دنیا میں جس جگہ اردو ہے، وہاں بچوں کے ادیب اور شعرا؛ اطفال کے لیے کہانیاں ، نظمیں ، ڈرامے، افسانچے اور ناولیں لکھتے رہتے ہیں، اور بچوں کے رسالوں اور اخبارات میں انہیں شائع کراتے ہیں ، ان شعرا اور ادبا کی کتنی کتابیں بڑے تگ ودو کے بعد منظر عام پر بھی آجاتی ہیں ۔ اور ان پر کچھ تبصرے بھی ادبی مجلات میں شائع ہوجاتے ہیں ۔ ان تحریروں کو پڑھ کر بہت سے ادیب اور شاعر انہیں مبارک باد دینا چاہتے ہیں ، فون اور واٹس ایپ کے توسط سے ان سے رابطہ کرنے کے آرزو مند ہوتے ہیں ، جن میں قدیم اور جدید سبھی قسم کے حضرات شامل رہتے ہیں ۔ قدمائے ادب؛ جو بڑی جانفشانی اور استحکام و استقامت کے بعد مشقتوں کی رہ گزر سے گزر کر کسی معتبر منزل پر پہنچتے ہیں ، اور شعر وادب کی دنیا میں اپنی انتھک جدوجہد اور عمل پیہم کے صلے میں اپنا ایک مقام بنالیتے ہیں ، ان سے اردو دنیا میں نو وارد مگر پُرجوش قلم کار اپنی خام تحریروں کی اصلاح کے واسطے رابطہ کرنا اور ان کے تجربات و مشاہدات سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں، وہ ان نو آموز لکھاریوں کے آئیڈیل اور ان کے لیے نمونہ ہوا کرتے ہیں ، ان کے دل کی یہ آواز رہتی ہے کہ ہم بھی کاش انہی جیسا لکھنے والے بن جائیں ، جس طرح ان کی متعدد کتابیں منظر عام پر آ کر ادبی دنیا میں دھوم مچا چکی ہیں ، اسی ہماری کتابیں بھی چھپ جاتیں اور ہم بھی ادبی دنیا کے روشن صفحات پر اپنا نام ثبت کرادیتے جس کی وجہ سے نسلیں ہمیں یاد کرتیں، بقول ذوق:
رہتا قلم سے نام قیامت تلک ہے ذوق
اولاد سے تو بس یہی دو پشت چار پشت
کتنے نئے اور باصلاحیت قلم کار کسی خیر خواہ اور مخلص رہبر کی انگلی پکڑ کر ادبی دنیا میں آئے اور آگے بڑھتے رہے، ان سے تحریر کے اسرار و رموز سیکھے، انداز بیاں سیکھا، مافی الضمیر کی ادائیگی کے طور طریقے جانے، فرق مراتب کی تمیز اور ان سے مخاطب ہونے کے آداب لیے اور ایک دن ان کی دعاؤں اور رہنمائی کے صدقے میں وہ ادب کی دنیا کے روشن ستارے بن گئے اور آسمان تخلیق کے آفتاب و ماہتاب کی طرح چمکے۔
مگر اسی کے پہلو بہ پہلو کتنے قلم کے پکڑنے والے ؛ جن میں تخلیقی صلاحیتیں تھیں، دماغی اور اختراعی قوتیں تھیں، آگے بڑھنے اور کچھ کر دکھانے کا شوق تھا ، مگر کسی مخلص استاذ اور سچے رہبر سے رابطے نہ ہونے کے باعث اُردو دنیا میں اپنا قدم نہیں جما پا رہے ہیں ، ان کی صلاحیتوں کی چنگاری روشن ہونے کے بجائے ماند پڑتی جاتی ہیں، تحریروں پر اصلاح نہ ہونے اور صحیح مشوروں کے فقدان کی وجہ سے انہیں ادبی دنیا میں ترقی اور کامیابی کی راہیں مسدود نظر آتی ہیں ، جس کے ردعمل میں یا تو وہ مایوسیوں کے گہرے اور تاریک غار میں جاکر گم ہوجاتے ہیں اور ایک محدود دنیا میں رہنے کی وجہ سے آگے بڑھنے کے امکانات دم توڑ دیتے ہیں، یا وہ تھک ہار کر قلم اور قرطاس کے رشتے کو منقطع کرلیتے ہیں۔ البتہ قلم و قرطاس کے انہی محبین میں سے بہت سے ایسے قلم کار ہوتے ہیں جو کسی رہنمائی اور مشیر کار کے بغیر اپنی جہد مسلسل ، خداداد صلاحیتوں اور قدرت کی رہنمائی کے بل بوتے پر ادبی میدان میں قدم بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور ترقی کرتے کرتے ایک دن ادبی قلعے کی برجیوں پر فتح کے علم لہرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ ادبی دنیا میں صرف جدید لکھاریوں کو ہی بڑوں سے تعلقات استوار کرنے کے لیے ماہر اہل قلم سے رابطے کی ضرورت درپیش ہوتی ہے ، بلکہ اُردو دنیا ایک پلیٹ فارم ہے ، مشترکہ خاندان ہے، جس میں ہر ایک کو دوسرے سے رابطے کی ضرورت ہوا کرتی ہے ، ایک ادیب کا دوسرے ادیب سے ادبی تعلق ہوتا ہے ، ایک شاعر ہمیشہ اپنی جدید تخلیق پر ساتھی شاعر کی رائے معلوم کرنے کا خواہاں رہتا ہے، ایک مصنف اپنی تصنیفات پر مبصرین اور مقدمہ نگاروں سے تقریظات لکھوانے کی راہیں ڈھونڈتا پھرتا ہے، ان کی خدمت میں اپنی مطبوعہ کتابیں ارسال کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے ، اپنے مصنفات کی پی ڈی ایف بھیج کر ان سے تبصرے لکھوانا چاہتا ہے، مضامین پر نظر ثانی کے لیے درخواست گزار ہوتا ہے، نئی کتاب کا نام متعین کرنے کا طلبگار ہوتا ہے ، کسی رسالے میں تخلیقات ارسال کرنے کے تعلق سے مشورے اور رہنمائی کا خواستگار ہوتا ہے ، ایک مدیر کو اپنے رسالے کے لیے مضامین کی طلب کے واسطے ایڈریس اور فون نمبر کے ساتھ صحیح ای میل جاننے کی ضرورت ہوا کرتی ہے ، کتابوں کی اشاعت سے متعلق یا رسالوں کے پتے کے حوالے سے ایک قلم کار کو اپنے دوسرے ہم رشتے سے بہت کچھ معلومات کی حاجت پیش آتی رہتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ایک دوسرے سے ادبی گفتگو، ادب کی موجودہ صورت حال پر اظہار خیال اور دیگر معلومات کے تبادلے کے واسطے اکثر اسباب روابط کی ضرورت ہوا کرتی ہے ۔
تقریباً 1995 سے پہلے روابط کے اتنے ذرائع موجود نہیں تھے جو آج نئی نئی شکلوں میں نظر آرہے ہیں، پہلے رابطے کے لیے خطوط ہی سب سے آسان اور معروف ذریعہ تھا ، اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج کی جدید دنیا میں تیز رفتار روابط کے بہت سے آسان اور محفوظ ذرائع ہمدست ہوگئے ہیں کہ پوری دنیا ایک محلہ میں تبدیل ہوگئی ہے ، اس کے باوجود اگر اسباب روابط کا علم نہ ہو تو پڑوس میں ہونے کے باوجود کسی سے رابطہ ممکن نہیں ہوسکتا ۔
دنیا میں اُردو زبان سے محبت کرنے والے اور اس زبان کو زندۂ و جاوید بنانے کے لیے اہل قلم بڑی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں، مگر ان ادبا و شعرا میں عالمی پیمانے پر شاید دس فی صد ایسے قلم کار ہوں گے جو بچوں کے لیے قلم اٹھاتے اور ان کے لیے اپنی تخلیقات پیش کرتے ہوں، جزوی طور پر اطفال کے لیے لکھنے والوں کی تعداد کچھ زیادہ ہوگی مگر کلی اعتبار سے بچوں کے لیے تخلیقات پیش کرنے والے ؛جنہیں ہم ادیب اطفال اور شاعر اطفال کہیں ، ایسے لوگوں کی تعداد تو بہت کم ہے۔ پھر بھی عالمی پیمانے پر ایسے خوش نصیب قلم کاروں کی ایک معتد بہ تعداد ہے جو ادب اطفال کو اپنی حیات مستعار کا نصب العین بنا کر لکھ رہے ہیں اور مضامین و اشعار کی اشاعت کے دوش بدوش بچوں کی ادبی تصانیف میں خاطر خواہ اضافہ کررہے ہیں۔ اُردو ادب اطفال کے ایسے جیالے؛ جنہیں بہت کم سیمیناروں میں مدعو کیا جاتا اور ان کے لیے اعزاز کے متعلق سوچا جاتا ہے ، وہ دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں اور خاموشی اور خلوص کے ساتھ ادب اطفال کے فروغ کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
سطور بالا میں رقم کی گئی ادبی ضرورتوں اور اسباب روابط کو آسان بنانے اور عالمی پیمانے پر بچوں کے ادبا و شعرا کو ایک دوسرے سے قریب کرنے کے لیے رواں سال 2024ء مئی میں ” سرائے اُردو ، ادبی فورم ،پاکستان” سے دور حاضر کے ادب اطفال کے ادیبوں کی معلومات اور ریکارڈ سے مزین ایک قابلِ قدر کتاب “عالمی ادیب اطفال، اردو ڈائریکٹری” شائع ہوئی ہے ، جس کے مرتب محترم ذوالفقار علی بخاری اور محترمہ فاکہہ قمر ہیں۔
ادبا و شعرا کا تعارفی خاکہ ان کے کلام کے نمونے کے ساتھ ضلعی، ریاستی اور ملکی پیمانے پر ماضی میں شائع ہوتا رہا ہے ، تذکرۂ گلشن ہند، از مرزا علی لطف ، تذکرۂ شعرائے اردو ، از میر حسن، آب حیات ، از محمد حسین آزاد ، تذکرۂ معاصرین و سخن و شعرا، عبد الغفور نساخ، گل رعنا ، از مولوی عبد الحی، تذکرۂ گلشن بے خار، از محمد مصطفیٰ خاں شیفتہ ، تذکرۂ ماہ و سال ، از مالک رام ، کاروان رفتہ ، از اسیر ادروی، اور تذکرۂ شعرائے ہندی، از میر حسن وغیرہ تذکرے اس سلسلے میں بہت معروف ہیں جو متعدد بار شائع ہوچکے ہیں ۔
ادب اطفال کے ادیبوں اور شعرا کے تعارف میں بھی مختصر اور مفصل کتابیں ہند و پاک میں متعدد مصنفین کی طبع ہوکر متداول رہی ہیں ، البتہ بچوں کا ادب تخلیق کرنے والے قلم کاروں کی ڈائریکٹری ؛ جس میں عالمی پیمانے پر ان کا تعارفی خاکہ شامل ہو، ایسی ڈائریکٹری ابھی تک شائع نہیں ہوئی تھی ۔ ادب اطفال کے تیراکوں اور غواصین کے تعارف کے لیے کسی ڈائریکٹری کا تیار کرنا اور عالمی منظرنامے کو پیش کرنا بہت مشکل اور صبر آزما کام تھا، مگر علامہ اقبال کے بقول:
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اور
وہ کون سا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
اللہ تعالیٰ نے نوجوان ادیب اطفال محترم ذوالفقار علی بخاری اور نوجوان ادیبۂ اطفال محترمہ فاکہہ قمر کو توفیق دی کہ انہوں نے باہم مشورے اور تعاون سے عالمی پیمانے پر بچوں کے ادیبوں کا تعارفی خاکہ جمع کرنا شروع کیا ۔ اور حروفِ تہجی کے اعتبار سے پوری کتاب بڑی عرق ریزی سے تیار کردی۔ کہنے کو یہ ایک کتاب ہے جسے اردو کے دو دیوانوں نے مل کر لکھ دی ہے ، مگر تحقیق اور تاریخ کے موضوع پر کام کرنے والے بخوبی واقف ہیں کہ اس قسم کے کاموں میں کتنی ژرف نگاہی اور باریک بینی کی ضرورت ہوا کرتی ہے، ایک اک نام اور کوائف کی درست معلومات فراہم کرنے کے واسطے کتنے کتنے وسائل اور رابطے درکار ہوتے ہیں ، ایسی شخصیات جو دنیا سے پردہ فرما چکی ہوں، ان کے خاکے لکھنا اور کوائف جمع کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے ، مگر زندہ شخصیات کے متعلق کچھ لکھنے میں بھی معمولی مشقتوں کا سامنا اور صعوبتوں کو جھیلنا نہیں پڑتا، باحیات قلم کاروں کی ڈائریکٹری تیار کرنے میں بھی بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، ایک ایک معلومات جمع کرنے میں پتا ماری کرنی پڑتی ہے ، مجھے خود اس سخت مرحلے سے کئی بار گزرنا پڑا ہے ، ماہنامہ پیغام پورہ معروف ضلع مئو یوپی کے سائیکل نمبر 2022 ء کے لیے تقریباً ایک سو مضامین میں نے ہند وپاک سے جمع کیے، پھر ارادہ ہوا کہ اکثر قلم کار ایسے ہیں جو اک دوسرے کے لیے ناآشنا ہیں، اس لیے محنت کرکے سب کے ضروری احوال و کوائف منگوائے، جو مضمون کے ساتھ شائع ہوئے ، اسی طرح اپنی دو کتاب “مولانا ارشاد خلیل”اور “ذکر مجیب”کے لیے بھی تقریباً دو سو مضمون نگاروں کے خاکے جمع کیے، نیز “مصنفین پورہ معروف” اور “مدرسین پورہ معروف”کے لیے بھی بڑی مشقت سے بایو ڈاٹا جمع کرنا کیا۔ اس طرح مصنف اور مرتب کی جانفشانی سے مطالعہ کرنے والوں کے لیے شخصیات کے تعارف میں تشنگی کی اذیت سے نہیں گزرنا پڑتا ۔
مذکورہ کتاب ” عالمی ادیب اطفال ، اردو ڈائریکٹری ” بڑی جانفشانی اور محنت کے بعد تیار کی گئی ہے ، اور زندہ ادبائے اطفال کا تعارف انہی کے قلم سے پیش کردیا گیا ہے جس نے کتاب میں شامل ساری معلومات کو بے حد مستند اور بہت معتبر بنا دیا ہے ۔
اس کی پہلی طباعت کا پہلا حصہ میرے سامنے ہے، جو 112 صفحے پر مشتمل ہے ، اس پہلی جلد میں تقریباً 135 بچوں کے ادیب و شاعر کا نام، قلمی نام ، والد، تاریخ پیدائش ، تعلیم ، موجودہ مشغلہ ، خط وکتابت کا پتہ، فون اور واٹس ایپ نمبر، برقی پتہ، شائع شدہ کتب، مضامین کی تعداد، مشہور کرداروں کے نام جو وجہ شہرت بنے، اعزازات اور پسندیدہ مشاغل وغیرہ کے متعلق مستند معلومات درج کردی گئی ہیں ۔
اس ڈائریکٹری کے مطالعے کے بعد اندازہ ہوا کہ ماشاءاللہ عالمی پیمانے پر خواتین قلمکار بچوں کے لیے بہت کچھ لکھ رہی ہیں اور بہت اچھا لکھ رہی ہیں ، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی علم ہوا کہ پہلی جلد میں شامل ایک سو پینتیس قلم کاروں میں ستر کی تعداد میں خواتین نے اپنی حاضری درج کرائی ہے ، جس سے علم ہوا کہ صنف نازک میں احساس بیداری صنف قوی سے زیادہ ہے ، اس وجہ سے وہ مرد اساس معاشرے میں بھی رہ کر مردوں پر حاوی ہونے لگی ہیں۔ یہ ہم مردوں کے لیے تعجب اور ندامت کی بات نہیں ہے ، کیوں کہ صنف نازک کا تعلق بچوں سے محتاج تعارف نہیں ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ بچے مردوں کے مقابلے میں خواتین سے زیادہ قریب رہتے ہیں اور خواتین میں بچوں کی نفسیات سے واقفیت اور بچوں کی خوشی اور کرب کا احساس صنف قوی سے زیادہ رہتا ہے ، ہروقت ساتھ رہنے کے باعث وہ بچوں کے لیے جو کچھ لکھیں گی وہ بڑی ذمے داری اور مشاہداتی کیفیت سے گزرنے کے بعد لکھیں گی، اس لیے ان کی تحریروں میں اثر اندازی والی خصوصیات اور بچوں کو کہانیوں میں کھو جانے کی صفات پیدا ہوجاتی ہیں ۔
اسکولوں میں بھی خواتین ٹیچروں کی تعداد اسی مقصد سے زیادہ رکھی جاتی ہے کہ وہ بچوں کے کھلنڈرانہ مزاج سے مردوں کی طرح اوبتی اور چڑتی نہیں ہیں، اس وجہ سے بچے ان سے گھلے ملے اور بہت قریب ہوجاتے ہیں ، یوں اسکولوں میں بچوں کی نفسیات سے مسلسل واقفیت کی بنا پر انہوں نے کبھی کوئی کہانی لکھ کر بچوں کو سنادی، بچے جس کہانی اور نظم کو شوق سے سنتے ہیں اس سے وہ سمجھ جاتی ہیں کہ وہ کس طرح کی کہانیاں پسند کرتے ہیں ۔ ان اسباب کی وجہ سے خواتین قلمکاروں کی تعداد میں خوشگوار اضافہ ہوا ہے ۔
عالمی ادیب اطفال ڈائریکٹری 120 صفحات پر مشتمل ہے ، اس کی قیمت پاکستان میں ایک ہزار روپے رکھی گئی ہے ، ممکن ہے وہاں اس کی یہ قیمت مناسب ہو، مگر بھارت میں اتنے صفحے کی کتاب زیادہ سے زیادہ 150 روپے میں دستیاب ہوسکتی ہے ۔ اس کا انتساب بچوں کے تمام ادیبوں کے نام کیا گیا ہے ، مرتب کتاب محترمہ فاکہہ قمر نے پیش لفظ تحریر کیا ہے اور قلم کاروں کو ہر قسم کے ادبی کام میں تعاون کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور ساتھ ہی ان حضرات کا شکوہ بھی کیا ہے جنہوں نے اس عظیم الشان کام بروئے کار لانے میں تعاون کے بجائے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے جس سے انہیں بہت سے ان لوگوں کی جانب سے تلخ تجربات سے گزرنا پڑا جن کی کتابیں وہ بڑی عقیدت مندی سے پڑھا کرتی تھیں اور انہیں اخلاق واوصاف میں بھی عظیم سمجھتی تھیں۔ اس کے ردعمل میں بہت سے بچوں کے ادیبوں نے اپنا تعارف ارسال نہ کرکے اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی ۔
یہ کتاب حروف تہجی کی ترتیب پر شائع کی گئی ہے اور سب سے پہلے حرف الف کے تحت پاکستان کے مشہور بزرگ ادیب محترم امان اللہ نیر شوکت صاحب کا ذکر کیا گیا ہے، جو بچوں کا رسالہ ” پرستان ” کے مدیر ہیں، اور بھارت سے راقم الحروف انصار احمد معروفی کا نام درج کیا گیا ہے ، کتاب میں کتابت کی غلطیاں کم نظر آئیں مگر میرے تعارف میں ضلع کا نام مئو کی جگہ “ملو”لکھ گیا ہے ۔ کتاب کو دنیا کے بہت بڑے بڑے ادیبوں اور شعرا کے تعارف سے مزین کیا گیا ہے ، اس طرح گھر بیٹھے دنیا کے بچوں کے قلمکاروں سے آپ فون، میسیج اور ایمیل کے ذریعے مخاطب ہوسکتے ہیں اور اپنے ادبی تعلقات استوار کرنے کے علاوہ رابطہ مستحکم بھی کرسکتے ہیں ۔ پہلا حصہ حرف عین تک پہنچا ہے، اس سلسلے میں آخر میں بھارت کے میرے دوست محترم عنایت اللہ خان فلاحی صاحب کا نام درج ہے جو ضلع تھانہ میں بچوں کے رسالے “جنت کے پھول”کے بانی اور مدیر ہیں۔
کتاب کی پشت پر مرتب کتاب محترمہ فاکہہ قمر کا تعارف دیا گیا ہے جب کہ دوسرے مرتب محترم ذوالفقار علی بخاری کا نام حرف با کے تحت شامل ہے ۔ یہ کتاب کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے بیش قیمت اور بےبہا ہے، اور باذوق حضرات اور ادیب اطفال سے روابط کا بہترین ذریعہ ہے ۔
البتہ بھارت میں بہت سے ایسے بچوں کے ادیب ہیں جن کی بچوں سے متعلق مطبوعہ کتابیں ایک درجن سے زیادہ ہیں، مگر ان کا نام حرف عین کے تحت شامل نہیں ہے ، جب میں نے اس کتاب کا عکس جمیل فیس بک پر شئیر کیا تو ایسے لوگوں نے فون کرکے مجھ سے معلومات حاصل کی، میں نے تسلی دی ہے کہ آپ کا بھی نام دوسری جلد میں شامل ہوسکتا ہے ، میں مطلع کرتا ہوں ، ایسے اور بھی بچوں کے ادیب ہوسکتے ہیں ۔
یہ کتاب پاکستان سے مختلف ملکوں کی سیر کرتے ہوئے بھارت کے بہت سے ادیبوں کی خدمت میں پیش کی گئی ہے ۔ میں شکر گزار ہوں اس کے مرتبین کا کہ انہوں نے مجھے بھی اس ڈائریکٹری میں جگہ دی اور نمایاں انداز میں شائع کیا۔ اس طرح کی کتابیں حوالہ جات کے لیے بہت کار آمد ہوتی ہیں اور زمانے تک کام آتی ہیں ، اس لیے بہتر ہوتا اگر اس کا کاغذ 80 گرام والا خوبصورت اور مضبوط منتخب کیا جاتا اور اسے مجلد شائع کیا جاتا ، نہ جانے کسی مصلحت یا بھول سے فہرست بھی نہیں دی گئی ہے ، جس کی وجہ سے ناموں کی تلاش میں دقت ہورہی ہے ، پھر بھی یہ عظیم الشان کام ہے جو بڑی تگ ودو کے بعد وجود میں آیا ہے اس کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور اس کا تعارف بھی شئیر کرنا چاہیے ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...