی اختیار کی گئی۔ ) اس موقعے پر دو متخالف موقف رکھنے والے دو گروہ سامنے آئے جن میں سے ایک ناگری رسم الخط (اور موجودہ ہندی زبان) استعمال کرنا چاہتا تھا اور دوسرا اردو کو اس کے مروج رسم الخط میں۔ اس مناقشے نے رفتہ رفتہ مناظروں، مجادلوں اور ایک دوسرے کا متشدد انداز میں رد کرنے والی تحریروں کے ذریعے اردو والوں اور ہندی والوں کے ذہنوں میں اس پختہ خیال کی صورت اختیار کر لی کہ ان کی پسندیدہ زبان مخالف زبان پر تاریخی اعتبار سے مقدم ہے، لسانی خصوصیات کے لحاظ سے فوقیت رکھتی ہے، برتر رسم الخط کی مالک ہے اور پورے برصغیر کی ’’قومی‘‘ زبان بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس تنازعے کی تفصیلات بہت سی کتابوں اور مضامین کا موضوع بنی ہیں لیکن بیشتر تحریروں میں اپنے اپنے سیاسی موقف سے اوپر اٹھ کر پورے منظر پر نگاہ ڈالنے کا رجحان مفقود ہے۔ اس کی ایک دلچسپ مثال اردو اور ہندی والوں کی ان تحریروں میں ملتی ہے جو فورٹ ولیم کالج نامی ادارے کی تاریخ سے (جس کی تعلیمی سرگرمیاں، برسبیلِ تذکرہ، فورٹ ولیم نامی قلعے میں کبھی پیش نہیں آئیں ) یہ نتیجہ نکالنے پر مصر ہیں کہ انگریز اردو اور ہندی کے سلسلے میں پھوٹ ڈال کر راج کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے اور اردو والوں کی نظر میں ہندی کو اور ہندی والوں کی نگاہ میں اردو کو آگے بڑھانے کی سازش میں مصروف تھے۔ آئیے اس ادارے کی تاریخ پر مختصراً نگاہ ڈالیں۔
اردو والوں اور ہندی والوں کے موقف کی روشنی میں فورٹ ولیم کالج کوئی ایسا ادارہ معلوم ہوتا ہے جیسے ہندی ساہتیہ سمیلن یا انجمن ترقی اردو، جسے اردو اور ہندی میں تفریق پیدا کرنے اور اردو یا ہندی کے ادب کو ترقی دینے کے مقصد سے وجود میں لایا گیا تھا۔ شواہد اس تصور کی تصدیق نہیں کرتے۔ 1800 میں قائم کیے جانے والے اس ادارے کے تحریری دستور کی روشنی میں اس کا مقصد انگلستان سے آنے والے کمپنی کے ملازمین میں مقامی زبانوں، قوانین، تاریخ، رسم و رواج اور معیشت سے اس قدر واقفیت پیدا کرنا تھا کہ وہ کمپنی کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے مقامی باشندوں سے معاملہ کر سکیں اور انتظامی سرگرمیاں انجام دے سکیں۔ ان ملازمین کو اقتصادیات، جغرافیہ، ریاضی اور سائنس کی تعلیم دینا بھی اس ادارے کے مقاصد میں شامل تھا۔ جہاں تک مقامی زبانوں کا تعلق ہے، اس دستور کے تحت کلاسیکی زبانوں عربی، فارسی اور سنسکرت کے علاوہ مقامی زبانوں ہندوستانی، بنگالی، تیلگو، مراٹھی، تامل اور کنڑ کو کمپنی کے ملازمین کو سکھانے کے لیے چنا گیا تھا۔ (ہندوستانی زبان کے شعبے کے وجود میں آنے پر اس میں اردو کے ساتھ ساتھ ناگری رسم الخط سکھانے والے افراد کا بھی تقرر کیا گیا۔ ) مندرجہ بالا تفصیلات سے اول تو اردو والوں اور ہندی والوں کا یہ دعویٰ مشترکہ طور پر رد ہو جاتا ہے کہ ان کی زبان پورے برصغیر میں ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی تھی (چنانچہ ’’قومی‘‘ زبان بنائے جانے کی مستحق تھی)، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو کمپنی کے ملازمین کو دیگر زبانیں سکھانے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ (یہ بات بھی یاد رکھیے کہ اس کالج کے لیے کمپنی کے ڈائرکٹروں سے رقم حاصل کرنے میں خاصی مشکل پیش آتی تھی؛ یہ کوئی اردو کونسل کی قسم کا ادارہ نہیں تھا جس کا بجٹ ایک کروڑ سے بڑھا کر تین سال میں آٹھ کروڑ کر دیا جائے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ ) دوسرا نکتہ یہ سامنے آتا ہے کہ ناگری رسم الخط کسی نہ کسی حد تک مروج تھا اور شمالی ہندوستان کے باشندوں کی کچھ نہ کچھ تعداد ایسی تھی جن سے رابطہ رکھنے کے لیے انگریز طلبہ کو یہ رسم الخط سکھانا ضروری سمجھا گیا۔ یہ کوئی ایسی شے بہرحال نہیں تھی جسے انگریزوں نے فورٹ ولیم کی تجربہ گاہ میں ایجاد کر کے شمالی ہندوستان کے جسم میں داخل کر دیا ہو۔ جہاں تک پھوٹ ڈلوانے کے الزام کا تعلق ہے، ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ کسی اور زبان کے شعبے میں الگ الگ رسم الخط کے منشیوں وغیرہ کا تقرر کیا گیا ہو۔ مذکورہ کالج سے باہر بھی یہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ انگریزوں کی پالیسی کے نتیجے میں برصغیر کے کسی اور علاقے میں ایسا لسانی تنازع پیدا ہوا ہو جیسا شمالی ہندوستان میں اردو اور ہندی کے سلسلے میں ہوا۔ کیا اس سے یہ واضح نتیجہ برآمد نہیں ہوتا کہ اس مخصوص علاقے میں یہ تقسیم پہلے سے موجود تھی اور نئے حکمرانوں کے راج میں دونوں گروہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ معاشرتی گنجائش اور معاشی مفادات حاصل کرنے کے لیے کوشاں تھے اور اس باہمی رقابت کے زیر اثر یہ چاہتے تھے کہ ان کے مخالف گروہ کے وجود کو تسلیم نہ کیا جائے اور نئے معاشی مواقع میں اسے کوئی حصہ نہ دیا جائے ؟
جہاں تک اس موضوع پر دستیاب اردو تحریروں کا تعلق ہے، ان میں غالب رجحان اسی عجیب موقف پر اصرار کرنے کا ہے کہ مذکورہ علاقے میں صرف ایک زبان (یعنی موجودہ اردو)اور اس کا صرف ایک رسم الخط (یعنی اردو کا موجودہ رسم الخط) پایا جاتا تھا۔ ناگری رسم الخط اور جدید ہندی استعمال کرنے کے خواہش مند گروہ کے بارے میں مبہم سی بات کی جاتی ہے کہ جیسے اس قسم کی مخلوق وجود ہی نہ رکھتی تھی، اور بالفرض موجود بھی تھی تو انگریز حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ اس گروہ کے مطالبات کو کوئی اہمیت نہ دیں۔ اگرچہ اب تاریخ کا وہ مقام اتنا پیچھے چھوٹ گیا ہے کہ پوری صورت حال یکسر منقلب ہو چکی ہے، لیکن اس کی یادگار یہ عجیب و غریب لسانی نقطۂ نظر اب تک جوں کاتوں موجود ہے اور ہم اسے اپنا قدیم ثقافتی ورثہ سمجھ کر سینے سے چمٹائے ہوئے ہیں اور اس پورے معاملے کو کسی وسیع تر تناظر میں دیکھنے کو تیار نہیں ہوتے۔ گیان چند جین نے اپنی زیر بحث کتاب میں اپنے عمر بھر کے علمی تجربے کی روشنی میں یہی بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ یہ فرسودہ نقطۂ نظر ہمیں اپنی زبان کی قدیم تاریخ سے معروضی واقفیت پیدا کرنے کی کوشش سے باز رکھتا ہے۔ ان کے خیال میں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اردو والے اس امکان پر غور کرنے تک کو تیار نہیں کہ جب انگریزوں نے برصغیر پر اپنا اقتدار مستحکم کیا تب یہاں کے غیرمسلم باشندوں میں ایک چھوٹا یا بڑا گروہ ایسا موجود ہو سکتا تھا جسے مسلمان حکمران طبقوں کی بعض پالیسیوں اور اقدامات سے آزردگی رہی ہو، جسے مثلاً داستان سرائی کی محفلوں میں مسلمان فاتحین کے ہاتھوں بت پرستوں کی تباہی و بربادی اور تحقیر و تذلیل کے بیانات سے تکلیف اور اہانت محسوس ہوتی ہو، اور نئے حالات نے جس میں اپنی پسند کی زبان اور رسم الخط کو اختیار کرنے کی خواہش پیدا کر دی ہو۔ بابایانِ اردو اس قسم کے کسی امکان کی طرف اشارہ تک کرنے سے چراغ پا ہو جاتے ہیں، جیساکہ جین صاحب کی اس کتاب پر ہونے والی بحث میں صاف دیکھا جا سکتا ہے۔
دوسرے موقف سے اعتنا کیے بغیر اپنے موقف کو واحد درست نقطۂ نظر سمجھنا اور اپنے مفاد کو مسلمہ طور پر باقی سب کے مفادات پر مقدم جاننا ہی وہ رویہ ہے جووسیع تر دائرے میں لسانی، مذہبی، صنفی اور ثقافتی رواداری کو پنپنے نہیں دیتا۔ مثلاً اپنی ناک سے آگے نہ دیکھ پانے کی اسی معذوری کے باعث ہم مسلمانوں کا خیال یہ ہے کہ مذہبی جذبات صرف ہمارے ہوتے ہیں جن کا احترام کرنا پوری دنیا کی اولین (غالباً واحد)ذمے داری ہے۔ دوسروں کے مذہب کی مقدس سمجھی جانے والی ہستیوں اور عزیز رکھے جانے والے تصورات کی اگر توہین کی جائے تو ان کو غالباً کوئی خاص تکلیف نہیں پہنچتی اور اگر پہنچتی بھی ہو تو انھیں اس کا اظہار کرنے کا کوئی حق نہیں۔ مئی 2007 میں جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک غیرمسلم رکن نے ملک کے توہین مذہب کے قانون میں ایک ترمیم پیش کرنے کی کوشش کی جس کی رو سے اسلام کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کی مقدس ہستیوں کی توہین کو بھی قابلِ سزا جرم قرار دیا جائے، تو اسمبلی کے تمام مسلم ارکان نے متفق ہو کر اس تجویز کو بحث تک کے لیے منظور کرنے سے انکار کر دیا۔ در اصل ایک انتہائی منفرد انداز فکر کا حامل ہونے کے باعث ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ جب ہمارا مذہب، ہماری ثقافت، ہماری زبان، ہمارا رسم الخط وغیرہ سب سے اعلیٰ ہے تو دوسرے لوگ کس طرح کوئی دوسرا نقطۂ نظر رکھنے کی جسارت کر سکتے ہیں۔
جیساکہ میں نے اوپر کہا، اس پوری بحث پر مجھے تعجب بالکل نہیں ہوا، افسوس البتہ بہت ہے کہ اس کتاب کی صورت میں خودت نقیدی کا جو نادر اور قیمتی موقع میسر آیا تھا اسے یوں بے دردی سے ضائع کیا جا رہا ہے۔
٭٭٭