ترجمہ، تعبیر اور سیاستِ اجتہاد
سوئے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را
(1) ’’… ترجمہ بھی تعبیر کا ایک طریقہ اور تعبیری کارگذاری ہے اور یہ صرف غیر زبان سے اپنی زبان یا کسی زبان سے کسی اور زبان میں ترجمہ کرنے پر محدود نہیں۔ ہم خود اپنی زبان سے ہر وقت ترجمہ کرتے رہتے ہیں تاکہ متن کو سمجھ سکیں۔ ‘‘ 1
(2) ’’واقعہ یہ ہے کہ قرآن کے ترجمے و تعبیر میں مسلمانوں نے جس قدر علم، ذہن، تفکر، تفحّص، احتیاط، خشیت اللہ اور راسخ الایمان عقائد سے کام لیا ہے اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن قرآن کی تفسیریں کثرت سے موجود ہیں اور کثرت سے لکھی گئیں۔ یہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی دو مفسّر ایسے نہیں جن کی صوابدید ہر جگہ بالکل متحد ہو۔ ہر مفسّر نے اپنی تفسیر اسی لیے لکھی کہ وہ متداول تفسیروں سے پوری طرح متفق نہ تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مفسروں میں سے بعض ایسے تھے جن کا ایمان راسخ نہ تھا۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ چوں کہ تعبیر میں ذاتی صوابدید آخری فیصلہ کرتی ہے اور قرآنی متن اپنی گہرائی، کثیر المعنویت، نزاکت اور ادبی حسن میں بے مثل و بے مثال ہے، اس لیے وہ کثرت سے تعبیر کا تقاضا کرتا ہے۔ ‘‘
• (3) ’’تعبیر میں ذاتی فیصلے کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے، حتیٰ کہ قرآن کے بھی قابل قبول تعبیرات و تراجم میں ذاتی فیصلہ اہم مقام رکھتا ہے۔ (واضح رہے کہ میں تفسیر بالرائے کی بات نہیں کر رہا ہوں ) اور جب قرآن کی تفسیر و تعبیر بھیMy interpretation کا درجہ رکھتی ہے تو[ادبی] متون کی بات ہی کیا ہے ؟ اور جس طرح متن کی فطرت یہ ہے کہ اس سے ہر وہ معنی نکل سکتے ہیں جن کا وجود اس متن میں ممکن ہو، اسی طرح تعبیر کی فطرت یہ ہے کہ اس پر مکمل اتفاق رائے نہیں ہو سکتا۔ ہر تعبیر میں کہیں نہ کہیں بحث یا شک یا ضمنی اختلاف، یا توسیع یا تخفیف کی گنجائش رہتی ہے۔ ‘‘
(4) ’’خود مولانا تھانوی نے لکھا ہے کہ جب وہ اپنا ترجمۂ قرآن تیار کر رہے تھے تو ہر لفظ کے ممکن تراجم پر غور کرتے تھے، اور جب کسی ایک ترجمے پر شرح صدر ہو جاتا تو اسے درج کرتے۔ ظاہر ہے کہ ذاتی کار روائی کی حیثیت سے تو حضرت تھانوی کا عمل نہایت احسن تھا، لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ ان کا شرح صدر کسی اور کے لیے حَکم نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ‘‘
• (5) ’’مضامین قرآن مجید کی تبلیغ عام ماموریہ ہے اور ظاہر ہے کہ عجم کو تبلیغ بدون ترجمے کے نہیں ہو سکتی۔ اگر ترجمہ قائم مقام اصل کلمہ کے نہ ہو تو لازم آتا ہے کہ مسلکِ سلف پر ان اجزا کی تبلیغ ممکن نہ ہو، حالانکہ وہ اصل مسلک ہے۔ پس ترجمے کو قائم مقام اصل کے کہنا لازم ہے۔ ‘‘ (مولانا اشرف علی تھانوی، بحوالہ شمس الرحمٰن فاروقی)
1
کیا ترجمہ اصل کا قائم مقام ہو سکتا ہے ؟ اس سوال کے جواب کی ایک معنویت تو وہ ہے جو ادبی تحریروں پر صادق آ سکتی ہے، لیکن اوپر دیے گئے اقتباسات میں ذکر ان مذہبی متون کا ہے جن پر لوگوں کے عقائد اور ان عقائد کی روشنی میں کیے جانے والے زندگی کے چھوٹے بڑے فیصلے منحصر ہوتے ہیں، چنانچہ جب غیر عربی زبانوں میں قرآن کے ترجمے کی نوبت آئی تو اس سے متعلق کئی سوالات پر اختلاف رائے پیدا ہوا۔ ان بحثوں میں تین سوالات زیادہ اہم تھے:
1۔ کیا قرآن کا کسی غیر عربی زبان میں ترجمہ ممکن ہے ؟
2۔ کیا قرآن کا ترجمہ شرعی اعتبار سے جائز ہے ؟
3۔ کیا کوئی غیر عربی ترجمہ قرآن کا قائم مقام ہو سکتا ہے ؟
روٹلج انسائیکلوپیڈیا آف ٹرانسلیشن اسٹڈیز (1998) میں قرآن کے ترجمے کے موضوع پر حسن مصطفیٰ کا لکھا ہوا مضمون شامل ہے جس سے درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں: 2
(1)قرآن کے ترجمے کے جواز کے مسئلے کو اس کے قابلِ ترجمہ ہونے کے نسبتاً عمومی سوال سے علیحدہ کرنا دشوار ہے۔ جو لوگ قرآن کے قطعی ناقابلِ ترجمہ ہونے کے قائل ہیں وہ اپنے موقف کی واضح حمایت سورۂ یوسف کی آیت 2 سے حاصل کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے:
“We have sent it down/As an Arabic Qur’an”
آج بھی ایک طاقتور اور با اثر مکتب فکر ایسا موجود ہے جس کی رائے ہے کہ قرآن کا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا اور جتنے بھی ’’ترجمے ‘‘ موجود ہیں وہ سب ناجائز ہیں۔ بہت سے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اگر قرآن کا ترجمہ کرنا ہی ہو تو مترجم کا مسلمان ہونا لازمی ہے۔ تاہم قرآن کے ترجمے کے ناجائز ہونے کے عقیدے کے مخالفین بھی ہمیشہ موجود رہے ہیں، یہاں تک کہ اسلام کے قرونِ اولیٰ میں بھی موجود تھے۔ عراق سے تعلق رکھنے والے محقق اور عالمِ دین امام ابو حنیفہ (c.700-767) مانتے تھے کہ قرآن کی تمام آیات کا کسی غیر زبان میں ترجمہ کرنا جائز ہے لیکن ’’اس ترجمے کو ایک جلد میں اس طرح شائع کرنا جائز نہیں جس میں اس کے مقابل اصل عربی آیات درج نہ ہوں ‘‘۔ امام ابو حنیفہ نے مزید یہ بھی اعلان کیا کہ ’’جو شخص عربی نہ جانتا ہو اس کے لیے نماز میں عربی الفاظ کے مفہوم کا اپنی زبان میں اظہار کرنا جائز ہے ‘‘۔ لیکن روایت کے مطابق بعد میں انھوں نے اپنے اس غیر روایتی موقف کو ترک کر دیا…اور اس آرتھوڈوکس خیال کو اپنا لیا جس کی رو سے وہ شخص جو عربی میں قرآن پڑھنے سے قاصر ہو، ناخواندہ تصور کیا جاتا ہے۔
(2)قرآن کے ترجمے کی ہر کوشش بنیادی طور پر ایک قسم کی تشریح ہوتی ہے، یا کم از کم متن کی کسی واحد تفہیم پر مبنی ہوتی ہے، چنانچہ ایک مخصوص نقطۂ نظر کو بڑھاوا دیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمان مترجم غیرمسلم مترجم کے مقابلے میں قابلِ ترجیح سمجھا جاتا ہے۔
• (3)قرآن کے انگریزی مترجم محمد مارماڈیوک پکتھال نے بیان کیا ہے کہ (اسلامی علوم کے مستند، روایتی مرکز واقع قاہرہ) جامعہ الازہر کے ریکٹر نے انگریزی ترجمے کی صرف اس وقت اجازت دی جب انھیں بتایا گیا کہ پکتھال اپنے ترجمے کو ’’القرآن‘‘ نہیں بلکہ ’’معانی القرآن‘‘ کا نام دیں گے۔
(4) 1925 سے 1936 تک کے عرصے میں مصر میں قرآن کے ترجمے کے جائز یا ناجائز ہونے کے سوال پر خاصی گرم بحث ہوئی۔ الازہر کی ممتاز شخصیات نے اس عمل کے حق میں اور اس کے خلاف شدید خیالات ظاہر کیے۔ ان میں سے بیشتر ابتدا میں قرآن کے ترجمے کے سرے سے ہی مخالف تھے اور بہت سوں نے محمد علی نامی ایک مسلمان کے 1918 یا 1917 میں شائع شدہ ترجمۂ قرآن پر، جو مصر میں انہی دنوں پہنچا تھا، پابندی لگانے بلکہ اسے جلا دینے کی تجویز کی حمایت کی۔
(5) 1936 میں جامعہ الازہر کے ریکٹر شیخ مصطفیٰ المراغی نے اس وقت کے وزیر اعظم کے نام اپنے خط میں باقاعدہ اعلان کیا کہ قرآن کے معانی کو کس دوسری زبان میں بیان کرنے کو قرآن نہیں کہا جا سکتا۔ شیخ مراغی کے اس موقف پر آخری فتویٰ جاری کیا گیا کہ شرعی نقطۂ نگاہ سے قرآن کا ترجمہ جائز ہے۔ اسی سال 16 اپریل کو وزرا کی کاؤنسل نے اس فتوے کی توثیق کی۔ اس فتوے میں یہ شرط شامل تھی کہ ایسے کسی بھی ترجمے کو ’’ترجمۂ قرآن‘‘ نہ کہا جائے بلکہ ’’قرآن کی ایک تعبیر کا ترجمہ‘‘ یا ’’فلاں زبان میں قرآن کی تعبیر‘‘ کا نام دیا جائے۔
(6) مذہبی رہنماؤں کے اعلانات سے قطع نظر، قرآن اور عربی زبان کی وہ مخصوص قسم جس میں وہ وحی کیا گیا، ان دونوں کے درمیان مضبوط ربط کے معنی یہ ہیں کہ وحی کردہ کتاب اور اس کے کسی بھی ترجمے کے درمیان (خواہ وہ اجازت لے کر کیا گیا ہو یا بلا اجازت) فرق ہمیشہ پیش نظر رہا۔ چنانچہ جو لوگ انگریزی جیسی کسی زبان میں انجیل پڑھتے ہیں، ممکن ہے انھیں کسی قدر یہ احساس ہو کہ پڑھا جانے والا متن ایک ترجمہ ہے جو کسی اصل متن سے کیا گیا ہے، لیکن اس احساس سے اس متن کے استناد یا اس کے اختیار پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس کے برعکس، کسی مسلمان کی نگاہ میں قرآن اور اس کے کسی ترجمے کے درمیان وہی فرق ہے جو خدا بحیثیت مصنف، مختار اور ماخذ، اور انسان بحیثیت محض ایک مترجم/معبّر کے درمیان ہے۔ پکتھال کا کہنا ہے کہ کسی غیر عرب مسلمان کو کبھی خیال تک نہ گزرا ہو گا کہ قرآن کے ان کی زبان میں ترجمے کو وہی درجہ دے دیا جائے جو انگریزی بولنے والے پروٹسٹنٹ مسیحیوں کے نزدیک انجیل کے انگریزی ترجمے کو حاصل ہے، یعنی اصل متن کا متبادل۔
2
برصغیر کی مختلف زبانوں کی طرح اردو میں بھی قرآن کے متعدد ترجمے کیے گئے اور تفسیر یں لکھی گئیں۔ تاہم ترجمے اور تفسیر کا یہ عمل محض مذہبی عالموں تک محدود رہا۔ انیسویں صدی میں، اور خصوصاً 1857 کے بعد، ٹیکنالوجی میں ہونے والی چند نمایاں ترقیوں اور نوآبادیاتی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے بعض اقدامات کے نتیجے میں، سماجی تبدیلیوں کے ایک ایسے عمل کی شروعات ہوئی جو بہت گہرے، تقریباً انقلابی نتائج پیدا کرنے کا امکان رکھتا ہے۔
اجتماعی تعلیم کے اداروں اور چھپے ہوئے لفظ کے رائج ہونے سے جو منطق پیدا ہوئی اس کا تقاضا یہی تھا کہ علم جو اس وقت تک ایک محدود اقلیت کی ملکیت تھا، وہ معاشرے کے ہر فرد کی دسترس میں آ جائے۔ اور ظاہر ہے کہ علم پر اجارہ داری کا مطلب سیاسی طاقت پر اجارہ داری تھا، اور اس کے خاتمے کے معنی اس کے سوا کچھ اور نہ نکل سکتے تھے کہ سیاسی طاقت بھی رفتہ رفتہ انسانوں کی اس بھاری اکثریت کی گرفت میں آ جائے جسے اس وقت تک ذات پات، معاشی طبقے اور جنس کی بنیاد پر، انسانیت کے نچلے درجے میں رکھا جاتا رہا تھا۔ یہ انسانوں کی معاشرتی تاریخ میں آنے والی ایسی تبدیلی تھی جس سے کترا کے گزرنا کسی بھی طبقے یا مکتبِ فکر کے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس اہم اور بنیادی معاشرتی تبدیلی کا ساتھ دینا یا پھر اس کا سامنا کرنا ناگزیر تھا۔
سیاسی اقتدار رکھنے والے مقامی طبقوں کے زوال کے ساتھ ساتھ ان سے اور ان کے درباروں، ریاستوں اور جاگیرداروں سے وابستہ ان افراد کی زندگیاں بھی متاثر ہوئیں جو خواندگی اور تحریر تک رسائی رکھتے تھے اور جن کی معاش کا دارومدار عموماً تدریس اور تعلیم کی سرگرمیوں پر ہوتا تھا۔ ان میں ایک طرف مسلمان اشراف (اکثر سادات) اور دوسری طرف ہندوؤں کی اونچی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے افراد (برہمن اور کائستھ) شامل ہوتے تھے۔ عالموں اوراستادوں کو بادشاہوں، صوبے داروں، رئیسوں اور امیروں کی بطورِ اتالیق ملازمت اختیار کرنی پڑتی تھی۔ اس ذریعۂ معاش کے لیے خود کو تیار کرنے کے مراحل یہ لوگ روایتی مکتبوں میں مکمل کرتے تھے۔ چھاپہ خانے کے مروّج ہونے کے بعد یہی لوگ تھے جنھوں نے تصنیف و تالیف اور صحافت و ادارت کے شعبوں میں نمایاں کردار سنبھالا۔
ان میں جو لوگ مذہبی عالم تھے ان کی معاشی سرگرمیوں کا رخ اب اُس آبادی کی طرف مڑ گیا جو نوآبادیاتی حکومت کی عام تعلیم کی پالیسی کے نتیجے میں خواندہ ہو گئے تھے اور چھاپہ خانے کے رواج کے باعث کتاب، رسالے اور اخبار کی صورت میں چھپے ہوئے لفظ تک رسائی پا سکتے تھے۔ یہ ایک بنیادی نوعیت کی تبدیلی تھی جس سے علم اور اطلاعات کی ترسیل کا پورا عمل اور اس کی اخلاقیات بدل کر رہ گئی۔ اس کے علاوہ ریل اور ڈاک کے نظام کے قیام سے معاشرے میں تبدیلی کا عمل اور تیز ہو گیا تھا۔ اس نئی صورت حال میں مذہبی عالموں نے جو حکمت عملی اختیار کی اس کو سمجھنے کے لیے دارالعلوم دیوبند اور خصوصاً مولانا اشرف تھانوی (1863-1943) کی سرگرمیوں کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ اگرچہ عام طور پر علی گڑھ اور دیوبند کو ایک دوسرے کی ضد خیال کیا جاتا ہے، لیکن ان دونوں کے درمیان اشتراک کے پہلو بھی نہایت اہم ہیں۔ مثال کے طور پر چھاپے خانے، ڈاک اور ریل کے بغیر نہ سرسید کا تصور کیا جا سکتا ہے اور نہ مولانا تھانوی کا۔ مذہبی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مولانا تھانوی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کانپور کی ایک مسجد میں ملازمت سے کیا، لیکن کچھ عرصے بعد تھانہ بھون میں مقیم ہو گئے اور آزادانہ کام کرنے لگے۔ اپنے پیش رو عالموں کے برعکس، اور نئے دور کے تقاضوں کے مطابق، نہ صرف انھوں نے برصغیر کے مختلف مقامات کا سفر کر کے وعظ کہنے کا طریقہ اختیار کیا بلکہ ایسی کتابیں اور رسالے تصنیف کیے جن میں عام لوگوں سے خطاب ہوتا تھا، اور بذریعۂ ڈاک ان سے براہِ راست خط و کتابت بھی ان کی سرگرمی کا ایک بڑا جز تھا۔ لوگوں کو اپنے نقطۂ نظر کا قائل کرنے کے لیے جدید ذرائع استعمال کرنا اپنی جگہ، لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ جہاں تک تہذیبی اور سیاسی نقطۂ نظر کا تعلق ہے، سرسید اور مولانا تھانوی دونوں اپنے اپنے انداز میں قدامت پسند تھے، اگرچہ موخرالذکر کی قدامت پسندی نسبتاً زیادہ راسخ العقیدہ نوعیت کی تھی۔
مولانا تھانوی جس مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اس کے نزدیک قرآن اور دیگر مذہبی متون کی تعبیر کرنا صرف ان افراد کا حق ہے جنھوں نے مقر رہ مذہبی تعلیم حاصل کی ہے اور تعبیر و تشریح کی اس سرگرمی کو (جسے وہ خود ’’تعلیم و تبلیغ‘‘ کہتے ہیں ) اپنے کل وقتی کام کے طور پر اختیار کر رکھا ہے۔ اسی لیے قرآن کا ترجمہ براہ راست پڑھنے کے معاملے میں عام لوگوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ جہاں تک اس کل وقتی سرگرمی کو ذریعۂ معاش بنانے کا تعلق ہے، بہت عرصے تک اسے متقدّمین کے اس قول کی بنا پر ناجائز تصور کیا جاتا رہا کہ تعلیمِ قرآن کا معاوضہ لینا ناجائز ہے۔ بعد میں متاخّرین میں سے کسی کے قول کی بنیاد پر، جس کی رو سے مخصوص حالات میں بعض شرائط کی قیود میں رہتے ہوئے تعلیمِ قرآن کا معاوضہ لیا جا سکتا ہے، اسے جائز قرار دے لیا گیا۔ پیشہ ور مذہبی عالموں کا پورا طبقہ، جس سے ہم آج واقف ہیں، اسی اجتہاد کے نتیجے میں وجود میں آیا اور مستحکم ہوا، اگر چہ اب اُن شرائط کا ذکر مشکل ہی سے سننے میں آتا ہے جن کے تحت اس سرگرمی کے ذریعۂ معاش کے طور پر اختیار کرنے کو جائز قرار دیا گیا تھا۔
چنانچہ عربی سے ناواقف برصغیر کے مسلمانوں کے حصے میں قرآن کا ترجمہ بھی نہیں بلکہ قدیم تفسیروں کی شرحیں آئیں۔ انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں ہونے والی معاشرتی تبدیلیوں کے پیش نظر انھیں متعدد نئے نئے موضوعات اور مسائل پر مذہبی نقطۂ نظر جاننے کی ضرورت پیش آتی تھی تاکہ وہ اس کی روشنی میں ان معاملات پر اپنے فیصلے کر سکیں جو ان کی زندگیوں کو متاثر کر رہے تھے۔ آئندہ صفحات میں ان میں سے ایک، یعنی عورتوں کے نکاح منسوخ کرانے کے حق، کے سلسلے میں سامنے آنے والے مذہبی موقف کا جائزہ لیا جائے گا۔
3
اقبال نے (جنھیں حکیم الامت کا لقب دیا جاتا ہے ) اپنے خطبات میں اس معاشرتی مسئلے کی جانب توجہ دلائی کہ جو عورتیں اپنے ناپسندیدہ شوہروں سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہیں ان کے لیے اسلامی (حنفی) فقہ میں کوئی گنجائش نہیں کہ وہ اپنا نکاح منسوخ کرا سکیں، چنانچہ پنجاب میں اُن دنوں (1920 کے عشرے میں ) ایسے واقعات کثیر تعداد میں پیش آئے کہ ایسی عورتوں نے عدالت کے روبرو بیان دیا کہ وہ عیسائی ہو چکی ہیں، اور عدالت نے تبدیلیِ مذہب کی بنا پر ان کا نکاح منسوخ کر دیا۔ اقبال نے تقلید کے قائل ہندوستانی مسلمان عالموں پر زور دیا کہ اس مسئلے کا حل اجتہاد کے ذریعے تلاش کریں تاکہ ان عورتوں کو ناگوار رشتے سے نکلنے کی خاطر مذہب تبدیل نہ کرنا پڑے۔ یہ بات واضح ہے کہ اقبال نئے زمانے کی عورتوں کے اس مطالبے کو جائز سمجھتے تھے کہ انھیں اپنی زندگی کے اہم فیصلے کرنے کا اختیار ہو اور چاہتے تھے کہ اجتہاد کے ذریعے اس تبدیلی کی راہ ہموار کی جائے۔
محمد سہیل عمر لکھتے ہیں:
’’علامہ کے خطبات 1930 میں چھپے تو ہندوستانی علما میں سب سے پہلے مولانا اشرف علی تھانوی نے اس پر توجہ کی اور ان کی تصنیف الحیلۃ الناجزہ للحلیلۃ العاجزہ 1931 میں منظرِ عام پر آ گئی۔ …حنفی فقہ میں کوئی قابلِ عمل حل نہ پا کر مولانا نے فقہ مالکی کے میدان میں قدم رکھا، اس کے اصولِ فقہ پر عمل کیا اور اس کی پیروی کی۔ … آج کی اصطلاح میں ایک فقہی پیراڈائم سے نکل کر دوسرے فقہی پیراڈائم میں داخل ہونا اجتہادِ مطلق سے کس طرح کم تر کہا جا سکتا ہے ؟‘‘ 3
تاہم، مولانا تھانوی نے (ان کے عقیدت مند انھیں حکیم الامت کہا کرتے تھے ) اس سلسلے میں اقبال کے خطبات کا حوالہ دینے سے احتراز کیا۔ رسالے کی تصنیف کی وجوہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: 4
’’ایک تو جواب دینا ہے اس اعتراض کا جو بعض واقعات کے متعلق ہے اور وہ واقعات عورتوں کی کُلفت کے ہیں جن کا تعلق شوہر سے ہے جس کے اسباب یہ ہیں: 1۔ شوہر کا مفقود ہو جانا۔ 2۔ شوہر کا مجنون ہو جانا۔ 3۔ شوہر کا عورت کے قابل نہ ہونا۔ 4۔ شوہر کا باوجود وسعت کے بی بی کو خرچ نہ دینا، ومثل ذلک۔ اور وہ اعتراض یہ ہے کہ اسلام نے بلاواسطہ قاضیِ شرعی کے، جو کہ ہندوستان میں نایاب یا کمیاب ہے، براہ راست ان مصائب سے عورتوں کو نجات حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں بتایا جس سے مجبور اور پریشان ہو کر بہت عورتیں اسلام سے مرتد ہو رہی ہیں (چنانچہ تھوڑے ہی روز ہوئے سنا تھا کہ بعض علاقوں میں بہت قلیل مدت میں کثیر تعداد میں عورتیں مرتد ہو چکی ہیں )۔ اگرچہ اس کا جواب بالکل ظاہر ہے کہ اسلام کا کام صرف تدبیر بتلانا ہے، پھر اگر اہل اسلام اس پر عمل نہ کریں تو موردِ الزام اسلام ہے یا اہل اسلام جن میں یہ معترضین بھی داخل ہیں۔ اور وہ تدبیر یہی ہے جو معترضین کے اعتراضی کلام میں مذکور ہے کہ ایسے حاکم اور قاضی مقرر کیے جاویں جو بزورِ حکومت ان قضایا کو فیصل کر سکیں اور اگر اس کی قوت نہ ہو تو حکومتِ موجودہ سے مطالبہ اور کوشش کریں کہ وہ ایسے حاکم مقرر کر دے جن میں وہ سب صفات ہوں جو قاضیِ شرعی میں ہونا چاہئیں۔ … اور یہ جواب معترضانہ اور ظالمانہ سوال کے لیے تو بالکل کافی ہے۔ …‘‘ (13-14)
مندرجہ بالا اقتباس میں مذکورہ سوال اٹھانے والے شخص یا اشخاص سے مخاصمت کا رنگ صاف جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ ظاہر ہے، مولانا تھانوی اس بات کے قطعی قائل نہیں کہ اس سلسلے میں کسی اجتہاد کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف ان کو، اقبال کے برعکس، ان عورتوں سے بھی قطعی ہمدردی نہیں جو نجات کی کوئی اور راہ نہ پا کر عیسائی مذہب اختیار کر رہی تھیں۔
’’بعض لوگوں نے مسائل نہ جاننے کے سبب یہ سمجھ رکھا ہے کہ اگر کوئی عورت مرتد ہو جائے تب بھی نکاح فسخ ہو جائے گا اور اس نالائق کو تجدیدِ اسلام کے بعد دوسرے خاوند سے نکاح کرنے کی اجازت ہے۔ یہاں تک کہ بعض کمبخت عورتوں نے اس کو خاوند سے رہائی حاصل کرنے کا سہل علاج سمجھ لیا اور ارتداد کی بلائے عظیم میں مبتلا ہو کر اپنی عمر بھر کے اعمالِ صالحہ برباد کر دیے، حالانکہ شرعی طور پر بھی ان کا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ (181)
فقہ حنفی میں، مولانا تھانوی کے مطابق، اس سلسلے میں تین اقوال ہیں:
1۔ ’’عورت کے مرتد ہونے سے نکاح تو فوراً فسخ ہو جائے گا لیکن پھر اس کو حبس و قید کر کے تجدیدِ اسلام پر بھی اوراس پر بھی مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنے پہلے ہی خاوند سے تجدیدِ نکاح کرے۔ ‘‘
2۔ ’’عورت کے مرتد ہونے کی صورت میں نکاح فسخ ہی نہیں ہوتا بلکہ بدستور یہ عورت شوہرِ سابق کے نکاح میں رہتی ہے۔ ‘‘
3۔ ’’یہ عورت (دارالاسلام میں بھی) کنیز بنا کر رکھی جائے گی اور اس کے خاوند کا قبضہ اس پر بدستورِ سابق باقی رہے گا۔ ‘‘ (182-3)
مولانا تھانوی لکھتے ہیں کہ ان میں سے پہلے قول پر عمل کرنا ممکن نہیں کیونکہ ’’فسخِ نکاح کا حکم دے دینے کے بعد تجدیدِ نکاح پر مجبور کرنے والی کوئی قوت مسلمانوں کے پاس موجود نہیں ‘‘، اور تیسرے قول پر عمل کرنا بھی ’’بحالتِ موجودہ غیر ممکن ہے ‘‘، (کیونکہ انگریزوں کی نوآبادیاتی حکومت برصغیر میں غلامی کو ممنوع قرار دے چکی تھی اور قانونی طور پر کسی شخص کو غلام یا کنیز بنانا ممکن نہ رہا تھا)۔ چنانچہ انھوں نے دوسرے قول پر انحصار کرتے ہوئے فیصلہ کیا: ’’عورت کے ارتداد سے نکاح فسخ ہی نہیں ہوتا بلکہ بدستور باقی رہتا ہے۔ ‘‘(183)
جہاں تک اپنی زندگی کے فیصلوں پر عورت کے اختیار کا تعلق ہے، مولانا تھانوی اس کے ہرگز قائل نہیں۔ ان کی قطعی رائے ہے کہ ’’چوں کہ عورت ناقص العقل ہے اس لیے طلاق کو مطلقاً اس کے ہاتھ میں دے دینا خطرہ سے خالی نہیں۔ ‘‘(23) در حقیقت صرف طلاق نہیں بلکہ نکاح اور دیگر معاملات میں بھی مولانا تھانوی کا نقطۂ نظر عورت کے ناقص العقل ہونے کے اس اصولی عقیدے پر بنیاد رکھتا ہے۔
لیکن اس اعتراض کے پیش نظر کہ اگر ناپسندیدہ نکاحی رشتے سے نجات کی کوئی صورت ہوتی تو ان عورتوں کو تبدیلیِ مذہب کا راستہ اختیار نہ کرنا پڑتا، مولانا تھانوی نے سعودی عرب میں فقہ مالکی کے ماہر عالموں سے مراسلت کی اور پایا کہ اس فقہ میں عورت کے پاس ایک راستہ موجود ہے جسے اختیار کر کے وہ نکاح کو منسوخ کرا سکتی ہے۔ رسالے الحیلۃ الناجزہ للحلیلۃ العاجزہ اور اس کی بنیاد پر عام لوگوں کے لیے تحریر کردہ ایک اور رسالے المرقومات للمظلومات میں مولانا تھانوی نے اسی راستے کی تفصیلات بیان کی ہیں۔
شوہر کے غائب یا مفقود الخبر ہو جانے کی صورت میں فقہ حنفی کے تحت عورت کو اس وقت تک انتظار کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک اس کے شوہر کے ہم عمر و ہم قرن لوگ اس کی بستی میں زندہ ہوں (بعض روایات کے مطابق یہ مدتِ انتظار ستر سال تک پہنچتی ہے )۔ البتہ فقہ مالکی کی رو سے عورت چار سال انتظار کرنے کے بعد نکاح کو منسوخ کرانے کے لیے قاضی کی عدالت میں جا سکتی ہے۔ اگر اس فیصلے کے نتیجے میں عورت کسی اور مرد سے نکاح کر لے اور مفقود ہو جانے والا شخص اس کے بعد واپس آ جائے تو فقہ حنفی کے مطابق ’’اس کی عورت ہر حال میں اسی کو ملے گی‘‘ لیکن فقہ مالکی کی رو سے ’’زوجہ دوسرے خاوند کے پاس رہے گی، شوہرِ اول کا اب اس سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ ‘‘ (68)
باقی تین صورتیں جن میں عورتیں نکاح منسوخ کرانے کے لیے اپنا مقدمہ قاضی کی عدالت میں لے جا سکتی ہے، یہ ہیں: ’’شوہر کا مجنون ہو جانا، شوہر کا عورت کے قابل نہ ہونا، شوہر کا باوجود وسعت کے بی بی کو خرچ نہ دینا‘‘۔
ان میں سے پہلی صورت میں ’’عورت قاضی کی عدالت میں درخواست دے اور خاوند کا خطرناک جنون ثابت کرے۔ قاضی واقعہ کی تحقیق کرے، اگر صحیح ثابت ہو تو مجنون کو ایک سال کی مہلت دے دے اور بعد اختتام سال اگر زوجہ پھر درخواست کرے اور شوہر کا جنون اب تک موجود ہو تو عورت کو اختیار دے دیا جائے۔ ‘‘ ’’خطرناک جنون‘‘(جسے ثابت کرنے کی ذمے داری عورت پر ہے ) کی وضاحت کرتے ہوئے فٹ نوٹ میں مولانا تھانوی کہتے ہیں: ’’معمولی جنون میں خیارِفسخ [نکاح منسوخ کرانے کا اختیار] نہیں ہے بلکہ ایسا جنون شرط ہے جس کی وجہ سے اندیشہ ہو اور ناقابلِ برداشت ایذا پہنچتی ہو۔ ‘‘(154)
دوسری، یعنی شوہر کے نامرد ہونے کی، صورت میں عورت اپنا معاملہ قاضی کی عدالت میں پیش کرے۔ ’’مرد سے حلف لیا جاوے گا۔ اگر اس نے حلف کر لیا تو عورت کو تفریق کا حق حاصل نہ ہو سکے گا۔ اور اگر شوہر نے حلف سے انکار کر دیا تو اس کو ایک سال کی مہلت بغرضِ علاج دے دی جائے گی‘‘۔ چنانچہ اگر عورت باکرہ نہ ہو تو مرد کا قول حلف کے ساتھ معتبر سمجھا جائے گا اور عورت کو نکاح منسوخ کرانے کا حق نہیں دیا جائے گا۔ ’’پھر اس سال بھر کے عرصے میں اگر شوہر کسی طرح علاج کر کے تندرست اور جماع پر قادر ہو گیا اور ایک مرتبہ بھی ہم بستری کر لی تو عورت کو فسخ نکاح کا حق نہ رہا بلکہ ہمیشہ کے لیے حق باطل ہو چکا، اب کبھی علیحدگی کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔ اور اگر اس عرصہ میں ایک مرتبہ بھی جماع نہ کر سکا تو عورت کے دوبارہ درخواست کرنے پر قاضی تحقیق کرے …خاوند سے حلف لیا جائے، اگر وہ قسمیہ کہہ دے کہ میں نے اس عورت سے جماع کیا ہے تو مرد کا قول معتبر ہو گا اور تفریق نہ ہو سکے گی۔ اور اگر شوہر نے اس وقت بھی حلف سے انکار کر دیا تو عورت کو طلبِ فرقت کا اختیار دے دیا جائے گا۔ ‘‘(152)
تیسری صورت میں ’’…اگر عورت کا دعویٰ صحیح ثابت ہو کہ باوجود وسعت کے خرچ نہیں دیتا تو اس کے خاوند سے کہا جائے کہ اپنی عورت کے حقوق ادا کرو یا طلاق دو ورنہ ہم تفریق کر دیں گے۔ ‘‘(164)
مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں قاضی کے سامنے دعویٰ ثابت کرنا عورت کی ذمے داری ہے۔ اور ثابت ہو جانے کے بعد اگر قاضی اس نتیجے پر پہنچے کہ عورت کو نکاح منسوخ کرانے کا اختیار دے دیا جائے، تب بھی یہ اختیار اسے خودبخود نہیں مل جاتا۔ اس کا ایک باقاعدہ طریقہ ہے جو درج ذیل ہے:
’’جس وقت…قاضی عورت کو اختیار دے تو عورت اسی مجلس میں تفریق کو اختیار کرے۔ پس اگر اسی مجلس میں اس نے اپنے خاوند کے ساتھ رہنا پسند کر لیا یا اس قدر سکوت کیا کہ مجلس برخاست ہو گئی، خواہ اس طرح کہ یہ عورت مجلس سے کھڑی ہو گئی یا اس طرح کہ قاضی مجلس سے اٹھ گیا تو اس کا اختیار باطل ہو گیا، اب کسی طرح تفریق نہیں ہو سکتی۔ و نیز مجلس برخاست ہونے اور عورت کے اٹھ جانے کے علاوہ اور صورتیں بھی ایسی ہیں جس سے مجلس بدل جاتی ہے اور اختیار باطل ہو جاتا ہے، مثلاً کوئی دوسری گفتگو کرنے لگی یا نماز پڑھنے لگی۔ ‘‘ (152-3)
اگر عورت کو ناقص العقل خیال کیا جاتا ہے تو چاہیے تو یہ تھا کہ ایک اذیت ناک صورت حال سے نکلنے کے سلسلے میں اس کی مدد کی جاتی، لیکن مذکورہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف تو عدالت میں سب کچھ ثابت کرنے کی (اور سال بھر کی مہلت ختم ہونے کے بعد دوبارہ نئے سرے سے ثابت کرنے کی بھی) مکمل ذمے داری اس ناقص العقل پر ہے بلکہ بیشتر صورتوں میں شوہر کا محض حلفیہ بیان مقدمے کے خارج کر دیے جانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، دعویٰ (دو بار) ثابت کیے جانے کے بعد بھی قاضی کی جانب سے عورت کو دیا گیا اختیار کسی چھوٹی سی غیر متعلق بات سے بھی ہمیشہ کے لیے چھن جاتا ہے۔ مفتی اور قاضی دونوں کی ہمدردیاں واضح طور پر معاملے کے طاقتور فریق یعنی شوہر کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں اور اگر اس طریق کار پر جوں کاتوں عمل کیا جائے تو یہ بہت دشوار ہے کہ کوئی عورت قاضی کی عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ حاصل کر سکے۔
اور یہ محض طلاق کے معاملے تک محدود نہیں۔ نکاح کے سلسلے میں بھی عورت کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہایت محدود ہے۔ مذہبی نقطۂ نظر سے نکاح در اصل مرد اور عورت کے درمیان نہیں بلکہ مرد، اور عورت کے ولی کے درمیان معاہدے کا نام ہے۔ (ولی سے مراد عورت کا باپ، یا اس کے نہ ہونے کی صورت میں دادا، بھائی، چچا، عم زاد وغیرہ خاندان کا کوئی مرد ہو سکتا ہے۔ ) ولی کو یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ نابالغ لڑکی کا نکاح کر دے۔ اگرچہ لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد ’’خیارِ بلوغ‘‘ کے تحت اس نکاح کو، قاضی کی وساطت سے، منسوخ کرانے کا حق ہے، لیکن اس کی شرائط بھی بہت کڑی ہیں:
’’جو لڑکی بالغ ہونے پر نکاح تڑوانا چاہتی ہے اگر وہ باکرہ ہو تو اس کے اختیارِ فسخ حاصل ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ جس وقت آثارِ بلوغ ظاہر ہوں اسی وقت بلا کسی تاخیر کے زبان سے یہ کہہ دے کہ میں اس نکاح پر راضی نہیں، چاہے اس وقت کوئی اس کے پاس موجود ہو یا نہ ہو، ہر حال میں فوراً زبان سے کہنا شرط ہے … نیز باکرہ کو اس کی بھی ضرورت ہے کہ زبان سے کہنے پر کم از کم دو مرد، یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنائے تاکہ قاضی وغیرہ کے پاس معاملہ پیش ہونے پر کام آویں …‘‘ (94)
فٹ نوٹ میں اس کی مزید وضاحت کی گئی ہے:
’’مثلاً کوئی لڑکی رمضان 40ھ کی 7 تاریخ کو عین طلوع آفتاب کے وقت پیدا ہوئی اور رمضان 55ھ تک کوئی علامت بلوغ کی نہ پائی گئی تو7 رمضان 55ھ کو ٹھیک طلوع آفتاب کے وقت اس کو شرعاً بالغ سمجھا جائے گا۔ پس اگر اس باکرہ نے اسی وقت فوراً زبان سے نکاح فسخ کر دیا تب تو اس کا اعتبار ہو گا ورنہ اگر ذرا بھی تاخیر کی تو خیارِ بلوغ باطل ہو گیا۔ ‘‘ (94)
چونکہ مولانا تھانوی کا عقیدہ عورت کے ناقص العقل ہونے پر انتہائی راسخ ہے، اس لیے وہ نکاح اور طلاق جیسے معاملات میں، جو کسی بھی فرد کی زندگی کو شدید متاثر کر سکتے ہیں، اسے کوئی موثر اختیار دینے کے حق میں نہیں اور ان کا تمام تر زور اس بات پر رہتا ہے کہ اسے اس اختیار کو استعمال کرنے کا موقع نہ مل سکے۔
دوسری طرف اقبال کے مطالبۂ اجتہاد کی بنیاد اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر ہے کہ معاشرے کے بدل جانے کے باعث عورت اب ایک فرد کے طور پر اپنی زندگی کے اہم فیصلوں کا اختیار اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے۔ اقبال کا موقف ہے کہ مذہبی عالموں کو اجتہاد کے ذریعے نئے زمانے کے اس تقاضے کے لیے گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔ مولانا تھانوی کا موقف اس کے قطعی برعکس ہے۔ اس کے باوجود سہیل عمر اسے نہ صرف اجتہاد بلکہ ’’اجتہادِ مطلق‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ممکن ہے ان اصطلاحات کی لفظی تعریف کی رو سے ایسا ہی ہو، لیکن جہاں تک اپنی زندگی کے اہم ترین فیصلوں میں عورت کو موثر اور بامعنی اختیار دینے کا تعلق ہے، یہ ایک سیاسی معاملہ ہے اور یہ اجتہاد کی سیاست میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی لانے کے سوا کسی اور طریقے سے ممکن نہیں۔ تقلید کا راستہ چھوڑ کر اصولِ حرکت یا ا اجتہاد کو اختیار کرنے سے اقبال کی مراد یہی معلوم ہوتی ہے۔
حواشی
1۔ یہ پانچوں اقتباسات شمس الرحمٰن فاروقی کے مضمون ’’تعبیر کی شرح‘‘ سے لیے گئے ہیں جو ان کے مضامین کے مجموعے تنقیدی افکار (قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، 2004) میں شامل ہے۔
2. Baker M. and Malmakjaer (Eds.) Routledge Encyclpedia of Translation Studies, 1998, Routledge, Part 1, pp.299-300.
3۔ کتابچہ زنجیر پڑی دروازے میں، اقبال اکیڈمی، لاہور، 2008، صفحہ33-
4۔ مولانا تھانوی کا مذکورہ رسالہ الحیلۃ الناجزہ للحلیلۃ العاجزہ اور اس کی بنیاد پر ’’عوام‘‘ کے لیے تحریر کردہ رسالہ المرقومات للمظلومات، چند دیگر متعلقہ تحریروں کے ساتھ اس کتاب میں شامل ہے جو حیلۂ ناجزہ یعنی عورتوں کا حق تنسیخ نکاح کے عنوان سے دارالاشاعت، کراچی، نے 1987 میں شائع کی۔ مولانا تھانوی کے دونوں مذکورہ بالا رسالوں سے لیے گئے اقتباسات کے آخر میں دیے گئے صفحہ نمبر اسی کتاب سے تعلق رکھتے ہیں۔
٭٭٭