فیصل عظیم
تم تو فٹ سے کہہ دیتے ہو
’’چھوڑو وہ بوسیدہ کمرے
اُس بستی سے باہر آؤ
اور اِس دنیا میں بس جاؤ‘‘
لیکن میں برگد سے کیسے
اُس کی مٹّی کو چھڑواؤں
وہ جو دور تلک پھیلی ہیںٗ
اُس کی جڑیںٗ کیسے ہلواؤں
اُس کے پتّوں نے جو رنگ
کئی برسوں میں اپنایا ہے
اُس پر اپنا رنگ چڑھاؤں؟
اُس کے تنے پر نقش بنے ہیں
وہ سب کے سب کیوں مٹواؤں
اُس کی شاخوں پر بیٹھے ہیں
میں وہ پرندے کیوں اُڑواؤں
گھونسلے جن کے برسوں سے ہیں
میں وہ گھونسلے کیوں گرواؤں
برساتوں کے نقش ہیں اُس پر
اُن کو بے لذّت پانی سے
کیوں دھلواؤںٗ کیوں مٹواؤں
اُس کے سائے میں جو بیٹھے ہیں
بیدردی سے کیوں اُٹھواؤں
اُن کو بھی بے سایہ کردوں
اور اُس کو تنہا کرجاؤں؟
اُس کی ہوائیں چھین لوں اُس سے
اپنی ہواؤں میں لے جاؤں؟
اُس نے اب تک جو دیکھے ہیں
سارے منظرچھین لوں اُس سے؟
سب آوازیں بند کروں کیا؟
اپنی آوازیں سنواؤں؟
تم تو بس یہ کہہ دیتے ہو
لیکن برگد پھر برگد ہے
جاؤ باباٗ ہم کو بخشو!
اِس کے سائے میں رہ لینے دو