٭٭٭ ’’جدید ادب‘‘ کا سجاد ظہیر نمبر ملا۔ آپ نے بڑی محنت سے یہ نمبر ترتیب دیا ہے۔ سجاد ظہیر ترقی پسند تحریک کے حوالے سے ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کو ایک فعال ادارہ بنانے میں ان کی کاوشیں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ انتظامی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ان کی فکری و تخلیقی کاوشیں بھی اپنی جگہ اہم ہیں۔ جدید ادب کے اس نمبر میں جس خوبی سے ان تمام کا احاطہ کیا گیا ہے اس نے اسے ایک حوالہ جاتی نمبر بنا دیا ہے۔ سجاد ظہیر کی برسی کے حوالے سے حال ہی میں کئی کام منظر عام پر آئے ہیں، ان میں ’’جدیدادب‘‘ کا یہ نمبر اپنے مندرجات کی بنا پر ایک نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ ایسا اچھا اور معیاری شمارہ نکالنے پر میری طرف سے مبارکباد قبول کیجیے۔ ڈاکٹر رشید امجد۔اسلام آباد
٭٭٭آج تمہاری ویب سائٹ پر جدید ادب دیکھا،بہت اچھا لگا۔تم واقعی محنت کر رہے ہو۔گزشتہ چھ برس سے امریکہ میں ہوں۔لکھا تو بہت مگر شائع بہت کم ہوا۔غزلیں بھیج رہا ہوں۔ضرورت کے مطابق استعمال کر لو۔
حسن عباس رضا(نیویارک،امریکہ)
٭٭٭جدید ادب :۶(سجاد ظہیر نمبر) موصول ہوا،شکرگزار ہوں۔لاریب آپ نے اس نمبر پر بہت محنت کی ہے۔ایسے نمبر ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔یہ ایک ایک ایسی ریفرنس بک ہوتے ہیں جن کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے اور ادب کے طالب علم ہر دور میں مستفیض ہوتے ہیں۔بھائی حیدر قریشی! آپ کی محنت اور لگن پر رشک آتا ہے۔اللہ آپ کی عمر دراز کرے۔. حامد سراج۔چشمہ بیراج،میانوالی
٭٭٭حیدر قریشی اور پروفیسر نذرخلیق کی ادارت میں جدید ادب جرمنی کا تازہ شمارہ سجاد ظہیر نمبر شائع ہو گیا ہے۔ ۱۹۰۵ء میں جنمے ترقی پسند تحریک کے بانی سجاد ظہیر کی ۲۰۰۵ء میں صد سالہ تقریبات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔انڈیا اور پاکستان کے ساتھ بیرون ملک بھی اس حوالے سے تقریبات ہوئیں۔جدید ادب کا سجاد ظہیر نمبر شاید صد سالہ تقریب کے حوالے سے کسی ادبی جریدہ کا پہلا خاص نمبر ہے۔اس شمارہ میں جہاں چند اہم مطبوعہ مضامین کو شامل کیا گیا ہے وہاں حمایت علی شاعر،محمد علی صدیقی،سلطان جمیل نسیم،ڈاکٹر علی احمد فاطمی،پروفیسر نذر خلیق،اور دیگر لکھنے والوں کے نئے مضامین بھی شامل ہیں۔سجاد ظہیر کے مضامین،افسانوں اور نظموں کا ایک مختصر سا انتخاب بھی اس نمبر میں شامل کیا گیا ہے۔سجاد ظہیر کے بارے میں پرانے مطبوعہ مضامین میں سے مجنوں گورکھپوری،احتشام حسین،خواجہ احمد عباس،ڈاکٹر قمر رئیس اور صدیق الرحمن قدوائی جیسے لوگوں کے مضامین کا انتخاب کیا گیا ہے۔حیدر قریشی کا اداریہ’’گفتگو‘‘اس بار مضمون جیسی صورت اختیار کر گیا ہے جس میں انہوں نے ان وجوہات کو بیان کیا ہے جن کے باعث جدیدادب کے ترجمان ایک ادبی جریدہ کو ترقی پسند تحریک کے بانی کا نمبر چھاپنے کی ضرورت پیش آئی۔اداریہ کے کئی نکات توجہ طلب ہیں۔
جدید ادب کے اس خاص نمبر میں خصوصی مطالعہ کا سیکشن پرانے معمول کے مطابق ہے۔اس میں جوگندر پال سے لیا گیا ڈاکٹر غضنفر اقبال کا ایک انٹرویو اور مشفق خواجہ کی یاد میں ڈاکٹر انور سدید کا مضمون دونوں اہمیت کے حامل ہیں۔ماہیے کا سیکشن بھی حسبِ معمول شامل ہے۔اسی طرح کتاب گھر اور قارئین کے خطوط کے سیکشن بھی پہلے کی طرح موجود ہیں۔۲۰۰صفحات کا یہ شمارہ جدید ادب کے اپنے معیار کے مطابق ایک عمدہ شمارہ ہے۔سعید شباب(خانپور)
[email protected]) سے مورخہ ۶؍فروری ۲۰۰۵ء کو یہ خبر ریلیز ہوئی)
٭٭٭Dear Hyder saheb, Thank you very much for sending me the book and other reading material. I like the way you have produced your “Qulyaat: Lahaasal ka haasal.” I was reading that till late night yesterday. Keep in touch. Thanks again. Farooq khalid.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
I have already sent you a message yesterday. It was nice of you to inform me about your aticle on the thesis of Rasheed amjad. Not only I read that but, many more pieces in all the 4issues of Jadeedadab. It was a “nayki der nayki” because I came across many more Urdu websites through your magazine. Please, let me know that is a monthly or a quarterly? You had written me to send me a few issues of it, I will be very much thankful to you for that. Yes, it indeed appears good, my congratulations to edit such a fine magazine, you are really a multidimentional person. It is my brotherly advise, not to waste your time on the bad, rather nonsense behaviour of your opponents, they are not worth of it.
فاروق خالد(ایمسٹرڈیم۔ہالینڈ)
شکریہ فاروق خالد صاحب!میں نے آپ کے مشورے کے مطابق اپنے نان سینس مخالفین(جو حقیقتاَ جعلی یا چور قسم کے لکھاری ہیں) کے ساتھ ان کے نان سینس دوستوں پر بھی مزید وقت ضائع کرنا ترک کر دیا ہے۔ح۔ق
٭٭٭جدید ادب ،سجاد ظہیر نمبر مل گیا ،شکریہ۔دھیرے دھیرے پڑھ رہا ہوں۔سجاد ظہیر سے میری پہلے اس قدر واقفیت نہیں تھی۔وہ تو اب میرے ہیرو بنتے جا رہے ہیں۔غضب کاآدمی تھا۔۔۔۔۔۔۔
ٹائٹل پر سجاد ظہیر کا شعر:
تجھے کیا بتا ؤ ں ہمدم ، اسے پوچھ مت دوبارہ کسی اور کا نہیں تھا ، وہ قصور تھا ہمارا
پل بھر میں تو مجھے ایسا لگا جیسے یہ شعر محض پا کستان کی سیاسی خستگی اور مفلوک الحال سماجی صورت حال کا احوال بیان کر رہا ہے مگر دوسرے ہی لمحے مجھے لگا نہیں ایسا نہیں ،بلکہ یہ شعر تو تیسری دُنیا میں بسے ہوئے ہر اُس انسان کے کرب کا ائینہ ہے جہاں سیاست ایک کاروبار اور سماج کی تعمیر محض ایک مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔۔اور پھر میں جوں جوں جدید ادب کے صفحات پلٹتا گیا ، سرورق پر چھپی ہوئی سجاد ظہیر کی تصویر اپنے علمی وادبی قد وقامت کو نمایا ں کرتی چلی گئی ۔۔۔ سجاد ظہیر کی تخلیقی زندگی سماجی انصاف و آزادی کے حق میں اور مذہبی ریاکاری اور واہمہ پرستی کے خلا ف ایک ا یسی نظریاتی جدوجہد ہے جس کی ضرورت بالخصوص پاکستان اور بالعموم تیسری دنیا کے پسماندہ انسانوں کے ذہن ومزاج کی تربیت کے لیے بہت ضروری ہے۔ بھائی حیدر قریشی آپ کے اس قیمتی کام نے میرے لیے جس ذہنی تربیت کا بندبست کیا اُس کے لیے بہت سارا خلو ص اور د عائیں۔ ڈاکٹر بلند اقبال۔کینیڈا
٭٭٭جدید ادب کے بارے میں کچھ کہنا ایسا ہوگا جیسے چھوٹا منہ بڑی بات۔پھر بھی کہوں گی کہ اس پرچہ نے اردو دنیا میں ایک نئی امید پیدا کی ہے۔سجاد ظہیر نمبر پا کر خوشی کی انتہا نہ رہی۔میرے موضوع سے متعلق بہت ساری معلومات اس رسالے میں موجود ہے،کئی نئی چیزیں معلومات میں اضافہ کا موجب بنیں۔اس کے لئے آپ کا بطور خاص شکریہ۔ کوثر فاطمہ۔گلبرگہ(ایم فل کی طالبہ)
٭٭٭جدید ادب بہترین میگزین ہے۔یورپ کی برفیلی وادیوں میں آپ ادب کی گرمی دے رہے ہیں،بڑا مجاہدانہ کام ہے۔زندہ باد! ظفرا لحسن ۔جے پور
٭٭٭ Respected Haider Quereshi Saheb, Adaab
This is ony a note to thank you for bringing out an excellent number of Jadeed Adab on my father, Sajjad Zaheer. You have also carried a piece by me in it, for which I am so grateful. incidentally this piece is part of a book named “Mere hisse ki Roshnai” Have you read the book. If not do send me a note with your postal address so that I can send it to you.
With warm regards and thankyou again. نور ظہیر۔دہلی
٭٭٭روزنامہ انقلاب بمبئی کے سنڈے ایڈیشن میں ادبی صفحہ پر آپ کے رسالہ جدید ادب سے متعلق پڑھنے کا اتفاق ہوا۔چونکہ جدید ادب کا تعلق آپ جیسے بلند پایہ قلم کار سے ہے لہذا اس رسالہ کے معیار و وقار کی ایک دلکش تصویر کا ذہن میں ابھرنا اک فطری عمل ہے۔علاوہ بریں ٹائٹل جدید ادب میں بھی کچھ الگ سی کشش ہے جس کے باعث دل میں یہ خواہش جاگی کہ آپ سے رابطہ کیا جائے اور جدید ادب سے ایک تخلیقی رشتہ قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔مختصر تعارف :بنیادی طور پر میں فلم رائٹر ہو۔اور پچھلے اٹھارہ بیس برسوں سے فلموں سے وابستہ ہوں۔میری لکھی ہوئی قریب پچیس فلمیں اب تک منتظر عام پر آچکی ہیں۔ ادبی سفر کا آغاز کوئی پانچ سال قبل ہوا۔ بالکل معجزاتی طور پر مرحوم خواجہ احمد عباس کو میں اپنا آدرش خیال کرتا ہوں۔ مراق مرزا۔بمبئی
٭٭٭حیدر قریشی صاحب کے شش ماہی شمارے جدیدادب کاتازہ شمارہ زیورِ طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آچکاہے۔اس شمارے کو گذشتہ سال سے عالمگیر سطح پر منائے جانے والے صدسالہ سجاد ظہیر تقاریب کے پیشِ نظرسجاد ظہیرنمبرکے طور پر پیش کیاہے۔یہ امر یقینًا تعجب خیز ہے:جوشخص خود جدید ادب کا مدیر ہو ، وہ کیسے عرفِ عام میں اس کی مخالف ہی نہیں بلکہ اس سے متصادم اور شاید متحارب ترقی پسند تحریک کے علم بردار کے نام پر یادگار دستاویزمعنون کرسکتا ہے ؟ اسی سوالیہ پہلو کا مدیر نے کافی لطیف پیرایوں میں جواب دیاہے۔ اس پُرلطف اظہار کا اگر بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے، تو اس سے ایڈیٹر کی عالی ظرفی اور حقیقی ادبی خدمت کے جذبے کی جھلک دِکھتی ہے۔مضامین کے انتخاب اورترتیب، پروف ریڈنگ اور چھپائی، ہر عمل میں دیدہ ریزی اور عرق ریزی صاف چھلکتی ہے۔ یوں کہیں کہ اس کتاب سے سجاد ظہیر کی شخصیت ، فکرانگیزی، ادبی خدمات کی خوشبو جو سرورق پر نمایاں ہے،اُسی انداز میں صفحہ آخر تک بھی تشنگانِ علم کے پورے ما حول کو معطرکردیتی ہے۔
ایک اور بات جو اکثر ادب شناس غور نہیں کرتے ، اسے آج دنیا Zeitgeist کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ دراصل ایک جرمن زبان کا لفظ ہے اور اس کا اطلاق اُن افکار، تصورات اور اُس سوچ پر ہوتا ہے جو کسی دور کا خاصہ بن چکی ہوں۔ اشترکیت اور موروثی روایات اور عقائد سے بغاوت اُس دور کی پہچان بن چکی تھی جس میں سجاد ظہیر نے قائدانہ انداز میں خامہ فرسائی کے ذریعے اپنی ایک الگ پہچان بنائی تھی۔مگر ناانصافی ہوگی اگر ایک قلم کار کو صرف اُس کے اعتقادات ، سماجی اصول و روایات کے محدود زاویوں جانچاجائے اور اُس کے عبورکردہ سنگہائے میل کو بے لاگ تخلیقی اور علمی کارناموں کی شکل میں نہ دیکھا جائے۔ حیدر قریشی صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں کیوں کہ انہوں نے ایک ایسا تاریخی دستاویز ترتیب دیا ہے جس میں اشتراکی طوفانوں سے اُبھرنے والی تحریروں اور علم وادب کے لازوال میزان اُن کی جانچ، پیمائش اور تبصروں کو اِس خوبی سے یکجا کیا ہے جسے مستقبل کے محققین، ادب کے شائقین اور اردو کے عام قارئین ایک شاہکار کے طور پر یاد کریں گے اور استفادہ بھی اُٹھائیں گے۔ سید مزمل الدین۔حیدرآباد دکن
٭٭٭آپ نے بہت عمدہ طریقے سے سجاد ظہیر نمبر چھاپا ہے۔آپ کا اداریہ خاص طور پر اہم ہے۔آپ نے اپنے نقطۂ نظر کا اظہار سلیقے سے کیا ہے۔ ناصر عباس نیر۔لاہور
٭٭٭حیدر قریشی کا ’’جدید ادب ‘‘ہر چھ ماہ کے بعد شائع ہوتا ہے۔ اب تک اس کے پانچ شمارے طباعتی صورت کے علاوہ انٹرنیٹ پر بھی پیش ہو چکے ہیں۔ اس کا چھٹا شمارہ ترقی پسند تحریک کے بانی راہنما سجاد ظہیر کے ۱۰۰ویں یوم ولادت پر ’’سجاد ظہیر نمبر‘‘ کی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ سجاد ظہیر ترقی پسند تحریک کے قافلہ سالار تھے اور ’’جدید ادب‘‘ کے مدیر حیدر قریشی ’’ایک مزدور کی زندگی بسر کر کے براہ راست زندگی کے بھوگ اور تخلیق کے روگ ‘‘کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے لیکن تخلیقی ادب کی طرف آئے تو انہوں نے ترقی پسند فارمولے کے مطابق ادب تخلیق کرنے کی بجائے ’’جدید یت‘‘ کو قبول کیا اور اب حیرت زدہ ہیں ٭کہ وہ ایک پورا شمارہ ترقی پسند ادیب اور مارکسسٹ سیاسی راہنما سجاد ظہیر (۲۰۰۵ء۔۱۹۰۵ء) کے نام معنون کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس پرچے کے دو اداریوں میں جو نظریاتی بحث اٹھائی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک کشادہ نظر مدیر ہیں اور تنگ نظر اور نظریہ پرست ترقی پسند مدیر ان کی طرح’’ادبی مارشل لاء‘‘نافذ کرکے غیر ترقی پسندوں پر اشاعت کی قدغن نہیں لگاتے۔ انہوں نے اداریہ اول میں روشن خیالی کا بنیادی جواز تو علامہ اقبال میں تلاش کیا لیکن حالیہ دور میں ڈاکٹر وزیر آغا اور صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کو بریکٹ کر کے خود بھی چونکے اور تمام اہل ادب کو بھی چونکا دیا٭٭جب کہ یہ حقیقت واضح ہے کہ اوّل الذکر کی روشن خیالی مطالعہ ادب کی مرہونِ منت ہے اور پرویز مشرف کا روشن خیالی کا نعر ہ سیاست گزیدہ ہے۔ دونوں کو ’’بریکٹ‘‘کرنا کسی طرح مستحسن نہیں۔ ترقی پسند تحریک کی شدت پسندی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے:
’’ترقی پسند تحریک زندگی کے مسائل پر بات کرتے ہوئے عملاً اتنی زیادہ خارجیت پسند ہوئی جا رہی تھی کہ انسان کے باطن سے اور روح کے اسرار سے ا سے جیسے کوئی غرض ہی نہ رہی تھی ……تخلیق کار کی آزادی نظریے کی اطاعت گزاری پر مجبور کر دی گئی۔نظریے کی پیروی کرنے والے تھرڈ کلاس……تخلیق کاروں کو بانس پر چڑھایا جانے لگا اور پارٹی لائن کی پابندی سے انکار کر نے والے لیکن کھرے اور سچے تخلیق کاروں کو نہ صرف نظر انداز کیا جانے لگا بلکہ ان کے ادبی سطح پر سوشل بائیکاٹ کے فیصلے بھی کیے گئے۔‘‘(صفحہ۶)اس قسم کے فیصلوں کا پاکستان میں ایک ہدف وزیر آغا ہیں جنہیں بقول حیدر قریشی عام طور پر ترقی پسند تحریک کا مخالف قرار دیا جاتاہے جبکہ حیدر قریشی نے اعتراف کیا ہے کہ ’’ان (وزیر آغا) کے نزدیک وسیع تر زندگی اور اس سے بھی وسیع تر کائنات کے اسرار پر غور و فکر کرنا زیادہ اہم رہا ہے اور ترقی پسند رویہ زندگی کی صرف ایک قاش کو پیش کرتا ہے۔‘‘ان کا موقف یہ بھی ہے کہ ’’وزیر آغا اپنی بعض تحریروں میں ترقی پسند تحریک کو جدیدیت کی تحریک کی ایک ثانوی تحریک قرار دے چکے ہیں۔‘‘ا ور ان کی امتزاجی تنقید میں مارکسی ، ارضی ثقافتی اور ترقی پسند روایت منسلک ہے۔ ’’حیدر قریشی نے انپے مشاہدے اور مطالعے کی اساس پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’’وزیر آغا ترقی پسند تحریک کے مخالف نہیں۔ بس ان کا بات کرنے کا سمجھنے اور سمجھانے کا انداز اپنا ہے۔‘‘
یہاں’’جدید ادب‘‘ کے فاضل مدیر نے یہ بات نظر انداز کر دی کہ وزیر آغا حلقہ ارباب ذوق کی اس تحریک کے سر کردہ رکن تھے جس کو میر اجی، ن۔م۔راشد ، ضیا جالندھری، قیوم نظر اور یوسف ظفر جیسے شاعروں نے فروغ دیا اور خارج کے مشاہدے کو اپنے باطن کی روشنی میں روبہ نظم کرنے کی سعی کی، وہ ترقی پسند تحریک کی نعرہ پسند شاعری اور بلند آہنگ ٭٭٭کے کل بھی مخالف تھے اور آج بھی اس کی تحسین سے قاصر ہیں۔۔
اس اداریے میں یہ تجزیاتی انکشاف بھی چونکا دے گا کہ ’’پاکستان میں فوج وقتاًفوقتاً جس طرح اقتدار میں آتی رہی ہے اس کی ابتدا کا داغ بھی ترقی پسندوں پر لگتا ہے۔ ۱۹۵۱ء میں راولپنڈی سازش کیس کے ملزمان میں جنرل اکبر کے ساتھ فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر جیسے معتبر ترقی پسند شامل تھے۔اب یہ ترقی پسند تحریک کی بدقسمتی تھی کہ انقلاب ناکام ہوا اور بغاوت اور سازش قرار پایا۔جیل میں قید بھگتنے کے بعد سجاد ظہیر انڈیا چلے گئے۔ ‘‘میر ا خیال ہے کہ حیدر قریشی کے اٹھائے ہوئے نکتے پر مستند شہادتوں اور دستاویزات سے تجزیہ نہیں کیا گیا ۔ حتیٰ کہ ترقی پسند تحریک کی لندن میں گولڈن جوبلی منائی گئی تو اس تنظیم کے ایک سر کردہ لیڈر کو بھی مدعو نہ کیا گیا اور دروغ بر گردن راوی انہیں فوج کا مخبر قرار دیا گیا اور یہ حقیقت تو بالکل عیاں ہے کہ ظہیر کاشمیری اور شوکت صدیقی جیسے ثقہ ترقی پسندوں نے سرکار دربار سے تمغے حاصل کیے اور بعض ترقی پسندوں نے تو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹروں کے سامنے بھی گردن خم کر دی اور قطار میں کھڑے ہو کر انہیں سلام کیا…………ان جزوی باتوں سے قطع نظر ’جدید ادب‘ نے سیّد سجاد ظہیر کو ترقی پسندوں کے مقابلے میں معنی خیز انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔اس پرچے میں مجنوں گورکھپوری، احتشام حسین، خواجہ احمد عباس ، ڈاکٹر محمد علی صدیقی ، قمر رئیس ، علی احمد فاطمی، نور ظہیر اور پروفیسر نذر خلیق کے مضامین قلب و نظر کو متاثر کرتے ہیں۔ اس پرچے سے سجاد ظہیر کی بڑی منور تصویر مرتب ہوتی ہے جو امارت کے گہوارے میں پرورش پانے کے باوجود سچے انسانیت پرست اور غریب دوست تھے۔ ان کے سامنے پاکستان کے بیشتر ترقی پسند ادبا دولت اور شہرت کے پجاری اور ٹٹ پونجئے نظر آتے ہیں اور نظریاتی اختلافات کے باوجود سجاد ظہیر کی عظمت کا نقش مستحکم ہو جاتا ہے اس حصے میں سجاد ظہیر کی نگارشات لطیف کا انتخاب بھی دیا گیا ہے لیکن انہیں ایک بڑا ادیب تسلیم کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔
اس پرچے میں جوگندر پال سے ڈاکٹر غضنفر اقبال کی گفتگو اور مشفق خواجہ کی تحقیق نگاری پر مضمون کی نوعیت مختلف ہے۔ ان پر مستزاد خاور اعجاز، فراز حامدی، سنجے گوڑ بولے اور ناصر نظامی کے ماہیے اور یعقوب نظامی، فیاض ناروی اور اکبر حمیدی کی کتابوں پر تجزیاتی تبصرے بھی شامل ہیں۔’’جدید ادب‘‘نے اردو صحافت اور ادب کو عالمی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ حیدر قریشی اس کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ڈاکٹر انور سدید ۔لاہور
مطبوعہ’’الحمراء‘‘ لاہور اپریل ۲۰۰۶ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ڈاکٹر صاحب !آپ کو سہو ہوا ہے،سجاد ظہیر نمبر چھاپتے ہوئے مجھے کوئی حیرت نہ تھی،کوئی تذبذب نہ تھا،میرا ذہن واضح تھااور ترقی پسندی اور جدید ادب کی ساری کشمکش کے باوجود مجھے ان دونوں تحریکوں کے درمیان وہ سارا اچھاتخلیقی ادب دکھائی دے رہا تھاجو دونوں تحریکوں کے تخلیق کاروں نے اردو ادب کو دیا ہے۔
٭٭یہاں بھی آپ کو سہو ہوا ہے۔روشن خیالی کے حوالے سے علامہ اقبال اور ڈاکٹروزیر آغا کا توسرے سے ذکر ہی نہیں ہوا۔انہیں روشن خیالی کے حوالے سے جنرل مشرف کے ساتھ میں نے بالکل بریکٹ نہیں کیا۔پتہ نہیں آپ نے ایسا کیوں محسوس کیا؟ ڈاکٹر وزیر آغا اور ترقی پسند تحریک کے تعلق کو میں نے ایک دوسرے کے قریب لانے کے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی تھی جبکہ جنرل پرویز مشرف کے حوالے سے روشن خیالی کا ذکر ضمناَ کیا گیا ہے اصلاَتو ان کے ترقی پسندی کے اعلانات پر حیرت اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ماضی کے ایک ’’ناکام انقلاب‘‘کا حوالہ دیا تھا۔یہ سب اس لئے لکھا تھا کہ مجھے کہیں ہلکا سا شبہ تھا کہ شاید جنرل صاحب ترقی پسندی کا لفظ کسی سرکاری ادیب کے کہنے پر دہرا رہے ہیں۔چنانچہ جب سے میں نے متعلقہ حصہ کی نشاندہی کرتے ہوئے جدید ادب کا سجاد ظہیر نمبر انہیں بھیجا ہے تب سے انہوں نے ترقی پسندی کی تلقین کرنا چھوڑ دی ہے۔اب وہ صرف روشن خیالی اور اعتدا ل پسندی کی بات کرتے ہیں۔اس لحاظ سے میرا اپنے اداریہ میں ان کا حوالہ دینابہتر ثابت ہوا کہ انہوں نے ترقی پسندی کا لفظ جو لغوی معنوں میں استعمال کیا تھا اس کی تاریخی حقیقت جان گئے ۔پرویز مشرف تو پھر فوجی جنرل ہیں، اردوکے ایک اہم ٹی وی چینل کے معروف دانشوربھی ترقی پسند تحریک سے بے خبری کے باعث پہلے پہل اسے لغوی معنوں میں بیان کرتے رہے۔یہ و ہی سادگی ہے جو ادب سے مراد بڑوں کا ادب کرناسمجھتی ہے۔
٭٭٭ ادب میں بلندآہنگی اور نعرہ بازی کو وزیر آغا بھی معیوب سمجھتے ہیں،ہم ،آپ بھی معیوب سمجھتے ہیں اور چند اہم ترقی پسند ناقدین نے بھی نعرہ بازی کو ادب تسلیم کرنے میں تامل کیا اور ایسے ادب کی تحسین سے گریز کیا۔آپ سجاد ظہیر نمبر میں درج کئے گئے اقتباسات کو مجموعی طور پر دیکھیں تو توازن کی کاوش دکھائی دے گی۔اسی لیے اس نمبر سے بعض ترقی پسند دوستوں کو ’عدم توازن‘کی شکایت ہوئی ہے۔ بہر حال آپ کے تبصرہ کے لئے شکریہ!(ح۔ق)