اردو زبان کے اس وقت تین بڑے مراکز قرار دئیے جا سکتے ہیں۔پاکستان،ہندوستان اور برِ صغیر سے باہر کی تمام بکھری ہوئی پاکٹس۔تینوں میں بحیثیت زبان اردو کو اپنی بقا کے مسائل کا سامنا ہونے کے باوجود ان کی نوعیت خاصی الگ الگ سی ہے۔ہندوستان میں سیاسی وجوہ کی بنا پر چند مخصوص لابیوں کی طرف سے اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کرمارنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں،لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود اردو ابھی تک اپنے سخت جان ہونے کا ثبوت دے رہی ہے۔پاکستان میں باوجود اردو کو قومی زبان ماننے کے عملاََ اسے’ عوام کالانعام‘تک ہی رکھا گیا ہے۔مقتدر اشرافیہ طبقہ نے انگریزی کو ہی اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے اور اسی کے وسیلے سے ہی کوئی سماجی ترقی اور سیاسی فیض حاصل کیا جا سکتا ہے۔یوں پاکستان میں اردو کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہ ہونے کے باوجود اس کی زبوں حالی ہندوستان میں اردو کی صورتحال سے بھی زیادہ بڑا المیہ ہے۔
ہندوستان میں جہاں اردو دشمنی میں اسے مسلمانوں کی زبان قرار دینے کی کوشش کی گئی وہیں مسلمان ادیبوں نے بھی نا انصافی پر غم و غصہ کے باعث اردو کو مسلمانوں کی زبان مان کر مذہب کی طرح اس کے تحفظ کو جزوِ ایمان بنا لیا ۔لیکن دوسری طرف یہ انوکھا منظر بھی ہے کہ ہندوستان کا بنگال تو اردو کا قلعہ بنا ہوا ہے اور مسلمان بنگلہ دیش میں کوئی اردو بولنے والا ڈھونڈے سے بھی شاید ہی ملے گا۔ چند برس پیشترماریشس میں اردو کو مسلمانوں کی زبان کے طور پر آگے لایا جانے لگا تو وہاں باقاعدہ ایک عرب ملک کی امداد سے اردو کے مقابلہ پر عربی کو مسلمانوں کی زبان کے طور پر بڑھاوا دینے کی مہم شروع کر دی گئی۔یوں اردو کے فروغ کی مہم کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
عربی بولنے والے ممالک میں اردو کے پھلنے پھولنے کی تھوڑی بہت گنجائش موجود ہے۔لیکن مغربی ممالک میں جہاں ساؤتھ ایشیا کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے،ان کے بچوں میں اردو کے نفوذ کے امکانات بہت کم رہ گئے ہیں۔اگرچہ نائن الیون کے واقعہ کے بعد بعض گھروں میں اپنی جڑوں کی فکر کرنے کے نتیجہ میں اپنی زبان کی طرف بھی دھیان گیا ہے اور اس کے لئے کچھ کرنے کی خواہش بھی بڑھی ہے لیکن عملاَ یہاں کی نئی نسل کا اردو کے تئیں وہی رویہ ہے جو ہندوستان میں اردو کے کئی نامور شاعر و ادیب گھرانوں کی اولاد کا ہے۔ان شاعروں اور ادیبوں میں ممتاز ترقی پسند بھی شامل ہیں اور جدید بھی،جن کی اولادیں اردو سے نابلدہو چکی ہیں، ہوتی جا رہی ہیں ،
کیا اردو کے تینوں مراکز کی کوئی ایسی کانفرنس بلائی جا سکتی ہے جو منتظمین کی ذاتی نمود و نمائش سے اُٹھ کر عملاَ اردو کو درپیش ان مسائل کے حل کے لئے ٹھوس اقدامات طے کرے اور تینوں سطحوں پر پھر اس کے لئے مثمر بہ ثمرات عمل کیا جا سکے؟اگر ایسا ہوتا ہے تو ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس کے بعد یہ دوسری ایسی کانفرنس ہو گی جو نشستند، خوردند، برخاستند سے بڑھ کر اردو زبان کے لئے واقعتاَ کچھ کر سکے گی۔ لیکن کیا اردو کی بقا اور ترقی چاہنے والے اس حیثیت میں ہیں کہ ایسا سب کچھ کر سکیں؟اردو ادب کی بقا اردو زبان کی بقا اور ترقی ہی سے وابستہ ہے۔
نیک تمناؤں کے ساتھ
حیدر قریشی