متن کی تعبیراورشمس الرحمٰن فاروقی
جولائی 2002 کی بات ہے۔ قاہرہ کے علاقے باب اللوق میں واقع اشاعتی ادارے ’’دار شرقیات‘‘ میں ادارے کے سربراہ حسنی سلیمان نے ہم سے ایک نووارد کا تعارف ڈاکٹر حسن حلمی کے نام سے کرایا۔ ان کی آمد کے وقت موضوع بحث مصر کے شہری معاشرے میں اسلامی احیا پسندی کا رجحان تھا جو کہا جاتا ہے کہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ قاہرہ کے گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے ہمیں عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کی ایک خاصی بڑی تعداد کسی نہ کسی قسم کے حجاب میں نظر آئی تھی؛ یہ حجاب مغربی لباس پر پہنے ہوئے اسکارف سے لے کر سر سے پیر تک کو ڈھانپنے والی چادر یا عبایا تک کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ البتہ مردوں کی وضع قطع میں مذہبی رجحان کا عموماً کوئی واضح نشان نہ ملتا تھا۔ بہت کم نوجوان یا متوسط عمر کے مرد باریش دکھائی دیے۔ تاہم، ایک عجیب بات یہ تھی کہ سڑکوں پر یا دکانوں میں تصویر کھینچنے کی اجازت لیتے ہوئے ہمیں کئی بار انکار سننا پڑا، اور زیادہ تر ان مردوں کی طرف سے جو کسی بھی طرح مذہبی شدت کے حامل نہیں لگتے تھے۔ دوسری طرف جامعہ ازہر کے خنک برآمدوں میں سبق یاد کرتے ہوئے نوجوان طلبا نے، بلکہ ایک لیکچر ہال میں نوجوان مردوں اور عورتوں کو سہ پہر کا درس دیتے ہوئے شفیق چہرے والے شیخ نے بھی، مسکرا کر اشارے سے ہمیں اپنی تصویر کشی کی اجازت دے دی۔
برسوں سویڈن کے کتب خانوں میں کام کرنے کے بعد قاہرہ لوٹ کر جدید طبع زاد عربی ادب اور ترجموں کی اشاعت کا یہ ادارہ قائم کرنے والے حسنی سلیمان کا کہنا تھا کہ تصویر کھنچوانے سے گریز کا سبب لازمی نہیں کہ مذہبی سخت گیری کا رجحان ہو؛ یہ گریز اس لیے بھی ہو سکتا ہے کہ قاہرہ اور پورے مصر میں سیاحوں کی ریل پیل کے باعث بعض لوگوں کو اس عمل میں اپنی تحقیر محسوس ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے وجود کو ایک شے، ایک ٹورسٹ اَٹریکشن میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ در اصل اس گفتگو کا آغاز ہی اس بات سے ہوا کہ خود سلیمان نے بھی تصویر کھنچوانے سے معذرت کر لی تھی، جبکہ وہ مذہبی احیاپسندی کے رجحان سے بظاہر کوئی ہمدردی نہیں رکھتے۔
ڈاکٹر حسن حلمی کا تعلق مراکش سے ہے اور وہ رباط کی یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر ہیں۔ انھوں نے کئی یوروپی شاعروں اور ادیبوں کا ترجمہ عربی میں اور متعدد عرب شاعروں کا انگریزی میں کیا ہے۔ ایک مصری خاتون سے شادی کرنے کے بعد سے وہ ہر سال گرمیوں کی چھٹیاں قاہرہ اور اسکندریہ میں گزارتے ہیں۔ عرب معاشروں میں مذہبیت اور جدیدیت کے رجحانات پر ہونے والی گفتگو میں آگے چل کر فاطمہ مرنیسی کا بھی تذکرہ آیا جو خود بھی رباط کی ایک یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور اپنی کئی کتابوں خصوصاً Women and Islam: An Historical and Theological Enquiry کے باعث خاصی نامور ہیں۔ ان کی اس تحقیق کا ذکر آنے پر ڈاکٹر حلمی نے اپنے مخصوص شائستہ انداز اور نرم لہجے میں سوال کیا: But, is she entitled to do that?
ان کایہ سوال مجھے ان تمام معاشروں کے تناظر میں بہت بامعنی معلوم ہوا جو روایت اور جدیدیت کے درمیان کی مختلف منزلوں سے گزر رہے ہیں۔ ان میں خاص طور پر وہ معاشرے تو شامل ہیں ہی جہاں کی آبادی میں مسلمان باشندے اکثریت میں ہیں یا ایک بڑی اقلیت کا درجہ رکھتے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ یہ عمل صرف ان تک محدود نہیں۔ اس قسم کے تمام معاشروں میں یہ سوال کم یا زیادہ شدت سے زیر بحث رہتا ہے کہ مذہبی اور تہذیبی متون کی تعبیر کا حق کسے حاصل ہے اور کسے نہیں۔ اس بارے میں جو مختلف طرزِ فکر یا طرزِ عمل پائے جاتے ہیں ان میں سے ایک کو روایت پسند کہا جا سکتا ہے ؛ یہ وہ لوگ ہیں جو، ڈاکٹر حلمی کی طرح، یہ سمجھتے ہیں کہ کسی مذہبی بیانیے کی شرح یا تعبیر کرنے کے لیے آدمی کو کوئی باقاعدہ استناد حاصل ہونا چاہیے، اور جن لوگوں کو یہ استناد حاصل نہیں، انھیں ان مستند تعبیر کنندگان کی تعبیر کو مان لینا چاہیے۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ انھیں جدید تعلیم اور فکر سے جو روشنی حاصل ہوئی ہے اس کی مدد سے مذہبی متون کی ایسی تعبیر کی جا سکتی ہے جو ان کے سیاسی خیالات سے ہم آہنگ ہو، یعنی ان میں سے بعض کے مطابق، جدیدیت یا جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرتی ہو۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار ہندوستان سے آئے ہوئے ایک نامورمسلمان اصلاح پسند اور سماجی کارکن نے کراچی کی ایک محفل میں چند فیمینسٹ خواتین کے سوال پر ایک قرآنی آیت کی ایسی تعبیر کرنے کی کوشش کی جو اس کے مروجہ معنی سے بہت دور جا پڑتی تھی۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ ان کی پیش کردہ تاویل، جسے اصطلاحاً تفسیر بالرائے ہی قرار دیا جائے گا، اگر اس محفل میں درست مان بھی لی جائے تو عوام الناس کواسے مستند علما کی تفسیر پر فوقیت دینے پر کیونکر آمادہ کیا جائے گا؟ ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔
فاطمہ مرنیسی کی تحقیق کا موضوع ایک ایسا مذہبی متن ہے جس کی رو سے مسلمان معاشروں میں عورتوں کو سیاسی طور پر فیصلہ کن یا مقتدر مقام دینے کو ممنوع ٹھہرایا جاتا ہے۔ ان سے اتفاق رکھنے والوں اور اختلاف کرنے والوں دونوں کی توجہ ان کے اس عمل کے سیاسی پہلو پر مرکوز رہی ہے۔ اول الذکر گروہ انھیں تعبیر کا حق دیتا ہے جبکہ ان کے مخالفین کے نزدیک انھیں یہ حق حاصل نہیں۔ (فاطمہ مرنیسی کو بلاشبہ ان لوگوں میں شمار کیا جائے گا جن کا خیال ہے کہ مذہبی متون کی ایک جدید، یا غیر روایتی، یا غیر مروج تعبیر ممکن ہے۔ )یہاں ان کی تحقیق کے موضوع کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستان کی مثال پر غور کرنا دلچسپ ہو گا جہاں کے عوام کی اکثریت بظاہر مذہبی رجحان رکھتی ہے، اس کے باوجود انھوں نے دو بار ایک خاتون کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے منتخب کیا، اور اس سلسلے میں مذہبی استناد رکھنے والوں کے واضح فیصلے سے کوئی نظری اختلاف کرنے کے بجائے اپنے عمل کے ذریعے اسے نظرانداز کرنے کا انتخاب کیا۔
یہ طرز عمل، جو مذہبی متون کی تعبیر کے مذکورہ بالا دونوں مکاتب فکر سے مختلف ہے، اس بنا پر غور کا مستحق ہے کہ اس پر عام لوگوں کی بڑی اکثریت کو عامل سمجھا جا سکتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مذہب پر رواجی عقیدہ رکھنے اور اکثر مذہبی عبادات کی پابندی کرنے کے باوجود، زندگی کے متعدد معاملات میں فیصلہ کرتے ہوئے مذہبی بیانیے یا اس کی ایک یا دوسری تعبیر کو نظرانداز کر کے دیگر عوامل کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔ تاہم اسی زمرے میں ممکنہ طور پرایسے لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں جو نظری طور پراس بات کے قائل ہی نہ ہوں کہ مذہبی متون کوکسی دنیاوی عمل یا ذاتی یا اجتماعی فیصلوں کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے یا بنایا جانا چاہیے، لیکن کھلم کھلا اس خیال کا اعلان کرنے سے گریز کرتے ہوں۔
2
دیکھا گیا ہے کہ دنیا کے مختلف معاشروں کے اندر مذہبی اور تہذیبی معاملات میں استناد پر زور دینے والوں اور اس استناد کی شرط سے انکار کرنے والوں کے درمیان کشمکش میں شدت آتی جا رہی ہے۔ یہ بات مسلمان آبادی والے ملکوں کی سیاست سے تو واضح ہے ہی، اس کی ایک نمایاں مثال کے طور پر ہندوستان کا بھی ذکر کیا جا سکتا ہے جہاں دائیں بازو کے ہندو قوم پرست اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے تہذیبی معاملات میں استناد پر زور دینے لگے ہیں۔
کسی بھی متن کی تعبیر کسی نہ کسی حد تک سیاسی معاملہ ہوتی ہے۔ مذہبی یا اجتماعی بیانیوں کے سلسلے میں اس بات کی وضاحت کرنا نسبتاً آسان ہے۔ کسی پوری معاشرت کو، جس میں اس کے مذہبی، تہذیبی، تاریخی، اقتصادی اور دیگر تمام عناصر گندھے ہوئے ہوتے ہیں، مختلف زاویوں سے ایک نہ ایک مخصوص معنویت دینے کی کوششیں آج کوئی اجنبی عمل نہیں رہیں۔ ایڈورڈ سعید نے اپنی معروف کتاب Orientalism میں اس عمل کے خدوخال واضح کیے تھے جس کے ذریعے نوآبادیاتی دور میں اور اس سے پہلے ایک ’’مشرق‘‘ کی تخلیق کی گئی، جو ’’مغرب‘‘ کے غیر کا کام دے سکے، اور اس سے بے شمار ایسی باتیں منسوب کر دی گئیں جو در اصل نوآبادیاتی عزائم رکھنے والوں کے تخیل، یا خواہش، یا غلط فہمی کی پیداوار تھیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سیموئل ہنٹنگٹن کی کتابClash of Civilizations شائع ہوئی جس میں پیش کی گئی موجودہ دنیا کی تصویر کئی منقسم اور باہم متصادم تہذیبوں پر مشتمل ہے۔ اس تصویر کو درست ماننے والے (مثلاً امریکی اور برطانوی) سیاست کاروں کے عملی اقدامات سے لے کر اس تصادم پسنداندازفکر اور ان عملی اقدامات کے نتائج کو جھیلنے والے معاشروں کے مختلف نقطۂ نظر رکھنے والے افراد کے موقف تک، اس عمل کی جھلکیاں، جس کے ذریعے دنیا کی مختلف معاشرتوں کی اپنے اپنے انداز میں تعبیر کی جاتی ہے، اب ہمارے شب و روز کا حصہ ہیں۔
نومبر 2001 میں، جب گیارہ ستمبر کے واقعات کو کل دو ماہ گزرے تھے اور افغانستان پر امریکی حملہ پورے زور سے جاری تھا، معروف ماہر اقتصادیات پروفیسر امرتیہ سین نے دہلی میں اپنے ایک لیکچر میں تعبیر و تشریح کے اس عمل کے خطوط بڑی خوبی سے واضح کیے۔ اُس وقت کی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی تقریر کا ایک بنیادی نکتہ یہ تھا کہ افغانستان کے باشندوں کے مذہب، معاشرت اور سیاست کو حملہ آوروں کی جانب سے ایک ایسی تعریف کا قیدی بنایا جا رہا ہے جو سراسر نا انصافی پر مبنی ہے۔ جب افغانوں کی تعریف ان لفظوں میں کی جاتی ہے کہ وہ اس ملک کے باشندے ہیں جس کی حکومت نے ایک ایسے شخص کو پناہ دے رکھی ہے جو امریکہ پر کیے جانے والے دہشت گردی کے حملے کے لیے ذمے دار ہے، تو اس تعریف کی مدد سے امریکہ اور یوروپ کے عام لوگوں کو یہ بات تسلیم کرنے پر آمادہ کرنا مطلوب ہوتا ہے کہ اس ملک پر حملہ کرنا ضروری ہے اور اس حملے میں اس ملک کے شہریوں میں سے کچھ کو ہلاک کرنا افسوسناک سہی لیکن ناگزیر ہو گا۔ اس سیاسی طور پر موقع پرستانہ تعریف کی تہہ میں اس خطے کی مذہبی اور معاشرتی خصوصیات (مثلاً جہاد کے تصور)کی ایک من مانی تعبیر کارفرما ہے۔
پروفیسر سین نے ہنٹنگٹن کے نظریے اور اس پر ہونے والی بحث کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ہنٹنگٹن سے اختلاف کرنے والوں میں زیادہ تر کا زور یہ ثابت کرنے پر مرکوز رہتا ہے کہ موجودہ دنیا جن معاشروں میں تقسیم ہے ان کے درمیان تصادم نہیں ہے، یا نہیں ہونا چاہیے، اور وہ اس کا بیان کردہ پہلا اور بنیادی نکتہ نظرانداز کر دیتے ہیں جس کی رو سے موجودہ دنیا کو مختلف معاشروں — مغربی، اسلامی، ہندو، کنفیوشس کے پیرو وغیرہ— میں تقسیم کیا گیا ہے۔ انھوں نے اس غیر منطقی تقسیم کے کھوکھلے پن کو دو مثالوں سے واضح کیا۔ ایک تو یہ کہ ہنٹنگٹن نے ہندوستان کے معاشرتی اور مذہبی تنوع کو یکسر نظرانداز کر تے ہوئے اسے ’’ہندو‘‘ معاشرہ قرار دے دیا، اور ظاہر ہے کہ جو لوگ ہندوستانی معاشرے سے سرسری واقفیت بھی رکھتے ہیں ان کے اس جاہلانہ بات کو تسلیم کرنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔
دوسری مثال نہایت دلچسپ تھی اور لیکچر سننے والے بیشتر لوگوں کے لیے انکشاف کا درجہ رکھتی تھی۔ انھوں نے کہا کہ گیارہ ستمبر کے حملوں میں نشانہ بننے والے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو ’’ مغربی‘‘ تہذیب کی ایک علامت قرار دیا جا رہا ہے جس کو ایک غیر ترقی یافتہ( ’’مشرقی‘‘) معاشرے کے شرپسند افراد نے تباہ کر ڈالا۔ پروفیسر سین نے کہا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ملبے میں ایک چھوٹی سی تختی دفن ہے جس پر جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ایک ممتاز آرکیٹیکٹ فضل الرحمٰن کی خدمات کا اعتراف کیا گیا تھا جن کی تکنیکی تحقیق کی بدولت پہلی بار اسکائی اسکریپروں کی تعمیر ممکن ہوئی تھی۔ (فضل الرحمٰن مشرقی بنگال کے رہنے والے تھے جو پہلے مشرقی پاکستان اور پھر بنگلہ دیش بنا۔ ) یہ اعترافی تختی ان چیزوں میں سے ہے جو دنیا کو ’’مغرب‘‘ اور ’’مشرق‘‘ میں تقسیم کرنے کے عمل کو بے معنی بنا دیتی ہیں۔
3
ایک مختلف سطح پر ادبی متون کی تعبیر کے عمل میں بھی اس وسیع تر عمل کے عناصر دیکھے جا سکتے ہیں، اور کوئی عمدہ تحریر جس میں ادبی متون کی تعبیر کے عمل کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہو، ممکنہ طور پر ہمیں اس سے وسیع تر عمل کے بارے میں بھی آگاہ کر سکتی ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی کا مضمون ’’تعبیر کی شرح‘‘ (ماہنامہ شب خون، الٰہ آباد، شمارہ 175، جون جولائی 1994 ) مجھے اس اعتبار سے بہت کارآمد، پُر انکشاف اور فکر انگیز معلوم ہوا اور اس کی روشنی میں فاروقی کی تنقید نگاری کی کئی خصوصیات بھی مجھ پر ظاہر ہوئیں۔ اس تحریر میں زیادہ تر گفتگو اسی مضمون کے حوالے سے ہو گی، اور بعض دوسری تحریروں کا ضمنی طور پر ذکر آئے گا۔
یہاں مجھے آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ ادبی تنقید میرے مطالعے کے مرغوب موضوعات میں شامل نہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وقت کی تنگی کے باعث ہر شخص کو اپنی سرگرمیوں میں انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ یونیورسٹی کی سطح پر انگریزی یا اردو ادب کی تعلیم حاصل نہ کرنے کے باعث تنقید کے ڈسپلن سے میرا رسمی تعارف نہیں ہو سکا، اور اپنے آزادانہ مطالعے کے دوران بھی میری توجہ تنقید پر مرکوز نہ ہو سکی۔ تخلیقی ادب کے مقابلے میں تنقید سے کم دلچسپی رکھنے کی وجہ سے میں اس سلسلے میں افادیت پسندی کا قائل ہوں۔ جو تنقیدی تحریر میرے کسی ادبی متن کے احساس یا تاثر میں کوئی اضافہ نہیں کرتی اور انفرادی یا معاشرتی زندگی سے اس کے تعلق کے کسی نئے پہلو کا انکشاف نہیں کرتی، اس کا مجھے کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ اور کم از کم اردو میں لکھی جانے والی بیشتر تنقیدی تحریریں مجھے ایسی ہی بے جواز معلوم ہوتی ہیں۔ چنانچہ میں زیر نظر تبصرے میں محض ایک عام، non-specialist قاری کی حیثیت سے ہی بات کروں گا۔
شمس الرحمٰن فاروقی سے میرا پہلا بھرپور تعارف شعرِ شور انگیز کے ذریعے اس وقت ہوا جب ان کا کئی برسوں پر پھیلا ہوا یہ کام کتاب کی شکل میں سامنے آیا۔ پہلے میں نے اسے ایک شرح سمجھا جس کی میرے نزدیک افادی اہمیت یہ تھی کہ میر کے اشعار کے دشوار مقامات اس سے حل ہو سکتے تھے۔ لیکن جب میں نے ہر جلد کی ابتدا میں شامل مضامین پہلی بار پڑھنا شروع کیے تو رات بھر پڑھتا چلا گیا۔ اس قسم کا تجربہ مجھے اس سے پہلے صرف ناولوں کے سلسلے میں پیش آیا تھا۔ مجھے یہ دریافت کر کے بہت حیرت ہوئی کہ ان مضامین نے مجھ میں ان موضوعات سے دلچسپی بیدار کر دی جو میرے خیال میں میری دلچسپی کے نہیں تھے۔ بعد میں غور کرنے پر اس کی پہلی وجہ مجھے فاروقی کی تحریر کی سب سے نمایاں خصوصیت میں نظر آئی، یعنی اس کی نثر۔ اردو تنقید کے اپنے محدود مطالعے میں مجھے ایسی نثر کبھی پڑھنے کو نہیں ملی تھی۔ اس نثر سے یہ بات تو ظاہر تھی ہی کہ لکھنے والے نے ان مسائل پر بہت غور اور مطالعہ کرنے، اور ان کے مختلف اجزا اور پہلوؤں کو اپنے ذہن میں سلجھانے کے بعد قلم اٹھایا ہے ؛ یہ بھی ظاہر تھا کہ لکھنے والے کے ذہن میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس تحریر کو وہ لوگ بھی پڑھیں گے جنھیں تنقید سے پیشہ ورانہ یا خصوصی دلچسپی نہیں ہے، اور جنھوں نے اس سے پہلے ان مسائل پر اس سے پہلے برائے نام ہی غور یا مطالعہ کیا ہو گا۔ لیکن ان سامنے کی خوبیوں سے بڑھ کر، جواس قسم کی کسی بھی عمدہ تحریر میں موجود ہونی ہی چاہییں، ایک اہم بات یہ محسوس ہوتی تھی کہ یہ تمام زیر بحث مسائل لکھنے والے کے لیے ایک گہری شخصی معنویت رکھتے ہیں اور اسے ان سے ایسی وابستگی ہے جو پیشہ ورانہ دلچسپی سے کہیں زیادہ گہری اور شدید ہے۔ آگے چل کر جب میں نے فاروقی کے بہت سے اور مضامین پڑھے تو مجھے احساس ہوا کہ یہ شخصی معنویت اور وابستگی اس لحاظ سے بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ اسی کی بدولت مختلف تحریریں مل کر فاروقی کے وسیع تہذیبی نقطۂ نظر کی تشکیل کرتی ہیں — اور یہ تہذیبی نقطۂ نظر، بلاشبہ، ایک سیاسی نقطۂ نظر بھی ہے۔
ایک اور خصوصیت جس کا مجھے فاروقی کی ان باہم منسلک تحریروں کو پڑھتے ہوئے بارہا احساس ہوا اسے بھی اس نثر اور اس میں کارفرما ذہن کی خوبی کہا جا سکتا ہے، اور وہ یہ کہ فاروقی کی تحریر پڑھنے والا بالکل واضح اندازہ لگا سکتا ہے کہ کس جگہ اسے لکھنے والے سے کتنا اور کیا اختلاف ہے۔ اس طرح ان تحریروں کو پڑھنے کا عمل میرے لیے مصنف سے ایک متواتر مکالمے کی طرح رہا ہے، جس کے ذریعے زیر بحث موضوعات پر میرے ذہن میں الجھے ہوئے خیالات رفتہ رفتہ واضح سوالوں کی شکل اختیار کرتے جاتے ہیں۔ اہم اور پیچیدہ تہذیبی موضوعات پر قلم اٹھانے والے کسی شخص کی کامیابی اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ وہ عام پڑھنے والوں کے ذہن میں چند معنی خیز سوالات کو بیدار کر دے !
میرے نقطۂ نظر سے فاروقی کے مضمون ’’تعبیر کی شرح‘‘ کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بیان کیے گئے خیالات کا اطلاق نہ صرف ادبی متون کی تعبیر پر بلکہ معاشرے کو ان سے زیادہ براہ راست انداز میں متاثر کرنے والے متون اور کہیں وسیع تر بیانیوں کی تعبیر پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کی ابتدا اس استفسار سے ہوتی ہے کہ اردو کے ادبی مطالعات میں تعبیر کی اصطلاح عموماً کیوں استعمال نہیں کی جاتی۔ اس کی ممکنہ وجہ فاروقی کے مطابق یہ ہو سکتی ہے کہ اردو میں شرح، تشریح، تفہیم وغیرہ سے کم و بیش وہی کچھ مراد لیا جاتا ہے جو تعبیر کے معنی میں آتا ہے۔ اس کے بعد کئی لغات سے رجوع کر کے فاروقی اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ interpretation، جس کا اردو ترجمہ ہم ’’تعبیر‘‘ کرتے ہیں، در اصل ان تمام کار گذاریوں کا نام اور مجموعہ ہے جو کسی متن کے معنی بیان کرنے کے لیے عمل میں لائی جاتی ہیں، اور ہر وہ عمل جس کے ذریعے کسی متن کے معنی بیان ہوں، تعبیر کا عمل ہے۔ اس دائرے کو مزید وسیع کرتے ہوئے وہ اس میں ترجمے کے عمل کا معنی خیز اضافہ کرتے ہیں: ’’… ترجمہ بھی تعبیر کا ایک طریقہ اور تعبیری کارگذاری ہے اور یہ صرف غیر زبان سے اپنی زبان یا کسی زبان سے کسی اور زبان میں ترجمہ کرنے پر محدود نہیں۔ ہم خود اپنی زبان سے ہر وقت ترجمہ کرتے رہتے ہیں تاکہ متن کو سمجھ سکیں۔ ‘‘
اس کے بعد فاروقی تعبیر کے عمل کی بنیاد یعنی ’’فرد‘‘ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس کے بارے میں بنیادی اہمیت کے سوالات اٹھاتے ہیں: ’’تعبیر کا کام معنی کو بیان کرنا ہے۔ لیکن کیا معنی اور معنویت میں فرق کیا جا سکتا ہے ؟ یعنی کیا معنی کو بیان کرنے اور معنی کی اہمیت، اس کا دوسری چیزوں سے تعلق وغیرہ بیان کرنے میں کوئی فرق نہیں ؟…یہ صحیح ہے کہ کوئی بھی شخص جو معنی سمجھتا ہے، یا جس معنی کا ادراک کرتا ہے اس کا موجد وہ شخص ہوتا ہے۔ لیکن کوئی شخص کبھی بالکل تنہا قائم نہیں ہوتا…متن کی کوئی بھی تفہیم، کوئی بھی تعبیر، دوسرے متون کی تفہیم اور تعبیر کے بغیر نہیں ہو سکتی…یعنی کوئی بھی قرأت بالکل ذاتی، بالکل داخلی، بالکل شخصی، بالکل معصوم نہیں ہوتی۔ کم سے کم اتنا تو ہوتا ہی ہے کہ قاری اپنے معنی یا تعبیر (my interpretation) کو قابلِ قبول معنی یا تعبیر (acceptable interpretation) کے پس منظر میں رکھ کر، یا اس کی کسوٹی پر کس کر دیکھتا ہے اور پھر فیصلہ کرتا ہے کہ اس کی نظر میں زیر بحث متن کے معنی کیا ہیں یا کیا ہونا چاہیے۔ ‘‘
مندرجہ بالا اقتباس میں بیان کیے گئے نکات کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی متن سے دوچار ہونے والا فرد اس کے معنی متعین کرتے وقت خود متن، اپنی ذات کے شعور اور دنیا کے بارے میں اپنے مکمل ادراک سے کام لیتا ہے۔ فاروقی اس عمل کو سمجھنے کے لیے اقبال کی نظم (فاطمہ تو آبروئے امت مرحوم ہے ) کی مثال سامنے رکھتے ہیں اور ایک ایسے قاری/شارح کے نزدیک جو نظم کے تاریخی پس منظر سے ناواقف ہے، اس کی چار ممکنہ تعبیروں کو شمار کرتے ہیں۔ ان میں پہلی تین تعبیریں اردو شاعری، مسلمانوں کی تہذیب اور اردو زبان کے عام استعمالات سے پڑھنے والے کی عمومی واقفیت پر بنیاد رکھتی ہیں۔ ان کے بارے میں فاروقی کہتے ہیں: ’’یہ معنی سراسر میرے ذاتی اور اندرونی وجود کی پیداوار نہیں ہیں۔ ان میں میرا تہذیبی اور ادبی وجود شامل ہے …‘‘ البتہ چوتھی تعبیر کو اس لحاظ سے غیر روایتی یا subversive کہا جا سکتا ہے کہ یہ متن کو فیمینسٹ انداز فکر سے پڑھتی ہے۔ اس سے فاروقی دو نتائج برآمد کرتے ہیں: ایک تو یہ کہ ’’خارجی معلومات کی کمی ہو تو بھی شرح یا تعبیر بڑی حد تک بامعنی رہتی ہے … ]دوسرے [ شرح یا تعبیر کسی قاعدے کی پابند نہیں، طریق کار کی پابند ہے۔ ‘‘
لیکن اس کے بعد کہتے ہیں: ’’ اور یہ بات تو ہے ہی کہ جب شرح کا اطلاق خارجی اور وسیع تر تناظر میں ہو تو وہ متن سے دور پڑ سکتی ہے۔ کرسٹوفر نارس (Norris) اسی لیے تو کہتا ہے کہ کسی متن کو فلسفیانہ یا سیاسی تناظر میں رکھ کر دیکھنا یا فلسفیانہ یا سیاسی بحث کی راہ سے ادب تک پہنچنے کی کوشش کرنا اسرارپرستی یا مرموزیت (mystification/ to be mystified)ہے۔ ‘‘فاروقی کے اس تبصرے سے میں اپنے طور پر یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ اگرچہ یہ غیر روایتی تعبیر ان کے نزدیک ’’بڑی حد تک بامعنی‘‘ ہے، اسے متن کی واحد تعبیر قرار دینا درست نہیں ہو گا اور اس طرح یہ تعبیر متن سے دور جا پڑے گی۔ یہ ایک سیاسی موقف ہے، اور اس کا اظہار آگے چل کر اس مقام پر دوبارہ ہوتا ہے جب فاروقی تاریخ کی مارکسی تعبیر اور اس کے ادبی تعبیر پر اطلاق کو موضوع بحث بناتے ہیں۔ تاہم، ان کا کہنا ہے:
’’تعبیر یعنی معنی بنانے کا عمل بڑی حد تک مصنف سے آزاد ہے لہٰذا ہمیں معنی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ …اگر یہ ثابت کرنا مقصود ہو کہ کسی متن میں فلسفیانہ، سیاسی وغیرہ معنی نہیں ہیں تو اس کے لیے یہ ثابت کرنا ضروری نہیں ہے کہ مصنف نے یہ معنی مراد نہیں لیے تھے، بس یہ ثابت کرنا کافی ہے کہ متن ان معنی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ‘‘
اس نکتے پر کچھ سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں جن کا ذکر آگے چل کر ہو گا۔
4
اس کے بعد فاروقی اس پر غور کرتے ہیں کہ کس قسم کے متن کو تعبیر کی ضرورت ہوتی ہے اور کیوں۔ ان کا کہنا ہے: ’’معنی بیان کرنے کے لیے کسی خاص طرح کے متن کی ضرورت نہیں …‘‘ (متن کیوں تعبیر کا تقاضا کرتا ہے ؟) ’’اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اکثر متن ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی تعبیر نہ ہو تو ہم انھیں سمجھ نہ پائیں، یا ان کے سطحی معنی کو قبول کر کے ہم غلط فہمی یا غلطی میں پڑ جائیں۔ متن کا مقصد ہے کسی مفہوم، کسی پیغام کی ترسیل کرنا۔ لہٰذا اگر کسی متن سے اس مقصد کی تکمیل فوری طور پر نہ ہو رہی ہو (اور اکثر متن ایسے ہی ہوتے ہیں ) تو اس کی تشریح و تعبیر ضروری ہوتی ہے اور شاذ ہی کوئی متن ایسا ہو جس میں کسی نہ کسی حد تک ترجمے کی ضرورت نہ پڑے … متن اپنی فطرت کے اعتبار سے ترجمے / تعبیر کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ بات زبانی متن سے بھی زیادہ تحریری متن پر صادق آتی ہے۔ تحریری متن جب ہمارے سامنے آتا ہے تو وہ بالکل عاری اور غیرجانبدار ہوتا ہے۔ متن کو برتنے والے کی حیثیت سے ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم اس پر زیادہ سے زیادہ جبر کریں اور اس سے اپنے مفید مطلب معنی نکالیں …‘‘
تحریری متن کی اس خاصیت کی نشان دہی کرنے کے بعد فاروقی اس کا موازنہ زبانی متن سے کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ پرانی تہذیبوں میں زبانی متن کو تحریری متن پر فوقیت اسی لیے دی جاتی تھی کہ زبانی متن کا بنانے یا بولنے والا طرز ادا، لہجے، حرکات و سکنات، وقفہ و قیام کے ذریعہ متن کے معنی بیان کر دیتا تھا۔ اور کچھ نہیں تو وہ براہ راست سننے والے کے سامنے متن کی شرح بیان کر سکتا تھا اور اس طرح معنی کو stability یا استحکام حاصل ہو جاتا تھا، کیوں کہ پھر وہی متن معنی کی انھیں شرائط کے ساتھ دوسرے بیان کنندہ سے تیسرے تک اور تیسرے سے اگلے تک پہنچتا تھا۔ گویا متن کے معنی متن کے بنانے والے یا اس کی تحدیث کرنے والے کی ملکیت ہوتے تھے … زبانی متن کا دائرہ وسیع اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی ترسیل و نشر کے لیے خواندگی کی شرط نہیں ہوتی۔ ناخواندہ شخص بھی زبانی متن کی اشاعت کر سکتا ہے اور قدیم معاشرے میں ناخواندہ لوگوں کی تعداد خواندہ لوگوں سے زیادہ ہوتی تھی۔ صدرِاسلام کے پورے جزیرہ نمائے عرب میں صرف سترہ لوگ خواندہ تھے۔ ‘‘
اگرچہ زندگی کے عام تجربے میں زبانی متن کے ایک بیان کنندہ سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے تک پہنچنے میں متن کے تبدیل یا مسخ ہو جانے کی مثالیں بڑی تعداد میں ملتی ہیں، میرا خیال ہے کہ زبانی متن کی تحریری متن پر فوقیت کی یہ بحث ہماری صورت حال میں کوئی خاص معنی نہیں رکھتی۔ ایک تو اس اعتبار سے کہ ہمارے سامنے آنے والے ادبی متون تقریباً تمام صورتوں میں تحریری ہوتے ہیں۔ دوسرے، جہاں تک مذہبی (اسلامی) متون کا تعلق ہے، ایسے کسی معاشرے میں جہاں لوگ عربی زبان نہ جانتے ہوں (خواہ وہ خواندہ ہوں یا ناخواندہ)، اصل متن معنی کی ترسیل نہیں کر سکتا، لہٰذا ترسیل و اشاعت اصل متن کی نہیں بلکہ اس کے ترجمے یا تفسیر کی ہوتی ہے، اور ترجمے یا تفسیر کو اصل متن کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ تیسرے، جو معاشرہ اصولی طور پر خواندگی کے دور میں داخل ہو چکا ہو اس میں تحریری متن پر زبانی متن کی فوقیت قائم کرنا اگر نا ممکن نہیں تو شاید خاصا دشوار ہو گا۔
بہرحال، اب دوبارہ تحریری متن کی خصوصیات کی طرف لوٹتے ہیں۔ اس بارے میں فاروقی کے خیالات کا خلاصہ اس طرح کیا جا سکتا ہے:
’’تحریری متن اپنی معرائیت کے باعث معنی بیان کرنے والے کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، یا کم سے کم اتنا تو ہوتا ہی ہے کہ تحریری متن اپنے آپ کو خود ظاہر نہیں کر سکتا، اسے کسی شارح، کسی مفہم کی ضرورت رہتی ہے …تحریری متن کے معنی زبانی متن کے مقابلے میں آزاد اور معرا ہوتے ہیں … بنیادی بات یہ ہے کہ تکلم سے محروم ہونے کے باعث تحریری متن چونکہ اپنے معنی خود نہیں قائم کر سکتا، اس لیے اس میں تعبیر کے امکانات لامحدود ہوتے ہیں اور معنی کا تعین دشوار ہوتا ہے …
’’تحریری متن کی معرائیت کو کم کرنے، یعنی اسے معبر کے رحم و کرم پر بالکل نہ چھوڑ دینے کی غرض سے متن بنانے والوں نے کئی طریقے ایجاد کیے۔ مثلاً صفحہ نمبر ڈالنا، مصرعوں کی گنتی کر کے ان پر نمبر ڈالنا، فہرست مطالب کو داخل متن کرنا…اشاریۂ اسما وغیرہ کو داخل متن کرنا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ رموز و علامات اوقاف کا التزام کرنا… تحریری متن ] پر ]قاری/ معبر کے جبر کو کم کرنے کے لیے جو طریقے اختیار کیے گئے ان کی عالمی کامیابی اس بات کی دلیل ہے کہ متن بنانے والے اپنے متن کی تفہیم کو آسان بنانا لیکن ساتھ ہی اس کی تشریح میں کسی قسم کی حدبندی کرنا پسند کرتے ہیں۔ ‘‘
تاہم، یہ حدبندی ایک حد تک ہی موثر ثابت ہوتی ہے، اور تعبیر میں ذاتی ترجیحات کا عمل دخل موجود رہتا ہے۔ فاروقی کہتے ہیں:
’’معبر کی صفت تعبیر ہے، یعنی معبر جو بھی کہے گا اپنی ہی سی کہے گا۔ جس چیز کی تعبیر کی جا رہی ہے اس کی صفت میں تعبیر نہیں ہے، لہٰذا تعبیر بہرحال ایک ذاتی عمل ہو گا۔ ہر تعبیر ’میری تعبیر‘(my interpretation) کا حکم رکھتی ہے۔ اگر کوئی تعبیر یا تعبیریں قابل قبول ہو جاتی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تعبیر کرنے والے اور تعبیر حاصل کرنے والے کے درمیان ایک بنیادی اور گہرا سمجھوتہ ہوتا ہے۔ اتفاق رائے کی واضح چاہے غیر مرئی اور بیان نا پذیر، سرحدیں ہوتی ہیں۔ جب کوئی تعبیر ان سرحدوں کو بالکل پھلانگ جاتی ہے تو وہ صرف ’میری تعبیر‘ رہ جاتی ہے۔ لیکن رہتی وہ پھر بھی تعبیر ہی ہے۔ یعنی ہر تعبیر میں کسی نہ کسی حد تک صحیح پن ضرور ہوتا ہے۔ ‘‘
اس اقتباس سے دوسری باتوں کے علاوہ یہ نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کوئی تعبیر کسی تعبیر حاصل کرنے والے کے لیے اسی وقت قابلِ قبول ہوتی ہے جب وہ تعبیر کرنے والے پر اعتماد کرتا ہو۔ اور یہ اعتماد دو آزاد اور با شعور انسانوں کے درمیان ایک رضاکارانہ سمجھوتے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا ایک ضمنی نکتہ یہ بھی ہے کہ کسی تعبیر کے کسی فرد کے لیے قابلِ قبول ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ اسی فرد کے ہاتھ میں ہوتا ہے، یا ہونا چاہیے۔ اس اعتماد کا اہل ہونے کے لیے تعبیر کرنے والے کو کچھ اصولوں کی پابندی کرنی ہوتی ہے۔ ادبی تنقید نے رفتہ رفتہ ادبی متون کی تعبیر کے کچھ اصول وضع کر لیے ہیں، جن کے بارے میں فاروقی کا کہنا ہے:
’’پہلی بات تو یہ کہ تمام ادبی متن اصناف اور ذیلی اصناف کے ذیل میں رکھے جا سکتے ہیں …دوسری بات (اور وہ اصناف کی شناخت سے بھی تعلق رکھتی ہے ) یہ ہے کہ معبر کو کتنے متون کے بارے میں آگاہی ہے، یعنی اس کا تناظر کتنا وسیع ہے اور کیسا ہے ؟…ہمارے یہاں یہ سوال ہمیشہ زیر بحث رہا ہے کہ کن متون کو ادبی متون کہا جاتا ہے اور ادبی متون جب بنتے ہیں تو ان کے سننے پڑھنے والے ان کے بارے میں کس نقطۂ نظر سے حکم لگاتے ہیں ؟ آہستہ آہستہ ادبی متون کی مستند فہرست (canon) تیار ہو جاتی ہے اور پھر سارا canonایک متحد ادبی متن بن جاتا ہے۔ اگر معبر کو اس کا پورا شعور ہو تو وہ بڑی حد تک کامیاب تعبیر کر سکتا ہے، اور canon کی زیادتیوں /خامیوں کو درست کرنے کی بھی کوشش کر سکتا ہے۔ ‘‘
یہ تعبیر کے عمل کا نہایت واضح بیان ہے، تاہم مجھے اس بارے میں یہ کہنا ہے کہ کسی بھی تعبیر کنندہ کے لیے خود کو صرف ادبی متون کی مستند فہرست یا canon تک محدود رکھنا اصولی یا مثالی طور پر تو شاید ممکن ہو لیکن عام زندگی میں ممکن نہیں۔ کسی بھی (ادبی یا غیر ادبی) متن سے معنی برآمد کرنے کی کوشش میں ہم اپنے پورے تہذیبی وجود کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔ بلاشبہ ہمارا ادبی وجود، یعنی canon یا اپنی زبان کے پورے ادب کے متعلق ہمارا ادراک، اس کا بہت اہم حصہ ہے، لیکن تہذیبی وجود محض ادبی وجود پر مشتمل نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم صرف تحریری متون ہی کو لیں تو واضح ہو گا کہ ادب پڑھنے والا شخص بے شمار ایسی تحریریں بھی پڑھتا ہے جو ادب کی تعریف میں نہیں آتیں، مثلاً تاریخ، سیاسیات، جغرافیہ، اور روزانہ اخبار۔ غیر تحریری متون میں اس کا سامنا سمعی و بصری ذرائع ابلاغ سے ہوتا ہے اور اس کا تہذیبی وجود ان کے اثرات کو بھی اپنے اندر جذب کرتا رہتا ہے۔ اور ان سب سے بڑھ کر روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے تجربوں اور مشاہدوں کے زیر اثر اپنے بارے میں، اپنے معاشرے کے بارے میں اور پوری دنیا کے بارے میں اس کا ادراک مسلسل تغیر پذیر رہتا ہے۔ ادبی متون کی تعبیر کرنے والا اگر باقاعدہ نقاد ہو، اور اس سلسلے میں پوری احتیاط برتے، تب بھی اس کا اپنی تعبیر کو ان تمام اثرات سے محفوظ رکھنا محال ہے جواس کے ادبی canon کے شعور کے علاوہ ہیں۔
دوسری بات یہ کہ کسی زبان کے ادب کو ’’ایک متحد ادبی متن‘‘ قرار دینا بھی اتنا آسان نہیں۔ اور اگر اس متحد ادبی متن پر اتفاق ہو بھی جائے تو ہر متن کی طرح یہ بھی تعبیر کا تقاضا کرے گا، اور ضروری نہیں کہ ہر شخص کی تعبیر یکساں ہو۔
5
ماضی کے پورے ادب پر مشتمل اس متن کی تعبیر کس طرح کی جائے ؟ یہ متن کس کی ملکیت ہے، اور کیا اسے کسی ایک تعبیر تک محدود کیا جا سکتا ہے ؟ فاروقی کہتے ہیں:
’’یہاں پر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر متن میں کوئی مستقل بالذات معنی ہوتے بھی تو کیا ہم ان کو دوبارہ حاصل کر سکتے ؟… اس کے کئی جواب ممکن ہیں۔ مثلاً ایک تو یہ کہ ہم بہت سارے ماضی کو متن ہی کے ذریعہ جانتے ہیں۔ متن کے باہر ماضی کا وجود نہیں، یعنی تاریخ کا وجود نہیں … دوسرا جواب یہ ہے کہ خود متن کا نظام مثلاً اس کی رسومیات، اس کے بامعنی ہونے کی شرطیں، اس کے بارے میں تصورات کا ارتقا، یہ تمام چیزیں ہمیں معنی کے بارے میں بتاتی ہیں، اور یہ تاریخ سے بڑی حد تک بے نیاز ہیں۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ ہم عام طور سے متن کے بارے میں جان سکتے ہیں کہ اس کے بنانے والوں اور اس کے قاری/سامع کو متن سے کیا اور کس قسم کی توقعات تھیں، یا ممکن تھیں۔ اور ہم عام طور پر یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی زمانے میں کسی متن کو سمجھنے اور اس کی نوع و جنس متعین کرنے کے کیا طریقے تھے۔ لہٰذا متن میں مستقل بالذات معنی ہوں یا نہ ہوں لیکن تاریخ کی کسی بھی منزل پر معنی شناسی کا کام ہو سکتا ہے۔ لیکن بنیادی جواب یہ ہے کہ ہم ایسے معنی پر اصرار نہیں کرتے جو تاریخ میں قائم ہوں یا مستقل بالذات ہو کر نقش کالحجر ہو چکے ہوں …یعنی بات معنی کو بیان کرنے کی ہے، کھوئے ہوئے معنی کی بازیافت کرنے کی نہیں۔ ‘‘
فاروقی کے تنقیدی کارنامے کا مرکزی اور نہایت قابلِ قدر حصہ اس کام پر مشتمل ہے جس کے ذریعے انھوں نے ہمارے ادب کے ماضی کو آج کے پڑھنے والوں کے لیے نئے سرے سے دریافت کیا اور اس کا تعین کرنے کی کوشش کی۔ یہ بجائے خود اردو کے ادبی ماضی کی ایک validتعبیر ہے، اور ان تعبیروں سے بنیادی طور پر مختلف ہے جو اس سے پہلے کی جاتی رہی ہیں۔ انھوں نے اردو غزل کی شعریات کو نئے سرے سے مرتب کیا ہے، یعنی نہایت تفصیلی اور نکتہ رس مطالعے کے ذریعے اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے کہ اردو کے شاعر اور اس شاعری کے سننے /پڑھنے والے ایک زمانے میں شاعری کو کن معیارات پر پرکھتے تھے۔ ان کا کہنا ہے:
’’غزل کی شعریات باقاعدہ طور پر مرتب نہیں ہوئی..تذکروں کی ورق گردانی سے اصطلاحات تو ہاتھ لگتی ہیں لیکن ان کی تعریف اور ان اصطلاحوں کے پیچھے تصورات (concepts) کی وضاحت نہیں ہوتی … انیسویں صدی کے اواخر میں مغربی تعلیم کے غلط اثر اور حالی کی تحریروں کے ذریعے یہ خیال عام ہوا کہ غزل میں جذبات کو سیدھے اور آسان انداز میں بیان کیا جائے، یعنی معنی آفرینی، خیال بندی اور مضمون آفرینی کو تصنع، رعایت لفظی اور بے جان صنائع بدائع کا ہم رنگ سمجھ لیا گیا اور کیفیت اور شورش کو نیچرل شاعری کا ہم وزن قرار دیا گیا… غزل کی شعریات میں خلط مبحث اس وجہ سے پیدا ہوا کہ لوگ اس کی بنیادی اصطلاحوں کو بھولنے لگے تھے، مگر چند ہی دنوں میں یہ اصطلاحیں بھی بڑی حد تک بھلا دی گئیں۔ ‘‘ (’’اردو غزل کی روایت اور فراق، پس نوشت‘‘، شب خون شمارہ 153)
کلاسیکی غزل کی شعریات کو اس طرح اصولی طور پر مرتب کرنے کی اس سے زیادہ کامیاب کوشش اس سے پہلے نہیں ہوئی۔ اس کام کی تحسین کرنے والے کو یہ معلوم کرنے کا بھی تجسس ہوتا ہے کہ فاروقی کی اس کوشش کا محرک کیا ہے۔ خود انھوں نے ایک انٹرویو میں اس کی وجہ اس طرح بیان کی ہے:
’’ہمارا اور ہماری طرح ان تمام تہذیبوں کا جو نوآبادیاتی سامراج کی آمد کے پہلے بھی تہذیبی طور پر ترقی یافتہ تھیں اور جن کی ادبی تہذیب پہلے ہی سے موجود اور متحرک تھی، ان سب کا ایک مسئلہ ہے اور وہ مسئلہ انقطاع کا ہے۔ نوآبادیاتی سامراج کی مداخلت کے باعث ہمارے حال اور ماضی کے درمیان انقطاع پیدا ہو گیا ہے۔ ہم اپنی روایت کے ساتھ خلاقانہ اور بصیرت انگیز طریقے سے رشتہ نہیں قائم کر سکتے۔ ہم اس بات پر مجبور ہیں کہ اپنے ادبی ماضی کو (اور صرف ادبی کیوں، سیاسی ماضی کو بھی ) مغرب کی آنکھوں سے دیکھیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بہت سی چیزیں تو ہم دیکھ ہی نہیں پاتے اور بہت سی چیزیں جو ہم دیکھتے بھی ہیں تو ایسے آئینے میں منعکس دیکھتے ہیں جس میں شکل تھوڑی یا زیادہ بگڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ جب میں اپنے کلاسیکی مصنفوں کی طرف لوٹتا ہوں تو اس مقصد سے کہ میں انھیں اس طرح کچھ سمجھ لوں کہ ہمارا تہذیبی انقطاع ختم ہو جائے۔ ایسا کیے بغیر ہم جدید شاعروں مثلاً راشد، میراجی، اختر الایمان وغیرہ کے کارنامے کو بھی پوری طرح نہ پہچان سکیں گے۔ ‘‘( ’’نقاد اور شاعر کے مابین مکالمہ‘‘، شب خون، شمارہ 211)
فاروقی میں اس تہذیبی انقطاع کا احساس پیدا کرنے میں حالی اور ان کے بعد آنے والے تنقید نگاروں کا بڑا حصہ رہا ہے جو اردو کے کلاسیکی ادب کو اس نظام تعلیم سے پیدا ہونے والی روشنی میں دیکھتے تھے جسے انگریزوں نے ہندوستان میں رائج کیا تھا۔ فاروقی کہتے ہیں: ’’اصلاً اور اصولاً ان تینوں [فراق، مجنوں، نیاز]کے خلاف میری بغاوت ادب کے بارے میں نوآبادیاتی سامراجی نظریات کے خلاف بغاوت ہے اور اس نوآبادیاتی نظام تعلیم کے خلاف بغاوت ہے جو بعض چیزوں کو بعض چیزوں پر غلط طریقے سے فوقیت دیتا ہے۔ ‘‘
کلاسیکی غزل کی شعریات کو مرتب کرنے کے کام میں فاروقی نے اپنا نقطۂ نظر کسی ابہام کے بغیر بیان کیا ہے: ’’ غزل ہماری شاعری میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ طرز بیان اور اسلوب اظہار کے تجربے اور تبدیلیاں اس میں روز اول سے ہوتی رہی ہیں۔ …ولی کی غزل میں ایسے مضامین اور اسالیب کثرت سے نظر آتے ہیں جن کا وجود قدیم اردو غزل میں نہیں۔ بعد میں غزل ہی کے حوالے سے مختلف اصطلاحات وجود میں آئیں اور ایہام گوئی، خیال بندی، مضمون آفرینی، شور انگیزی، کیفیت، تہہ داری وغیرہ تصورات کا چلن ہوا۔ ( ’’اردو غزل کی روایت اور فراق، پس نوشت‘‘، شب خون شمارہ 153)
اگرچہ اس بیان کے کئی اجزا سے اختلاف کرنا ممکن ہے، لیکن فاروقی کے اس اہم کام کی معنویت کو اس پس منظر کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں۔ خود ان کے نزدیک یہ ’’ہمارے ماضی کی ادبی تعیین قدر‘‘ کا کام ہے:
’’آج سارا پس نوآبادیاتی کلام پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ ہمیں اپنے ادبی ماضی کی تعیین قدر ازسرنو کرنی چاہیے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ہماری اپنی نظریاتی تنقید کی روشنی میں ممکن ہے نہ کہ مغربی اقوال و مقدمات کی روشنی میں۔ ہچکچاہٹ کے ساتھ اور آہستہ آہستہ سہی لیکن دنیا اب کثیرپسندی(pluralism)کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ‘‘ ( ’’نقاد اور شاعر کے مابین مکالمہ‘‘، شب خون، شمارہ211)۔
6
نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد ہماری جیسی بیشتر تہذیبوں میں اپنے ماضی کے معنی نئے سرے سے متعین کرنے، یعنی ماضی کی نئی تعبیر کرنے کا عمل جاری ہوا ہے۔ اس عمل کا آغاز کرنے والے لوگ تہذیبی علوم کی مختلف شاخوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے محرکات کم و بیش وہی ہیں جنھیں فاروقی نے اپنے اندر تہذیبی انقطاع کا احساس پیدا کرنے والے عناصر کے طور پر بیان کیا ہے۔ یہ بات بالکل ظاہر اور فطری ہے کہ فاروقی نے ہمارے ادبی ماضی کی جو تعبیر کی وہ مثلاً حالی کی تعبیر سے مختلف تھی کیونکہ اُس تعبیر سے بے اطمینانی ہی کے باعث ان میں تہذیبی انقطاع کا احساس پیدا ہوا تھا۔ لیکن میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ غالباً یہ تعبیر صرف ان امور کی دریافت تک محدود نہیں کہ ’’ کسی زمانے میں کسی متن کو سمجھنے اور اس کی نوع و جنس متعین کرنے کے کیا طریقے تھے ‘‘ یا ’’اس کے بنانے والوں اور اس کے قاری/سامع کو متن سے کیا اور کس قسم کی توقعات تھیں، یا ممکن تھیں ‘‘۔ اگرچہ فاروقی نے کلاسیکی غزل کی شعریات کے موضوع پر اپنی سلسلہ وار تحریروں میں اپنی توجہ پوری طرح ان امور کی دریافت پر مرکوز رکھی ہے، اس امکان کو رد کرنا مشکل ہے کہ فاروقی ماضی میں تیار کیے گئے کسی ادبی متن، مثلاً میر کے شعر، کو جس طرح سمجھتے اور سمجھاتے ہیں وہ عین میں وہی طریقہ نہیں جو میر کے ہم عصروں نے، یا خود میر نے، اختیار کیا ہو گا۔ نظری طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے ادبی اور تہذیبی وجود میں تاریخ کے ان واقعات کا علم اور شعوری احساس بھی کارفرما ہے جو اس مخصوص متن کے تیار کیے جانے کے بعد پیش آئے ہیں، اور یہ علم اور شعوری احساس ان کی تعبیر کو خود ماضی کے اس مخصوص دور میں اس متن کی کسی بھی ممکنہ تعبیر سے کسی قدر مختلف بنانے کا امکان رکھتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تہذیبی انقطاع کا جو احساس فاروقی کو ہے وہ میر یا ان کے کسی ہم عصر شخص کو نہیں ہو سکتا تھا، کیونکہ یہ واقعہ جسے فاروقی تہذیبی انقطاع کا نام دے رہے ہیں بعد کے تاریخی دور سے تعلق رکھتا ہے۔
نوآبادیاتی دور نے جس نظام تعلیم کو رواج دیا اس کا ایک ضمنی نتیجہ، جو اسے رائج کرنے والوں کی مرضی کے یقیناً خلاف رہا ہو گا، یہ تھا کہ نوآبادیاتی تسلط سے آزادی پانے والے معاشروں میں اپنے ماضی کو نئے سرے سے دیکھنے کا عمل شروع ہوا۔ فاروقی کا نقطۂ نظر اسی عمل کا ایک حصہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نوآبادیاتی دور سے قبل کے اردو ادب میں اس قسم کی تنقید کا وجود نہیں ہو سکتا تھا جیسی فاروقی نے لکھی ہے، اور یہ تو تاریخی حقیقت ہے ہی کہ اُس دور میں ادب میں تنقید نگار کے منصب کا وجود نہیں تھا۔
کیا تاریخ کے اس شعور سے، جس کا تعلق آج کے زمانے سے ہے، ادبی متون کی تعبیر میں کوئی فرق پڑتا ہے ؟ جہاں تک کسی انفرادی ادبی متن، مثلاً کلاسیکی دور کی کسی غزل کے شعر کا تعلق ہے، فاروقی کا موقف غالباً یہ ہے کہ اسے اُس دور کی شعریات ہی کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ لیکن آج کا کوئی پڑھنے والا اس مخصوص انفرادی متن کی تعبیر جس تناظر میں کرے گا اس میں اس علم کو کہ اُس مخصوص دور میں شاعری کی تحسین کے معیارات کیا تھے، غالباً محض ایک جز کی حیثیت حاصل ہو گی۔
یہاں میں اپنے اس سوال کو دہرانا چاہتا ہوں کہ ماضی کس کی ملکیت ہے ؟ یعنی اگر ہم اپنے ادبی ماضی کو ایک متحد متن قرار دے سکیں تو کیا اس متن کی کوئی متفقہ تعبیر ہو سکتی ہے ؟
فاروقی نے اپنے مضمون میں ’’تعبیری دور‘‘ (hermeneutic circle) کے نظریے کا ذکر کیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ ہم جز کو اس وقت تک نہیں جان سکتے جب تک ہمیں کُل(whole) کا علم نہ ہو، اور کُل کا علم اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک اجزا سے واقف نہ ہوں۔ فاروقی کا کہنا ہے:
’’تعبیر کی کلید انھیں دو باتوں میں ہے کہ کسی متن کو کس صنف میں اور کہاں رکھا جائے، اور یہ کہ دوسرے متون ہمیں کسی متن کے بارے میں کیا بتا سکتے ہیں ؟ دوسرے متون کا علم ہمارے لیے کل (whole) کے علم کا کام کرتا ہے۔ ہم اس علم سے مسلح ہو کر جز (کسی ایک مقر رہ متن) کی تعبیر شروع کرتے ہیں اور اس طرح تعبیری دور کا جبر ہمارے کاندھوں سے بالکل ہٹ نہیں جاتا تو ہلکا ضرور ہو جاتا ہے۔ ‘‘
لیکن کیا دوسرے متون کا علم، گویا اپنے ادبی یا تہذیبی ماضی کا ادراک، دو افراد میں بالکل یکساں ہو سکتا ہے ؟ اور کیا یہ ادراک ایک جامد شے ہے ؟ ہم کسی بھی متن کو کسی نہ کسی تناظر میں رکھ کر اس کی تعبیر کرتے ہیں۔ یہ ہماری آزادی بھی ہے اور ہماری قید بھی۔ چنانچہ ماضی میں تیار کیے گئے کسی (ادبی یا دیگر) متن کی تعبیر کرتے وقت ہمارے ذہن میں اس ’’متحد متن‘‘ کی کوئی نہ کوئی تعبیر موجود ہوتی ہے، جو اس مخصوص متن کی تعبیر کے لیے تناظر فراہم کرتی ہے۔ علاوہ ازیں اس عمل کے دوران ’’متحد متن‘‘ کی ہماری تعبیر بھی تھوڑی بہت بدل جاتی ہے، اس اعتبار سے کہ اب ہم اس متحد متن کے ایک اور جز سے واقف ہو گئے ہیں ؛ اس طرح ماضی کے اجزا سے رفتہ رفتہ رونما ہونے والی واقفیت ہمارے ماضی کے ادراک کو رفتہ رفتہ زیادہ حساس بناتی جاتی ہے۔
جیساکہ ظاہر ہے، یہ سوال صرف ادبی متون کی تعبیر تک محدود نہیں۔ لیکن ادبی متون کی تعبیر کے اصول اس باب میں ہماری رہنمائی ضرور کر سکتے ہیں۔ فاروقی کہتے ہیں:
’’بقول ٹاڈاراف، بہترین تعبیر وہ ہے جو متن کے عناصر کی سب سے زیادہ تعداد کو اپنے اندر جذب کر لینے کا امکان رکھتی ہو، یعنی ایسی تعبیر، یا معنی کا ایسا بیان مناسب نہیں جو متن کے کسی حصے یا عنصر کو نظرانداز کر دے۔ پھر اس کا عکس بھی درست ہے، کہ ایسی تعبیر لاطائل اور بے معنی ہے جو ہر متن کی شرح کسی ایک ہی تصور کی بنیاد پر کرے۔ ‘‘
ہمارے ماضی کا جو تصور نوآبادیاتی حکمران طبقوں نے قائم اور ہمارے معاشرے میں رائج کیا تھا اس پر سوال اٹھاتے ہوئے فاروقی نے ایک اور کارآمد بات یہ کہی تھی کہ ’’ ہچکچاہٹ کے ساتھ اور آہستہ آہستہ سہی لیکن دنیا اب کثیرپسندی(pluralism)کی طرف بڑھ رہی ہے ‘‘۔ اس سے میں یہ نتیجہ نکالنا چاہتا ہوں کہ ماضی کی کسی بھی مخصوص تعبیر کے لیے یہ مناسب نہیں کہ دوسری ممکنہ تعبیروں کا راستہ روکنے کی کوشش کرے۔ ادبی متون کی حد تک اس بات کے غالباً سبھی لوگ قائل ہوں گے کہ ہر شخص کسی متن کی اپنے طور پر تعبیر کرنے کا حق رکھتا ہے، اور اس کی تعبیر کو صرف اس صورت میں غلط ٹھہرایا جا سکتا ہے جب متن خود اس کے برآمد کردہ معنی کا متحمل نہ ہو سکتا ہو۔
فاروقی نے اسی اصول کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’ہر شخص اپنے اپنے حال پر شعر کے معنی لیتا ہے اور اس کے لیے وہی معنی درست ہیں، یعنی تعبیر کی صحت کے لیے کسی آفاقی معیار کی ضرورت نہیں۔ ‘‘
یہ بات ایک حد تک مذہبی متون پر بھی صادق آتی ہے۔ فاروقی نے اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:
(1) ’’قرآن کی تفسیریں کثرت سے موجود ہیں اور کثرت سے لکھی گئیں۔ یہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی دو مفسر ایسے نہیں جن کی صوابدید ہر جگہ بالکل متحد ہو۔ ہر مفسر نے اپنی تفسیر اسی لیے لکھی کہ وہ متداول تفسیروں سے پوری طرح متفق نہ تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مفسروں میں سے بعض ایسے تھے جن کا ایمان راسخ نہ تھا۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ چوں کہ تعبیر میں ذاتی صوابدید آخری فیصلہ کرتی ہے اور قرآنی متن اپنی گہرائی، کثیر المعنویت، نزاکت اور ادبی حسن میں بے مثل و بے مثال ہے، اس لیے وہ کثرت سے تعبیر کا تقاضا کرتا ہے۔ ‘‘
(2) ’’تعبیر میں ذاتی فیصلے کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے، حتیٰ کہ قرآن کے بھی قابل قبول تعبیرات و تراجم میں ذاتی فیصلہ اہم مقام رکھتا ہے۔ (واضح رہے کہ میں تفسیر بالرائے کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ ) اور جب قرآن کی تفسیروتعبیر بھی my interpretation کا درجہ رکھتی ہے تو [ادبی]متون کی بات ہی کیا ہے ؟ اور جس طرح متن کی فطرت یہ ہے کہ اس سے ہر وہ معنی نکل سکتے ہیں جن کا وجود اس متن میں ممکن ہو، اسی طرح تعبیر کی فطرت یہ ہے کہ اس پر مکمل اتفاق رائے نہیں ہو سکتا۔ ہر تعبیر میں کہیں نہ کہیں بحث یا شک یا ضمنی اختلاف، یا توسیع یا تخفیف کی گنجائش رہتی ہے۔ ‘‘
(3) ’’خود مولانا تھانوی نے لکھا ہے کہ جب وہ اپنا ترجمۂ قرآن تیار کر رہے تھے تو ہر لفظ کے ممکن تراجم پر غور کرتے تھے، اور جب کسی ایک ترجمے پر شرح صدر ہو جاتا تو اسے درج کرتے۔ ظاہر ہے کہ ذاتی کار روائی کی حیثیت سے تو حضرت تھانوی کا عمل نہایت احسن تھا، لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ ان کا شرحِ صدر کسی اور کے لیے حکم نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ‘‘
7
فاروقی نے ٹاڈاراف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ ایسی تعبیر لا طائل اور بے معنی ہے جو ہر متن کی شرح کسی ایک ہی تصور کی بنیاد پر کرے۔ ‘‘ انھوں نے اپنے اس خیال کا اطلاق کئی ایسی تعبیروں پر کیا ہے جو متن کے معنی کو محدود کرنے اور اس طرح دوسری، مختلف، تعبیروں کا راستہ روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان میں مارکسی، تانیثی (feminist) اور تحلیل نفسی پر مبنی تعبیریں شامل ہیں۔ اس سلسلے میں فاروقی کے بیانات یہ ہیں:
(1) ’’سیاسی طور پر وابستہ نقادوں کو اس بات کی خاص فکر رہتی ہے کہ وہ ادبی متون میں سیاسی معنی کا وجود کس طرح کریں۔ ظاہر ہے اگر سیاسی معنی اور خاص کر اپنے مفید مطلب سیاسی معنی ہر ادبی متن میں تلاش کرنا ہیں تو پھر منشائے مصنف کی اہمیت، بلکہ اس کے وجود ہی سے انکار کرنا ہو گا۔ …جیمی سن کمیونسٹ منشور کے حوالے سے کہتا ہے کہ اب تک جتنے سماج وجود میں آئے ہیں ان کی تاریخ بس یہی ہے کہ جابر اور مجبور کے درمیان کش مکش ہوتی رہی ہے، کبھی کھلی ہوئی کبھی پوشیدہ۔ اور تاریخ کچھ نہیں ہے صرف طبقاتی کش مکش کا بیانیہ ہے۔ لہٰذا ادبی متون میں بھی اسی طبقاتی کش مکش کا بیان ہے، کبھی کھلا ہوا اور کبھی پوشیدہ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب ہمیں یہ بات پہلے ہی سے معلوم ہے، اور تاریخ کی ماہیئت بھی ہمیں معلوم ہے (بحوالہ کمیونسٹ منشور) تو پھر متن کے معنی بیان کرنا بھی مشکل نہیں …اس طریق کار کو کام میں لا کر ہم تعبیری دور کے چکر ویو سے شاید نکل سکیں (اگرچہ اس میں بھی کلام ہے ) لیکن اس کا نتیجہ معنی کے لیے مہلک ہے۔ کوئی بھی عمومی بیان جو میزانیاتی (totalising) ہو، بظاہر تو بہت دلکش اور پر معنی لیکن بباطن بنجر ہوتا ہے کیوں کہ وہ بیان جو ہر چیز کو بیک جنبش قلم واضح کر دے، در اصل کچھ بھی واضح نہیں کرتا۔ …اگر یہ بیان صحیح بھی ہو کہ تمام ادبی متون در اصل سیاسی دستاویزیں ہیں تو اس سے اس بات کی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ کالی داس، شیکسپیئر اور سافکلیس ایک دوسرے سے اس قدر مختلف کیوں ہیں ؟ اگر تینوں میں الگ الگ صفات نہیں ہیں تو ان کے وجود کا جواز کیا ہے ؟‘‘
(2) ’’یہ پریشانی صرف سیاسی تعبیروں تک محدود نہیں۔ کوئی بھی عمومی میزانیاتی بیان ادبی متن کی تعبیر میں ناقابل تسخیر دشواریاں پیدا کر سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ادبی متن کی تعبیر کے عمومی میزانیاتی بیانات وضع کرنے والوں کو تعبیری دور(hermeneutic circle) توڑنے کی اتنی فکر نہیں ہے جتنی اپنے محبوب ادبی یا غیر ادبی تصورات کو نافذ کرنے کی۔ مارکسی نقادوں کا معاملہ سامنے کا ہے …لیکن غیرمارکسی نظریہ رکھنے والے نقاد بھی اکثر کسی نہ کسی غیر ادبی تامل کا شکار رہتے ہیں۔ ‘‘
(3) ’’ما بعد وضعیات اور اس سے منسلک بعض تصورات اور طریق کار مثلاً تانیثیت (feminism) کے مباحث کو دور تک لے جایا جائے تو وہ زیادہ سرسبز نہیں ہوتے۔ مثلاً تانیثی نقطۂ نظر سے ’توبۃ النصوح‘ کا مطالعہ ایک ہی بار ہو سکتا ہے، بار بار نہیں۔ جس طرح ’ہیملٹ‘ کا مطالعہ تحلیل نفسی کے نقطۂ نظر سے صرف ایک بار ممکن ہو سکا، بار بار نہیں۔ (میری مرد ارنسٹ جونز کے مطالعۂ ہیملٹ سے ہے۔ ) آپ کے یہاں ڈاکٹر اجمل نے تحلیل نفسی کے اصولوں میں ‘اوتھیلو‘ کا مطالعہ لکھا اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اوتھیلو کے تئیں ایاگو کی دشمنی اس وجہ سے تھی کہ ایاگو کو اوتھیلو سے درپردہ homosexualعشق تھا۔ ظاہر ہے ایسا مطالعہ ایک ہی بار ممکن ہے۔ ‘‘ ( ’’بارت نے کیا کہا؟ ایک خط اور اس کا جواب‘‘، شب خون، شمارہ161، صفحہ 82)
لیکن ظاہر ہے کہ متن کے معنی کو محدود کرنے والی تعبیروں کی فہرست یہاں ختم نہیں ہو جاتی۔ اس کی اگر محض ایک اور مثال دینی ہو تو وہ ہمیں محمد حسن عسکری کی آخری دور کی تحریروں میں مل سکتی ہے جب انھوں نے ’’مغرب‘‘ کے تمام ادب کو محض اس کی چارسو سالہ گمراہی کی تاریخ کا مظہر قرار دے دیا تھا۔ (عسکری کی کسی بھی تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے دور کا تعین ضروری ہے، کیونکہ مختلف ادوار میں ایک ہی شے کے بارے میں ان کے خیالات بالکل متضاد نظر آتے ہیں۔ ) اس چار سو سال کے عرصے میں، عسکری کے آخری دور کے عقائد کی رو سے، ’’مغرب‘‘ نے جو اقدار بھی پیدا کیں وہ ہواوہوس کا مظہر تھیں اور خود ’’مغرب‘‘ کے لیے تباہ کن ثابت ہوئیں۔ اس نقطۂ نظر کے بارے میں بھی غالباً یہ بات کہی جا سکتی ہے: اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب ہمیں یہ بات پہلے ہی سے معلوم ہے، اور تاریخ کی ماہیئت بھی ہمیں معلوم ہے (بحوالہ جدید دنیا کا بحران از رینے گینوں ) تو پھر ’’مغرب‘‘ کے کسی بھی متن کے معنی بیان کرنا بھی مشکل نہیں۔ تاہم ظاہر ہے کہ اس قسم کا تعبیر کا نتیجہ بھی معنی کے لیے کم مہلک نہیں ہو سکتا۔ فاروقی کا کہنا ہے کہ ہر تہذیب کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے ماضی کی خود تعبیر کرے۔ چنانچہ اگر ’’مغرب‘‘ کوئی الگ تہذیب ہے تو اسے بھی یہ حق حاصل ہونا چاہیے۔
لیکن اس سلسلے میں ہمیں اس دشواری کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ دنیا کو ’’مشرق‘‘ اور ’’مغرب‘‘ کے مابین تقسیم کرنے کے عمل کو بھی مطلق قبولیت حاصل نہیں ہے۔ اس طرز فکر کو، جس کی رو سے ’’مشرق‘‘ اور ’’مغرب‘‘ متعین تعریف کی حامل اور تاریخ کے تمام ادوار میں قائم دو ایسی entities ہیں جن میں متواتر آویزش چلی آتی ہے، نہایت تفصیل سے پرکھا اور چیلنج کیا گیا ہے، اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو دنیا کے اجتماعی ماضی (اور چنانچہ حال) کی اس تعبیر کو درست نہیں سمجھتے۔
8
پچھلے صفحات میں میں نے اس ذہنی عمل کا ایک خاکہ بنانے کی کوشش کی ہے جس کے ذریعے فاروقی کے مضمون ’’تعبیر کی شرح‘‘ کے مطالعے نے چند سوالات کو کسی قدر واضح شکل دی۔ اردو تنقید کا سرمایہ جن تحریروں پر مشتمل ہے ان میں سے بیشتر کو پڑھتے ہوئے مجھے اس ذہنی عمل کا تجربہ نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے فاروقی کی تحریریں میرے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں۔
فاروقی نے جس کام کا آغاز کیا ہے وہ ابھی جاری ہے۔ ان کی اب تک کی بہت سی باہم منسلک تحریروں کی مدد سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ اردو ادب کے کلاسیکی ورثے کا فاروقی کا ادراک کیا ہے۔ اس کی اگلی منزل کا اشارہ ان کے اس بیان سے ملتا ہے: ’’ ہمیں اپنے کلاسیکی ورثے کو دوبارہ جمع کرنا اور تعمیر کرنا ہے اور کلام کے کھوئے ہوئے ضوابط اور گم شدہ بصیرتوں کو دوبارہ دریافت کرنا ہے۔ تبھی ہم فیصلہ کر سکیں گے کہ ہماری کلاسیکی روایت ہمارے ساتھ بہت زیادہ ہے یا بہت کم…میرے خیال میں یہ ممکن نہیں کہ کلاسیکیت کی جیت اس طرح واقع ہو جائے کہ معاصر ادبی محاورہ منسوخ ہو کر کلاسیکی محاورہ جاری ہو جائے۔ بہت سے بہت یہ ہو سکتا ہے کہ کلاسیکی لفظیات جدید محاورے کو سہارا دے اور اس میں اضافہ کرے۔ کلاسیکی نمونوں سے ہمیں یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ پہلے کیا ہو چکا ہے اور وہ کس طرح ہوا۔ ان سے ہم یہ بھی جان سکتے ہیں کہ کون سی چیزیں کامیاب ہوئیں اور کون سی ناکام ٹھہریں۔ ممکن ہے ہمیں اس سے یہ بھی معلوم ہو سکے کہ چیزیں جیسی کہ تھیں تو کیوں تھیں۔ ‘‘ ( ’’نقاد اور شاعر کے مابین مکالمہ‘‘، شب خون، شمارہ 211)‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’کلاسیکی شاعری اور جدید شاعری میں تسلسل، بلکہ ایک طرح کی وحدت ہے اور جب تک اس تسلسل، بلکہ وحدت، کا پورا شعور نہ ہو گا، اس وقت تک کامیاب جدید شاعری ظہور میں نہ آ سکے گی۔ ‘‘ ( ’’میں کون ہوں اے ہم نفساں ‘‘، شب خون، شمارہ 205)۔ میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اس تسلسل اور وحدت کا اندازہ فاروقی کے عام پڑھنے والوں کو اب تک نہیں ہو سکا ہے۔ امید رکھنی چاہیے کہ ان کی آئندہ تحریریں ہمارے ادبی ماضی اور حال کے اس رشتے کو مزید واضح کر سکیں گی۔
تاہم، ’’تعبیر کی شرح‘‘ کے مطالعے سے جو نکات سامنے آتے ہیں ان سے ادبی اور تہذیبی متون کی ان مختلف اور باہم متضاد تعبیروں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جو ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کارفرما دکھائی دیتی ہیں۔ اور ان نکات کی بنیاد پر میرے خیال سے افراد اور گروہوں کی سیاسی آزادی کے حق میں ایک مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس آزادی کا استعمال وہ بہرطور اپنے عمل کے ذریعے کرتے ہی ہیں۔
اس مضمون کی ابتدا تصویر کھنچوانے یا نہ کھنچوانے کے انفرادی فیصلے کے ذکر سے ہوئی تھی۔ مناسب ہے کہ اس کا اختتام بھی اسی سلسلے کی ایک اور مثال پر ہو۔
محمد حسن عسکری نے فاروقی کے نام اپنے 18 اکتوبر 1969 کے خط میں لکھا: ’’آپ نے میری تصویر مانگی ہے، اور تصویر کے مسئلے میں میرا خیال بھی دریافت کیا ہے۔ یہاں کسی کا ذاتی خیال کیا کام دیتا ہے۔ شریعت نے تو تصویر کو ناجائز ہی قرار دیا ہے …رہی میری بات تو میں یہ عرض کروں گا کہ قرآن شریف نے حکم دیا ہے — لاتزکّو انفسکم (اپنے آپ کو پاکیزہ نہ سمجھو)۔ اگر میں نے دوچار دینی کتابیں پڑھ لیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں پوری طرح شریعت پر چلنے لگا۔ ‘‘ آگے چل کر کہتے ہیں: ’’اسی زمانے میں میرے استاد نے میری ایک تصویر کھینچی تھی۔ اس کا negativeکہیں پڑا ہے۔ آپ چاہتے ہیں تو تصویر بنوا کے آپ کو بھیج دوں گا۔ یہ قصہ میں نے آپ کو اس لیے سنایا کہ دین میں نے صرف کتابوں سے ہی نہیں بلکہ کیمرے کے لینس سے بھی سیکھا ہے۔ ‘‘ ( ’’عسکری بنام فاروقی‘‘، شب خون، شمارہ 116)۔
عسکری جو مذہبی عقائد رکھتے تھے ان کا سیاسی نفاذ، کچھ عرصے ہی کے لیے سہی، ان کی وفات کے برسوں بعد افغانستان میں طالبان کی قائم کردہ امارت اسلامی میں ہوا تھا۔ یہ بات واضح ہے کہ عسکری نے اپنے اس ذاتی معاملے میں جس آزادی پر عمل کیا وہ انھیں اس امارت میں ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی تھی، کیونکہ اس خط میں بیان کردہ مذہبی متون کی جس ذاتی تعبیر کے ذریعے انھوں نے اپنے عمل کا جواز حاصل کیا تھا اس کی اس معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی جو ان کے ہم عقیدہ بہت سے افراد کے لیے مثالی معاشرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مثالی معاشرے کی نمایاں ترین خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہاں مذہب (معاشرت، سیاست، ماضی اور حال) کی واحد تعبیر سرکاری طاقت کے ذریعے نافذ ہو کر باقی تمام تعبیروں کا راستہ مکمل طور پر روک دیتی ہے۔
اس چھوٹی سی مثال سے اس کشمکش کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو اس وقت دنیا کے بہت سے معاشروں میں مختلف تہذیبی اور سیاسی نقطۂ نظر رکھنے والے افراد اور گروہوں کے مابین جاری ہے۔ ایڈورڈ سعید کا کہنا ہے کہ مغرب کی نظر سے جو چیز مسلمان معاشروں میں مذہب کا عروج یا احیا دکھائی دیتی ہے وہ در اصل ان معاشروں میں مذہب کی تعریف متعین کرنے کی کوششیں ہیں۔ کسی ایک فرد یا ادارے کو تعریف یا تعبیر کے اس عمل پر مکمل تصرف حاصل نہیں، چنانچہ اس کا نتیجہ اس کشمکش کی صورت میں سامنے آتا ہے جو یوں تو صدیوں سے جاری ہے، لیکن نوآبادیاتی دور کے اختتام کے بعد اس کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا ہے، اور اس کشمکش کے تھمنے یا دھیما ہونے کے فی الحال کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔
٭٭٭