دو مرغوں یا بٹیروں کو لڑانا شغل ہو سکتا ہے فن نہیں البتہ دو آدمیوں کو لڑانا خاص کر جب کہ وہ ہم پیالہ وہم نوالہ ہوں دانت کاٹی روٹی کھاتے ہوں یقیناً فن ہے۔ اس فن کے موجد تو نارد منی ہیں کیوں کہ ان کا پسندیدہ شغل دیوتاؤں اور انسانوں کو آپس میں لڑانا ہے لیکن نارد منی کے علاوہ ایک اور ہستی کو بھی اس فن کا امام مانا جا سکتا ہے اور وہ ہے بی جمالو۔ یہ وہی جانی پہچانی جمالو ہے جو اکثر بھُس میں چنگاری ڈال کر الگ کھڑی ہو جاتی ہے اور جب بھُس میں سے شعلے نکلنے لگتے ہیں تو بغلیں بجا کر اپنی مسرت کا اظہار کرتی ہے۔
اس فن کے لیے بڑے ریاض کی ضرورت ہے جب تک ان تمام حربوں کا غور سے مطالعہ نہ کیا جائے جو نارد منی یا بی جمالو دوکو لڑانے میں استعمال کرتے ہیں کوئی شخص اس فن میں مشّاقی حاصل نہیں کر سکتا۔ سب سے پہلا حربہ یہ ہے کہ جن دو اشخاص کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں انھیں علیٰحدہ علیٰحدہ یقین دلا دیں کہ آپ سے بڑھ کر ان دونوں کا دنیا میں کوئی بہی خواہ نہیں اور آپ جو کہہ رہے ہیں بڑے خلوص سے کہہ رہے ہیں دوسرا حربہ یہ ہے کہ آپ ان دونوں کی کسی دکھتی ہوئی رگ کو چھیڑنے کی کوشش کریں۔ اس ضمن میں یاد رکھیں کہ ہر شخص کی کوئی نہ کوئی دکھتی ہوئی رگ ضرور ہوتی ہے۔ کسی کی یہ کہ جس عزت کا وہ مستحق ہے اس سے اسے محروم رکھا جا رہا ہے کسی اور کی یہ کہ اس کے سب احباب احسان فراموش واقع ہوئے ہیں اور کسی کی یہ کہ لوگ اس سے بلاوجہ حسد کرتے ہیں۔ تیسرا حربہ یہ ہے کہ جب وہ دونوں لڑنے پر آئیں تو آپ چپکے سے یہ کہہ کر کھسک جائیں کہ آپ کو یک لخت کوئی ضروری کام یاد آ گیا ہے اس لیے آپ اجازت چاہتے ہیں۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ دو اشخاص کو لڑانے میں نارد منی یا بی جمالو کا ضرور ہاتھ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر گھوش بابو اور گپتا بابو ایک دفتر میں کلرک ہیں۔ دونوں پکے دوست ہیں یعنی ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ہیں۔ اسی دفتر میں بھٹاچاریہ بھی کام کرتا ہے۔ جو نارد منی کی نمائندگی کرنے میں ید طولیٰ رکھتا ہے ایک دن بھٹا چاریہ گھوش بابو کے کمرے میں آتا ہے۔ کہتا ہے۔ “اپنا سمجھ کے ایک بات کہنا چاہتا ہوں برا تو نہیں مانو گے ؟ ”
“نہیں برا ماننے کی کیا بات ہے شوق سے کہیئے۔ ”
“پہلے یہ بتائیے کہ گپتا بابو سے کچھ ناچاقی تو نہیں ہو گئی؟ ”
“بالکل نہیں۔ ”
“بڑے تعجب کی بات ہے تو پھر معاملہ کیا ہے ؟ ”
“بات کیا ہے ذرا کھل کر کہیئے؟ ”
“کچھ نہیں کچھ نہیں میرا خیال ہے مجھے خاموش ہی رہنا چاہئے۔ “اتنا کہنے کے بعد واقعی بھٹاچاریہ خاموش ہو جاتا ہے۔ ادھر گھوش بابو سوچتا ہے کہ ضرور کوئی بات ہے اس لیے اصرار کرتا ہے۔
“بھٹاچاریہ بھئی بتاؤ نا بات کیا ہے ؟ ”
“بات ہے بھی اور کچھ بھی نہیں، میرا مطلب ہے کم از کم گپتا بابو…… ”
“ہاں ہاں گپتا بابو۔ ”
“نہیں میں کچھ نہیں کہوں گا۔ اچھا میں چلتا ہوں۔ ”
اب گھوش بابو بھٹا چاریہ کو پرماتما کا واسطہ دے کر کہتا ہے کہ اُسے وہ بات ضرور بتانا پڑے گی۔ ایک بار انکار کرنے کے بعد بھٹا چاریہ راز دارانہ لہجہ میں کہتا ہے۔ “ذرا گپتا سے بچ کر رہئے گا وہ آپ کے خلاف صاحب کے کان بھر رہا ہے۔ پرسوں میں نے اسے یہ کہتے سنا کہ گھوش بابو ہر روز پندرہ منٹ لیٹ آتا ہے اور کام کرنے کی بجائے سارا دن اخبار پڑھتا رہتا ہے اور ہاں لیکن میرا خیال ہے مجھے یہ نہیں کہنا چاہئے۔ ”
“نہیں نہیں رک کیوں گئے اب بتانے لگے ہو تو چھپاتے کیوں ہو۔ ”
“بھئی تم دونوں میں خواہ مخواہ جھگڑا ہو جائے گا اور میں جھگڑے کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ ”
“نہیں آپ کو ضرور بتانا پڑے گا۔ ”
“بتا تو دیتا ہوں لیکن یار اس سے یونہی جھگڑا نہ مول لے لینا۔ ”
“اچھا وہ بات بتائیے۔ ”
“ہاں تو وہ صاحب سے کہہ رہا تھا کہ آئندہ جب گھوش بابو لیٹ آیا تو میں آپ کو خبر کروں گا۔ ”
بھٹاچاریہ بھس میں چنگاری رکھ کر رخصت ہوتا ہے اور گھوش بابو دل ہی دل میں پیچ و تاب کھانے لگتا ہے کہ یہ گپتا بابو تو دوست کے پردے میں دشمن نکلا۔
اب شامت اعمال سے ایک دن گھوش بابو دفتر کے لئے لیٹ ہو جاتا ہے شاید اسے بس نہیں ملی یا اس کی سائیکل پنکچر ہو گئی ادھر صاحب کو کسی فائل کی جو گھوش بابو کے قبضے میں ہے۔ ضرورت پڑ جاتی ہے۔ گھوش بابو کو اپنے کمرے میں نہ پا کر صاحب چپڑاسی سے کہتا ہے کہ جب وہ آئے اُسے صاحب کے کمرے میں حاضر ہونے کے لئے کہا جائے۔
گھوش بابو جب آتا ہے تو اسے صاحب سخت سُست کہتے ہیں وہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ معاملہ کیا ہے صاحب کے دفتر سے نکل کر وہ سیدھا گپتا کے کمرے میں پہنچتا ہے۔
“آؤ بھئی گھوش بابو۔ ” گپتا مسکرا کر کہتا ہے۔
“رہنے دو یہ بناؤٹی مسکراہٹیں مجھے آج پتہ چلا کہ تم مارِ آستین ہو۔ ”
“کیا بات ہے اتنے ناراض کیوں ہو رہے ہو؟ ”
“ناراض نہ ہوں تو اور کیا کروں یہ اچھی شرافت ہے دوست بن کر پیٹھ میں چھرا گھوپنتے ہو۔ ”
“ارے بھئی کس نے چھرا گھونپا ہے۔ ”
“مجھے سب معلوم ہے شرم آنی چاہئے تمہیں۔ ”
چنانچہ دونوں میں وہ تو تو میں میں ہوتی ہے کہ دفتر کے تمام کلرک اکٹھے ہو جاتے ہیں آخر کچھ لوگ بیچ بچاؤ کر کے معاملہ رفع دفع کر دیتے ہیں۔ جب سب کلرک اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں تو بھٹاچاریہ یہ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے کیا زمانہ آ گیا ہے صاحب دوست ہی دوست کے در پئے آزار ہو گیا اب کس پر اعتبار کیا جائے۔
یہ تو تھا نارد منی کا کارنامہ اب ذرا بی جمالو کی کارستانی ملاحظہ فرمائیے۔
بی جمالو کتھا سن کر مندر سے چلی آ رہی ہے کہ راستے میں اُس کی ملاقات مالتی سے ہوتی ہے۔ مالتی کی شادی ہوئے سات آٹھ مہینے ہوئے ہیں بی جمالو مالتی پر ایک چھچھلتی ہوئی نظر ڈالتے ہوئے کہتی ہے۔
“کتنی کمزور ہو گئی ہو تم مالتی۔ پہچانی بھی نہیں جاتیں۔ ”
“نہیں تو۔ “مالتی حیران ہوتے ہوئے جواب دیتی ہے۔
“اری نہیں، سچ کہہ رہی ہوں، تمہارا تو رنگ روپ ہی جیسے اڑ گیا ہے معلوم ہوتا ہے بہت کام کرنا پڑتا ہے۔ ”
“ہاں کام تو کافی کرتی ہوں۔ ”
“یہی بات ہے میں بھی کہوں ہو کیا گیا تمہیں معلوم ہوتا ہے جٹھانی جی خوب کام کرواتی ہیں۔ ”
“بڑی جو ہوئیں۔ ”
“بڑے ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ خود تو سارا دن سیر سپاٹا کرے اور تم داسیوں کی طرح کام کرو تم گھر میں کیا آئیں اس کی تو پنشن لگ گئی۔ ”
“نہیں کام کاج میں وہ بھی ہاتھ بٹاتی ہیں۔ ”
“وہ کیا ہوا جو ذرا دیر سبزی چھیل دی یا پھل کاٹ دیئے یہ کام تھوڑا ہی ہے۔ ”
“پھر بھی بڑی بہو جو ٹھہری۔ ”
“بڑی بہو ہوا کرے لیکن کام اُسے آدھا ضرور کرنا چاہئے۔ تمہارے سیدھے پن کا نا جائز فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ”
“نہیں یہ بات تو نہیں ”
“تم ایک دم مورکھ ہو مالتی اپنا نفع نقصان نہیں سمجھتیں۔ میں نے تو سنا ہے دوکان کا سارا کام بھی تمہارا گھر والا کرتا ہے جیٹھ تمہارا تو موج کرتا ہے۔ موج، کبھی تاش کھیل رہا ہے کبھی شطرنج اور کبھی سنیما دیکھ رہا ہے۔ ”
“گھروں میں ایسا ہی ہوتا ہے ماسی۔ ”
“لیکن ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ آخر برابر کا حصہ دار ہے وہ کام کیوں نہ کرے دیکھو میری مانو تو ابھی سے الگ ہو جاؤ نہیں تو پچھتاؤ گی تمہارا جیٹھ اور تمہاری جٹھانی دونوں بڑے چالاک ہیں اور تم دونوں ہو بھولے بھالے شرافت میں مارے جاؤ گے دیکھو اپنا سمجھ کر کہہ رہی ہوں ورنہ میری یہ عادت نہیں کہ دوسروں کے پھٹے میں ٹانگ اڑاؤں اچھا رام رام۔ ”
بی جمالو پھوٹ کا بیج بونے کے بعد چلی جاتی ہے کچھ عرصہ کے بعد یہ پھوٹ وہ رنگ لاتی ہے کہ دیورانی اور جٹھانی میں جوتیوں میں دال بٹنے لگتی ہے۔
اب ذرا دیکھئے کہ نارد منی خاوند اور بیوی کو آپس میں کس طرح لڑاتے ہیں راجیش اور نیلما ایک دوسرے کو بہت چاہتے ہیں لیکن نارد منی کو یہ بات ایک آنکھ نہیں بھاتی، ایک دن راجیش کی غیر حاضری میں نارد منی ایک چھوٹے سے لڑکے کے ہاتھ راجیش کے نام ایک خط بھجواتے ہیں۔ لڑکا خط نیلما کو دیتا ہے وہ اس سے پوچھتی ہے۔
“تمہیں کس نے بھیجا ہے۔ ”
“جی کجلا دیوی نے۔ ”
“وہ کون ہے ؟ ”
“جی وہی خوبصورت لڑکی جو ایم اے میں پڑھتی ہے “۔
“تم کون ہو؟ ”
“میں میں اس کا نوکر ہوں “۔
“اس نے تمہیں یہ خط راجیش بابو کو دینے کے لئے کہا تھا “۔
“جی ہاں اور ساتھ ہی یہ کہا تھا کہ یہ خط کسی اور کے ہاتھ میں مت دینا۔ ”
“کیوں ؟ ”
“جی مجھے کیا معلوم؟ ”
“پھر یہ خط مجھے کیوں دے رہے ہو “۔
“آپ کونہ دوں تو پھر مجھے آنا پڑے گا آپ انھیں دے دیجئے گا۔ ”
لڑکے کے چلے جانے کے بعد نیلما سوچتی ہے کہ وہ خط پڑھے یا نہ پڑھے، کافی سوچ بچار کے بعد وہ فیصلہ کرتی ہے کہ اسے خط پڑھ لینا چاہئے۔ خط کو پڑھنے کے بعد اس کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے کیونکہ وہ ایک نہایت جذباتی قسم کا محبت نامہ ہے۔ شام کو جب راجیش بابو گھر لوٹتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ شریمتی جی انگاروں پر لوٹ رہی ہیں وہ پوچھتے ہیں بات کیا ہے لیکن روٹھی رانی جواب تک نہیں دیتی آخر جب حد سے زیادہ اصرار کرتے ہیں تو بھنّا کر کجلا دیوی کا محبت نامہ ان کے سامنے پٹک دیتی ہے۔ خط پڑھنے کے بعد راجیش بابو بڑی سنجیدگی سے کہتے ہیں یہ سب جھوٹ ہے۔ میں کسی کجلا دیوی کو نہیں جانتا۔ نیلما غصّے سے جواب دیتی ہے۔ مجھے بہکانے کی کوشش مت کیجئے۔ راجیش اپنی صفائی میں بار بار قسمیں کھاتا ہے لیکن نیلما کو یقین ہی نہیں آتا۔ وہ ایک ہی فقرہ دہرائے جاتی ہے۔ مرد کی ذات ہی ایسی ہوتی ہے۔ اس تہمت کی تاب نہ لا کر راجیش بھی آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور عورتوں میں جتنی خامیاں ہوتی ہیں انھیں گنوانے لگتا ہے۔ یہ تکرار دو ایک گھنٹے رہتی ہے اور جب ختم ہوتی ہے تو دونوں منہ پھلائے سونے کے لئے اپنے اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔
کبھی کبھی دو کو لڑانے میں بڑے شرارت آمیز حربے کا استعمال کیا جاتا ہے وہ کیسے یہ بھی سن لیجئے۔ ہمسائے میں لڑکی کے رشتے کی بات چل رہی ہے۔ لڑکے والے لڑکی سے ملنے آتے ہیں۔ یک لخت رام گوپال اپنی بیوی سے بلند آواز میں لڑنے لگتا ہے وہ کہہ رہا ہے۔ “اگر لڑکی میں نقص ہے تو تمہیں کیا لڑکے کی قسمت پھوٹے گی۔ تم کیوں خواہ مخواہ دوسروں کی باتوں میں دخل دیتی ہو۔ ایک آنکھ سے کانی ہے تو کانی سہی آخر اس کی تمہارے لڑکے سے تو ہو نہیں رہی اگر لڑکے والوں کو پسند ہے تو تمہیں کیا؟ ”
دو ایک منٹ چپ رہنے کے بعد وہ پھر کہتا ہے۔ ” تم چپ رہو لڑکا اگر ایک ٹانگ سے لنگڑا ہے تو ہوا کرے ہمیں کیا۔ اگر لڑکی والے جان بوجھ کر لڑکی کو اندھے کنوئیں میں دھکا دے رہے ہیں تو دیا کریں ان کی لڑکی ہے جو چاہے سلوک کریں۔ “تھوڑی اور دیر بعد وہ یہ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے۔ “میں کیوں لڑکے والوں سے جا کر کہوں مجھے کیا لینا دینا اگر وہ اپنے لڑکے کی زندگی تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ ”
جب یہ باتیں لڑکے اور لڑکی والے سنتے ہیں تو ایک دوسرے کی طرف گھور گھور کر دیکھتے ہوئے کہتے ہیں یہ ہم کیا سن رہے ہیں۔
“تو اس کا مطلب ہے آپ ہمیں دھوکہ دے رہے ہیں “۔
“آپ تو کہتے تھے لڑکی میں کوئی نقص نہیں “۔
“آپ بھی تو کہتے تھے لڑکے میں کوئی نقص نہیں۔ ”
“دیکھئے یہ رشتہ نہیں ہو گا۔ ”
“آپ تشریف لے جائیے “۔
اور جب لڑکے والے اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے لڑکی والوں کے گھر سے نکلتے ہیں تو رام گوپال سرگوشی کے انداز میں اپنی بیوی سے کہتا ہے “کیوں کیسا الّو بنایا دونوں کو۔ ”
دو کو لڑانا فن ضرور ہے لیکن خطرے سے خالی نہیں۔ اس کے لئے بڑی مشق کی ضرورت ہے اگر تھوڑی سی چوک ہو جائے تو لینے کے دینے پڑ تے ہیں اس لئے جب آپ دو کو لڑانے کی کوشش کریں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ اس فن کا کمال اس میں ہے کہ دوکو لڑائیں اور نارد منی یا بی جمالو کی طرح خود صاف بچ کر نکل جائیں۔
***
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...