اک حد پر رہنا ہے
لیکن دریا میں
مِل کر ہی بہنا ہے
چائے ہے پیالی میں
قیدی ہو گئے ہم
آزاد خیالی میں
کچھ دُور ہی چلنا تھا
اُس بے مہر نے پھر
رستہ تو بدلنا تھا
اندر ہی سسکنا ہے
لیکن کاغذ پر
کچھ بھی نہیں لِکھنا ہے
پیڑا ہے آٹے کا
ظالم سے یاری
سودا ہے گھاٹے کا
وعدے نہ دلاسے پر
ہم مَر مِٹتے ہیں
سجنی ترے ہاسے پر
شِیرا ہے جلیبی کا
کوئی بھروسہ نئیں
اُس جیسے فریبی کا
گاؤں میں اٹکے ہیں
لیکن کچھ شہری
ہم سے بھی جٹکے ہیں
ہر سمت دھماکے ہیں
کچھ دنیا اتھری
کچھ لوگ لڑاکے ہیں
دل ڈوبا جاتا ہے
ڈھولا تیرے بِن
پہلا جگراتا ہے
ترے گال پہ تِل ماہیا
رکھّے پھرتے ہیں
ہم ہاتھ پہ دل ماہیا
ہم خواب اگر ہوتے
تیری پلکوں کے
سائے میں پڑے سوتے
مہتاب نکل آیا
رات کے ملبے سے
مِرا خواب نکل آیا
تعبیر کے رستے پر
پتھّر آن گرا
خوابوں کے بستے پر
پھر چاہے سو جائیں
تیری آنکھوں میں
کچھ خواب پرو جائیں
بے تاب نہیں ہوتے
بچپن سے آگے
پھر خواب نہیں ہوتے
چلنے میں گھاٹا ہے
خوابوں سے آگے
بالکل سنّاٹا ہے
وہ حد بھی آنی ہے
جس پر اک لغزش
بے حد امکانی ہے
کشتی کے چاؤ میں
بہہ نکلے ہم بھی
دریا کے بہاؤ میں
غم کا انبار لگا
خُوشیوں کا میلہ
بس دن دو چار لگا
شاہوں نہ غریبوں سے
سُکھ والا لمحہ
مِلتا ہے نصیبوں سے
سونا چاندی گھر میں
جذبے رکھّے ہیں
سجنی نے لاکر میں
دل کے دروازے سے
اُس نے جھانکا ہے
کتنے اندازے سے
وعدے پیمانوں کی
کھُل گئی رستے میں
گٹھڑی امکانوں کی
بجھ جائے گی پیاس آؤ
صحرا کہتا ہے
اک دن مرے پاس آؤ
منظر ڈھہ جاتا ہے
لیکن ایک دیا
جلتا رہ جاتا ہے
رستے ہیں خلاؤں میں
مٹی ہے سر پر
اور کرنیں پاؤں میں
دریا کے نیچے سے
صحرا نکلا ہے
پانی کے دریچے سے
اک شکل دکھاتا ہے
پھر آئینے میں
بس دُکھ رہ جاتا ہے
اب طعنے دیتے ہو
جب ہاتھ آتے ہیں
کیوں جانے دیتے ہو
دونوں برباد ہُوئے
ظالم دنیا سے
لیکن آزاد ہُوئے
پکّی تھی ارادوں کی
ٹوٹ گئی لیکن
چوڑی ترے وعدوں کی
کافی یہ اشارہ ہے
اُس کے ہونٹوں پر
اک سرخ ستارہ ہے
منزل ہے نہ رستہ ہے
وہ اک گھاٹی پر
رکھا گلدستہ ہے
پتّہ بھی نہیں ہِلتا
مولا دنیا میں
انصاف نہیں مِلتا
صنفوں کا ادب کرنا
ماہیا کہتے ہُوئے
کم ایک سبب کرنا