اکبر حمیدی(اسلام آباد)
معاصر ادب کا مرد میدان ۔جابر سلطانوں کے سامنے کلمہء حق کہنے والا دوستی میں سدید، دشمنی میں شدید، کسی کو موٹا اور کسی کو باریک کاٹنے والا۔ گفتگو میں سیدھا۔تحریر میں سیدھا کر دینے والا محقق۔ نقاد، کالم نگار، شاعر، انشائیہ نگار، عصر حاضر کا سلطان محمود غزنوی، سومنات پر ستر ہویں حملے کی تیاری میں مصروف فاتح میدانِ ادب، غازی انور سدید میر ا آج کا موضوع ہے!!
شاعری کی زبان میں پہلوان سخن استاد امام بخش ناسخ کا ہم پایہ و ہمسایہ، مخالفوں کو بیچ میدان للکارنے والا مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ صرف چھینٹے اڑیں زخم نہ لگیں۔کسی نے کیا لکھا اس سے غرض نہیں مگر کسی نے کیا کیا،اس سے بے تعلق نہیں۔ عصری ادب سے پوری طرح آگاہ۔ ناشتے میں برصغیر کے روزناموں کے ادبی صفحوں کا حلوہ پوری۔ عصرانے میں دنیا بھر کے ادبی و نا ادبی رسائل کے چکڑ چھولے۔ عشائیے میں دیسی اور بدیسی کتب کے مرغان مسلّم سے مشق کام و دہن کرنے والا!!
کہتے ہیں کہ مرزا غالب رات سونے سے قبل بستر خواب پر لیٹے عالم سرخوشی میں فکرسخن کرتے تھے اور ہر شعر پر آزار بند میں گرہ دے لیتے تھے۔ صبح اٹھ کر شعر لکھتے جاتے تھے اور آزار بند کی گرہیں کھولتے جاتے تھے۔ ڈاکٹر انور سدید سونے سے قبل ہم عصر ادیبوں پر ’’فکر سخن‘‘ کرتے ہیں اورآزار بند کو گرہیں دیتے چلے جاتے ہیں۔ نماز فجر کے بعد ایک ایک گرہ کے عوض ایک ایک اخباری کالم لکھتے ہیں اور گرہیں کھولتے چلے جاتے ہیں۔ سنا ہے یہ گرہیں ان کے ’’ممدوحین‘‘ کے دلوں میں پڑتی رہتی ہیں!!
ہر بڑے آدمی کے اگر کچھ دوست ہوتے ہیں تو کچھ اختلاف رائے رکھنے والے بھی ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا سے اختلاف رائے رکھنے والے جب سامنے آنے لگے تو انور سدید نے دفاع کی ذمہ داری اپنے سر لے لی اور پھر اس ذمہ داری کو اپنے دوسرے ادبی کام کا حصہ بنا لیا۔ اس ضمن میں وہ خاصے ’’نیک نام ‘‘ بھی ہوئے مگر’’ کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا ‘‘سے بے تعلق ہو کر انہوں نے اس کام کو فرض منصبی کی طرح پورا کیا ۔ بے شک انور سدید آغا جی کی حفاظت کا فریضہ احسن طور پر سر انجام دیتے رہے لیکن اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آغا جی زیادہ محفوظ رہتے۔ ادھر حملہ آوروں کی ایک فوج ظفر فوج کالموں ، رسالوں اور کتب سے لیس ہو کر برسرِ پیکار ، ادھر انور سدید تن تنہا ہر محاذ پر نہ صرف دفاع کے لیے تیار بلکہ اکثر پیش قدمی و پیش دستی کرتے ہوئے اس نے دشمن کے علاقے کو تاخت و تاراج کیا۔ بعض نے ان سے متعلق زبان غیر میں شرح آرزو کی۔ بعض نے تلخ کلام ہو کر تھو ک دیا۔بعض نے کہا اس نام ہی سے ان کی زبان پلید ہوتی ہے انور سدید نے صلہ و ستائش، نیک نامی و بدنامی سے بے نیاز ادبی سیاست اور صحافت میں اپنا کردار جاری رکھا۔
آج ڈاکٹر وزیر آغا اورانور سدید کی دوستی مشہور ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ انور سدید نے اپنی شخصیت کی قیمت پر ڈاکٹر وزیر آغا کو خریدا ہے ۔گو بڑے مہنگے داموں خریدا ہے مگر وہ تو کہہ رہا ہے۔
ہر دو عالم قیمت خود گفتہ ای نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز
اس ادائیگی سے اکثر ڈاکٹر وزیر آغا کی قیمت ادا ہوتی ہے یا نہیں مگر شخصیت سے زیادہ کوئی اور کیا قیمت ادا کر سکتا ہے۔ سو جہاں مامتاوہاں ڈالڈا کی طرح جہاں ڈاکٹر وزیر آغا وہاں انور سدید بھی۔ اس رشتہ محبت کو کوئی بھی نام دے لیا جائے بہر حال اس زمانے میں اس کی مثال ملنی محال ضرور ہے۔ اگر ناممکن نہیں!!شخصیت کی قربانی شاید جان کی قربانی سے بھی مشکل ہے !!کوئی اسے ولن کی محبت کہنا چاہے تو کہہ لے آخر ولن بھی تو محبت ہی کرتا ہے۔ ہیرو تو بڑی باعزت محبت کرتا ہے اور محبوبہ کے علاوہ دوسروں کی واہ واہ بھی حاصل کر لیتاہے۔ اپنے پلّے سے تو کچھ نہیں دیتا الٹا نیک نامیاں بٹورتا رہتا ہے۔ ولن تو اپنی ساری عزتیں اور نیک نامیاں داؤ پر لگا کر محبت کرتا ہے۔ (ایسی محبت سے محبوبہ کا کیا حال ہوتا ہے یہ ایک الگ مضمون ہے) کچھ اس قسم کی خود سپردگی انور سدید کی محبت میں ہے۔ اس نے تو اپنے آپ کو اس محبت میں فرقہ ملا متیہ کا ایک فردبنا لیا ہے۔ وہ اس پر نادم بھی نہیں الٹا مطمئن ہے۔ مگر انور سدید نے ققنس کی طرح اس آگ میں جل کر ایک نئی زندگی بھی پائی ہے۔ وہ محض جلا ہی نہیں۔ زندہ بھی ہوا ہے !! اس نے صرف کھویاہی نہیں پایا بھی ہے!!
محبت اور نفرت کی اس جنگ میں انور سدید نے بہت زخم کھائے ہیں اور اس کے جسم کا بہت سا خون بہہ گیا ہے۔ خون زیادہ بہہ جائے تو چہرے کی قدرتی چمک دمک توبحال نہیں رہتی نا۔ اہمیت کے لحاظ سے اس بات کو کہاں لے جائیں کہ انور سدید نے اپنے آپ کو حرب و ضرب کے میدان میں منوایا ہے۔ سوزمانہ اس کی سپاہیانہ اور جنگ جویانہ صلاحیتوں کا تو معترف ہو گیا ہے مگر اس کی معرکتہ الآراء تنقید کو نظر انداز کر رہا ہے۔ جب ذرا وقت کی گرد بیٹھے گی تو نظر آئے گا کہ انور سدید کے ہاتھ میں سپاہی کی تلواریں نہیں ادیب کا قلم بھی ہے۔ وہ سر قلم ہی نہیں کرتا سرفراز بھی کرتا ہے۔ اس عہد کا کوئی بھی اخبار ، رسالہ اٹھا کر دیکھ لیجئے اس میں آپ کو انور سدید کی جھلک ضرور ملے گی۔ ہر آدمی یہ سوچ سوچ کر دم بخود ہے کہ وہ اس قدر لکھنے کا وقت کہاں سے لاتاہے ۔ میرے خیال میں انور سدید کی گھڑی پر بارہ نہیں چوبیس بجتے ہیں۔ بارہ تو اس کے بجتے ہیں جس پر انور سدید کا کالم اخبار میں چھپتا ہے۔
انور سدید کی تمام تحریریں جمع کی جائیں تو اونٹ کا بوجھ بنے گا، کہتے ہیں بعض پرانے زمانوں کے بزرگوں کی کتب اونٹ کے بوجھ برابر تھیں۔ بہر حال ادب، ادیب اور ان کے مسائل پر اس دور میں ڈاکٹر انورسدید نے سب سے زیادہ لکھا ہے۔ انور سدید کی بعض کتب تو اپنے زمانے کا منظر نامہ ہیں۔ ’’غالب کے خطوط‘‘، ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘، ’’انشائیہ اردو ادب میں ‘‘جیسی کتب گواہ ہیں۔ انور سدید نے ایک مثبت انداز فکررکھنے والے نقاد کی طرح جس صنف ادب پر لکھا ہے اسے پروجیکٹ کیا ہے۔ جب کہ ہمارے بعض نفسیاتی ناقدین نے جن اصناف ادب پر لکھا ہے انہیں بے وقار کر کے رکھ دیا ہے۔ڈاکٹر انور سدید کی شخصیت بنیادی طور پر ایک مثبت انسان کی شخصیت ہے، مگر وہ جو شاعر نے کہا ہے کہ
ہم پہلے نرم پتوں کی ایک شاخ تھے مگر
کاٹے گئے ہیں اتنے کہ تلوار ہو گئے
رزم حق و باطل نے اس مرد آہن کو نہ صرف بظاہر منفی بنا دیا بلکہ متنازعہ بھی۔ ممکن تھا یہ مرد آہن ہمیشہ کے لیے اپنی آہنی زرہ میں غرق ہو جاتا اس نے وطن سے نکل کر کچھ ادبی سر فروشی ہی کے طور پر جانا پہچانا۔ یہ صورت حال انور سدید کے مخالفین کے لیے ابھی تک ایک لمحہ فکر یہ ہے!!
ڈاکٹر انور سدید کی زندگی کے اس خارجی رخ کا موازنہ جب انور سدید کی داخلی زندگی سے کیا جائے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آندھی اور طوفان قسم کا یہ شخص ذاتی زندگی میں یا اپنے حلقہ احباب میں خاموش ، پر سکون ، نرم مزاج، روادار، محبت کرنے والا، دوست قسم کا انسان ہے، وار کرنے اور وار سہنے دونوں صلاحیتوں سے بہر ور یہ مرد جری دونوں کے موقع محل کو بھی پہچانتا ہے۔ وہ بادوستاں مروت بادشمناں مدارت کا نہیں بلکہ اقبال کے اس شعر کا مثال ہے۔
ہو حلقہ ٔیاراں تو بریشم ی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
انور سدید کو بات کہنے کا ہنر آتا ہے۔ انور سدید کی تحریروں کے بین السطور نہایت پر معنی بلکہ معنی خیز ہوتے ہیں۔ یہی معنی خیزی ان کے مخالفین کے لیے کیمیائی ہتھیاروں کی طرح ہلاکت آفریں ثابت ہوتی ہے!!
انور سدید کو پیشہ کے لحاظ سے انجینئر، کام کے لحاظ سے ادیب یا اہل قلم اور عادت کے اعتبار سے اہل سیف کہا جا سکتا ہے۔ یہ تینوں انور سدید کے مزاج کے تاروپود ہیں اورکسی نہ کسی صورت میں اپنا اپنا اظہار کرتے رہتے ہیں!! ظاہری طور پر بھی وہ بلند، بھاری اور بے باک تیور کا آدمی نظر آتا ہے !!
بہر حال مجھے یقین ہے آنے والے زمانوں کے بے لحاظ ادبی مورخین کسی نہ کسی لحاظ سے انور سدید کا نام ضرور لیتے رہیں گے۔ نقاد اور تخلیق کار کے لحاظ سے بھی اور میدان ادب کے سرفروش غازی کے طور پر بھی!!
ادبی دنیا میں انور سدید کی دو حیثیتیں ہیں ۔ ایک حیثیت قلمکار کی اور دوسری ڈاکٹر وزیر آغا کے دوست کی۔ برصغیر کے بہت سے لوگ وزیر آغا سے محبت کرتے ہیں لیکن انور سدید شاید پرستش کرتے ہیں۔ محبت میں سپردگی کی کیفیت ہوتی ہے مگر پرستش میں تو اپنی نفی کرنی پڑتی ہے۔ نفی ذات کی یہی وہ منزل ہے جو سب سے مشکل ہوتی ہے۔ انور سدید نے یہ منزل سر کر لی ہے اور ڈاکٹر وزیر آغا کی پرستش میں نفی ذات کے عمل سے گزر گئے ہیں۔ نفی ذات کا عمل ایک صوفی کے لیے تو آسان ہو سکتا ہے مگر کسی ادیب کے لیے نفی ذات کا عمل خود اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو مار دینے کا عمل ہے۔ نفی ذات کا عمل ایک تخلیق کار کے لیے اس لیے بھی مشکل ہے کہ تخلیق کار کا تو سارا عمل ہی نفسیاتی طور پر اظہار ذات کا عمل ہے۔ اس میں نفیٔ ذات کا تو کوئی خانہ ہی نہیں!!
اس نبرد عشق میں ان کے پاؤں ہی زخمی نہیں ہوئے بعض اوقات ہاتھ بھی خراب ہوئے ہیں مگر انور سدید نے کسی احساس ندامت کے تحت اپنے خراب ہاتھوں کو کبھی چھپایا نہیں بلکہ اظہار تفاخر کے طور پر اکثر ان کی نمائش کی ہے۔ عشق و محبت کی یہ ادا نفی ذات کے مراحل میں سے گزرنے کے بعد ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس گئے گزرے اور نفسا نفسی کے زمانے میں ایثار کی ایسی مثالیں کہاں ملیں گی؟ ذرا سر زمین ادب پر نظر ڈال کر جواب دیجئے ! ؟ میرا خیال ہے آج کی ادبی دنیا میں اس مخلصانہ دوستی کی مثال نہیں ملتی۔ ادبی دنیا میں میں بڑے آدمیوں کی تو کوئی کمی نہیں مگر میں نظر اٹھا کر دیکھتا ہوں تو پورے ادبی منظر میں مجھے انور سدید جیسا چھوٹا آدمی ایک بھی نظر نہیں آتا جس کا دل اتنا بڑا ہوا ۔
مجھے یقین ہے جب تک انور سدید جیسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے اس وقت تک ہماری دوستی کی روایت بھی زندہ رہے گی اور دوستوں کے لیے معرکہ آرائی کی روایت بھی!!
ڈاکٹر انور سدید ایک فتح نصیب جرنیل ہے جسے بجا طور پر غازی انور سدید کے لقب سے یاد کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اردو میں خاکہ نگاری کا کوئی خاص فن نہیں۔مختلف لوگوں نے شخصیتوں کو اپنی اپنی نظر سے دیکھا اور
اپنے اپنے اسٹائل میں لکھا۔ممتاز مفتی تو خاکہ نگاری کو ’’شخصیہ‘‘کہتے ہیں۔اکبر حمیدی نے اپنے اسلوب
اور اپنی نظر سے ان شخصیتوں کے اندر جھانکا اور انہیں خاکے کا روپ دیا۔ان کی نثر کی لطافت میں ،ان کی
انشائیہ نگاری کی مشق بھی شامل ہے۔۔ان کے خاکوں میں ایک نرمی،شخصیت کے ساتھ مفاہمت،دوستی اور
پیار کی جھلک نے ان کے رویے میں ایک اعتدال اور شگفتگی پیدا کی ہے جس سے یہ خاکے شخصیتوں کے
بہت عمدہ پورٹریٹ بن گئے ہیں،ایک ایسا پورٹریٹ جو ظاہری رنگوں سے بھی نظرکو متوجہ کرتا ہے اور سانس لیتا
اور بولتاہوا بھی محسوس ہوتاہے۔’قد آدم‘اردو خاکہ نگاری میں ایک قابل قدر اضافہ ہے،یہ اکبر حمیدی کے فن
کی تازہ کاری اور ان کی نئی منزل کا استعارہ بھی ہے‘‘
( ڈاکٹر رشید امجد کے مضمون قد، آدم۔ایک جائزہ سے اقتباس)