جان عالم(مانسہرہ)
(سانحہ آٹھ اکتوبر پر اللہ سے تعزیت)
وہ جو مارے گئے
اپنی آسودگی اور تعیش کی مستی میں گم
․․․․․․․․․
وہ جو مارے گئے
اپنے اجداد کی زندگی کی کمائی کے خمیازہ میں
سربلند، قلعہ بند مسکنوں میں مکیں
وہ جو مارے گئے بے خبر ، بے گماں
اپنے کل کے لئے ․․․․․․
اپنی نسلوں کو مکتب میں بیساکھیوں کے
نئے کارخانے لگانے،
پرانے نصابوں کے سانچوں میں ڈھلتے ،پگھلتے ہوئے دیکھتے
وہ جو مارے گئے،بے خبر،بے گماں․․․․!
جن کے بازو کٹے،
جن کے پیروں کو دیوار نے چل کے تیشہ کیا
کنگنوں کے لئے جن کی باہیں چرائی گئیں
بھوک نے سرد لاشوں میں پیشہ کیا
وقت کی اک تسلی کے ہمراہ اُڑ جائے گا
گزرے پل کی قیامت کا ہر سانحہ
مائیں․․․․․․آنکھوں کی کھیتی میں
پھرسے نئی نسل کی فصل کے خواب بونے لگیں گی
باپ ․․․․․․اپنے لئے پھر سے بیساکھیوں کی
نئی کھیپ تیارکرنے میں مصروف ہوجائیں گے
اترے چہروں کے مہتاب کھل جائیں گے
اوردریدہ بدن پھر رفوگر دلاسوں سے سل جائیں گے
برفباری میں ٹھٹھری ،بلکتی ہوئی کونپلوں پر
نئے موسموں کی چمکتی ہوئی دھوپ سایا کرے گی ،
درد ہنستاہوا خیمہ بستی سے باہر نکل کر خوشی سے ملے گا
وقت کی اک تسلی کے ہمراہ اُڑ جائے گا،
گزرے پل کی قیامت کا ہر سانحہ
میں فسردہ ہوں اُس کے لئے
جس کے کنبے کے لاکھوں مرے،
وہ جومرتا نہیں․․․․․․․․․․!
وہ جو ماؤں سے زیادہ مہربان ہے،
وقت جس کو دلاسا بھی دیتا نہیں (دے بھی سکتا نہیں)
اُس کاشاید میں تنہا عزادار ہوں