پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد(بہاول پور)
میں سیّد زو ار حسین شاہ کے ساتھ اُردو کے جدید نظریے پر کام کر رہا تھا کہ اکتوبر ۲۰۰۵ء کے ماہنامہ ’’اخبارِ اُردو‘‘ اسلام آباد میں نقطۂ نظرکے حصے میں شامل ایک مختصر سا مضمون دیکھا۔ یہ مضمون خالد حسن قادری کا تھا اور اس کا عنوان ’’ایک متروک لفظ‘‘ تھا۔ میں اپنے موضوع کو چھوڑ نہیں سکتا تھا لیکن میرے لیے اس مضمون سے صرفِ نظر کرنا بھی دشوار تھا۔
اس حوالے سے میرے ذہن میں کئی سوال ہیں مثلاً ایک سوال یہ ہے کہ کیا کوئی لفظ متروک ہوسکتا ہے؟فرض کیجیے کہ ایک کنبہ چھ افراد پر مشتمل ہے۔ ان میں سے دو افراد دادا اور دادی ہیں جو اَب زندگی کی بیشتر مصروفیات سے الگ ہو کر مصلیٰ سنبھال چکے ہیں۔ دو بچے ہیں جو ابھی سکول بھی نہیں جا رہے اور وہ گھر کا کوئی کام کرنے کے لائق بھی نہیں ہیں اور گھر کی تمام ذمہ داری اِن دو افراد پر ہے جو بزرگوں کی اولاد اوربچوں کے ماں باپ ہیں اور کھانے کمانے کا سارا دارومدار انہی دو افراد پر ہے۔ سوال یہ ہے کہ اِن دو کمانے کھانے والے افراد کے علاوہ کیا بچوں یا بوڑھوں میں سے کسی کو متروک قرار دیا جاسکتا ہے ؟غالباً اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔اس لیے کہ بزرگ اور بوڑھے زندگی کے تجربوں کی وجہ سے آج بھی مختلف مسائل پر کنبے کی رہنمائی کر سکتے ہیں جب کہ بچے آج متحرک و عاقل نہ سہی لیکن مستقبل میں خاندان کی ساری اُمیدیں انہی سے وابستہ ہیں۔گویا اگر گھر کا کوئی فرد متروک نہیں ہوسکتا تو کوئی لفظ کیسے متروک قرار دیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص یا اشخاص کا کوئی گروہ کسی خاص لفظ کو متروک قرار دے سکے؟ اور اگر کوئی لفظ متروک قرار دے دیا جائے تو کیااِس کے استعمال پر بھی پابندی لگائی جا سکتی ہے اور لگائی جاسکتی ہے تو پھر یہ پابندی لگانے کا مجاز کون ہے؟اور اس پر عمل درآمد کون کراسکتاہے؟ممکن ہے کہ پاکستان میں بیٹھا ہوا اُردو کا مجھ جیسا عام قاری اس بات کو نہ سمجھ سکے لیکن لندن میں رہائش پذیر اُردو لسا نیات کے ماہر مثلاً خالد حسن قادری کو اس طرح کا غیر سائنسی نقطۂ نظر اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ خالد حسن قادری نے لفظ ’’تیںَ‘‘ کو ایک متروک لفظ قرار دے کر اسے استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
گزشتہ دنوں اسی طرح کی ایک صورتِحال نومبر ۲۰۰۵ء میں بہاول پور میں بھی پیش آئی تھی۔ قصّہ یہ تھا کہ میں اور ڈاکٹر سیّد زوار حسین شاہ نے مل کر ’’یہ ہماری زبان ہے…………‘‘ کے عنوان سے مقالہ اُردو مجلس بہاول پور کے جلسے میں پڑھاجو اَب ماہنامہ ’’اخبارِ اُردو‘‘ اسلام آباد اور ’’جدید ادب ‘‘جرمنی کے شمارے بابت جولائی ۲۰۰۶ء میں چھپ چکا ہے۔ جلسے میں ۴۰،۵۰اہل علم کے علاوہ پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب اور پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ، سابق پرنسپل اورینئٹل کالج لاہور بھی تشریف فرما تھے۔ جناب ڈاکٹر اسد اریب صاحب نے یہ سوال اٹھایا کہ آخر اُردو کے حوالے سے کوئی معیار تو ہونا چاہیے ۔یہ معیار اہلِ زبان نہ سہی تو لغت نگار تو ہو سکتے ہیں۔
اہل زبان کا قصّہ بھی بہت دلچسپ ہے ۔یوں لگتا ہے کہ جیسے سارا ہندوستان بے زبان ہے اور صرف اہلِ لکھنؤ اور اہلِ دہلی ہی بولنے کا ہنر اور فن جانتے ہیں لیکن شاید یہ بات بھی درست نہیں کہ دہلی میں تو کرخن دار بھی رہتے تھے اور اصل زبان توصرف وہی لوگ جانتے تھے جن کا تعلق شعرو ادب سے تھا ۔مثلاً میرؔ، سوداؔ ،دردؔ، غالبؔ اور ذوقؔ وغیرہ۔ پھر ان میں بھی صاحبِ زبان صرف وہ لوگ تھے جن کا تعلق کسی نہ کسی طریقے سے ٹکسال سے بنتا تھا۔ گویا دہلی اور لکھنؤ کی ٹکسال میں سکّے نہیں بلکہ لفظ بنتے تھے لیکن ابھی بات ختم کہاں ہوئی؟ ٹکسال والے بھی بادشاہ سلامت کی طرف دیکھتے تھے کہ وہ کیا اور کیسے بولتے ہیں؟ گویا زبان صرف بادشاہ اور ان کے خانوادے کی پابند تھی ۔ کتنی عجیب صورتِ حال ہے کہ برصغیر کے کروڑوں باشندے گونگے ہوں اور زبان پر صرف ایک خانوادے کی اجارہ داری ہوحالانکہ فکری طور پر صورتِ حال جو بھی ہو لیکن حقیقت یہی تھی کہ میرؔجیسا شاعر بھی یہ بات جانتا تھا کہ لفظ اور شعروہی ہیں جنہیں عوام پسند کرتے ہوں۔مثلاً میرؔ کہتے ہیں:۔
شعر میرے ہیں گو خواص پسند پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
گویا میرؔ صاحب جانتے تھے کہ لفظ اور شعروہی ہیں جنہیں عوام پسند کرتے ہوں ورنہ بے چارہ ابراہیم ذوق کا بادشاہ کتنا ہی بڑا شاعر، فلسفی اور مفکر ہو تو بھی اپنی عام زندگی میں زیادہ سے زیادہ چند سو لفظ بولنے پر قادر ہوتا ہوگا؟اور اگر اُردو صرف اُن الفاظ پر مشتمل سمجھی جائے جو بادشاہ سلامت بولتے اور بول سکتے ہیں تو پھر اُردو کی تنگ دامانی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اہلِ دہلی اور اہلِ لکھنؤ کے اسی روّیے نے اُردو کے سامنے کئی نارواپھاٹک لگا دیئے۔ سعد اللہ گلشن کے مشورے اور ایہام گوئی کی تحریک کے باوجود کبھی آرزوؔ اور کبھی ناسخؔ نے سیکڑوں الفاظ اُردو سے بلا وجہ خارج کردیئے اور یہ طریق عمل تا حال جاری ہے۔ اس لیے میں مکمل ایمان داری کے ساتھ اہلِ زبان کو اُردو کا دوست نہیں بلکہ نادان دوست کہتاہوں جن کے جذباتی اور غیر سائنسی روّیے نے اُردو زبان کو محدود اور مقیّد کردیا ہے۔یہ واحد گروہ ہے جو اُردو بولنے پر خوش ہونے کی بجائے ناراض اور خفا ہوتا ہے۔آپ یورپ کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں مثلاً آپ فرانس میں ہوں اور کسی فرانسیسی سے بہترین انگریزی زبان میں بات کرنے لگیں تو آپ دیکھیں گے کہ وہ انگریزی جاننے کے باوجود آپ کی بات کا جواب نہیں دے گا۔ہاں اگر آپ اُس کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی فرانسیسی زبان میں بات کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ نہ صرف خوش ہوگا بلکہ آپ کے سوالات کا ممکن حد تک جواب دینے کی کوشش بھی کرے گا لیکن ہمارے ہاں معاملہ بالکل مختلف ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ بقول محمد حسین آزا د میرؔ صاحب نے دہلی سے فیض آبادتک کے سفر میں اپنے ہمراہیوں کے ساتھ صرف اس لیے گفتگو نہیں کی تھی کہ انہیں اپنی زبان بگڑنے کا خدشہ لاحق تھا۔گویا اُن کے نزدیک زبان بولنے کے لائق چیز نہیں بلکہ سنبھال سنبھال کر رکھنے کے لائق ہے اور اگر کوئی غیر اہلِ زبان اُردو بولنے کی کوشش کرے تو اُس کے اِس عمل پر خوش ہونے کی بجائے اہلِ زبان بے حد ناخوش ہوتے اور اسے چپ کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا تجربہ مجھے بار ہا ہوا لیکن تازہ ترین تجربہ یہ ہے کہ ابھی جولائی ۲۰۰۶ء میں قرطبہ یونیورسٹی کی طرف سے منعقدہ سیمی نار میں الطاف مثال نے بطورِ خاص کہا کہ ہم اُردو بولتے ہوئے صرف اس لیے ڈرتے ہیں کہ لوگ ہمارے لہجے ، قواعد کی غلطیوں ، تذکیر و تانیث اور واحد جمع سے ناراض ہو جاتے ہیں۔لہٰذا ہم کوشش کرتے ہیں کہ اہلِ زبان کے سامنے خاموش رہیں ۔
ایک دلچسپ معاملہ یہ بھی ہے کہ آج سے ڈیڑھ ،دوسو سال پہلے چھوٹی چھوٹی خود مختارریاستوں کے باوجود بادشاہانِ دہلی کی عزت و توقیر کی جاتی تھی اور چھوٹے موٹے راجے مہاراجے انہی سے اپنے اختیار کا حکم نامہ جاری کروایا کرتے تھے۔چلیے ایسے زمانے میں زبان دانی میں بھی بادشاہِ وقت کی تقلید جائز تھی لیکن اب صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔پہلے برصغیر پر انگریز بطورِ حکمران آیا ۔ ظاہر ہے کہ اُردو سے اُس کا کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی زبان دانی سے اُس کی قابلیت و حیثیت کا تعین کیا جاسکتا تھا۔پھر پاکستان بنا اور بد قسمتی سے پاکستان دو حصوں میں تقسیم بھی ہوگیاتو گویا مغلوں کا ہندوستان تین دارالہائے حکومت میں بٹ گیایعنی ڈھاکہ، دہلی اور اسلام آباد۔ یہ تینوں مراکز اُردو کے مراکز نہیں تھے اور نہ ہی اِن تینوں میں اُردو بطورِ سرکاری زبان رائج تھی۔صرف یہی نہیں بلکہ یہاں پر ایسے ایسے حکمران بھی آتے رہے جو گنگا جمنا میں نہائی ہوئی اُردو تو کجا سیدھی سادی اُردو زبان بھی مشکل سے بول سکتے تھے۔ایسے میں اِن حکمرانوں کی تقلید نا ممکن تھی۔
ایک اور بات اُس وقت سامنے آئی جب بادشاہوں اور وائسراؤں کی بجائے برصغیر جمہوری مملکتوں میں تبدیل ہوگیا اور اِن جمہوری مملکتوں میں ایسے تماشے بھی ہوئے کہ اگرکوئی سربراہِ مملکت دس، گیارہ سال تک صدر رہے تو کچھ وزیراعظم انتیس انتیس دنوں میں بھی حکومت سے الگ ہوکر اپنے گھر جا بیٹھے۔پھر ایسا بھی تھا کہ پاکستان کے بہت سے صدور اور وزراء اعظم کو بہادر شاہ ظفر جیسی اُردو نہیں آتی تھی اور نہ ہی وہ اس طرح کی اُردو لکھ اور بول سکتے تھے۔گویا موجودہ زمانے میں بادشاہِ وقت کی زبان معیار کے منصب پر فائز نہ رہی۔
لغتوں کو دیکھیے تو پتا چلے گا کہ وہ ایک دوسرے سے پیش از پیش اختلاف رکھتی ہیں اور چلیے ادب اور ادبی اصطلاحات کی حد تک تو ان کے فیصلوں کو مانا جاسکتا ہے لیکن دہلی، لکھنؤ اور صرف کراچی میں رہنے والے بزرگوں کو ان ہزاروں الفاظ کا کیا پتا جو مختلف صنعتوں سے متعلق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عام طورپر ایک دوسرے کی نقل کرتے اور لفظوں کا قتلِ عام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر نسیم امروہوی نے اپنی لغتوں میں ’’میڑا‘‘ کے مترادف کے طورپر لفظ ’’سہاگہ‘‘ دیا ہے حالانکہ زراعت پیشہ افراد اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ دو مختلف زرعی آلات ہیں جو ایک دوسرے کا بدل نہیں ہوسکتے۔ شہری طبقے سے وابستگی اور لغات کے نقل در نقل والے روّیے سے ایسے ہی نتائج مستخرج ہوسکتے ہیں جب کہ یہ بات تو بہت ہی قابل توجہ ہے کہ اہلِ لکھنؤ اور اہلِ دہلی کے صاحبانِ علم ،بلبل کی تانیث و تذکیر پر بھی متفق نہیں ہوسکے۔ ایسے میں اہلِ زبان اور اہلِ لغت کا کیا اعتبار اور ان کی کس قدر سنی جانی چاہیے؟
ہمارے پاس بڑے سے بڑا معیار یہ ہوسکتا ہے کہ ہم ان الفاظ کو رائج رکھیں جو کسی عظیم شاعر نے اپنی شاعری میں استعمال کیے ہوں اور اگر آپ غور کریں تو یہی معیار رائج بھی ہے کہ مشاعروں میں بڑے بڑے شاعر قدیم شعراء کی سندات لاتے اور اسی سے اپنی شاعری کا سکّہ جماتے تھے۔ ہماری بڑی بڑی کتب میں بھی یہی طریقہ رائج نظر آتا ہے۔ مثلاً اس حوالے سے نجم الغنی کی بحر الفصاحت وغیرہ کو دیکھا جاسکتا ہے لیکن خالد حسن قادری اس معیار کو بھی ماننے کے لیے تیار نہیں اور اپنے مختصر سے مضمون میں سوداؔ،میرؔ،اشرف علی فغاںؔ،قائمؔ، دردؔ، خاکسارؔ دہلوی،نواب منور الدولہ ،جراتؔ اور مصحفیؔ وغیرہ کو رگیدتے چلے جاتے ہیں۔
میں آپ کی توجہ ایک لفظ کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں اور واقعہ یہ ہے یہ لفظ میں نے بھی اتفاق سے اپنی تحریر یا گفتگو میں کبھی استعمال نہیں کیا لیکن ولی دکنی لفظ ’’بھیتر‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ ذرا غور کیجیے کہ اس لفظ میں کیا کوئی ایسا حرف ہے جو ادائیگی میں مشکل پیدا کرتا ہو؟ اور اگر نہیں تو پھر روہتک، حصار، گڑ گاواں، جیسل میر،راجستھان اور وہاں سے ہجرت کرکے موجودہ پاکستان میں بسنے والے کروڑوں لوگ اس لفظ کو رات دن استعمال کرتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ آخر اس لفظ کو متروک قرار دینے میں کون سی مصلحت اور مفاد کار فرماہے؟
میر حسن اور ان کے خانوادے کے شعراء ہمارے لیے سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ خاندان پہلے دہلی اور پھر فیض آباد اور لکھنؤ میں مقیم رہا ہے۔ میر حسن نے اپنی مثنویوں میں لفظ ’’کَد‘‘ بمعنی کب استعمال کیا ہے۔ حصار، روہتک،گڑ گاواں، جیسل میر، راجستھان اور ہریانہ کے کئی اضلاع میں یہ لفظ اب بھی مستعمل ہے جب کہ پنجابی میں یہ لفظ ’’کداں، کدوں‘‘ اور سرائیکی میں ’’کڈاں ، کڈّاں اور کڈَن‘ ‘کے طور پر مستعمل ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ میر حسن کے لفظ کو جو اتنے طویل علاقے میں مستعمل ہے ، کیونکر متروک قرار دیا جائے اور اگر قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ اُردو کے لیے کس قدر اچھے نتائج پیدا کرسکتا ہے؟
اب ذرا لفظ ’’تیںَ‘‘اور ’’میں‘‘ کی طرف آیئے۔ ذرا غور کیجیے کہ خود خالد حسن قادری کے مطابق یہ الفاظ سوداؔ، اشرف علی فغاںؔ، نواب منور الدولہ، شاہ نصیر، قائمؔ، میر حسن،مصحفیؔ، جراتؔ اور دردؔ کے ساتھ ساتھ متوسطین کے ہاں بھی رائج رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ یہ شعر میں استعمال ہوتے ہوں بلکہ خود خالد حسن قادری کی پیش کردہ مثال کی رُو سے اُردو کی مشہور داستان ’’قصّہ مہر افروز‘‘ میں بھی جا بجا استعمال ہوئے ہیں۔ گویا یہ لفظ ایک زمانے میں ہماری نثر اور شاعری میں تواتر کے ساتھ مستعمل ر ہے ہیں لیکن ٹھہریئے !شاید اس جملے سے کچھ غلط فہمی پیدا ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لفظ اب بھی برصغیر میں دہلی کے مغرب میں واقع تمام خطوں میں بولے جاتے ہیں مثلاً انبالہ، امرتسر، گورداس پور، فیروز پور، کرنال، شاہ آباد، لاہور، جہلم ، راول پنڈی،مری، اٹک، ہزارہ، میانوالی، لیہ، مظفر گڑھ، ساہیوال اور بہاول پور وغیرہ ۔ اگر سروے کیا جائے تو یقینی طور پر یہ لفظ دہلی سے جنوب میں واقع تمام علاقوں میں اب بھی بولے جاتے ہوں گے ۔ پھر ان الفاظ پر اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ یہ لفظ عامیوں کا لفظ ہے خواص اسے استعمال نہیں کرتے تو پھر آیئے جدید عہد کے معروف ناول ’’جانگلوس‘‘ کا مطالعہ کرتے ہیں جس کی تین ضخیم جلدوں میں لفظ ’’تیںَ‘‘جابجا استعمال ہوا ہے یعنی ایک لفظ ہے جسے دردؔ ، سوداؔ،جراتؔ و مصحفیؔ وغیرہ سب استعمال کر رہے ہیں۔ ہزاروں مربع میل کے علاقوں میں آج بھی بولا جا رہاہے اور ہماری جدید نثر میں بھی جگہ جگہ نظر آ رہاہے تو اس لفظ کو متروک قرار دینا کہاں کی علم دوستی ہے؟
جب ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ لفظ اپنی فصاحت و بلاغت سے پہچانے جاتے ہیں تو پھر ان پر یہ کڑی اور ناروا پابندیاں کیوں؟ اور اس سے اُردو کو محدود کرنے کے علاوہ اور کیا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟ لہٰذا عقلی طور پر ہمیں یہ بات ماننا چاہیے کہ جو لفظ معاشرے میں رائج ہیں وہ سب کے سب ہمارے لفظ ہیں اور ہمیں انہیں اپنی گفتگو، نثر یا شاعری میں استعمال کرتے رہنا چاہیے۔ ہاں کچھ لفظ وقت کے ساتھ ساتھ خود بخود مر جاتے ہیں اور اگر کوئی لفظ مر جائے تو دنیا بھر کے اہلِ لغت مل کر بھی اس لفظ کو زندہ نہیں کرسکتے مثلاً میں دیکھ رہا ہوں کہ مستقبل میں ’’بیل مارنا‘‘ نئے محاورے کے طور پر زندہ ہو رہاہے اور چراغ یا دِیے سے متعلق تمام محاورات اور ضرب المثال دم توڑ رہی ہیں اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم یا آپ ان لفظوں کو مارنا چاہتے ہیں بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد ان الفاظ کے مصداق موجود نہیں رہے اور اگر کسی لفظ کا مصداق موجود نہ رہے تو اُسے دنیا کا بڑے سے بڑا ادیب بھی زندہ نہیں رکھ سکتا۔